سیمیں کرن
یہ خاتون میرے گھر کے قریب ہی رہتی ہیں ، شاید کسی مدرسے سے وابستہ بھی رہی ہوں، اکثر اوقات محافل، میلاد اور گھروں میں رکھے درس پہ خطیبہ کے فرائض فی سبیل اللہ ہی انجام دیتی نظر آتی ہیں ! اپنے گھر میں بھی حسب توفیق اسی قسم کی محافل کا انتظام کر لیتی ہیں !
اس دن مجھے ملیں تو کہنے لگیں ، درس وغیرہ کا سلسلہ تو کبھی کبھار ہی ہوتا ہے ، پھر جو فارغ وقت بچ جاتا ہے گھر کے کاموں سے ، میں تو یا سو جاتی ہوں یا پھر محلے میں اپنی قریبی دوستوں سہیلیوں کے گھر نکل جاتی ہوں جہاں فارغ وقت گپ شپ میں اچھا گزر جاتا ہے!
میں اپنے اردگرد بہت سی خواتین کو دیکھتی ہوں جو بچوں کے سکول جانے کے بعد اسی مسئلے کا شکار ہیں ! دنیا اک مکمل نئے عہد میں داخل ہو چکی ہے ! اس کی روایات و ضروریات بھی بدل چکی ہیں بلکہ اس کے اس عہد کے انسانوں بالخصوص خواتین کے معمولات میں ایک ایسا بدلاؤ آیا ہے جس کو دیکھ کر جان کر بھی ہم شعوری طور پر شاید اس کا ادراک نہیں کر رہے !
اس عہد میں راتیں جاگتی ہیں اور دن سوتے ہیں !
خاص طور پر شہروں میں …. اور شہروں کے پاس ہونے والے قصبوں اور گاؤں میں بھی کیبل و نیٹ نے رات کو بہت جاگنے والا کر دیا ہے !خواتین بچوں سے فارغ ہو کر یا تو سو جاتی ہیں یا پھر گھر کے معمولات سے فارغ ہو کر ٹی وی کے آگے ہوتی ہیں یا پھر اس سوال کے ساتھ کہ اس بہت سارے وقت کو کیسے کاٹا یا قتل کیا جائے ؟ ان کے پاس پھر یہی آخری راستہ ہوتا ہے کہ وہ شاپنگ پہ نکل جائیں ، اپنی ہستی و حیثیت کے مطابق شام کی کسی ٹی پارٹی کا انتظام کر لیں ، کسی سہیلی کو بلا لیں یا خود چلی جائیں !
زندگی مشینوں کی سہولیات سے مزین ، غذا کے نا خالص پن سے مکمل طور پر بدل چکی ہے۔ اک عام سے اوسط درجے کے گھرانے کے پاس بھی صفائی ستھرائی اور کپڑے دھونے جیسے کاموں کے لیے ماسی کی سہولت دستیاب ہے – براہ مہربانی آپ یہ مت سمجھئے ، یہ سمجھنے کی غلطی ہرگز مت کیجئے کہ میں عورت کو دوبارہ ” ماسی” کے روپ میں دیکھنے کی متمنی ہوں – اگر آپ ایسا سمجھتے ہیں تو اس حماقت کے آپ خود ذمہ دار ہیں کیونکہ مجھے اپنے پیروں پہ کلہاڑی مارنے کا ہرگز کوئی شوق نہیں بلکہ میں آپ کی توجہ کسی اور امر کی جانب دلوانا چاہتی ہوں ! میں اپنے بچپن میں دیکھتی ہوں تو مجھے اپنی ماں صبح سے گھر کے ہر کام میں الجھی ، بدحال ماسی کی طرح زندگی گزارتی نظر آتی ہے۔ وہ گھر بھر کی درزن بھی ہے ، باورچن بھی ہے ، دھوبن بھی ، صفائی ستھرائی سے لے کر گھر کے تمام امور اس کے ناتوان کندھوں پہ تھے – وہ صرف معاشرے کی ارزانی کا شکار تھی ورنہ وہ ایک کل وقتی مزدور تھی آج کی متوسط طبقے کی عورت ….. خاص طور پر اپر مڈل کلاس کی عورت بہر حال کل وقتی مزدور نہیں، بدلتے تقاضوں نے اس کے کردار کو بدلا ہے یا سماجی در آتی تبدیلیوں نے اس کو شعور بخشا ہے، اب وہ محض مزدور کا چولا پہننے کو تیار نہیں ہے، اسے اپنی آسائش و آرائش دونوں کا ادراک ہے آج وہ اپنے کندھوں تک آتی اپنی بیٹی کے ساتھ چلتی ہے تو اس کی سہیلی لگتی ہے۔
یہاں اک پل کو پھر ٹھہر جائیے – یہاں اس منظر نامے کی عورت مڈل کلاس ، اپر مڈل کلاس اور پھر ایلیٹ کلاس کی عورت ہے – لوئر مڈل کلاس اور غریب طبقے کی عورت آج بھی مزدور ہے، پیداواری صلاحیتوں سے مالا مال ہی نہیں ہے بلکہ پیداواری طبقے کا حصہ ہے جبکہ مذکورہ بالا طبقات کی خواتین نے اپنے اجتماعی شعور و حالت کو تو بہتر کیا ،اپنے وجود کا ادراک کر کے اپنی بود و باش کو بدلنے میں کامیابی حاصل کی، مگر آج کے مارکیٹنگ کے دور میں وہ محض ایک صارف بن کر رہ گئی ہے – مارکیٹ میں اس کی آرائش و زیبائش سے لے کر اس کی ذہنی تفریح کے لیے بہت سا مواد موجود ہے جس کو خریدنے ، اس پہ توجہ دینے کے لیے اس کے پاس سب سے بڑی آسائش وقت کی ہے – بدلتے منظر نامے اور تعلیم و آگہی نے اس کے رہن سہن میں تبدیلی برپا کر کے اسے اسکے وجود کا احساس تو دلایا ہے اسے یہ احساس ہوا ہے کہ اس کو اپنے وجود کو آسائش اور سہولت دیتی ہے !
مگر بہت معذرت کے ساتھ یہ بیداری بس جزوی ہے کُلی نہیں – اس کے بدلتے منظر نامے نے اسے محض صارف تک محدود رکھا ہے اور اس کی حقیقی ترقی اس شعور میں پوشیدہ ہے کہ وہ پیداواری طبقے میں پورے وقار کے ساتھ کھڑی ہو کیونکہ وہ قدرت و فطرت کی جانب سے بہترین پروڈیوسر کے طور پہ خلق کی گئی ہے – زراعتی دور کی ابتدا میں بیج بونے کا کام خواتین کے سپرد تھا اور اس سے وابستہ متھ یہ تھی کہ وہ جو بیج بوئے گی اس سے زیادہ بالیاں اگیں گی – لیکن آج کی تعلیم یافتہ خواتین اور حتیٰ کہ نئی نسل کی بچیوں میں بھی شعور کی یہ رو کافی حد تک منقود ہے ، وہ کام کرتی ہیں ، ہر طرح کے پیشے اور شعبہ جات میں آپ کو خواتین ملیں گی ….!!
مگر یہ ملازمت کسی بہ امر مجبوری ہوگی ، گھریلو حالات نے مجبور کر دیا ہوگا تو وہ خواتین میدان عمل میں آ گئیں ور اگر حالات سازگار ہو جائیں تو وہ خواتین گھر میں بیٹھنے کو نہ صرف خود ترجیح دیتی ہیں بلکہ ان کے لواحقین کا بھی یہ ہی تقاضا ہوتا ہے – کیا یہ اس پدرسری معاشرے کی دو رُخی ، دوغلی پالیسی نہیں کہ عورت کا کام ، اس کی صلاحیت ، اس کا کیرئیر صرف اس کی ضرورت کے تحت جائز ہے ؟ ورنہ معاشرہ اس میں یہ شعور و آگاہی نہ تو پیدا کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے کہ وہ اپنی فطری پیداواری صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر معاشرے کا باوقار و فعال رکن بن سکے حتیٰ کہ وہ بچیاں جو کہ پروفیشنل تعلیم پا رہی ہیں ، میڈیکل کالجز ، انجینئرنگ یونیورسٹیز و دیگر شعبہ جات کی بچیاں تو ان کی گفتگو کسی بھی قسم کے عزم سے خالی ہوتی ہے ۔یشتر والدین کی ان کالجز میں بھیجنے کی بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ لڑکیوں کو اس طرح اچھا رشتہ مل جاتا ہے -یہ عمل مجھے ایسے ہی لگتا ہے کہ جیسے کسی پراڈکٹ پہ قیمتی لیبل لگا کر اسے بہتر داموں میں فروخت کرنے کی کوشش ہو – آج کی عورت جو کہ اس عہد میں صارف ہے ، مارکیٹنگ کی دنیا کی نگاہیں اس کی پسند اور ترجیح پرہیں مگر پھربھی وہ مرد کے ہاتھوں میں کھلونا ہے !
