ڈاکٹر خان مبشرہ فردوس سے علیزے نجف کا انٹرویو

انٹرویو نگار: علیزےنجف 

انسانی زندگی کی تمام کامیابیاں جدوجہد سے عبارت ہے، لوگ اکثر زندگی میں جب کامیاب لوگوں سے ملتے ہیں تو اس پہ ساختہ رشک کرتے ہیں اور اکثر اوقات یہ رشک ان کی خوش قسمتی پہ ہوتا ہے یوں لگتا ہے کہ یہ کامیابی انھیں من و سلوی کی طرح عطا کر دی گئی ہے، وہ کبھی یہ جاننے و سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے کہ ان کی کامیابی کے پیچھے کون سے عوامل کار فرما ہیں، اور ان کی یہ کامیابی کتنے سالوں کی انتھک جدوجہد کا حاصل ہے، بےشک کامیابی کی نعمت اللہ عطا کرتا ہے لیکن اس کا اپنا ایک قانون ہے وہ ہے صحیح سمت میں مسلسل جدوجہد، یاد رکھئے ہر کامیابی کی یہی قیمت ہوتی ہے اس کو چکائے بغیر کامیاب ہونے کے خواب دیکھنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے صحرا میں چمکتے سراب میں نظر آتی خوشنما چکاچوند سے خود کو بہلانا ۔ ہم میں سے ہر کوئی اپنی اب تک کی زندگی میں ضرور کسی ایسے انسان سے ملا ہو گا جس کی کامیابی نے اسے مرعوب کیا ہوگا، آج میں ایک ایسی ہی ہستی سے آپ کی ملاقات کروانے جا رہی ہوں جن کے جنون ، عزم و ہمت کے آگے تمام مشکلات نے شکست تسلیم کر لی انھوں نے اس سوچ کی تغلیط کی کہ شادی ہو جانے کے بعد لڑکیوں کے سارے خواب درگور ہو جاتے ہیں ان کے سر پہ ذمےداری نامی کانٹوں بھرا تاج رکھ دیا جاتا ہے، ان کی زندگی ان کی نہیں رہ جاتی، کچھ ناگزیر وجوہات کی وجہ سے ان کی شادی کم عمری میں ہی ہوگئی، علم کی پیاس ان کی رگ و پے میں تھی اس تشنگی نے انھیں ہمیشہ بےکل کئے رکھا یہاں تک کہ یہ احساس جنون کی شکل میں ڈھل گیا بفضل خدا ان کے شوہر ان کے لئے بہترین رفیق اور معاون ثابت ہوئے سسرالی رشتے بھی ان کی خواہش کا پاسداری کرنے والے ثابت ہوئے، یوں انھوں نے شادی کے ساتھ اپنے شوق کو بھی بخوبی نبھایا، ایک مثال قائم کی کہ لڑکیوں کے لئے کچھ بھی ناممکن نہیں بشرطیکہ وہ دل سے اپنی منزل تک پہنچنے کے لئے کمر بستہ ہو جائیں، جس شخصیت کا میں ذکر کر رہی ہوں ان کا نام مبشرہ فردوس خان ہے انھوں نے دسویں کے بعد پوری تعلیم شادی کے بعد مکمل کی عالمیت، ایم اے ایم ایڈ، پی ایچ ڈی ان چائلڈ سائیکولوجی، نیٹ ان ایجوکیشن، ڈپلوما ان کاؤنسلنگ کرنے کے بعد اس وقت ان کا ڈپلومہ ان جرنلزم جاری ہے انھوں نے یہ تعلیمی مدارج ممتاز نمبروں کے ساتھ طے کیا وہ ٹاپر بھی رہیں، اس وقت اقراء کالج آف آرٹس اینڈ سائنس میں وائس پرنسپل کی حیثیت سے اپنی خدمات بھی انجام دے رہی ہیں، اور ھادیہ ای میگزین کے ایڈیٹر کے فرائض انجام دے رہی ہیں، ان کے خاندان کا جماعت اسلامی سے گہرا تعلق ہے وہ بھی ایک سرگرم رکن کی حیثیت سے اس تنظیم سے وابستہ ہیں جنون عزم محکم ان کی ذات کی نمایاں پہچان ہے ان کی پوری زندگی علمی سفر کی تگ و دو میں گذری ہے جو کہ ابھی بھی جاری و ساری ہے یوں لگتا ہے کہ گود سے گور تک علم حاصل کرنا ان کا اصل نصب العین ہے، بےشک سیکھنا انسان کو کبھی نہیں تھکاتا، مبشرہ فردوس خان متوازن شخصیت کی حامل انسان ہیں انسانی رویوں کی نفسیات کا انھیں گہرا علم ہے، انھیں مذہبی اور عصری تعلیم کے درمیان توازن رکھنے کا ہنر حاصل ہے، ان کو احساس کے ساتھ قلم بھی دسترس حاصل ہے لفظوں کی روانی کبھی افسانوں میں ڈھل جاتی ہے تو کبھی مضمون میں۔ اس وقت یہ معتبر شخصیت میرے روبرو ہیں اور میرے متجسس ذہن میں سوالات کی بہتات ہے یقیناً آپ بھی متجسس ہوں گے آئیے اس تجسس کو سوالات کی صورت ان کے سامنے رکھتے ہیں تاکہ ان کے جوابات سے ہم سب مستفید ہو سکیں۔

علیزے نجف: سب سے پہلے ہم آپ سے آپ کا تعارف چاہتے ہیں اور یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ آپ کا بنیادی تعلق کس سرزمین سے ہے اور اس وقت آپ کہاں مقیم ہیں؟

مبشرہ فردوس : ہمارا آبائی شہر آکوٹ ہے،جس کی ایک محلے شہسوار پورہ سے میرا تعلق ہے۔گھر کی پہلی بیٹی رہی ہوں، اس لیے اپنے ننھیال کے شہر پوسد میں پیدائش ہوئی۔ ابتدائی تعلیم آکوٹ میں ڈاکٹر علامہ اقبال اسکول انگلش میڈیم سے ہوئی، بعد ازاں اپنی تعلیم حیدرآباد جامعۃ البنات سے مکمل کی ہے۔عالمیت ابھی مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ شادی ہوگئی۔ شادی کے بعد شہر اورنگ آباد میں مقیم ہوں۔

علیزے نجف: جب آپ نے شعور کی آنکھ کھولی تو اس وقت ارد گرد کا ماحول کیسا تھا اور اس وقت کے ماحول نے آپ کی شخصیت سازی میں کس طرح کا کردار ادا کیا؟

مبشرہ فردوس: جب شعور آیا تو ارد گرد کا ماحول بے حد خوبصورت تھا۔اس وقت رشتوں کا آپس میں تال میل گہرا ہوتا تھا،لوگوں میں اچھائی برائی کی تمیز کااجتماعی شعور زندہ تھا۔طلاق معیوب تھی،خواتین بقدرضرورت ہی گھر سے نکلا کرتی تھیں،تعلیم یافتہ گھرانے بچوں کو دیگر محلے کے بچوں سے کم گھلنے ملنے دیتے تھے۔بچوں کے دوست اور زبان و عادات پر والدین گہری نگاہ رکھتے تھے۔

چونکہ والد اور والدہ؛ دونوں علم وادب کا گہرا شعور رکھتے تھے،اس لیے بڑوں کے ساتھ نسشت و برخاست کے آداب کی ساتھ ساتھ آپس میں بچوں کی گفتگو پر بھی بہت توجہ دی جاتی تھی۔گلی محلے میں کھیلنے کی اجازت نہیں تھی،البتہ ابو امی گھر ہی میں ہم چاروں بہن بھائی کے ساتھ خود کھیلا کرتے تھے۔ اس وقت کے کھیل بھی بیت بازی، تعلیمی تاش، اسنیک لیڈر، سائیکلنگ اور ابو کے ساتھ والی بال، فٹ بال ہوا کرتے تھے ۔تحریکی ماحول تھا، ابو امی جماعت اسلامی کے سرگرم رکن رہے ہیں، اس لیے حلقے اور مرکز کے مہمان گھر آیا کرتے تھے۔امی چونکہ جامعۃ الصالحات رامپور سے فارغ تھیں، ابو لیکچرر تھے اور دونوں ہی رائٹر تھے۔حجاب، جس کے مدیر مائل خیر آبادی (رحمہ اللہ) تھے، اس میں دونوں ہی لکھا کرتے تھے۔گھر میں ہم ادبی محفلیں، مشاعرے دیکھتے دیکھتے اور ہوش سنبھالا تو مائل خیر آبادی، ابو المجاہد زاہد، یوسف اصلاحی صاحب کی گفتگو سنتے سنتے بڑے ہوئے ۔ چونکہ جماعت اسلامی کی سرگرمیاں ہمارے گھر ہی سے انجام پاتی تھیں، اس لیے شہر کا ہر مسئلہ ابو کے ڈرائنگ روم میں حل ہوتا، اور فیصلہ بھی وہیں ہوتا۔ امی باقاعدہ ایک مشیر تھیں، ابو امی مشاورت کرتے، دوسرے کے غم میں گھلتے، دعوتی کام کرتے۔اس وقت نسبتاً گھر کا ماحول مختلف اور باہر کا مختلف تھا۔

علیزے نجف: آپ کی تعلیمی لیاقت کیا ہے اس سفر کا آغاز کہاں سے ہوا اور کن کن راستوں سے گزرتے ہوئے منزل مقصود تک پہنچا؟ طلب علم کے لیے آپ نے کن اصولوں کو ہمیشہ مدنظر رکھا؟

مبشرہ فردوس: عالمیت، ایم اے ایم ایڈ، پی ایچ ڈی ان چائلڈ سائیکولوجی،نیٹ ان ایجوکیشن، ڈپلوما ان کاؤنسلنگ کر چکی ہوں اور اس وقت جرنلزم جاری ہے۔ اقراء کالج آف آرٹس اینڈ سائنس میں وائس پرنسپل ہوں، اور ھادیہ ای میگزین کے ایڈیٹر کے فرائض انجام دے رہی ہوں،اس لیے جرنلزم میں اگنو یونیورسٹی سے ایڈمیشن لیا ہے۔ بچپن سے رزلٹ کے پرواہ کیے بغیر مکمل کنسیپٹ کو سمجھنے کا جنون رہا ہے، اسی چیز نے مسابقتی امتحانات کوالیفائی کرنے کو میرے لیے مسحور کن عمل بنادیا۔

ایک اصول علم کے معاملے میں رہا، اور وہ یہ کہ میں نے ہمیشہ اپنی غلطی پر توجہ کی کہ میں کہاں غلط گئی ہوں۔مطلب ایجوکیشن میں NET کے امتحان سے نکلتی تو میری نگاہ اپنے درست حل کے بجائے وہاں الجھی ہوتی کہ غلط کونسے رہے اور میرا کس چیز کا کنسپٹ کلئیر نہیں ہے۔

دوسرا اصول یہ کہ مکمل سلیبس زبانی یاد ہوجائے، ہر ٹاپک اور ہر جز میری نگاہ میں ہو۔

کوئی ایک افسانہ یا کوئی تھیوری کا اصول بھی نصاب میں ہو تو مجھ پر لازم تھا کہ اس سائیکلوجسٹ کی مکمل تھیوری کے بکس پڑھوں، اس کے بنیادی فلسفے کو سمجھوں، تب جاکر اس کے اصول دماغ قبول کرتا۔اس جنون نے مجھے کئی کئی دن موجود سے غائب رکھا اور شاید دل اس سلسلے میں بھی شوہر اور بچوں کی قربانی کا معترف ہے۔

علیزے نجف: آپ نے دسویں کے بعد باقی اعلیٰ تعلیم شادی کے بعد حاصل کی،جب کہ ہمارے یہاں اکثر و بیشتر شادی کے ہوتے ہی تعلیم کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے،ایسے میں میرا سوال یہ ہے کہ آپ کس طرح تعلیمی سلسلے کو جاری رکھنے میں کامیاب ہوئیں؟ اس حوالے سے سب سے زیادہ کس کا تعاون آپ کو حاصل رہا اور خود آپ نے شادی کے بعد تعلیم کو جاری رکھنے کے لیے کس طرح کی حکمت عملی اپنائی؟

مبشرہ فردوس : عمدہ سوال ہے۔اس سوال پر تو خود کو ساز کا تار سمجھتی ہوں کہ کوئی بس چھیڑے اور بجنے لگوں اور بس میں اپنے محسنین کا ذکرِ خیر کروں۔

ہائی اسکول کے ساتھ ہی عالمہ دوم میں ہی شادی دسویں جماعت کے فوراً بعد ہوگئی تھی، عالمیت بھی نامکمل تھی۔

شادی جلدی ہونے کی وجوہات بھی امی کی بیماری رہی ہے۔ ورنہ والدین خود تعلیم یافتہ تھے تو لازماً تعلیم مکمل کرواتے، لیکن چونکہ امی بیمار رہنے لگیں، کڈنی فیلئیر کا مسئلہ تھا، اس لیے ہم تینوں بہنوں کی شادی دوران تعلیم ہی ہوگئی۔

