پس آئینہ :شمس تبریز قاسمی
کناڈا شمالی امریکہ میں واقع رقبہ کے اعتبار سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک کہلاتاہے، براعظم شمالی امریکا کے بڑے حصے پر محیط ہے، بحر اوقیانوس سے لے کر بحر منجمد شمالی تک پھیلا ہوا ہے، زمینی سرحدیں امریکہ کے ساتھ جنوب اور شمال مغرب کی طرف سے ملتی ہیں،9984670کیلومیٹر اور 3855100مربع کیلومیٹر پر پورے ملک کا رقبہ مشتمل ہے ۔کناڈ کی کل آبادی 35151728 ہے جس میں 1053945 مسلمان بھی شامل ہیں ، 2011 کی مردم شماری کے مطابق کناڈا میں 67 فیصد عیسائی ہیں،3.4 فیصد مسلمان ہیں،ایک فیصد ہندو اور ایک فیصد سکھ ہیں اس کے علاوہ تقریبا 23 فیصد لادین ہیں کناڈا کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے اور دنیا کے قدیم ترین ملکوں میں یہ بھی شامل ہے ، آثارِ قدیمہ کی تحقیقات کے مطابق شمالی علاقے یوکون میں انسانی موجودگی 26000 سال پہلے تھی جبکہ جنوبی علاقے اونٹاریو میں 9500 سال قبل انسانی آبادی کے آثار پائے گئے ہیں، ویکی پیڈیا کے مطابق وائکنگ یعنی بحری قزاق یہاں کرکا کے مقام پر 1000عیسوی میں باقاعدہ آباد ہوئے جس کے بعد یورپی اقوام کے آنے کا سلسلہ شروع ہوا ، اس کے بعدکناڈا کے سرحد پر واقع بحر اوقیانوس کی تلاش کیلئے آنے والے یورپین میں جان کابوت کانام سرفہرست ہے جو 1497 میں آئے اور مارٹن فروبشر 1576 میں برطانیہ کی طرف سے بھیجے گئے۔ فرانس کی طرف سے جیکوئس کارٹیئر 1534 میں اور ڈی چیمپلیئن 1603 میں آئے۔ پہلی باقاعدہ یورپی آبادکاری کا آغاز فرانسیسیوں نے پورٹ رائل میں1605 میں اور کیوبیک سٹی میں 1608 میں کیا۔ برطانوی آبادکاری کا آغاز نیو فاؤنڈ لینڈ میں 1610 میں ہوا۔سترہویں صدی کا بیشتر حصہ برطانوی اور فرانسیسی کالونیوں نے ایک دوسرے سے الگ تھلگ رہ کر گزارا۔ فرانسیسی کالونی مکمل طور پر دریائے سینٹ لارنس کی وادی میں محدود رہی اور برطانوی تیرہ کالونیوں سے لے کر جنوب تک آباد رہے۔ تاہم جوں جوں علاقے، سمندری حدود، سمور اور مچھلیوں کی کمی ہوتی گئی، فرانسیسیوں، برطانیوں اور ساحلی قبائل کے درمیان جنگیں چھڑتی گئیں۔ 1689 سے 1763کے دوران چار جنگیں لڑئی گئیں۔1763کے معاہدہ فرانس کی شرائط کے تحت فرانس کے وہ سارے علاقے جو شمالی امریکا میں دریائے مسیسیپی کے مشرقی علاقے برطانیہ کے قبضے میں آگئے،اس طرح برطانیہ کی طاقت بڑھتی رہی ہے اور رفتہ رفتہ پورے ملک پر برطانوی قابض ہوگئے ،کیتھولک عیسائیوں کو خوش کرنے اور انہیں بغاوت سے روکنے کیلئے برطانیہ نے کئی اقدامات اپنی پالیسی کے خلاف بھی کئے، رومن کیتھولک سے نمٹنے کے لیے برطانیہ نے 1774 میں ایک نیا ایکٹ بھی منظور کیا جسے کیوبیک ایکٹ کانام دیا گیا۔ اس نئے ایکٹ کے تحت کیوبیک کے مقبوضہ علاقے میں فرانسیسی زبان، کیتھولک عقائد اور فرانسیسی شہری قوانین کو نافذ کیا گیا،1987 میں ایک نیار یفرینڈم پاس کرکے ملک کو برطانیہ سے من وجہ آزاد کرایا گیا اور 1982 میں کناڈا کے آئین کو برطانیہ کے آئین سے علاحدہ کیا گیا تاہم اب بھی وہاں ملکہ الزبتھ کے ساتھ آئینی بادشاہت کا نظام قائم ہے جو کینیڈا کے سربراہ مملکت کا فریضہ سر انجام دیتی ہیں ۔
کناڈا کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہونے کے باوجود وہاں اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں ہے اور ایسا لگتاہے کہ اس خطے میں بہت تاخیر سے اسلام پہونچا ہے ،گوگل پر دستیاب معلومات کے مطابق 1871 کی مردم شماری میں وہاں صرف 13یورپی النسل مسلمان پائے گئے تھے،1901 اعداد و شمارکے مطابق 300 سے 400 مسلمان کناڈا میں آباد تھے جو عرب اور تک تارکین تھے،مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھ کر کناڈا کی نئی حکومت نے تارکین کی آمد پر پابندی لگا دی جس سے سال 1911 سے 1915 تک کناڈا میں مسلمانوں کی تعداد کم ہو گئی ،1951 میں مسلمانوں کی تعداد 1800 تھی جبکہ 1971 میں یہ 5800 تک پہنچ گئی اس کے بعد 1981 کے اندازے کے مطابق ملک 98000 مسلمان ہو چکے تھے۔1991 میں ملک میں 253،265 تک پہنچ گئی۔ 2001 میں کینیڈا 579000 مسلمان تھے ،2006 کے تخمینہ آبادی میں یہ تعداد آٹھ لاکھ تک پہنچ گئی اور 2011 کی مردم شماری کے مطابق مسلمانوں کی تعداد دس لاکھ سے زائد ہوچکی ہے ،ان دنوں مسلمانوں وہاں کی سب سے بڑی اقلیت ہیں،انٹاریواور کیوبک جیسے صوبوں میں مسلمانوں کی تعداد سب سے زیادہ پائی جاتی ہے۔1934 میں سب سے پہلے وہاں ایک مسلم تنظیم قائی ہوئی تھی ، 1938 میں کناڈا میں پہلی مسجد تعمیر ہوئی اور 1983 میں سرزمین بہار سے تعلق رکھنے والے مولانا محمد مظہر عالم نے وہاں الراشد اسلامک انسٹی ٹیوٹ کے نام سے پہلا مدرسہ قائم کیا جس کا اسلامی تعلیمات کو عام کرنے اور صحیح افکار کو فروغ دینے میں نمایاں کردار ہے ۔
کناڈا میں مسلمانوں کو اکثریتی فرقہ کے ایک طبقہ کی جانب سے تشدد اور انتہا ء پسندی کا بھی بارہا سامناکرناپڑتاہے،اسلام پر عمل پیرامسلمانوں کو ناگوار سمجھاجاتاہے اور یہ کوشش کی جاتی ہے کہ کناڈا میں مسلمانوں کا اسلام سے حقیقی تعلق نہ رہے چناں چہ 2001 میں ایک ایسی ہی کوشش بہت تیزی کے ساتھ پروان چڑھی اوران ناپاک عزائم کو بروئے کارلانے کیلئے پاکستانی مفرور طارق فتح کی قیادت میں مسلم کنیڈین کانگریس کے نام سے ایک تنظیم بنائی گئی ،اس تنظیم نے شریعت سے مسلمانوں کا تعلق ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ،انٹوریومیں نافذ شریعت قانون کے نفاذ کی مخالفت کی ،ہم جنس پرستی کی حمایت کی ،مردوزن کے درمیان مساوات کی تحریک چھیڑکرکے خواتین سے نماز میں امامت کرائی ،اس تنظیم نے کناڈا کی دوسری مذہبی تنظیموں پر انتہاء پسندی اور تشدد کو فروغ دینا کا الزام لگاتے ہوئے انہیں ملنے والے چند پرحکومت سے پابندی عائد کرنے کا بھی مطالبہ کیا،ایم سی سی نے پردہ کے خلاف