’بلقیس بانو کے گنہگاروں کی رہائی کس بنیاد پر ہوئی؟‘ سپریم کورٹ نے گجرات حکومت کو جواب کے لیے دیا دو ہفتے کا وقت

سپریم کورٹ نے آج گجرات حکومت کو بلقیس بانو کے اجتماعی عصمت دری اور ان کے کنبہ کے کئی افراد کے قتل معاملے میں قصوروار 11 لوگوں کی رِہائی کو چیلنج دینے والی عرضیوں پر جواب داخل کرنے کے لیے دو ہفتہ کا وقت دیا ہے۔ عدالت نے سرکار کو سبھی ریکارڈ داخل کرنے کی ہدایت دی جو قصورواروں کی رِہائی کا بنیاد بنے۔ اب اس تعلق سے تین ہفتہ بعد سماعت ہوگی۔

جسٹس اجئے رستوگی اور جسٹس بی وی ناگرتنا کی بنچ نے گجرات حکومت کو قصورواروں کی رِہائی کی بنیاد بنے سبھی ریکارڈ داخل کرنے کی ہدایت دی اور بنچ نے ریاستی حکومت سے جواب دو ہفتہ کے اندر داخل کرنے کو کہا ہے۔ کچھ ملزمین کی نمائندگی کرنے والے وکیل رشی ملہوترا کو بھی جواب داخل کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔

سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ نے سوال کیا کہ کیا دوسرے معاملے میں بھی نوٹس جاری کرنے کی ضرورت ہے، کیا یہ یکساں عرضی ہے جس میں کارروائی کی ایک ہی وجہ ہے؟ اس پر ملہوترا نے کہا کہ ”بغیر کسی ‘ٹھکانے’ والے لوگوں کے ذریعہ کئی عرضیاں داخل کی جا رہی تھیں اور میں اس کے خلاف ہوں… وہ ہر معاملے میں صرف عرضیاں اور درخواست بڑھا رہے ہیں۔”

اس پر بنچ نے کہا کہ نوٹس جاری کیے بغیر معاملوں کا نمٹارا نہیں کیا جا سکتا ہے، اور پھر اس معاملے میں ملہوترا کو نوٹس جاری کیا اور ان سے ہدایت لینے کے لیے بھی کہا کہ کیا وہ معاملے میں دیگر ملزمین کے لیے پیش ہو سکتے ہیں۔ بنچ نے عرضی دہندگان سے ملہوترا اور گجرات حکومت کے وکیل کو بھی ایک کاپی دینے کو کہا۔ عدالت ریاستی حکومت کو چھوٹ کا حکم سمیت سبھی ضروری دستاویزوں کو ریکارڈ پر رکھنے کی ہدایت دیتے ہوئے معاملے کو تین ہفتہ کے بعد آگے کی سماعت کے لیے طے کیا۔

اس سے قبل 25 اگست کو سپریم کورٹ نے 11 قصورواروں کی رِہائی کو چیلنج دینے والی عرضیوں پر گجرات حکومت سے جواب مانگا تھا۔ بنچ نے اس دوران پھر واضح کیا کہ اس نے قصورواروں کو چھوٹ کی اجازت نہیں دی، اور اس کی جگہ حکومت سے غور کرنے کے لیے کہا۔

واضح رہے کہ گجرات فسادات کے دوران بلقیس بانو کی اجتماعی عصمت دری کے الزام میں عمر قید کی سزا پانے والے 11 قصورواروں کو گجرات حکومت کے ذریعہ اپنی چھوٹ پالیسی کے تحت رِہائی کی اجازت دینے کے بعد 15 اگست کو گودھرا جیل سے رِہا کر دیا گیا تھا۔ قصورواروں نے جیل میں 15 سال سے زیادہ وقت پورا کیا تھا۔ اس کے خلاف سی پی ایم کی سابق رکن پارلیمنٹ سبھاسنی علی، صحافی ریوتی لال اور پروفیر روپ ریکھا ورما کے ساتھ ترنمول کانگریس رکن پارلیمنٹ مہوا موئترا نے بھی عدالت عظمیٰ میں عرضی داخل کی تھی۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com