شادی کے پہلے سال تو میاں جی نے فرمائش کرتے ہی عالمیت مکمل کروائی، اور گیارہویں جماعت میں ایڈمیشن کروادیا۔ پہلے سال ہی میرا بڑا بیٹا عکاشہ بھی تھا، اسے گود میں لیتے ہوئے کئی مرتبہ خیال آیا کہ میں اسکول میں اپنی سہلیوں کے درمیان قابل رشک تھی کہ مبشرہ کی امی اسے ہوم ورک کرواتی ہیں، تعلیم یافتہ ہیں، لیکن اپنے بچے کی میں صرف دسویں پاس ماں رہوں گی۔ اس چیز نے مجھے بہت رلایا، میں نے اپنے میاں سے ذکر کیا تو کہنے لگے کہ بھئی جتنا پڑھنا چاہو پڑھو اور انہوں نے پڑھایا بھی۔

الحمد للہ شوہرِ نامدار نے تعلیم مکمل کروائی۔ میری تعلیم میں سب سے بڑا کردار میرے شوہر کا رہا ہے، نہ صرف یہ کہ انہوں نے پڑھنے کی اجازت دی بلکہ گھر میں میڈ کا انتظام کرتے ہوئے مجھے ریگولر کالج بھیجا۔ لیڈیز بائیک سکھایا، اب تو کار ڈرائیونگ بھی سکھا دی ہے۔شادی کے تیسرے سال میں ہی دو بیٹے تھے، ان کی دیکھ بھال میں میرے ابو امی کا، میری ساس اور میرے شوہر کا اہم کردار رہا ہے۔

ہمارے معاشرے میں ایسا مشکل سے ہوتا ہے کہ بہو کو تعلیم کی سہولت اس حد تک مہیا ہو کہ اس کے حصولِ علم میں گھر کے دیگر افراد معاون ہوں۔ بیشتر لڑکیاں شادی کے بعد مکمل توجہ کے ساتھ تعلیم مکمل نہیں کرپاتی ہیں، لیکن میرے شوہر نے نہ صرف یہ کہ عصری تعلیم مکمل کروائی بلکہ سب سے پہلے میری عالمیت مکمل کروائی، حیدرآباد لے جاکر مجھے ہاسٹل میں رکھا۔ خود پریشانی برداشت کی، اس کے بعد اورنگ آباد سے گریجویشن کروایا، بی ایڈ ایم ایڈ بھی ریگولر کیا، نہ صرف یہ بلکہ بی ایڈ میں میرا رزلٹ میرٹ رہا، گولڈ میڈل لیا، ایم ایڈ میں بھی ٹاپر رزلٹ رہا۔

جب کبھی کسی ٹیسٹ میں مارکس کم ملے تو وہ لانگ ڈرائیو پر لے جاتے، بہت سمجھا کر اس مایوسی سے نکالتے، مجھے حوصلہ دیتے، باقاعدہ میرے سبجیکٹ کی بکس کی لائبریری میرے لیے بنوائی۔ اکثر لوگ سوچتے کہ مجھے جاب کے لیے پڑھا رہے ہیں، لیکن ایسا بالکل نہیں تھا۔

جاب کی خواہش تو مجھ میں اس وقت پیدا ہوئی، جب میری پی ایچ ڈی چل رہی تھی اور خود ایکٹیو رہنے کے لیے گرلز کالج میں میں نے جاب کی۔ گورنمنٹ پوسٹ ملنا یہ سب کچھ بس حادثاتی ساہی ہے۔ تعلیم کو بہت انجوائے کیا ہے ۔میرے امی ابو کا تعاون بچوں کی دیکھ بھال میں بہت رہا، ساس نے ہمیشہ حوصلہ دیا، ہمت افزائی کی، قدر کی نگاہ سے دیکھا، وہ اکثر کہتی ہیں: ”بیٹا! بہت محنت کرتی ہو، گھر کی ذمہ داری، بچوں کی دیکھ بھال، جماعت کا کام اور تعلیم۔”

بہت ہی پروقار اور بڑے دل کی خاتون ہیں میری ساس، الحمدللہ۔

علیزے نجف: آپ نے عصری تعلیم کے ساتھ مذہبی تعلیم بھی حاصل کی، اسی طرح آپ کو دونوں ہی مکاتب فکر سے آگاہی حاصل ہوئی، میرا سوال یہ ہے کہ موجودہ دور میں جب کہ ایک طرف مدارس کا نصاب وقت سے غیر آہنگ ہوتا جا رہا ہے اور کالجوں کے نظام تعلیم میں بنیادی اخلاقیات و مذہبیات پہ کوئی خاص توجہ نہیں دی جا رہی تو کوئی کس طرح عصری و مذہبی تعلیم کو معتدل پیمانے پہ حاصل کرے کیا آپ کو نہیں لگتا کہ بنیادی اسلامی تعلیم سے آگاہی کے لیے ڈپلومہ کورس کو فروغ دینے کی ضرورت ہے، تاکہ کالج اور یونیورسٹی کے طلبہ دین و دنیا کے علم کے درمیان اعتدال پیدا کر سکیں؟

مبشرہ فردوس: بجا فرمایا کہ عصری درس گاہیں اور دینی مدارس دونوں نصاب ہائے تعلیم مختلف ہیں۔ عصری درس گاہوں کے تقاضے جدا ہیں، دینی مدارس کا مخصوص نصاب اپنی جگہ، تاہم ایک چیز اہم ہے کہ دینی مدارس کو چاہیے کہ وہ عصری علوم بھی پڑھائیں۔ یہ بات دانشوران کی جانب سے کہی جاتی ہے، تاہم جامعۃ البنات نے یہ چیز پہلے سے ہی نافذ العمل کر کے عصری علوم کو اسلامی اقدار کے ساتھ نصاب کا حصہ بنائے رکھا ہے۔خالص عصری علوم کے ساتھ آپ اسلامی لٹریچر، قرآن و حدیث اور مقصد زندگی سے آشنا نہ ہوں تو یقین مانیں! عصری علوم اپنے ساتھ تہذیب، تمدن اور اقدار بھی بہا لے جائے گا۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ برائے نام ہی سہی، مسلم مینیجمنٹ اسکولز میں اسلامی قدروں کا لحاظ رکھنے کے معاملے میں معاشرے کا اجتماعی ضمیر تاحال زندہ ہے، لیکن جدیدیت کے سیلاب میں اب اتنا کافی نہیں ہے کہ روایت کی حد تک باقی رہے، مسلم طالبات کو عصری علوم کے ساتھ دین شریعت کی بنیادی تعلیم اور اس کے بنیادی تصورات کو سمجھنے کے اسلامک اسٹڈیز کے کورسیز شروع کرنے چاہئیں، بلکہ انھی مدارس کو بڑے پیمانے پر اس کا باضابطہ نظم کرنا چاہیے۔کسی بھی ڈگری کے ساتھ آپ کی اسلامی فکر مضبوط نہ ہو تو آپ جدیدیت کے بہاؤ میں بہہ جائیں گے اور اسلام پر اعتراض کرنے والے معترضین کی صف میں شامل ہوجائیں گے۔

علیزے نجف: ہمارے یہاں بچوں کی تعلیم کے حوالے سے یہ بات عام طور سے نظر آتی ہے کہ والدین بچوں کو کانوینٹ میں داخل کراتے ہیں، اور بنیادی اسلامی تعلیم اور قرآن پڑھنے کے لیے ٹیوشن کراتے ہیں، کیا اس طرح سے ایک بچہ مذہبی تعلیم کے بنیادی ارکان کو سیکھ سکتا ہے یا اس کے لیے ضروری ہے کہ باقاعدہ اس کی تعلیم کا بندوست کیا جائے، اپنے تجربے و مشاہدے کی روشنی میں بتائیں؟

مبشرہ فردوس: یہ بات درست ہے کہ تعلیم کے نام پر کچھ بنیادی باتیں رٹوانے، دعائیں یاد کروانے اور ناظرہ قرآن پڑھانے کی حد تک ہی مذہبی تعلیم کو لازم سمجھا جارہا ہے جب کہ کانوینٹ میں بچوں کی تربیت کا ماحول غیراسلامی ہوتا ہے۔

ذاتی طور پر گھر کے ماحول اور والدین کا دینی شعور جس قدر پختہ ہوگا، اسی قدر وہ بچے کو سمجھ سکیں گے اور اسی قدر وہ بچے اسلام سے عشق، خدا خوفی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت اور انسانیت سے انسیت پیدا کرپائیں گے۔

گھر کا ماحول اسلامی اقدار پر مبنی ہونا نہایت ضروری ہے، مطلب بچہ نماز کا پابند ہو، بڑوں کا احترام وعزت کرتا ہو، رشتوں کا تقدس جانتا ہو، ہر موقع پر ماں دعا پڑھاتی ہو۔ حلال حرام کی تمیز ہو، ناچ گانا، فیشن فحاشی سے گھر کا ماحول دور ہو۔ گھرمیں روزآنہ فیملی درس ہوتا ہو، صدقہ و خیرات اور انفاق کا ماحول ہو۔

بچے بڑے ہوجائیں تو والدین کے ساتھ گفتگو کریں، وہاں انہیں عملی زندگی میں قرآن کے ایپلیکیشن سمجھائی جائے۔ کھل کر بتایا جائے کہ بہن بھائی کے بستر الگ قرآن کے حکم پر کیے جارہے ہیں۔ اس سلسلے میں ماؤں کا دینی شعور بہت پختہ ہونا چاہیے،اسکول کے حوالے کرتے ہوئے ہم تربیت کو یقینی نہیں بنا سکتے، گھر کے دیگر افراد کا رول بھی بہت اہم ہے۔

علیزے نجف: آپ نے ایجوکشنل سائیکالوجی میں پی ایچ ڈی کیا ہے، موجودہ وقت کے تعلیمی نظام پر بھی آپ کی گہری نظر ہے، میرا سوال یہ ہے کہ موجودہ تعلیمی نظام کے بارے میں آپ کیا رائے رکھتی ہیں؟ تعلیمی اداروں میں جو طریقۂ تعلیم رائج ہے، کیا وہ آج کے طلبہ کی نفسیات کو ایڈریس کرنے میں کامیاب ہے؟ کیا وجہ ہے کہ تعلیم کے بڑھتے رجحان کے باوجود بھی اخلاقیات زوال پذیر ہوتی نظر آ رہی ہیں؟

مبشرہ فردوس: تعلیمی نظریات تیزی سے بدل رہے ہیں۔پہلے استاذ کی حیثیت روحانی باپ کی ہوتی تھی، اب ایک سہولت کار کی بن گئی ہے۔علم کے لیے پہلے شاگرد استاذ کے محتاج تھے اور اب جنبش انگشت پر علم کا سمندر موجود ہے۔ بلاشبہ علم کا حصول ارزاں ہے، لیکن علم کے عمل میں اترنے کے لیے آج بھی انسان صحبت صالح کا محتاج ہے، یہ ذاتی رائے ہے۔

طلبہ کی نوعیت بھی بدل گئی ہے۔ رات بھر ڈیجیٹل ڈیوائس کے ساتھ جاگی ہوئی نسل صبح تھکی ہاری اسکول کالج یا یونیورسٹی آتی ہے۔ تدریس کے جو طریقے پہلے کار گر تھے،اب وہ بالکل نہیں ہوسکتے۔ وقت کے ساتھ انھیں بھی اپ ڈیٹ ہونا چاہیے۔ پہلے بچے کی عمر کے لحاظ علم نصابی کتاب میں متعین تھا، لیکن اب ہر عمر کے بچے کے لیے علم اوپن ہے۔ جدید طریقۂ تدریس میں 4C کی بات کہی جارہی ہے کہ بچوں کو لائف اسکلز سکھانے چاہئیں، سافٹ اسکلز کی بات کہی جارہی ہے،بچے کی خوابیدہ صلاحیتوں کو پہنچاننے میں معلم کارگر ہو، Creativity (تخلیقی صلاحیت)کی شناخت کروائیں۔

‏ Communication, Collaboration مل جل کر اپنی اپنی مہارت کے ذریعہ کسی پروجیکٹ کو تکمیل تک پہنچانے کے لیے لازم ہے، ٹیم ورک کی عادت ہو ۔علم کا حصول ہی انسان میں اخلاقیات کی سطح کو بڑھانے والا عمل ہے،شعور و آگاہی کے لیے علم ایک ٹول ہے، تاہم انسان مادیت کی حرص کو غالب رکھے تو علم بے اثر ہو جاتا ہے،مجھے بیدل دہلوی کا یہ شعر علم کے حوالے سے بے حد پسند ہے:

فیض معنی در خور تعلیم ہر مغز نیست

نشہ را چوں بادہ نتوان در دل پیمانہ ریخت

(کسی بے مغز انسان پر تعلیم بالکل ایسے ہی بے اثر ہے جیسے کچی مٹی کے پیالے میں شراب رات بھر رکھی رہے اور اسے نشہ نہ چڑھے۔)

علیزے نجف: موجودہ دور کی انقلابی ترقی نے نوجوان نسل کو اس قدر مرعوب کردیا ہے کہ ان کی اکثریت دنیاداری کی ہی ہو کررہ گئی ہے۔ اخلاقی بگاڑ اور انسانی قدروں سے غفلت عام ہوتی جا رہی ہے، میرا سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ وقت میں یہ نوجوان نسل مذہب سے بیزار ہوتی جا رہی ہے یا صحیح تربیت نہ ہونے کی وجہ سے ان کے اذہان خلا کا شکار ہو گئے ہیں؟

مبشرہ فردوس: انسان کی آموزش و اکتساب کا بڑا حصہ ماحول کی دین ہے، وہ جتنا سماج اور ماحول سے قریب رہتا ہے اتنا ہی جذب کرتا ہے۔ ماحول بہت تیزی کے ساتھ بدلا ہے، اچھائی اور برائی کی تمیز کا اجتماعی شعور متاثر ہوا ہے۔اب محلے کے کوئی عبدالرحیم انکل کسی گالی دیتے بچے کو روکتے نہیں، گھر آکر ان کے بڑوں کو متوجہ نہیں کرواتے، بلکہ جواباً گالی دیتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔

کبھی کبھی لگتا ہے مغربی کلچر کو غیر محسوس طریقے سے پڑھے لکھے افراد نے ہی پروموٹ کیا ہے۔

ایسے واقعات سنائے گئے کہ دیکھو مغربی دنیا میں کوئی کچھ کررہا ہوتا ہے تو دوسرا اپنے کام سے کام رکھتا ہے،مداخلت نہیں کرتا، شاید اسی مرعوبیت نے بھلائی کے اجتماعی شعور کو متاثر کرکے “اے شیخ! اپنی اپنی دیکھ” پر آمادہ کیا۔ اب یہ ماحول بچوں کو خود غرضی،لاپرواہی اور لادینی ڈگر پر لے آیا۔ دو چیزیں: ایک خود غرضی اور دوسری مادہ پرستی،یہ اخلاق بحران کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔

علیزے نجف: آپ نے Family and child counselling کو بھی پڑھا ہے، اور اس میں ڈگری لی ہے۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس کو اگر بروقت سمجھ لیا جائے تو نسلوں کا مستقبل سنوارا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں میرا سوال یہ ہے کہ ہمارے یہاں جو پیرنٹنگ کے طریقے رائج ہیں، ان کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟پیرنٹنگ کے فرسودہ طریقوں سے کیسے معاشرے کو باہر نکالا جا سکتا ہے؟

مبشرہ فردوس: بہت ہی عمدہ سوال! پیرنٹنگ کے پرانے تصورات اور طریقۂ کار موجودہ نسلوں پر کارگر نہیں ہوسکتے، ان طریقوں سے نسلوں میں بیزاری پیدا ہورہی ہے۔

پیرنٹنگ کا فطری طریقہ یہ ہے کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا بچہ جھوٹ نہ بولے، کسی کا مذاق نہ بنائے،احترام سے پیش آئے،تو آپ کو اپنے بچوں کے سامنے نہ کسی کی چغلی کرنی چاہیے نہ مذاق بنانا چاہیے۔ بچہ عملی کردار سے متاثر ہوتا ہے،الفاظ سے قطعاً نہیں، بلکہ والدین اور دیگر گھر کے افراد میں دورنگی پائی جائے تو بچہ ان سے بیزار ہونے لگتا ہے۔

پرانے طریقۂ تربیت میں آپ کہہ سکتے تھے کہ بڑوں نے جو کہا وہی کریں،سوال نہ پوچھیں۔ اب آپ ایسا نہیں کہہ سکتے، آپ کو عملی کردار پیش کرنا ہوگا۔ہر چیز بالائے طاق رکھ کر اپنے بچوں کے مفاد کی خاطر ہمیں رشتوں کا احترام سکھانا چاہیے، دل میں جگہ بنانی چاہیے۔آج کل والدین بچوں کو ہر رشتے سے متنفر کردیتے ہیں، صرف ماں باپ کی جگہ بناتے ہیں،وقت کے ساتھ دل میں بنا ہوا وہ کوتاہ سی جگہ بھی سکڑتی چلی جاتی ہے اور اس دل میں پھر کبھی رشتوں کے تئیں وسعت پیدانہیں ہو پاتی ہے۔

پرورش و تربیت میں عملی مشاہدہ پیش کرنے اور بچے کے سوال کا جواب معقول بنیادوں پر دینا اور کسی کے بچے سے اپنے بچے کا تقابل نہ کرنا، بچے کو اپنی فطرت پر قائم رکھتے ہوئے جینے کے اصول سمجھانا، یہ اصل بنیادیں ہیں۔

علیزے نجف: دنیا میں سب سے معتبر، مستند اور لازمی ادارہ خاندان کا ادارہ ہے جو ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔موجودہ وقت میں اس ادارے کی بنیادیں اس طرح ہل چکی ہیں کہ نسلیں اپنے اسلاف کے اقدار و روایات سے برگشتہ ہوتی جا رہی ہیں،اس حوالے سے میرا سوال یہ ہے کہ خاندان میں پیدا ہونے والی اس افراتفری اور رشتوں کی بوسیدگی کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ آج کے اس بدلتے دور میں ایک خاندان کو کن چار بنیادی اصولوں کی پاسداری کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے؟

مبشرہ فردوس: خاندان کو مضبوط بنانے کے بنیادی اصول: محبت، اعتماد، احترام اور خوف خدا ہیں، ان سے معمور دل کبھی دوسرے پر ظلم کرتا ہے نہ اپنے فرائض سے غافل ہوتا ہے۔حقوق سے لے کر ایک دوسرے کے ساتھ سلوک تک، ہر کام جوابدہی کے احساس کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ انسانیت کی سچی محبت آپ کو انسان کے باطن سے محبت کرنا سکھاتی ہے۔ ظاہر پرستی، مادہ پرستی اور رشتوں کو ظاہری سطح سے جج کرنے سے بغض رکھتی ہے۔ آج کل انسان کو کم اہمیت دی جاتی ہے۔ لوگ ناک نقشہ، رنگ یا دولت اور اسٹیٹس سے محبت کرتے ہیں، یہ چیز انسانیت سے محبت نہ ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ رشتوں کا تقدس ہمیشہ عدم اعتمادی کی وجہ سے پائمال ہوتا ہے۔اعتماد رشتوں کے درمیان پل رہے احترام کا نام ہے۔آج کل زوجین اور دیگر رشتہ دار عدم اعتماد کا شکار ہوتے ہیں اور خاندان کو کمزور بنادیتے ہیں۔ اعتماد اور احترام ہر رشتے کا جزولاینفک ہے۔ اعتماد اور محبت زوجین کے رشتے کے لیے بھی اہم ترین ہے۔

