نئی دہلی: ”سماج واد کو مضبوط کرنا، ترقی کے لئے سب کو مساوی مواقع فراہم کرنا، اور اقتصادی ڈھانچے کو مستحکم کرنا ہمارے ملک کا آئینی تقاضہ اور ہدف ہے۔ اس سے امیری و غریبی کے درمیان پائے جانے والے فرق کو کم اور پسماندہ و محروم طبقا ت کی فلاح و بہبود کے لے موثر عملی اقدامات کئے جاسکتے ہیں۔اس ہدف کو حاصل کرنے کے لئے مرکزی بجٹ ایک اہم رول ادا کرسکتا ہے“۔ یہ باتیں مرکزی تعلیمی بورڈ، جماعت اسلامی ہند کے ڈائریکٹر سید تنویر احمد نے حالیہ بجٹ 2023-24 پرمرکوز آن لائن کانفرنس میں کہیں۔ اس کانفرنس کو مرکزی تعلیمی بورڈ نے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیر،نئی دہلی (آئی پی ایس اے )، آل انڈیا ایجوکیشن مومنت،نئی دہلی (اے آئی اے ایم) اور سینٹر فار ایجوکیشن ریسرچ اینڈ ٹریننگ، نئی دہلی ( سی ای آر ٹی ) کے اشتراک سے منعقد کیا تھا جس میں تعلیمی شعبے اور اقلیتی بجٹ پرخاص روشنی ڈالی گئی۔ سید تنویر نے اپنے صدارتی خطبے میں کہا کہ ”ریاستی اور مرکزی بجٹ سے روز مرہ زندگی اور خواندگی پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں لوگوں کوبیدار رہنا چاہئے۔ بیداری پیدا کرنے کے لئے متعدد تنظیمیں کام کررہی ہیں“۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ مرکزی بجٹ کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اس میں اقلیتوں کی ضروریات کا خیال نہیں رکھا گیا ہے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر کسی بھی بجٹ میں اقلیتوں کی ضروریات کو نظر انداز کیا جاتا ہے جو کہ ملک کی آبادی کا کل 21 فیصد ہے تو یہ آئینی تقاضوں کی خلاف ورزی ہے جبکہ ان آئینی تقاضوں کو برقرار رکھنا ہم سب کی ذمہ داری ہے“۔ پروگرام کا افتتاح کرتے ہوئے ’آئی پی ایس اے‘ کے صدر ڈاکٹر اگوان نے کہا کہ فلیگ شپ ایجوکیشن اسکیموں کے بجٹ میں پچھلے بجٹ سے تقریبا 13 فیصد کمی آئی ہے جبکہ اقلیتی بجٹ میں تقریبا 38 فیصد کی کمی کی گئی۔ سماجی زندگی میں صحت اور تعلیم، کلیدی شعبے ہوتے ہیں،ان دونوں شعبوں کے لئے معیاری بجٹ مختص کیا جانا چاہئے، مگر تشویش کی بات ہے کہ مذکورہ شعبوں میں بھارت، ترقی پذیرملکوں سے بھی کم خرچ کرتا ہے“۔ شعبہ اقتصادیات، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر اشرف الیان نے کہا کہ ”حالیہ بجٹ کا عالمی کساد بازاری، بے روزگاری، مہنگائی کی بلند شرح اور عدم مساوات کے تناظر میں جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔بجٹ میں کچھ مثبت پہلو بھی ہیں مگر مختلف مرکزی فلیگ شپ پروگرامس میں بجٹ کی کٹوتی تشویشناک ہے۔ معروف ماہر اقتصادیات ڈاکٹڑ جاوید عالم خاں نے کہا کہ کیپٹل ایکسپنڈیچر میں اضافہ قابل تعریف ہے لیکن یہ سماجی شعبے کے بجٹ کی قیمت پر نہیں ہونا چاہے۔ وزیر اعظم کے 15 نکاتی پروگرام اور ملٹی سیکٹرل ڈیولپمنٹ پروگرام کے تعارف کے دوران یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ بڑی مرکزی اسکیموں کا 15 فیصد اقلیتوں کے لئے مختص کیا جائے گا، لیکن فی الحال اسے مختص نہیں کیا جارہا ہے“۔ ’اے آئی ای ایم کے صدر پروفیسر خواجہ شاہد نے بجٹ میں دو پہلوؤں یعنی سرمایہ کاری اور ڈیجیٹل انڈیا پرروشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ”کئی تعلیمی مہموں کے بجٹ میں کٹوتی کی گئی ہے، ٹیچر ٹریننگ بجٹ کم کیا گیا ہے جبکہ ’پڑھنا لکھنا ابھیان‘ کے بجٹ کو زیرو پر پہنچا دیا گیا ہے۔’تعلیم بالغاں‘ اور’خواندگی کی اسکمیوں‘ میں بھی بہت زیادہ کمی دیکھی گئی ہے۔قبائلی لڑکیوں کے لئے نیشنل اسکیم، مڈ ڈے میل اسکیم جیسے پروگراموں کو بھی نقصان پہنچا ہے“۔ پی ایچ ڈی اسکالر ’جے این یو‘ڈاکٹر داوا شیرپا نے کہا کہ ”جب ہم تعلیم کے بارے میں بات کرتے ہیں تو اسے رسائی کے سوال سے جوڑنا اور ملک میں آمدنی میں عدم مساوات کو واضح کرنا ضروری ہے“۔ ’سی ای آر ٹی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر روشن محی الدین نے ’ یو پی ایس سی، ایس ایس ای اور اسٹیٹ پبلک سروس کمیشن کی تیاری کے مقصد سے ’وزارت برائے اقلیتی امور‘ کے تحت چلنے والی کوچنگ کے لئے صفر ۔