اس کی وجہ اسی شعور کی کمی ہے جو عورت کو یہ بتانے کی کوشش نہیں کرتا کہ اس کی ذات ایک مکمل وجود ہے ، وہ ایک ایسا صارف ہے جو آرائش و زیبائش کی ہر اس شے پہ متوجہ ہے جو اسے مرد کی نگاہ میں خوبصورت بنا سکے یہ رویہ اس کو خود اس کی نظر میں ایک کھلونا بنا دیتا ہے وہیں موجودہ نظام تعلیم و سماجی قدریں اسے ، اسکے لواحقین میں یہ شعور بیدار کرنے کی کوشش نہیں کر رہی کہ اس کا کام ، اس کی پیداواری صلاحیتیں بہ امر مجبوری نہیں بلکہ اس معاشرے کی ترقی کے لیے اتنی ہی ضروری ہیں جتنا کہ کسی مرد کی معاشرے کو مسز کمشنر ، مسز ایس پی اور مسز ڈی ایس پی یا مسز ڈاکٹر کی بجائے ایسے فرد چاہیں بطور عورت جو خود یہ عہدے اپنے زور بازو ، قوت و ذہانت سے حاصل کر سکیں۔ اس دور کے مذکورہ بالا طبقات کی خواتین کا یہ المیہ ہے کہ وہ خود کو محض جسم کی قید میں دیکھ کر قانع ہیں جبکہ اس سے بڑا امتحان اور میدان کار زار ان کے لیے یہ ہے کہ وہ خود کو بطور دماغ تسلیم کروائیں اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ہم خواتین کی پیداواری صلاحیتوں کے بھرپور استعمال کے لیے مواقع اور سہولت فراہم کریں !۔
میں اپنے اردگرد ایسی بے شمار خواتین کو دیکھتی ہوں ، کوئی تدریسی صلاحیتوں سے مالا مال ہے ، کسی میں کاروبار کی قدرتی صلاحیتیں ہیں ، اک فیشن ڈیزائنر ہے جو اعلیٰ ادارے سے فارغ التحصیل ہے ، کچھ مختلف پروفیشنل تعلیم لے کر گھر میں خود کو ضائع کر رہی ہیں اور اس سوال و مسئلے سے دوچار ہیں کہ اس بچ جانے والے وقت کو جو گھریلو اکتا دینے والی دائرے میں گھومتی ذمی داریوں کی فراغت کے بعد بچتا ہے ، اسے کیسے صرف کیا جائے ؟ اس کا حل پھر ان کے پاس پارٹیز اور شاپنگ کے سوا کچھ نہیں ….. آپ اس کار بے مصرف پہ استہزا کی ہنسی اڑانے کے حقدار بھی نہیں صاحب کیونکہ وجودی رائیگانی واویلا تو کرے گی ۔۔۔۔۔ اس عہد کی عورت گر شعوری طور پہ آگاہ نہیں مگر اس کا لا شعور جانتا ہے کہ اس کا وجود ضائع کیا جا رہا ہے ، سو شور تو ہوگا ، اس کو اس گھر میں ، اس اپنے محدود دائرے میں اپنے وجود کی اہمیت منوانی ہے !
سو وہ گھریلو سیاست ہو ، دعوت میں ہوں یا خریداری کا میدان وہ انہی میں اپنی سب صلاحیتیں کھپا کر آج کے مرد کے لیے معاش و زندگی کے دائرے کو مزید پیچیدہ بنا دیتی ہے مرد محسوس کرتا ہے کہ زندگی اس کی گردن کے گرد پھندے کی طرح تنگ ہو رہی ہے ، اس کی محنت و آمدن نا کافی و بے برکت ٹھہرتی ہے مگر ایسا تو ہوگا نہ ! جو پھندا اس پدرسری معاشرے نے عورت کے لیے بُنا تھا کیسے ممکن تھا کہ آخر میں وہ مرد کے گرد دائرہ تنگ نہ کرتا ؟ !جس گاڑی کا ایک پہیہ کمزور کر دیا جائے یا جان بوجھ کر اس کو پوری قوت سے سڑک پر دوڑنے نہ دیا جائے تو لا محالہ سارا وزن دوسرے پہیے پہ ہی آئے گا ناں؟!
اپنے اِرد گرد نگاہ ڈالیے ، اک بہت بڑی افرادی قوت آپ کو یونہی بے کار میں زندگی گزارتے نظر آئے گی اور یہی اس عہد کی متوسط و اعلیٰ طبقے کی عورت کے لیے چیلنج بھی ہے کہ وہ اپنے آپ کو بحثیت ایک انسان و ایک مرد کے پہچانے !!!