علیزے نجف: آپ ایک قلمکار بھی ہیں۔ آپ نے اب تک بےشمار تعمیری مضامین کے ساتھ افسانے بھی لکھے ہیں۔میرا سوال یہ ہے کہ آج کا ٹیکنالوجی سے متاثر ذہن افسانوں اور مضامین سے شغف رکھتا ہے؟ آپ نے بدلتے وقت کے تقاضوں کو کس طرح اپنی تحریروں میں سمونے کی کوشش کی ہے اور آپ کے قارئین کا ردعمل کیسا رہا؟ آپ کے افسانوں کے موضوعات کیا رہے ہیں؟

مبشرہ فردوس: یہ بات درست ہے تو کہ نئی نسل کا رجحان افسانے پڑھنے کی طرف زیادہ ہے اور ہر دور میں رہا ہے۔ مطالعے سے انسان فطری طور پر ذہنی سکون چاہتا ہے، وہ دماغی طور پر ہی سہی اپنی موجود سے غیاب چاہتا ہے، اس لیے افسانے کی منظر نگاری میں کھوکر تسکین محسوس کرتا ہے ۔میرے افسانے موجودہ معاشرتی اور خصوصاً خواتین کے نفسیاتی موضوعات پر مشتمل رہے ہیں۔ پروفیشنلی کالج کی طالبات سے میرا رابطہ ہوتا ہے، کاؤنسلنگ کے حوالے سے فیملی تنازعات پر کام جاری رہتا ہے، اور چائلڈ کاؤنسلنگ شعبے سے بھی منسلک ہوں۔ اس لیے خاندان کے یہ مسائل اور ان کے عمومی حل کو افسانے میں قلم بند کرنے کی کوشش کی ہے، جیسے: “قصور کس کا؟” یہ افسانہ فلمایا بھی گیا۔ جب طلاق ثلاثہ کا ایشو چل رہا تھا میں نے اس میں طلاق کے طریقۂ کار کو عام فہم انداز میں سمجھانے کی کوشش کی ہے، اسی طرح “نکاح ثانی ضرور” اس میں ایکسٹرا میریٹل افئیرز کے بجائے نکاح ثانی کی اہمیت پر متوجہ کیا، ایک افسانے میں آٹزم کے شکار بچے کو قبول کرتے ہوئے والدین کی پریشانی کو زیر بحث لایا، ایک افسانہ “خلع” ابھی ادھورا ہے، نئے قانون کے بعد عورت کو خلع پر کیسے مجبور کیا جارہا ہے، اس پر تھیم رکھا ہے۔

علیزے نجف: اس وقت آپ اقرأ کالج آف آرٹس اینڈ سائنس، اورنگ آباد کی وائس پرنسپل کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہی ہیں۔ بحیثیت منتظم ادارہ آپ نے اپنے ادارے میں کس طرح کی تبدیلی اور بہتری لانے کی کوشش کی ہے؟ اس ادارے کے ٹیچرز اور اسٹاف کو کس حد تک معاون پایا؟ مجموعی طور پہ آپ ان کے طرز تدریس میں مزید کن دو تبدیلیوں کو دیکھنے کی خواہش مند ہیں؟

مبشرہ فردوس: عموماً کالجز میں لیکچر نہیں ہوتے ہیں، اور بچے ایڈمیشن لے کر ٹیوشن کلاسز کا رخ کرتے ہیں۔ ہم نے ایمانداری کو شعار بناتے ہوئے طالبات کی حاضری کو یقینی بنایا۔اسٹاف سبھی بہت قابل ہیں تو کوشش کی ہے کہ اس مشن میں وہ بھی شامل رہیں۔ ادارے کبھی بھی ایک فرد سے نہیں چلتے، آپ کو پوری ٹیم میں اسپرٹ پیدا کرنا لازم ہوتا ہے۔سب سے بڑی چیز ٹیم ورک ہے اور الحمدللہ سبھی اسٹاف اور سوسائٹی ممبران کا تعاون رہتا ہے کہ ہم ایک جدا شناخت بنائیں اور الحمدللہ کام جاری ہے۔

علیزے نجف: آپ ہادیہ ای میگزین کی ایڈیٹر بھی ہیں۔ سب سے پہلے آپ ہمیں اس میگزین کے مرکزی مقاصد کے بارے میں بتائیں،اور کیا وجہ ہے کہ آپ ہارڈ کاپی کے بجائے صرف سافٹ کاپی ہی نکال رہی ہیں، کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ اب لوگ ہاتھوں میں کتاب پکڑنے کے بجائے اسکرین پر ہی سب کچھ چاہتے ہیں یا کوئی اور وجہ ہے؟

مبشرہ فردوس: ھادیہ ای-میگزین خواتین کا میگزین ہے۔ یہ بات محسوس کی جارہی تھی کہ خواتین کے ایشوز پر مرد حضرات آواز اٹھاتے ہیں۔ ان کے حقوق کی جنگ بھی قلمی جنگ ہو یا بیانیے کے ذریعہ، مرد حضرات ہی پیش پیش ہوتے ہیں۔جیسے طلاق ثلاثہ کا مسئلہ ہو یا عورتوں کا مسجد میں آنا یا خواتین کا وراثت میں حصہ۔ خواتین خود کیا سوچتی ہیں، یہ سامنے نہیں آتا۔ اس لیے خواتین کی آواز بننے کے لیے خواتین کا اپنا ایسا رسالہ ہونا جو مضبوط آواز بن کر ابھرے، وقت کا تقاضا تھا، چونکہ میگزین کی اشاعت کا یہ فیصلہ لاک ڈاؤن میں لیا گیا،اس لیے یہ ابھی ڈیجیٹل میگزین ہے۔ نیو جنریشن اور لوگوں کا طرز مطالعہ بھی اب ڈیجیٹل ہوگیا ہے، اسی خیال سے اسے ویب میگزین رکھا ہے، تاہم خواتین اس کی ڈیمانڈ بہت ہے،اس لیے اسے عنقریب ہارڈ کاپی کی صورت میں بھی لایا جائے گا۔

علیزے نجف: کتابیں ہر دور میں سیکھنے سکھانے کا بہترین ذریعہ رہی ہیں،آپ بھی کتابوں سے شغف رکھتی ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ آپ کن موضوعات پر کتابوں کو پڑھنا پسند کرتی ہیں، اور آپ کے پسندیدہ مصنفین کے نام کیا ہیں؟

