نئی دہلی: عالم اسلام کے عظیم عالم دین اور رہنما علامہ یوسف القرضاوی کی وفات پر پوری امت نوحہ کناں ہے۔ اس حادثے پر اپنے رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری اور آئی او ایس کے چیئرمین ڈاکٹر محمد منظور عالم نے کہا کہ ”علامہ یوسف القرضاوی کی وفات ایک شخص کی وفات نہیں بلکہ ایک پورے عہد کا خاتمہ ہے۔ ان کے ساتھ علم وفضل اور دعوت وقیادت کی ایک پوری تاریخ رخصت ہو گئی۔ انھوں نے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اور مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ سے بھرپور استفادہ کیا تھا۔ افسوس آج ہم ایک عظیم عالم وفقیہ اور بلند پایہ رہنما سے محروم ہو گئے۔“
ڈاکٹر محمد منظور عالم نے مزید کہا کہ ”علامہ یوسف القرضاوی 9/ ستمبر 1926 کو مصر میں پیدا ہوئے تھے۔ اس طرح انھوں نے 96/ سال عمر پائی۔ یہ پوری زندگی انھوں نے دین کی سربلندی اور امت کی اصلاح وتربیت اور قیادت کے لیے صرف کر دی۔ انھیں بلاشبہ موجودہ وقت میں عالم اسلام کا سب سے بلند پایہ قائد کہا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر قرضاوی نے کئی درجن تصانیف یادگار چھوڑی ہیں۔ ان تصانیف کے دنیا کی کثیر زبانوں میں ترجمے بھی ہوئے ہیں۔ وہ ان عرب مصنّفین میں تھے، جو دنیا میں سب سے زیادہ پڑھے جاتے ہیں۔ ان کی تصانیف سے کئی نسلوں نے استفادہ کیا ہے۔ امید ہے کہ یہ استفادہ جاری رہے گا۔ ان کی عظیم الشان علمی ودعوتی خدمات کے اعتراف میں شاہ فیصل ایوارڈ اور دبئی کے اسلامی شخصیت ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ علامہ قرضاوی نے اعتدال وتوازن پر بہت زور دیا ہے۔ یہ اعتدال ان کی فکر میں بھی پایا جاتا ہے اور ان کی تصانیف وخطبات میں بھی۔ انھوں نے پوری قوت کے ساتھ یہ نظریہ پیش کیا کہ انتہا پسندی کسی شکل میں بھی قابل قبول نہیں ہے۔ نئی نسل کو ان کی کتابوں میں سے خاص طور پر Islamic Awakening between Rejection and Extremism اور الحلال والحرام کو خصوصیت کے ساتھ اپنے مطالعے میں رکھنا چاہیے۔“
ڈاکٹر منظور عالم نے کہا کہ ”علامہ یوسف القرضاوی کی وفات سے میں بہت غمگین ہوں۔ محسوس ہورہا ہے کہ عالم اسلام کے سر سے ایک مبارک گھنا سایہ اٹھ گیا ہے۔ مجھے بارہا ان سے استفادے کا براہ راست موقع ملا۔ خاص طور پر اسلامک یونیورسٹی ملیشیا کے ایک وقیع سمینار میں مجھے ان سے متعارف ہونے اور مستفید ہونے کا یادگار موقع ملا تھا۔ انھوں نے اپنے پیچھے تربیت یافتہ جماعت چھوڑی ہے، جو یقینا ان کے کاموں کو آگے بڑھاتی رہے گی۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کا شان دار بدلہ عطا فرمائے، پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے اور نئی نسل کو ان کے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔“