شمس تبریز قاسمی
مکرانہ صوبہ راجستھان میں واقع ایک تحصیل کا نام ہے جو دنیا بھر میں ماربل سٹی کے نام سے مشہور ہے، تقریباً دو لاکھ پچاس ہزار سے زائد یہاں کی کل آبادی ہے جن میں اکثریت مسلمانوں کی ہے، ناگور ضلع میں یہ واقع ہے، 136 گاؤں اس کے تحت آتے ہیں، کشن گڑھ ریلوے اسٹیشن سے 50 کے کیلو میٹر کے فاصلے پر ہے وہاں سے اجمیر شریف بھی قریب ہے جس کی دوری تقریباً 60 کیلو میٹر ہے، بلند پہاڑوں اور چٹانوں کے درمیان یہ شہر گھرا ہواہے، زمینیں بھی پتھریلی اور پہاڑی ہیں، ہریالی اور سبزی کا یہاں اُگنا تقریباً ناممکن ہے، پانی کیلئے کنویں کھودے جاتے ہیں، نل اور ٹیوب یہاں تقریباً ندارد ہیں۔
سولہویں صدی میں یہاں ماربل اور وہاہٹ پتھروں کی دریافت ہوئی، پتھروں کی کان کو استعمال میں لانے، نقش و نگار کرنے اور اس خزانہ سے استفادہ کرنے کیلئے شاہ جہاں نے افغانستان، ایران سمیت کئی ملکوں سے پتھر کے ماہرین کو بلاکر یہاں آباد کیا اور ان کے حوالے یہ قصبہ کردیا، کہا جاتاہے کہ تقریباً 1800 فنکاروں کو مذکورہ ممالک سے مدعو کرکے شاہ جہاں نے آباد کیا تھا اور خزانہ ان کے سپرد کیا تھا انہیں فنکاروں نے پتھروں کو تراش کرکے دنیا کے ساتویں عجوبہ اور محبت کی علامت تاج محل کی تعمیر کی۔
یہاں کے پہاڑوں اور زمینوں کے تمام تر پتھر بیحد قیمتی ہیں، دنیا بھر میں یہاں سے پتھروں کی سپلائی ہوتی ہے، اعلی کوالیٹی سے لیکر گھٹیا کوالیٹی کے پتھر بھی مل جاتے ہیں، کیران اور جدید مشینوں کے ذریعہ کان سے پتھروں کو نکالا جاتا ہے، مختلف مشینوں کے ذریعہ ان پتھروں کو تراشا جاتا ہے، سنوارا اور خوبصورت بنایا جاتا ہے اور پھر مارکیٹ میں پیش کیا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہاں ایک ہزار فیکٹریاں ہیں، ایک لاکھ سے زائد ملازمین کام کرتے ہیں، سالانہ یہاں 20 ملین ٹن پتھر برآمد ہوتے ہیں جس کی آمدنی 10036 کڑور ہوتی ہے۔اوسطاً یہاں کے ایک شخص کی سالانہ آمدنی 50 ہزار ہندوستانی روپے ہے جو قومی اوسط کے مقابلے میں زیادہ ہے کیوں کہ قومی سطح پر ایک ہندوستانی کی سالانہ آمدنی 46 ہزار روپے ہوتی ہے، اس کے علاوہ یہ راجستھان کی سب سے مالدار تحصیل مانی جاتی ہے۔