مبشرہ فردوس: مطالعے کا شوق بچپن سے رہا۔سب سے پہلے چوتھی جماعت میں جب پڑھنا شروع کیا تب “محمد عربی” اپنی امی کے سامنے بلند خوانی کرتے ہوئے ختم کیا تھا۔مائل خیر آبادی کی ساری کتابیں، رسالے: حجاب،افکار ملی،ایوان اردو، مومنٹ، پیش رفت، امنگ، اچھا ساتھی، ہلال؛ یہ پڑھتے پڑھتے عنایت اللہ التمش، نسیم حجازی، مسکین حجازی کی سیریز سے لے کر پتہ ہی نہیں چل سکا کہ کب کتاب پردہ دین کی باتیں، اسلام اور اجتماعیت اور رودادیں پھر مختلف تفاسیر پڑھ ڈالیں۔ مطالعے کی کہانی ہی چونکہ سیرت پڑھنے سے شروع ہوئی تھی سیرت کا مطالعہ مختلف سیرت نگاروں کا خصوصاً مطالعے میں رہا ہے ، سیرت سرور عالم ڈاکٹر حمید اللہ ، الرحیق المختوم، محسن انسانیت نعیم صدیقی ، حیات رسول خالد مسعود ، سیرت النبی صلی اللہ وسلم علی میاں ندوی ، نقوش سیرت ، اکمل البشر ، جرنیل صحابہ ، غزوات صحابہ ۔

جب عالمیت میں آئی تو احادیث، ادیان اور فقہ سے خاص دلچسپی رہی۔ کالج میں آئی تو ہر ٹاپک پر کتابیں پڑھیں۔ لال اینڈ جین، آہوجھا، لیزی پال، پاؤلو کول، میکے ویلی، شرلاک ہومز، ڈکنز، کیرنگ ہوسٹ گارشیا مارکیز، موپساں، میکسم گورکی، انتون چیخوف، سڈنی شیلڈن، عالمی ادب پڑھا، پیراڈائز لاسٹ، بروبیکر، نوم چومسکی، میکے ویلی، یووال نوح احراری، اور اب انڈوپاک افسانے اور ناول؛ کس کو نہیں پڑھا، علم نہیں۔

کلاسیکی ادب سے رحیم گل، منٹو، عصمت چغتائی، آل احمد سرور، عبد الحلیم شرر، علامہ راشد الخیری، شمس الرحمان فاروقی، ڈاکٹر حمید اللہ، علامہ یوسف القرضاوی، نجات اللہ صدیقی، علامہ محمد الغزالی، ابو شاقہ، علی میاں ندوی، علامہ شبلی، اکرم ندوی اور نہ جانے کیا کیا؛ طویل فہرست ہے۔

کیا متقدمین کیا متاخرین، سب کو پڑھتی ہوں۔جوکتاب مشکل تصورات پر مبنی ہو اور پسند بھی آجائے،اسے آہستہ آہستہ پڑھتی ہوں،جذب کرتی ہوں۔جیسے اس سال کے کلیکشن میں دو کتابیں زیادہ پسند آئیں،یووال نوح احراری کی تعلیمی نظریات، اور Psychological and spiritual awakening ناصر افتخار کی کتاب پسند آئی۔اسی طرح سیلف ڈیولپمینٹ کی بکس:ڈیل کارنیگی،کے علاوہ بشیر جمعہ، محمد غزالی، ایک گائی، جیک کنفیلڈ کو پڑھا ہے۔

کاؤنسلنگ اور پیرنٹنگ پر کتنی بکس پڑھی ہیں،اس کا شمار مشکل ہے۔ڈاکٹر گول مین،ڈاکٹر گوٹ مین ، سگمنڈ فرائیڈ وغیرہ۔

علیزے نجف: معاشرتی سطح پہ واقع ہونے والی صورت حال پر آپ کی گہری نظر ہے۔آپ نئی نسل کی نفسیات پر بھی کام کررہی ہیں۔میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ کیا وجہ ہے کہ اب کتابیں ان کےلیے ثانوی حیثیت اختیار کرتی جا رہی ہیں۔کیا اس کی وجہ خود والدین کا کتابوں سے دور ہونا ہے یا اسکرین کی دنیا کی چکا چوند نے انھیں اپنا اسیر بنا لیا ہے؟ای بک سے ہی سہی،انھیں کیسے پھر سے کتابوں سے جوڑا جا سکتا ہے؟

مبشرہ فردوس: بچپن تو کتابوں کے ساتھ ہی گزرنا چاہیے،لیکن کتابیں بھی کھلونا نما ہونی چاہئیں، نسلوں کو موبائل کے حوالے دیکھ کر کڑھن ہوتی ہے ۔موبائل کی وجہ سے بچہ بچپن میں ہی بڑا ہوجاتا ہے،یہ سرپرستوں کو سمجھنا چاہیے۔جو والدین بارہ سال کی عمر تک بچوں کو بچالیتے ہیں وہی توجہ کا ارتکاز اور اسپین آف آٹینشن بچا پاتے ہیں:

مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ

بچوں کو کتابوں سے قریب کرنے کی کچھ تکنیکیں ہوتی ہیں،جو والدین کو سیکھنی چاہئیں، بلکہ والدین جس طرح اپنے کاؤنسلر سے پری میرج کاؤنسلنگ لیتے ہیں،اسی طرح انھیں پیرنٹنگ کے لیے کاؤنسلنگ لینی چاہیے، تاکہ وہ اپنے بچے کی اس کےمزاج کے مطابق پرورش کرسکیں، لیکن ہمارا معاشرہ کاؤنسلنگ اور رہنمائی کی اہمیت کو آج بھی نہیں سمجھتا۔

علیزے نجف: آپ کی پروفیشنل زندگی سے متعلق تو کئی سارے سوالات ہو گئے۔اب کچھ آپ کی ذاتی زندگی کے بارے میں بھی جاننا چاہوں گی۔کیا آپ خواب دیکھنے پر یقین رکھتی ہیں؟اوائل عمری میں زندگی کے حوالے سے آپ کے خواب کیا تھے؟کیا وہ شرمندۂ تعبیر ہو چکے ہیں یا ابھی اپنی تعبیر و تکمیل کی راہ میں سرگرداں ہیں؟

