ترقی و کامیابی کی کلید ۔ وقت کی قدر دانی

نثار احمد حصیر القاسمی
اللہ تعالیٰ نے انسان کو علم کے ذریعہ ساری کائنات کی مخلوق پر فضیلت بخشی ہے، پھر ایک انسان کو دوسرے انسان پر ایک زمانے کو دوسرے زمانے پر ، ایک سال کو دوسرے سال پر ایک مہینے کو دوسرے مہینے پر، ایک رات کو دوسری راتوں پر، ایک دن کو دوسرے ایام پر، ایک گھڑی کو دوسرے اوقات ولمحات پر فوقیت دی اور افضل قرار دیا ہے۔ ان افضل ترین اوقات ولمحات سے وہی مستفید ہوتا ہے جو خوش قسمت اور اللہ کا محبوب ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو عبرت کی جگہ ‘ آخرت کی تیاری کا مقام اور سفر کے دوران پڑاؤ کی ایک منزل یا گذر گاہ بنایا ہے، اس دنیا میں انسان کو طرح طرح کے حالات اور نشیب وفراز سے گذرنا پڑتا ہے، کبھی مشکلات ودشواریاں ہوتی ہیں تو کبھی کسائش وآرام ، کبھی الجھن وبے چینی ہوتی ہے تو کبھی چین وسکون ، کبھی غربت وتنگ دستی ہوتی ہے تو کبھی فراخی وآسودگی ، کبھی حوادث سے دوچار ہونا پرتا ہے توکبھی حالات کی خوشگواری سے‘ ان حالات کے اندر انسان کو کس طرح رہنا اور زندگی گذارنا چاہیے ، ہمارے دین اسلام نے اس کی پوری رہنمائی کی اور پیغمبر آخر الزماں محمد مصطفی ﷺ نے اسے کھول کھول کر بیان کردیا ہے۔
انسانی زندگی کے لمحات واوقات بڑی قیمتی ہیں ، ہمارے دین نے اس کی قدر دانی کرنے کی تاکید کی اور ہمارے نبی نے اسے فضول ضائع کرنے سے سختی سے منع کیا اور اس کے ایک ایک لمحہ کو کام میں لانے کی بڑی تاکید کی ہے، ان لمحات واوقات کے بارے میں ہمیشہ حکماء نے کہا ہے کہ یہ تلوار کی مانند ہے اگر تم نے اسے نہیں کاٹا تو یہ تمہیں کاٹ کر رکھ دے گی، کسی نے کہا ہے کہ وقت سونے کی طرح ہے کہ اگر تم نے اس سے استفادہ نہیں کیا تو یہ تمہارے ہاتھ سے نکل جائے گا، اور تم کف افسوس ملتے رہوگے اور تمہیں سوائے حسرت وندامت کے اور کچھ کام نہیں آئے گا۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب محکم میں بے شمار جگہ اوقات کی قسم کھائی اور اس کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے ، ایک جگہ ارشاد ہے۔
زمانے کی قسم یقیناًانسان سر تا سر نقصان میں ہے سوئے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے اور جنہوں نے آپس میں حق کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کی۔ (سورۃ العصر )
اس کے اندر اللہ تعالیٰ نے زمانے کی قسم کھائی ہے کہ اسے انسان کام میں لا کر فائدہ اٹھا سکتا اور اپنی دنیا وآخرت کی زندگی کو مفید وکار آمد بنا کر خوشیوں سے بھر سکتا ہے، اور اسے ضائع وبرباد کرکے شقاوت وبدبختی میں پڑ سکتا اور اپنی دنیا بھی خراب کرسکتا اور آخرت کو بھی ۔ اللہ تعالیٰ اوقات ولمحات کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے اور اس عظیم نعمت سے فائدہ اٹھانے کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا ہے:
اس نے رات دن اور سورج چاند کو تمہارے لئے تابع کردیا ہے اور ستارے بھی اسی کے حکم کے ماتحت ہیں، یقیناًاس میں عقلمند لوگوں کیلئے کئی ایک نشانیاں موجود ہیں۔ (النحل: ۱۲)
اور اسی نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بنایا، اس شخص کی نصیحت کیلئے جو نصیحت حاصل کرنے یا شکرگذاری کرنے کا ارادہ رکھتا ہو۔(سورہ فرقان: ۶۲)
قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی۔ (سورہ فجر ۱تا۲)
قسم ہے چاشت کے وقت کی اور قسم ہے رات کی جب چھا جائے۔ (سورہ ضحیٰ ۱تا ۲)
انسانی زندگی کے اندر عمر عزیز اور اچھی زندگی سے زیادہ نفیس شئی کچھ اور نہیں ، ان چیزوں کی بطور خاص قسم کھا کر اللہ نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ یہ زندگی اور یہ توانائی تو بہت بڑی نعمت خداوندی ہے اور اللہ اسے پرسکون و پربہار رکھنا چاہتا ہے مگر انسان خود اسے نقصان پہنچاتا اور شقاوت وبدبختی سے بھر دیتاہے، ان چیزوں کی قسم کھانا خود اس بات کی دلیل ہے کہ ان لمحات کے اندر اللہ تعالیٰ نے شرف وفضیلت رکھ دی ہے اس کے اندر انسان بے جا تصرف کرکے اور غلط طریقہ پر استعمال کرکے اسے اپنے لئے نقصان دہ بنا لیتا ہے، ہم جانتے ہیں کہ انسان کی عمر بہت مختصر ہے جو عموما ستر پچھتر سے متجاوز نہیں ہوتی اور اس کے ایک ایک لمحات کا ریکارڈ اللہ کے نزدیک رکھا جاتا ہے اور جو بھی وقت گذر رہا ہے اور اس کے اندر ہم نے جو بھی کیا یا نہ کیا ہے اس کے بارے میں ہم سے حساب لیا جائے گا ، اللہ کے نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے؛
لا تزول قدما عبد یوم القیامۃ حتی یسأل عن اربع خصال ، عن عمرہ فیما افناہ، وعن شبابہ فیما ابلاہ، وعن مالہ من این اکتسبہ وفیما انفقہ وعن علم ماذا عمل فیہ
قیامت کے روز حساب وکتاب کے وقت کسی بھی بندے کا قدم اپنی جگہ سے اس وقت تک ہٹ نہیں سکتا جب تک کہ چار خصلتوں وچیزوں کے بارے میں اس سے سوال نہ کرلیا جائے، اور اس کا حساب نہ لے لیا جائے، عمر کا کہ اسے کہاں گنوایا، جوانی کے بارے میں کہ اسے کہاں بوسیدہ کیا، مال کے بارے میں کہ کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا اور علم کے بارے میں کہ اس پر کس حد تک عمل کیا۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
نعمتان مغبون ھما کثیر من الناس الصحۃ والفراغ
دو نعمتیں ایسی ہیں کہ اس کے اندر بہت سے لوگ غفلت میں پڑے ہیں، وہ ہے صحت اور فراغت وقت۔
ظاہر سی بات ہے کہ جو جسمانی صحت وتندرسی سے بہرہ ور ہو اور اس کے پاس فارغ اوقات بھی ہو جو کسی میں مشغول نہ ہو پھر بھی اگر کوئی اسے اپنی آخرت کو بنانے وسنوارنے میں صرف نہ کرے تو یقیناًوہ گھاٹے کا سودا کرنے والا ہے ، اس میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ بہت سے لوگ تندرستی اور اوقات کی فراغت سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ اسے بے مصرف ضائع کرتے اور بسا اوقات تو اسے معصیت اور لہو ولعب اور فضولیات میں صرف کرتے ہیں، یہی معصیت یا فضولیات میں ضائع کیا ہوا وقت انسان کیلئے وبال بنے گا، البتہ اگر کوئی اسے اپنی جگہ اور مفید کاموں میں صرف کرتا ہے تو یہ اس کے لئے بہترہے، اللہ کے نبی ﷺ نے ایک جگہ ارشاد فرمایا ہے:
اغتنم خمسا قبل خمس شبابک قبل ھرمک وصحتک قبل سقمک ، وغناک قبل فقرک وفراغک قبل شغلک، وحیاتک قبل موتک (رواہ الحاکم فی المستدرک)
پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو، جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، صحت وتندرسی کو بڑھاپے سے پہلے اوقات کی فراغت کو مشغولیت سے پہلے، اور زندگی کو موت سے پہلے۔
غنیمت سمجھ زندگی کی بہار
کہ آنا نہ ہوگا یہاں بار بار
اس حدیث کی عکاسی حالی نے اپنے اشعار میں اس طرح کی ہے۔
غنیمت ہے صحت علالت سے پہلے
فراغت مشاغل کی کثرت سے پہلے
جوانی پڑھاپے کی زحمت سے پہلے
اقامت مسافر کی رحلت سے پہلے
آج ہمیں زندگی میسر ہے جسم میں توانائی وقوت ہے، آج ہم بڑا سے بڑا عمل خیر کرسکتے ہیں، اگر ہم سے کوتاہیاں ہوئی ہیں تو سچے دل سے توبہ کرکے ہر طرح کی عبادت کرسکتے اور نیکیوں کا انبار لگا سکتے ہیں، مگر کل اس دنیا سے رخصت ہوجانے ، صحت کے خراب اور معذور وناتواں ہوجانے ، دولت وثروت کے ختم ہوجانے ، جوانی کے پھیکے پڑ جانے اور طرح طرح کے ہموم وافکار اور مشغولیتوں میں بندھ جانے کے بعد ہم کچھ کرنا بھی چاہیں گے تو اس پر قدرت نہیں ہوگی، صحت وعافیت بہت بڑی نعمت ہے۔
تنگ دستی اگر نہ ہو سالک
تندرستی ہزار نعمت ہے
مگر آج ہم اس کی قدر نہیں کرتے اور نہ اس سے استفادہ کرتے ہوئے دائمی راحت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، بلکہ اس کے برعکس ہم اسے ضائع وبرباد کررہے اور اس نعمت کی ناشکری کررہے ہیں، آج ہم فارغ ہیں، ہمارے پاس فرصت کے لمحات ہیں، ان لمحات کو ہم اللہ کی یاد اور اس کی طاعت وبندگی میں گذار کر قیمتی بناسکتے ہیں، مگر آج ہم نہ صرف اس سے غافل ہیں بلکہ اسے معصیت میں مشغول کئے ہوئے ہیں، لہو ولعب میں پڑ کر اس قیمتی سرمائے کو برباد کررہے ہیں، جوانی میں انسان کو پڑھاپے کی ستم ظریفیوں کا اندازہ نہیں ہوتا کہ اس مرحلہ میں پہنچ کر انسان کس قدر لاچار ومجبور ہوجاتا، کمزوری ولاغری کا شکار ہوجاتا ہے، نہ وہ مکمل نشاط سے عبادت کرسکتا اور نہ دیگر حقوق ادا کرسکتا ہے، اکبر الہ آبادی نے سچ کہا ہے:
بڑھاپا زور پر آیا ہوئے بے دست وپا اکبر
ستایا ہم کو پیری نے بڑھاپے میں جواں ہو کر
آج ہم جب اپنے اوپر اور اپنے گردوپیش کے لوگوں پر غور کرتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتاہے کہ ہم اپنے اوقات اور زندگی کے قیمتی لمحات کو کس قدر لاپرواہی وبے باکی سے ضائع وبرباد کررہے ہیں، جبکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اسے ضائع کرنے سے منع کیا اور اس پر سخت انتباہ دیا ہے ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی تھی کہ اگر کوئی نصیحت وعبرت حاصل کرنا چاہتا تو کرسکتا تھا، اور پھر تمہارے پاس تو ڈرانے والا بھی آیا تھا۔ (سورہ فاطر:۳۷)