ان پتھروں کا استعمال مسجد، مندر، گرجا گھر، گردوارا اور دیگر مذہبی عبادت گاہوں کے ساتھ مکانات میوزم، مدارس، آفس سمیت تقریباً ہر طرح کی عمارتوں میں کیا جاتا ہے، تاج محل کی تعمیر یہیں سے دستیاب پتھروں سے ہوئی تھی، لال قلعہ کے احاطے میں موتی کی مسجد کی تعمیر بھی یہیں کے پتھروں سے ہوئی، کولکاتا میں واقع وکٹوریہ محل، افغانستان کی قدیم پارلیمنٹ، محمد علی جناح کے مقبرہ، میسور میں واقع جین مندر، لکھنوء میں واقع امبیڈکر پارک،جسونت تھاڈا جودھپور وغیرہ کی تعمیر بھی یہیں کے پتھروں سے ہوئی ہے۔ ابوظہبی میں واقع دنیا کی خوبصورت ترین اور عظیم مسجد جامع شیخ زائد النہیان کی تعمیر بھی مکرانہ کے ہی پتھروں سے ہوئی ہے، ایشیا کی خوبصورت ترین مسجد جامع رشید میں بھی یہیں کے پتھروں کا استعمال کیا گیا ہے، بہار کی معروف درس گاہ جامعۃ القاسم دارالعلوم الاسلامیہ کی مسجد جامع الامام محمد قاسم الناناتوی کی تعمیر بھی یہیں کے پتھروں سے ہور ہی ہے۔
مغل حکمراں شاہ جہاں نے یہ خزانہ مسلمانوں کے حوالے کردیا لیکن افسوس کہ مسلمان شاہ جہاں کی دی ہوئی اس وراثت کو سنبھالنے میں ناکام رہے اور رفتہ رفتہ ان سے خزانہ چھننے لگا، صورت حال یہاں تک پہونچ گئی ہے کہ جس ماربل سٹی کے مسلمان بلاشرکت غیر مالک تھے، آج وہاں پچاس فیصد سے زائد کے حصے پر غیر مسلموں کا قبضہ ہوچکا ہے، تعداد میں کم ہونے کے باوجود وہ تجارت کے بڑے حصے پر قابض ہوچکے ہیں، تقریباً پانچ سو سے زائد فیکٹریوں کے مالک اب غیر مسلم ہیں اور مسلمانوں سے زیادہ خرید و فروخت غیر مسلموں کی فیکٹری سے ہونے لگی ہے۔
12 فروری 2017 کو اسی ماربل سٹی مکرانہ جانے کا اتفاق ہوا، وہاں ہر طرف پتھرہی پتھر نظر آئے، لائن سے فیکٹریاں اور دکانیں تھیں، سفید پتھروں کی کثرت تھی، ہر کوالیٹی کے ماربل دکانوں پر رکھے ہوئے تھے، کسی پتھر کی قیمت پانچ ہزار روپے فٹ تھی تو اسی طرح اتنے پتھر کی قیمت پانچ سو روپے بھی، مشینوں کے ذریعہ پتھروں کو تراشا جارہا تھا، کانوں سے پتھر نکالے جارہے تھے، عوام کی کوئی زیادہ بھیڑ وہاں نہیں تھی، لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے، آرٹسٹ بہت ہی محنت سے پتھروں کی تراش خراش کررہے تھے۔
مکرانہ سے تعلق رکھنے والے ہمارے ایک دوست محمد نظیر نے بتایا کہ مسلمان ستر فیصد سے زائد ہیں، پچاس سال قبل تک پتھروں کی تجارت کے وہ تن تنہا مالک تھے لیکن اب پچاس فیصد غیر مسلم بھی اس تجارت کو کرنے لگے ہیں، انہوں نے اپنی فیکٹریاں بنالی ہیں، جو غیر مسلم فیکٹریوں میں ملازم تھے اب وہ مالک بنے ہوئے ہیں، میں نے ان سے وجہ جاننے کی کوشش کی تو انہوں نے بتایاکہ یہ سب مسلمانوں کے خود کردہ اعمال کی سزا ہے، مسلمانوں نے اس دولت کی قدر نہیں کی، وہ عیش و عشرت کی زندگی بسر کرنے لگے، فیکٹریوں سے ان کی توجہ ہٹ گئی، فیکٹری کے تمام معاملات یہاں کے ملازمین دیکھنے لگے