ذات پات کا نظام اور اسلامی تعلیمات

نقطہ نظر : ڈاکٹر منظور عالم

دنیا کے تمام انسان ایک جیسے ہیں ، سبھی برابر ہیں ، سبھی کی تخلیق ایک حضرت آدم علیہ السلام سے ہوئی ہے ، انسانوں کو آپس میں ایک دوسرے پر تفوق ، برتری اور فضیلت ثابت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔ انسانیت کی مختلف طبقات میں تقسیم اعلی اور ادنی کی درجہ بندی ، ذات پات کا نظام اور قبائل میں برتری کا عنصر اسلامی تعلیمات ، قرآنی احکامات اوراللہ تعالی کی ہدایات کے خلاف ہے ۔ قرآن میں یہ کہاگیا ہے کہ ہم نے تمام انسانوں کو ایک مردو عورت سے پیدا کیا ہے اور ان کو مختلف ذات اور قبائل میں تقسیم کیا گیا ہے تاکہ ایک دوسرے کو پہچان سکے اور تم میں سب سے معزز اللہ تعالی کے نزدیک تقوی والاہے ۔ اس آیت کا صاف مطلب ہے کہ سبھی انسان برابر ہیں ، آپس میں کوئی تفریق نہیں ہے ، ذات اور قبائل کی حیثیت صرف شناخت اور پہچان کیلئے ہے لیکن دھیرے دھیرے انسانوں نے اپنے قبیلہ ، خاندان او ر برادری کو فخر کا ذریعہ بنالیا دوسرو ں کو اسی بنیاد پر نیچا دکھانا شروع کردیا اور بعض قوموں نے انسانو ں کو مختلف طبقات میں تقسیم کردیا ، ان کے ساتھ کے پیشہ کو بھی خاص کردیا اور فطرت کے نظام کے خلاف اپنا ایک نظام بناکر انسانوں کوانسانی حقوق سے محروم کردیا جس میں بھارت کا برہمنوں کا ذات پات پرمبنی نظام سر فہرست ہے ۔ ہندوؤں کی طبقاتی تقسیم میں سب سے اعلیٰ برہمن ہے جس کے ذمہ داری مذہبی امور کی انجام دہی ہے۔ مذہبی امور اور رسومات کی ادائیگی کرانے کا حق کسی دوسری ذات والوں کو نہیں ہے۔ دوسرا درجہ چھتری کہلاتا ہے جس کے ذمہ دفاع ، حکومت اور نظم و نسق ہے ۔ تیسرا درجہ ویسیہ کہلاتا ہے جن کے ذمے تجارت اور کاشت کاری ہوتی ہے۔ اور سب سے ادنیٰ درجہ کو شودر کہا جاتا ہے جن کے ذمے ان تینوں درجے کے لوگوں کی خدمت اور ا ن کے گھروں کی صفائی ہوتی ہے ۔

مذکورہ آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو مخاطب کرکے تین نہایت اہم اصول کو بیان فرمایا ہے۔

”ایک یہ کہ تم سب کی اصل ایک ہے، ایک ہی مرد اور ایک ہی عورت سے تمہاری پوری نوع وجود میں آئی ہے اور آج تمہاری جتنی نسلیں بھی دنیا میں پائی جاتی ہیں وہ درحقیقت ایک ابتدائی نسل کی شاخیں ہیں جو ایک ماں اور ایک باپ سے شروع ہوئی تھی۔ اس سلسلہ تخلیق میں کسی جگہ بھی اونچ نیچ کیلئے کوئی بنیاد موجود نہیں ہے جس کے زعم میں تم مبتلا ہو۔ ایک ہی خدا تمہارا خالق ہے، ایسا نہیں ہے کہ مختلف انسانوں کو مختلف خداؤں نے پیدا کیا ہو۔ ایک ہی مادہ تخلیق سے تم بنے ہو، ایسا بھی نہیں ہے کہ کچھ انسان کسی پاک یا بڑھیا مادے سے بنے ہوں اور کچھ دوسرے انسان کسی ناپاک یا گھٹیا مادے سے بن گئے ہوں۔ ایک ہی طریقے سے تم پیدا ہوئے ہو، یہ بھی نہیں ہے کہ مختلف انسانوں کے طریقہ پیدائش الگ الگ ہوں۔ اور ایک ہی ماں باپ کی تم اولاد ہو، یہ بھی نہیں ہوا ہے کہ ابتدائی انسانی جوڑے بہت سے رہے ہوں جن سے دنیا کے مختلف خطوں کی آبادیاں الگ الگ پیدا ہوئی ہوں۔

دوسرے یہ کہ اپنی اصل کے اعتبار سے ایک ہونے کے باوجود تمہارا قوموں اور قبیلوں میں تقسیم ہوجانا ایک فطری امر تھا۔ ظاہر ہے کہ پوری روئے زمین پر سارے انسانوں کا ایک ہی خاندان تو نہیں ہوسکتا تھا۔ نسل بڑھنے کے ساتھ ناگزیر تھا کہ بے شمار خاندان بنے اور پھر خاندانوں سے قبائل اور اقوام وجود میں آجائیں۔ اسی طرح زمین کے مختلف خطوں میں آباد ہونے کے بعد رنگ، خدو خال، زبانیں اور طرزِ بود و ماند بھی لا محالہ مختلف ہی ہوجانے تھے اور ایک خطے کے رہنے والوں کو بعید تر ہونا ہی تھا، مگر اس فطری فرق و اختلاف کا تقاضا یہ ہرگز نہ تھا کہ اس کی بنیاد پر اونچ اور نیچ، شریف کمین، برتر اور کمتر کے امتیازات قائم کئے جائیں۔ ایک نسل دوسری نسل پر اپنی فضیلت جتائے، ایک رنگ کے لوگ دوسرے رنگ کے لوگوں کو ذلیل و حقیر جانیں، ایک قوم دوسری قوم پر اپنا تفوق جمائے اور انسانی حقوق میں ایک گروہ کو دوسرے پر ترجیح حاصل ہو۔ خالق نے جس وجہ سے انسانی گروہوں کو اقوام اور قبائل کی شکل میں مرتب کیا تھا وہ صرف یہ تھی کہ ان کے درمیان باہمی تعارف اور تعاون کی فطری صورت یہی تھی۔ اسی طریقے سے ایک خاندان، ایک برادری، ایک قبیلہ اور ایک قوم کے لوگ مل کر مشترکہ معاشرت بنا سکتے تھے اور زندگی کے معاملات میں ایک دوسرے کے مددگار بن سکتے تھے، مگر یہ محض شیطانی جہالت تھی کہ جس چیز کو اللہ کی بنائی ہوئی فطرت نے تعارف کا ذریعہ بنایا تھا اسے تفاخر اور تنافر کا ذریعہ بنا لیا گیا اور پھر نوبت ظلم و عدوان تک پہنچا دی گئی۔

تیسرے یہ کہ انسان اور انسان کے درمیان فضیلت اور برتری کی بنیاد اگر کوئی ہے اورکوئی چیز ہوسکتی ہے تو وہ صرف اخلاقی فضیلت اور تقوی ہے۔ پیدائش کے اعتبار سے تمام انسان یکساں ہیں، کیونکہ ان کا پیدا کرنے والا ایک ہے، ان کا مادہ پیدائش اور طریق پیدائش ایک ہی ہے اور ان سب کا نسب ایک ہی ماں باپ تک پہنچتا ہے۔ علاوہ ازیں کسی شخص کا کسی خاص ملک، قوم یا خاندان میں پیدا ہونا ایک اتفاقی امر ہے جس میں اس کے اپنے ارادہ و انتخاب اور اس کی اپنی سعی و کوشش کا کوئی دخل نہیں ہے۔ کوئی معقول وجہ نہیں کہ اس لحاظ سے کسی کو کسی پر فضیلت حاصل ہو۔ اصل چیز جس کی بنیادپر ایک شخص کو دوسروں پر فضیلت حاصل ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ دوسروں سے بڑھ کر خدا سے ڈرنے والا، برائیوں سے بچنے والا اور نیکی و پاکیزگی کی راہ پر چلنے والا ہو۔ ایسا آدمی خواہ کسی نسل، کسی قوم اور کسی ملک سے تعلق رکھتا ہو، اپنی ذاتی خوبی کی بنا پر قابل قدر ہے۔

یہ واضح اصول ہے جس صاف ظاہر ہے کہ اسلام نے تمام انسانوں کو برابر کا مقام دیاہے ،تمام بنی نوع انسان کو ایک اور برابر گردانا ہے اورآدمی آدمی کے درمیان کوئی فرق روا نہیں رکھا؛ بلکہ بحیثیت انسان ہر ایک کو برابر عزت وشرف سے نوازا ہے۔ اسلامی نقطئہ نظر سے محض رنگ ونسل اور طبقاتی تقسیم کی بنیاد پر کسی انسان کو اعلی اور گھٹیا سمجھنا گوارہ نہیں کیا جاسکتا۔ مزید یہ کہ اسلام کی نظر میں سارے مسلمان ایک دوسرے کے بھائی ہیں، لہٰذا یہ اخوت باہمی اس بات کی متقاضی ہے کہ کسی کو ذات برادری کی بنیاد پر حقیر نہ سمجھا جائے ،حسب و نسب اور زبان پرفخر کر کے بھائی چارے کے ماحول میں تفرفہ نہ پیدا کیا جائے۔ خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی پیغام دیاتھاکہ کسی عربی کو عجمی پر کسی گورے کو کالے پر کوئی فخر اور امتیاز حاصل نہیں ہے ۔

لیکن المیہ یہ ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں میں بھی برہمنواد پر مبنی نظام کی طرح ذات پات کا تصور پایا جانے لگاہے ۔ مختلف ذاتوں میں تقسیم ہوکر آپس میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش ہوتی ہے ، کچھ لوگ خود کو اعلی ذات کا سمجھ کر فخر اور تکبر کرتے ہیں اور دوسرے کو نیچی ذات کا سمجھ کر اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ مسلمانوں کی شادی بیاہ سے لیکر سماجی اور سیاسی زندگی میں بھی یہ ذات پات کا عنصر غالب ہوگیا ہے ، شادیوں میں یہ برائی پہلے سے رائج تھی اب سیاسی اور سماجی معاملوں میں بھی ذات پات کی لعنت حاوی ہوگئی ہے ، انتخابات میں مسلمانوں کو اس بنیاد پر بھی تقسیم کیا جانے لگا ہے جو بیحد افسوسناک اور اسلامی اصولوں کے خلاف ہے ۔

تمام مسلمانوں کے ذہن ودماغ میں یہ بات ملحوظ رہنی چاہیے کہ حسب و نسب ، ذات وبرادری اونچ نیچ زمانہ جاہلیت اوربرہمنواد کا نظام ہے۔ اسلام نے آکر اخوت ومساوات کا سبق سکھایا اور یہ بتایا کہ سب ہی انسان حضرت آدم کی اولاد سے ہیں، کسی عربی کو عجمی پر، کسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت اور برتری حاصل نہیں، البتہ جو شخص متقی ہے اسی کو اللہ کے نزدیک برتری حاصل ہے۔ کوئی ایمان والا چھوٹا نہیں خواہ وہ کسی برادری سے تعلق رکھتا ہو۔ نکاح میں کفاءت کا اعتبار محض اس لیے ہے کہ دونوں میاں بیوی میں خوش گوار زندگی گذرے۔ ورنہ لڑکی کا باپ اپنی لڑکی کا نکاح جس برادری میں چاہے کرسکتا ہے۔ ہرمسلمان کا نکاح دوسرے مسلمان کے ساتھ درست ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مختلف خاندان اور قبیلے تعارف کے لیے بنائے ہیں، اونچ نیچ ظاہر کرنے اور تفاخر کے لیے نہیں بنائے ہیں۔ جہاں تک ممکن ہو ہمیں اونچ نیچ اور شریف و رذیل کے تصور کو ختم کرنا چاہیے اور مساواتِ اسلامی پر قائم رہتے ہوئے سب کام کرنا چاہیے۔ اسلام نے آکر جاہلیت کی نخوت وتکبر وتفاخر کو دور کردیا ہے۔ ہمیں بھی اسے دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

ہندوستانی مسلمانوں میں ذات پات کا تصور اور اس پر فخرو تکبر کی بنیادی وجوہات میں جہالت اور اس معاشرہ سے متاثر ہوناہے ۔ علم سے دوری ، شریعت سے نا واقفیت کی بنیاد پر یہاں کے مسلمانوں میں یہ لعنت پائی جاتی ہے ، اکثریتی سماج کے اونچ نیچ کے نظام نے مسلمانوں کو بھی متاثر کیاہے اور اسی وجہ سے یہ بیماری ہندوستانی مسلمانوں میں موجود ہے جس کے خلاف منظم مہم چلانا وقت کی ضرورت ہے اور زندگی کے تمام شعبوں سے غیر ضروری فخروغرور کو ختم کرکے اخو ت وبھائی چارہ اور مساوات پر عمل پیرا ہونے میں ہی ہماری کامیابی ہے اور یہی اسلامی تعلیمات ہیں۔

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

 ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا

 تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com