یہ ڈرانے والا کون ہے؟ کیا یہ موت ہے جسے ہم دیکھتے ہیں، کہ آئے دن ہمارے اپنوں وپرایوں جاننے والوں اور انجانوں کو دبوچتی رہتی اور اس کا قصہ تمام کردیتی ہے اور آج نہ کل اس کا حملہ خود ہم پر بھی ہونے والا ہے جس میں کسی کو شک وشبہ نہیں، یہ ڈرانے والی شئی کیا بڑھاپا اور بالوں کی سفیدی ہے، جس کے آثار ہمارے چہروں ، بالوں اور اعصاب پر ظاہر ہو کر ہمیں فنا ہوجانے اور یہاں سے کوچ کر جانے کی وارننگ دیتی ہیں، کیا یہ ڈرانے والی شئی ہمارے دانتوں کا جھڑنے لگنا ہے جو آہستہ آہستہ کھانے پینے کی لذتوں کو ختم کرنے لگتی ہے اور ترک دنیا کو محبوب بنانے لگتی ہے، کیا یہ کمر کا جھک جانا اور جوانی کی تابانی کا ماند پڑ جانا ہے کیا یہ ڈرانے والے انبیاء ہیں جنہوں نے آکر ہمیں ڈرایا اور اللہ کا راستہ اختیار کرنے کی تلقین کی؟ اور زندگی کے لمحات کی قدر وقیمت سے ہمیں آشنا کرکے اسے کام میں لانے کیلئے کہا اور اسے فضولیات میں برباد کرنے اور عمرضائع کرنے سے روکا۔
آج ہم دیکھتے ہیں کہ بلا امتیاز مذہب وقوم ہر کوئی اپنا قیمتی وقت اور زندگی کا قیمتی سرمایہ فضولیات میں گنواں رہا ہے ، بوڑھا ، جوان، بچہ ، عورت مرد ہر کوئی ہاتھ میں موبائل لئے ہوا ہے، کوئی گیمس میں مصروف ہے تو کوئی فلموں کے مشاہدہ میں ،کوئی کھیل تماشوں کے پروگرام میں محو ہے تو کوئی عریاں وفحش مناظر میں ، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس کی وجہ سے بچوں کی تعلیم خراب ہورہی ہے ان کی دلچسپی کتابوں میں کم اور کھیل تماشوں اور لہو ولعب میں زیاد ہوگئی ہے۔
مغرب نے ان آلات کو ایجاد کرکے ہمارے حوالے کردیا، ہم جو مختلف علوم میں اپنے دل ودماغ کو کھپا کر ترقی کے زینے طے کرسکتے تھے اس سے ہٹ کر فضولیات میں پر گئے ہیں، ہم نے اس کے منفی پہلو کو تو بڑی دلچسپی وبے تابی سے اپنا لیا ، مگر اس کے مثبت پہلوؤں سے مستفید ہونے کی طرف توجہ نہیں دی جبکہ ایجاد کرنے والے خود اپنے ایک ایک لمحے کی حفاظت کرتے اور اسے ضائع کرنا پسند نہیں کرتے ہیں اور اسی وجہ سے وہ ترقی کے منازل طے کررہے ہیں، اے کاش کہ ہمارے نوجوان اور بچوں کے سرپرست وذمہ داران اس حقیقت کا ادراک کرتے اور وقت کی پوری حفاظت کی خود بھی سعی کرتے اور اپنے ما تحتوں کو بھی وقت کی قدر کرنے کی تلقین وتفہیم کرتے، وقت ہی ایسا قیمتی سرمایہ ہے جس کی حفاظت کرکے ہم دنیا میں بھی کامیابی حاصل کرسکتے ہیں اور آخرت میں بھی اور اسے ضائع کرکے ہم اپنی دنیا بھی برباد کرنے والے ہوں گے اور آخرت بھی۔

(★ سکریٹری جنرل اکیڈمی آف ریسرچ اینڈ اسلامک اسٹیڈیز ۔ حیدرآباد)
nisarqasmi24@gmail.com
091-9393128156