نقطہ نظر : ڈاکٹر محمد منظور عالم
ہندوستان کا دستور جامع ، سیکولر ، تمام گروپ ، طبقات اور کمیونٹیز کے حقوق پر مشتمل ہے ، آئین سازوںنے ایک ایسا دستور مرتب کیا جس میں کوشش کی گئی کہ ملک کے سبھی طبقات کو یکساں حقوق ملے ، کسی کو کسی پر برتری اور فوقیت حاصل نہ ہو ، کسی کے ساتھ بھید بھاﺅ کا معاملہ نہ کیا جائے ، جن کمیونٹیز اور گروپ کو برسوں تک انصاف ، مساوات اور آزادی سے محروم رکھاگیا ،جن کو انسانی حقوق سے ہمیشہ محروم کیاگیا جن کے ساتھ ظلم وبربریت کی گئی سبھی کو انصاف ملے ،سبھی کو برابری کا درجہ ملے ، کسی کو ذات پات ، خاندان ، علاقہ ، زبان یاکسی اور وجہ سے حقیر نہیں سمجھا جائے بطور انسان سبھی تمام شعبوں میں برابری کے حقدار مانے جائیں ۔ آئین ہند کی انہیں خوبیوں کی وجہ سے گذشتہ ستر سالوں میں بھارت کے دلتوں ، آدی واسیوں ، اقلیتوں اور دوسرے کمزور طبقات کو مختلف شعبوں میں نمائندگی کا موقع ملا ہے ، ان کی نسلوں نے تعلیم حاصل کی ہے ، ملازمت کے مواقع ملے ہیں، بزنس اور تجارت کے امکانات پیدا ہوئے ہیں ، سیاسی اور سماجی میدان میں انہوں نے اپنی نمائندگی درج کرائی ہے ، سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں اپنا مقام بنایا ہے حالاں کہ یہ سب ابھی تک مکمل طور پر نہیں ہوسکا ہے ، آئین سازوں کا خوا ب ابھی تک ادھورا ہے ، آج بھی آئین کے خلاف ورزی کرتے ہوئے ملک کے دلتوں ، آدی واسیوں ، اقلیتوں اور دوسرے کمزور طبقات کے ساتھ بھید بھاﺅ کیا جاتاہے ، ان کو برابری کا حقدار نہیں ماناجاتاہے ، کچھ علاقوں میں آج دلتوں اور آدی واسیوں کے بچوں کو اسکول میں جانے کی اجازت نہیں ہے ، تعلیم حاصل کرنے پر پابندی ہے ، ان سے صرف مزدوری کا کام لیا جاتاہے ، ان کو غیر انسانی کام کرنے پر مجبور کیا جاتاہے ایک طبقہ انہیں لائف ٹائم نوکر اور زر خرید غلام سمجھتاہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ابھی تک دستور پر مکمل طور پر عمل نہیں ہوسکاہے ، دستور کو ایمانداری سے نافذ نہیں کیا جارہاہے ، کچھ لوگ دستور سے بالاتر اپنی روایت کو سمجھتے ہیں ۔ اس لئے ملک کے دانشوران اور عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ سامنے آئیں ، آئین ہند پر عمل کی یقین دہانی کی مہم چلائیں ، تمام باشندوں تک آئین کی باتوں کو پہونچائیں ، یہ بتائیں کہ ملک کا آئین کیا کہتاہے ، آئین میں کیا حقوق دیئے گئے ہیں اور کس طرح آئین کے تقاضوں کے خلاف انتظامیہ اور حکومت کا رویہ ہے ۔ آئین پر عمل کرنے میں کس طرح امتیاز سے کام لیاجاتاہے ، بھید بھاﺅ کیا جاتاہے ، ذات ، مذہب ، علاقہ اور زبان کو دیکھاجاتاہے جبکہ یہ سبھی آئین کے خلاف ہیں ، اس کی روح کو شرمسار کرنے والے افعال ہیں ۔ حکومت ، انتظامیہ اور عدلیہ سبھی آئین کے پابند ہیں ۔
ہندوستان شروع سے مختلف مذاہب ، تہذیب اور قوموںکا سنگم رہاہے ، بھائی چارہ اور محبت یہاں کی مٹی میں شامل ہے ، سبھی کو ساتھ لیکر چلنا ، ایک دوسرے کا احترام کرنا ، نفرت سے گریز کرنا یہاں کی صدیوں پرانی شناخت اور خصوصیت ہے ، ملک کی آزادی کے بعد بھیم راﺅ امبیڈ کر اور آئین سازکمیٹی نے آئین تحریر کرتے ہوئے ان چیزوں کو عملی جامہ پہنایا اور یہی کوشش کہ ہندوستان کی یہ پہچان ، شناخت اور ثقافت برقرار رہے یہاں کسی کے ساتھ بھید بھاﺅ ، زیادتی ، نفرت اور تعصب نہ ہو ۔ آج کے ہمارے موجودہ دانشوران اور رہنماﺅں کی ذمہ داری ہے کہ وہ آئین سازوں کے اس خواب کو آگے بڑھائیں ، ملک میں ایک ماحو ل بنائیں کہ آئین پر ہر شعبہ میں عمل کیا جائے ،لوگ ایک دوسرے سے پیار او ر محبت کریں ،مذہب ، علاقہ اور ذات کی بنیاد پر کسی سے نفرت نہ کریں ، کسی کے خلاف زہر افشانی نہ کریں ،کسی کی موجودگی کو اپنے لئے خطرہ اور دشمنی نہ سمجھیں ، کسی کے ساتھ امتیازی رویہ نہ اپنائیں ، تعصب سے ہمیشہ پاک رہیں۔ ماضی میں ہمارے ملک کے دانشوروں اور ذمہ داروں نے آئین کا یہ پیغام ملک میں عام کرنے کی کوشش کی ہے ، لوگوں کو دستور سے جوڑا ہے ، ان کو دستور کا پابند بنایاہے ،سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی بھی بی جے پی سے تعلق رکھنے کے باوجود ملک کے آئین اور دستور پر مکمل بھر وسہ رکھتے تھے ، وہ دستور ہند کے نفاذ کی تلقین کرتے تھے ۔
ضرور ت اسی بات کی ہے ہم اس دستور پر یقین رکھیں ، اس کو آگے بڑھائیں ، لوگوں میں بیداری پیدا کریں ، حکمراں جماعت سے بھی ہماری درخواست ہے کہ وہ اٹل بہاری واجپائی کے راستہ پر چلے، ملک کے آئین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کریں ، اس کے نفاذ کو یقینی بنائیں ، انتظامیہ کو آئین پر عمل کرنے کا پابندبنائیں کیوں کہ ہمارے ملک کاد ستور جامع ہے ، سبھی کیلئے قابل قبول ہے ، اس میں لچک بھی ہے اور سختی بھی ، سبھی کو بنیادی حقوق عطاکیاگیا ہے ، مذہبی ، ثقافتی اور سماجی آزادی کی بھی آئین میں ضمانت دی گئی ہے ، یہ آئین سبھی طبقات کو برابر کا درجہ دیتاہے ، سبھی کو انسانی حقوق کی گرانٹی فراہم کرتاہے ا س لئے ہم تمام باشندگان ہند خاص طور پر لوگ سماج کے معزز اور سرکردہ افراد ہیں ، انہیں دانشور اور ذمہ دار ماناجاتاہے وہ آگے آئیں ، اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کریں ، ملک کی ترقی، خوشحالی اور سماجی ہم آہنگی کیلئے قربانیاں دیں ، آئین کو فروغ دینے کیلئے سلسلے میں بیداری مہم چلائیں ، ذات ، نسل ، علاقہ ، مذہب اور زبان دیکھے بغیر آئین ہندکے نفاذ اور اس کے عمل کو یقینی بنائیں تاکہ بھارت کے معماروں ،آئین سازوں اور مجاہدین آزادی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے ، بھارت کے تمام شہریوں کو مکمل طور پریکساں حقوق ملے ، کسی کے ساتھ کوئی بھید بھاﺅ اور امتیاز نہ ہو ۔
ملک کی آزادی میں کلیدی رول نبھانے اوردرست راستہ بتانے والے مہاتماگاندھی ، پنڈٹ جواہر لال نہرو ، مولانا ابوالکلام آزاداور اس جیسی شخصیات کو ہم مشعل راہ بنائیں ، ان کے مشن اور راستے پر خود کو گامزن کریں ، آپسی اتحاد اور تال میل کے ذریعہ ہم اس کام کو آگے بڑھائیں ، اپنے درمیان اختلافات کے باوجود اتحاد کا پیغام دیں ، سبھی کو ساتھ جوڑنے اور مہم کا حصہ بنائیں ۔ اسی کی اس وقت ضرورت ہے اور اسی میں بھارت کی ترقی ہے ، عوام کیلئے بہتری ہے ۔ اس کی وجہ سے ملک کے حالات بھی بہتر ہوں گے ، آئین پر عوام کا اعتماد مضبوط ہوگا اور ملک میں دستور کی حکمرانی ہوگی ۔
مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ وہ اتحاد واتفاق کا نمونہ بن جائیں ۔اسلام میں بھی اتحاد کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے ، جگہ اتحاد واتفاق کی فضیلت بتائی گئی ہے اس لئے باہمی اتحاد ، اتفاق اور سبھی کوساتھ لیکر چلنا اسلامی نقطہ نظر سے بھی ہم واجب اور لازم ہے ۔
(مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)