وادئ جن کی سیر

سہیل انجم

حج اور عمرہ کی تمنا کس مسلمان کے دل میں نہیں ہوگی۔ بہت سے صاحب استطاعت کم از کم ایک بار حج ضرور کرتے ہیں۔ جبکہ بہت سے لوگ کئی بار اور کئی ایسے بھی ملیں گے جو سال بہ سال حج کا فریضہ ادا کرتے ہیں۔ اسی طرح عمرہ کا فریضہ انجام دینے والوں کی بھی کمی نہیں ہے۔ اللہ تعالی نے جن لوگوں کو استطاعت اور اس کے ساتھ ساتھ جذبہ بھی دیا ہے وہ عمرہ کی ادائیگی بھی کرتے ہیں۔ جو ایک بار اس مقدس سرزمین کی زیارت کر لیتا ہے اس کا دل وہاں بار بار جانے کو چاہتا ہے۔ اس سرزمین میں ایسی کشش ہے کہ جس مسلمان کے دل میں ایمان کی ذرا بھی رمق ہوگی وہ موقعے سے چوکے گا نہیں، فائدہ ضرور اٹھائے گا۔ خاکسار نے دس سال قبل حج کیا تھا۔ اس کے بعد سے ہی اس کے دل میں یہ تمنا رہی کہ اس مقدس سرزمین کی پھر زیارت کی جائے۔ اس نے حج کا سفرنامہ بھی تحریر کیا اور اس کا نام رکھا ’’پھر سوئے حرم لے چل‘‘۔ یہ ایک دعائیہ نام ہے۔ خدا کی قدرت دیکھیے کہ یہ دعا قبول ہوئی اور میں گزشتہ دنوں ایک بار پھر اس سرزمین کی زیارت سے فیضیاب ہوا۔ میں نے اپنی اہلیہ کے ساتھ عمرہ کی ادائیگی کے لیے حرمین کا سفر کیا اور انتہائی ایمانی لذتوں سے سرافراز ہوا۔
حج اور عمرہ کے لیے جانے والے حضرات وہاں کے دیگر تاریخی اور مقدس مقامات کی بھی زیارت کرتے ہیں۔ بلکہ عمرہ پر لے جانے والے ٹور آپریٹرس پیکج میں زیارت کو بھی شامل کرتے ہیں۔ وہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے اہم مقامات پر زائرین کو لے جاتے ہیں۔ ان کے ساتھ انھی کی زبان میں تفصیلات بتانے والا ایک گائڈ بھی ہوتا ہے جو بس کے چلنے کے ساتھ ہی بولنا شروع کرتا ہے اور سفر کے اختتام پر چپ ہوتا ہے۔ وہ تاریخی مقامات کے بارے میں بہت کچھ بتاتا ہے جن میں کچھ حقائق ہوتے ہیں اور کچھ سنی سنائی باتیں ہوتی ہیں۔ مجھے بھی دونوں مقدس شہروں کے تاریخی مقامات کو دیکھنے کا شوق تھا جسے اللہ تعالی نے پورا کرایا۔ لیکن میں یہاں تمام مقامات کے بارے میں کچھ بتانے کے بجائے صرف ایک مقام پر ہونے والے تجربے میں قارئین کو شامل کرنا چاہتا ہوں۔ وہ حیرت انگیز مقام ’وادئ جن‘ کہلاتا ہے۔ وہ مدینہ منورہ سے ۳۵ کلومیٹر شمال مغرب میں ہے۔ اس وادی تک جانے کے لیے جبل احد سے گزرنا پڑتا ہے۔ جبل احد غالباً مدینہ کا سب سے بڑا پہاڑ ہے۔ گاڑی سے کم از کم دس پندرہ منٹ تک اس کے دامن میں چلنا پڑتا ہے۔ اس کے بعد پرانی اشیاء کا ایک بہت بڑا مارکیٹ آتا ہے۔ اسے کباڑی بازار کہہ سکتے ہیں۔ یہاں نئے اور پرانے ہر قسم کے سامان انتہائی سستی قیمت پر دستیاب ہوتے ہیں۔ اس بازار سے گزرنے کے بعد کھجوروں کے باغات پڑتے ہیں۔ انھیں میں ایک باغ حضرت زبیر بن عوّام کا بھی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک بار حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دعا کی تھی جس کے بعد صرف انھی کے باغ پر بارش ہوئی تھی۔ اس واقعہ کی یادگار کو قائم رکھنے کے لیے باغ کے کنارے لب سڑک ایک مسجد تعمیر کر دی گئی ہے۔ یہاں سے کچھ دور آگے بڑھیے تو ایک چھوٹا سا تالاب پڑتا ہے۔ اس کے آگے ایک اور تالاب ہے جو قدرے بڑا ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ اس سنگلاخ سرزمین پر دو دو تالاب کیسے بن گئے۔ ہم نے بڑے تالاب کے پاس گاڑی رکوائی اور اس کے ساحل پر جاکر بغور اسے دیکھا۔ ایسا لگا کہ وہ گہرا نہیں ہے۔ چھچھلا سا ہے۔ البتہ اس کے کناروں پر اور کچھ اس کے اندر بھی جھاڑ جھنکھاڑ سے اُگ آئے ہیں۔ ان دونوں تالابوں کے بعد وہ پراسرار ’وادئ جن‘ شروع ہو جاتی ہے جس کے بارے میں متعدد کہانیاں مشہور ہیں۔ یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ اب ٹور آپریٹرس معتمرین کو اس وادی تک نہیں لے جاتے۔ کہا جاتا ہے کہ حکومت نے اس پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں پہنچ کر بہت سے لوگ بدعات و خرافات میں مصروف ہو جاتے تھے۔ البتہ لوگ پرائیوٹ گاڑیوں سے جاتے ہیں۔ ہم اپنے ایک عزیز مولانا محمد شعیب کے یہاں جو کہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں زیر تعلیم ہیں اور اپنی فیملی کے ساتھ وہاں رہتے ہیں، قیام پذیر تھے۔ انھوں نے ہی وادی جن کی زیارت کا پلان بنایا اور ایک گاڑی کرائے پر حاصل کی جسے ہمارے ایک دوسرے ہم وطن شاہ فیصل ڈرائیو کر رہے تھے۔ وہ بھی مدینہ میں رہتے ہیں۔ بہر حال ہم مذکورہ دونوں تالابوں سے گزرتے ہوئے اس وادی میں داخل ہو گئے۔ تالابوں کے پاس سے ہی ہلکی سی ڈھلان شروع ہو جاتی ہے جو وادی کے عین وسط میں جاکر ختم ہوتی ہے۔ سڑک آگے تک گئی ہے اور وسطی حصے کے بعد ہلکی سی چڑھائی شروع ہو جاتی ہے۔ بس یہی علاقہ زائرین کی دلچسپی کا مرکز ہے۔ مقامی اور غیر مقامی افراد یہاں آتے ہیں اور شام کے وقت پکنک کا سماں ہوتا ہے۔ کوئی خاندان کہیں چادر بچھائے بیٹھا ہے تو کوئی کہیں چٹائی بچھائے اپنی سرگرمیوں میں مصروف ہے۔ ہم چونکہ دوپہر کے وقت پہنچے تھے اس لیے بس چند گاڑیاں ہی تھیں۔ البتہ سڑک کی دونوں طرف آئس کریم کی گاڑیاں کھڑی تھیں۔ اس وادی کے بارے میں مشہور ہے کہ یہاں جن آباد ہیں۔ یہاں گاڑی کے انجن کو بند کرکے چھوڑ دیجیے تو گاڑی الٹی جانب جو کہ چڑھائی پر ہے اپنے آپ چلنے لگتی ہے اور اگر آپ گاڑی کا رخ موڑ کر جدھر سے آئے ہیں ادھر کر لیجیے تو گاڑی ازخود سو سوا سو کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے لگتی ہے۔ ہم نے بھی یہ تجربہ کیا۔ جب ہم وہاں پہنچے تو ایک شخص جو کہ فیملی سے آیا ہوا تھا وسطی حصے پر پانی گرا رہا تھا۔ یہ دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی کہ پانی نشیب کی طرف جانے کے بجائے چڑھائی کی طرف جا رہا ہے۔ ہمارے ڈرائیور شاہ فیصل نے کہا کہ میں آپ کو دکھاتا ہوں کہ ہماری گاڑی کس طرح پیچھے کی جانب چڑھائی پر اپنے آپ چڑھتی ہے۔ ہم گاڑی میں بیٹھے رہے۔ انھوں نے انجن بند کر کے اسے نیوٹرل میں ڈال دیا۔ پھر کیا دیکھتے ہیں کہ واقعی گاڑی پیچھے کی طرف رینگنے لگی ہے۔ بہر حال کچھ دیر کے بعد ہم لوگوں نے واپسی کا قصد کیا۔ جب ہماری گاڑی یو ٹرن لے کر واپس جانے کو تیار ہوئی تو اس کے انجن کو بند کر دیا گیا۔ ڈرائیور نے دونوں پیر اپنی طرف سمیٹ لیے اور صرف اسٹیئرنگ کو سنبھالے رکھا۔ ہم نے دیکھا کہ گاڑی نے رینگنا شروع کیا اور رفتہ رفتہ اس کی اسپیڈ بڑھنے لگی جو بڑھ کر ایک سو بیس کلو میٹر فی گھنٹہ تک پہنچ گئی۔ یہ سلسلہ چودہ پندرہ کلومیٹر تک جاری رہتا ہے۔ اس بارے میں جیسا کہ بتایا گیا بہت سی کہانیاں مشہور ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ جن حضرات نہیں چاہتے کہ یہاں انسان آئیں اور ٹھہریں۔ اسی لیے وہ گاڑیوں کو دھکہ دے کر مدینہ کی طرف پہنچا دیتے ہیں۔ یہ وادی ایک پیالے کی طرح ہے اور جہاں پراسرار واقعہ انجام پاتا ہے وہ اس کی مرکزی جگہ ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ وادی انڈے کی شکل میں ہے۔ اسی لیے اس کا اصل نام وادی بیضہ ہے۔ لیکن ہندوستانیوں اور پاکستانیوں نے اس کا نام وادی جن رکھ دیا ہے اور اب یہ وادی اسی نام سے مشہور ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر گاڑیاں از خود کیسے چلنے لگتی ہیں۔ کیا واقعی جن انھیں دھکیلتے ہیں۔ اس سلسلے میں ماہرین ارضیات کا کہنا ہے کہ اس کا جنوں سے کوئی تعلق نہیں۔ بلکہ یہاں کشش ثقل اس انداز کی ہے کہ گاڑی چڑھائی کی طرف اپنے آپ بڑھنے لگتی ہے۔ در اصل یہاں مقناطیسی پہاڑ (Magnetic Hills) ہیں۔ ان پہاڑوں کو گریویٹی ہلز Gravity Hills بھی کہا جاتا ہے۔ یہی وہ سیاہی مائل پہاڑ ہیں جو نظروں کو دھوکے میں ڈالتے ہیں۔ اسی کی وجہہ سے ’التباس بصارت‘پیدا ہوتی ہے۔ اس کو انگریزی میں Optical illusion کہا جاتا ہے۔ فارسی میں اسے خطائے دید کہتے ہیں۔ یعنی ان پہاڑوں کی مقناطیسیت کے باعث اشیاء اپنی حقیقی صورت میں نظر نہیں آتیں اور وہ علاقہ انسانوں میں فریبِ نظر پیدا کر دیتا ہے۔ نظروں کو فریب دینے والے یہ پہاڑ صرف وادی جن ہی میں نہیں ہیں بلکہ دنیا کے بہت سارے مقامات پر موجود ہیں۔ خود ہندوستان کے دو علاقوں میں ایسے پہاڑ ہیں۔ ایک لیہہ سے تقریباً ۵۰ کلو میٹر دور سمندر سے گیارہ ہزار فٹ کی اونچائی پر موجود لیہہ کارگل سری نگر ہائی وے پر ہے اور دوسرا گجرات کے علاقہ تلسی شیام ضلع امریلی میں ہے۔یہ پہاڑ نظروں کو فریب میں مبتلا کردیتے ہیں اور سڑک کی ڈھلان کو اونچائی ظاہر کرتے ہیں۔ وادئ جن کا بھی یہی معاملہ ہے۔ لیکن کمزور عقائد کے لوگوں نے اسے جنوں سے وابستہ کرکے بہت سی کہانیاں مشہور کر دی ہیں۔
sanjumdelhi@gmail.com

SHARE