اور وہ خود صاحب فیکٹری مکرانہ چھوڑ کر ممبئی، دہلی یا پھر بیرون ملک جاکر رہائش پذیر ہوگئے، کبھی مہینے میں آکر فیکٹری کا جائزہ لیا، کبھی صرف فون کے ذریعہ خبر لی، بہت سارے یہاں رہ کر بھی فیکٹر ی میں نہیں آتے تھے، ان کے تمام کاموں کو ملازمین ہی دیکھتے تھے، چناں چہ جب ملازمین نے ان کاموں کا اچھا خاصا تجربہ حاصل کرلیا، خریداروں سے ان کے تعلقات بن گئے، مارکیٹ کی معلومات حاصل ہوگئی، توانہوں نے سوچاکہ جب پورا کام ہم خود کرتے ہیں تو اس سے بہتر ہوگا اپنی فیکٹری لگائی جائے اور دھیرے جو نوکر اور ملازم تھے مالک بننے لگے اور انہوں نے بڑی بڑی فیکٹریاں قائم کرلی۔
مکرانہ سفر کے دوران ہماری ملاقات ایک ایسے ہی غیر مسلم امریندر کمار سے ہوئی جو گذشتہ پندرہ سال قبل ایک فیکٹری میں ملازم تھے لیکن اب خود ایک بہت بڑی فیکٹری کے مالک ہیں تقریباً دس سے زائد ان کی دکانیں ہیں، ان کا شمار وہاں کے بڑے تاجروں میں ہوتاہے۔ زیادہ تر پتھروں کے غیر مسلم تاجر وہاں ایسے ہی ملے جو کسی نہ کسی مسلمان فیکٹری میں کام کررہے تھے اور اب اپنی محنت اور جدوجہد سے وہ ایک فیکٹری مالک بن چکے ہیں، دوسری طرف مسلمان زوال کی راہ پر آمادہ ہیں، بہت سی مسلمانوں کی فیکٹریاں بند ہوچکی ہیں، نئی فیکٹریاں مسلمانوں کی تقریباً نہیں کھل رہی ہیں، دیگر جگہوں کے طرح وہاں کے مسلمانوں کے بارے میں بھی اخلاقی شکایات پائی جانے لگی ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں سے زیادہ غیر مسلموں کی دکانوں اور فیکٹریوں کی جانب خریداروں کی توجہ ہوتی ہے۔
خلاصہ یہ کہ مکرانہ منفرد پتھر رکھنے کی وجہ سے پوری دنیا میں اپنا خصوصی مقام رکھتا ہے، یہاں کے پتھروں سے تاج محل کی ہونے والی تعمیر نے اس کی عظمت میں اضافہ کیا ہے، شاہ جہاں نے مسلمانوں کو وارث بناکر انہیں اقتصادی دولت سے ہم کنار کیا تھا لیکن اب یہاں کے مسلمان ان کی وراثت کو سنبھالنے میں ناکام ہوچکے ہیں، یہ دولت ان کے ہاتھوں سے چھنتی جارہی ہے، ان کے نوکر اب مالک بنتے جارہے ہیں لیکن یہ مسلمان ہیں جو پُرتعیش زندگی گزارنے میں لگے ہیں، اس عظیم دولت کی قدر کرنے کے بجائے بیجا اسراف اور فضول خرچی میں مصروف ہیں اور شاہ جہاں کی وراثت کی قدر کرنے کی کوئی فکر نہیں ہے، آنے والے ایام مکرانہ کے مسلمانوں کے لئے مزید بد تر ہوں گے اور اگر مسلمانوں نے اس کی قدر نہیں کی، اس جانب توجہ نہیں دی تو وہ دن دور نہیں جبکہ مسلمان بالکلیہ شاہ جہاں اس واراثت پر ملکیت کا حق کھو دیں گے۔
(مصنف ملت ٹائمز کے ایڈیٹر ہیں)