مبشرہ فردوس: سچ پوچھیں تو شادی سے پہلے بھی اپنی ذات کو لے کر کوئی خواب نہیں دیکھا تھا۔موجود کام یا ٹاسک کو بہتر طریقے سے مکمل کرنا،چاہے وہ اپنا امتحان ہی پاس کرنا ہو،بس وہی ہدف رہا۔جیسا کہ بتایا کہ دسویں کے بعد شادی ہوئی،اسے بھی میں نے بس ایک ٹاسک سمجھ کر ہی گویا قبول کیا کہ کوئی کمی نہ رہ جائے۔شادی کے بعد تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا تو وہی مقصد پر نظررہی کبھی بھی خواب دیکھا نہیں شاید بچپن سے پریکٹیکل رہی ہوں یا دماغ میں مصروفیت کی کوئی نہ کوئی اسکیم چلتی رہی جس نے مجھے خواب کی اجازت ہی نہ دی ۔ہاں یہ تھا کہ کسی رائیٹر کی بک پڑھوں تو اس پر دیر تک سوچتے رہتی ہوں یا کسی خوبصورت لفظ کی ترکیب یا جملے کی بنت پر

عموماً توقعات سے بھرے میرے خواب نہیں رہے تھے پہلے بھی اور اب بھی اس لیے ہاسٹل کی لڑکیوں کے درمیان بڑی قناعت پسند بی بی ہی۔ کہہ کر مشہور ہوگئی ہوں ۔قناعت لفظ ہمیں یاد ہے جماعت اسلامی کے ایک پروگرام میں کوثر نیازی بیگم صاحب کی تقریر زبانی یاد کیا تھا وہاں لفظ ” قناعت پڑھا تھا ” اس تقریر میں خواب دیکھنے کے بجائے کہا گیا تھا کہ جو ملا ہے اس سے کیا نیا کرسکتی ہو اس پر سوچا ، اور نجانے کیسے اس وقت سے ہی سر اٹھاکر دیکھنے اور رشک کرنے اور توقعات باندھنے سے دور رہی ہوں ۔

عموما لوگوں کے خواب اور ارمان ہوتے ہیں اور میرے پاس دامن خالی رہتا ہے آج بھی کوئی منصوبہ نہیں ، ہم جہاں موجود ہے کیا وہ صراط مستقیم ہے تو چلے جائیے ۔

علیزے نجف: زندگی کے بارے میں آپ کے کیا نظریات ہیں؟موت کو کس طرح دیکھتی ہیں؟درمیان کے دورانیے کو گزارنے کے لیے آپ نے ہمیشہ کن پہلوؤں کو اہمیت دی ہے؟

مبشرہ فردوس: رفتہ رفتہ علم بڑھا تو میں نے جانا کہ میرا نیرولوجیکل سسٹم یہ قبول کر چکا ہے کہ ہمارے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ہم سمجھتے ہیں کہ اپنی متوقع دنیا میں جی رہے ہیں یا جو خواب ہم دیکھتے ہیں وہ پورے ہوتے ہیں۔میں یہ نہیں سمجھتی۔ہم تقدیر کی اچھائی برائی پر ایمان لائے ہیں۔ہمارے ساتھ جو کچھ پیش آرہا ہے وہ طے شدہ ہے، بلکہ پلانڈ دنیا کا ہم ایک حصہ ہیں۔مالک نے جو حالات ہمیں عطا کیے،اس میں بہت زیادہ خوش اور مگن رہیے،یہی زندگی ہے اور پھر ان پیش آئند حالات میں ہم تکلیف اپنی توقعات کی وجہ سے اٹھاتے ہیں،ورنہ اللہ نے تو صاف فرما دیا کہ:

“وہ کسی متنفس پر اس کی مقدرت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا ۔”

اس لیے خود کو لے کر کبھی خواب نہیں رہے،جو حالات ہوں اسے قبول کرکے بہت شاد رہتی ہوں۔ہاں!یہ لازم ہے کہ انسان کے بنیادی تصورات میں شفافیت ہونی چاہیے کہ موت آنی ہے،زندگی کے ہر لمحے کو کارآمد بنائیں، حقیقی خوشی کے لیے جییں ، نہ کہ دکھاوے کے لیے۔

علیزے نجف: اگر آپ کو اپنی اب تک کی گزری ہوئی زندگی کو کوئی عنوان دینا پڑے تو وہ کیا ہوگا؟

جواب:

“مشقت۔” یہ زندگی کا عنوان ہے۔

“خلق الانسان فی کبد”

(ہم نے انسان کو سخت مشقت میں پیدا کیا)

 آرام کی کبھی متمنی نہیں رہی ہوں،ہمیشہ مشکل ٹاسک کو کرنے میں لطف آتا ہے۔یہی زندگی کا عنوان ہے۔

علیزے نجف: آپ زندگی میں جذبات اور عقلیت کو کیسے مینیج کرتی رہی ہیں؟کیا ان کا اعتدال میں ہونا ضروری ہے؟

مبشرہ فردوس: خود بہت زیادہ حساس ہوں،بے حد حساس۔لوگ جذباتی طور پر کمزور کو غلط سمجھتے ہیں اور میں اسی کو طاقت سمجھتی ہوں۔ معقولیت کو پسند کرتی ہوں۔لاجیکل گفتگو زیادہ جی کو بھاتی ہے،تاہم عقل پر اتنا کم بھروسہ کرتی ہوں کہ رب العالمین سے دعا کرتی ہوں کہ اے رب اس مسئلے پر میری عقل کو آپ ہی حل سجھائیے۔شرح صدر کو ہی اللہ کا اشارہ سمجھتی ہوں۔ ہر مسئلے میں میری جذباتیت غالب رہتی مشاورت سے اس مسئلے کا حل تلاش کرتی ہوں ، سیرت و تاریخ میں کیا اس مثال ہے موجود نہیں تو مشاورت کرلیں اور کچھ دن خاموش ہوکر اللہ سے شرح صدر طلب کریں مل جائے تو مطمئن نہ ملے تو حالات کو سمندر کی کشتی کی طرح چھوڑ دیجیے اس کا آر یا پار ہونا رب کے حکم سے ہے ۔

علیزے نجف: یہ انٹرویو دیتے ہوئے آپ کے احساسات کیا تھے؟سوالات کے بارے میں کیا کہنا چاہیں گی؟

مبشرہ فردوس: سوالات پڑھ کر پہلا احساس تھا کہ علیزے نجف کو واقعی اللہ نے بیش بہا صلاحیت سے نوازا ہے۔چند گھنٹے کی گفتگو کے فوراً بعد ہی سوالات کو اتنی عمدگی سے لاجیکل سیکوینس کے ساتھ بتدریج فریم کرکے پیش کردیا۔اس کے جوابات لکھتے ہوئے یوں لگا کہ کبھی یہ ماضی میں اپنے بچپن میں لے جارہے ہیں،کبھی اپنے بنیادی فلسفے پر رک کر سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com