بھی ہرزہ سرائی کرائی،ایوان حکومت تک یہ پیغام پہونچایاکہ اسلام میں چہرے کا کوئی پردہ نہیں ہے، ایسے لباس جرائم کے وقوع کا سبب بنتے ہیں اور اس طرح 2011 میں یورپ کے دیگر ملکوں کی طرح کناڈا میں بھی پردہ پر پابندی عائد کردی گئی،ایم سی سی کی ناپاک کوششوں سے اسلام کے خلاف پیر و پیگنڈہ بہت تیز ہوگیا،نائن الیون کے واقعہ اور داعش جیسی دہشت گردتنظیموں کے بعد مسلمانوں کی شبیہ اور زیادہ خراب کردی گئی، کناڈاکے بیشتر علاقوں میں اسلام فوبیا کا سلسلہ شروع ہوگیا،گذشتہ سال کیوبا کی ایک مسجد میں دوران نماز فائرنگ کی گئی جس میں 6 نماز شہید ہوئے اور متعدد زخمی ہوئے ،شہر کی کئی دیگر مساجد پر بھی حملہ ہوا ۔
لیکن اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی اور شریعت سے مسلمانوں کا رشتہ ختم کرنے کی یہ سازش زیادہ دنوں تک برقرارنہیں رہ سکی،ایم سی سی کے سربراہ اور اسلام کے خلاف منظم سازش میں مصروف طارق فتح کو کناڈا چھوڑنا پڑا،اسلام کے خلاف اشتعال اور تشدد میں بھی کمی آئی اور اب اسی کناڈامیں اسلام فوبیاکے خلاف ایک قانون بھی نافذ ہوگیا ہے جس کے مطابق کناڈا میں اسلام کے خلاف بولنا ،مذہب اسلام کو برا بھلاکہنااور مسلمانوں کو بدنام کرنا قانونی طور پر غلط ہوگا ، مذہبی اور نسلی امتیاز برتنا غیرقانونی عمل ہوگا ، پاکستانی نزاد ممبر پارلیمنٹ محترمہ اقراء خالدنے پارلیمنٹ میں ایک بل پیش کیا جس میںیہ قرارداد تھی کہ اسلام فوبیا، مذہبی امتیاز اور نسلی تفریق جیسے معاملات کی مذمت کی جائے، چناں چہ دور وز تک جاری بحث ومباحثہ کے بعد23 مارچ 2017 کو 201 ووٹوں کے ساتھ واضح اکثریت کے سے یہ قرارد منظور ہوگئی جبکہ اس کی مخالفت میں صرف 91 ووٹ پڑے اور کنزروییٹو پارٹی کی شدید مخالفت کناڈا کی لبر ل حکومت اور اقراء خالد کی راہ میں حائل نہیں ہوسکی ۔
کناڈا میں اسلام فوبیا کے خلاف قانون کا نفاذ بہت اہمیت کاحامل ہے ، اس کا سہرابراہ راست کناڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کے نام جاتاہے جو نر م خو طبعیت کے حامل اور ایک امن پسند یورپین وزیر اعظم ہیں ،امریکہ کے سب سے بڑے تجارتی پارٹنر ہونے کے باجود ٹرمپ کے انتہاء پسندانہ فیصلوں کے شدید مخالف ہیں، ہزاروں مخالفتوں کا سامناکرکے اس بل کو پاس کرانے والی خاتون محترمہ اقراء خالد صاحبہ قابل صد مبارکباد ہیں جنہوں نے اسلام کے خلاف بولنے والوں کی زبانیں بند کرکے کناڈا سے اتحاد مذاہب اور قومی یکجہتی کا پیغام دیاہے اور ایک لبر ل مسلمان میں شمار کئے جانے کے باوجود انہوں نے اسلام کی شبیہ بگاڑنے کی روایت پر پابندی لگاکر ایک عظیم اور تاریخی کارنامہ انجام دیاہے ،وہ 201 کنیڈین ممبران پارلیمنٹ بھی قابل مبارکباد ہیں جنہوں نے اقراء خالد کے قدم سے قدم ملاکر اس تحریک کی حمایت کی ہے۔ ایک مرتبہ پھر وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو اور محترمہ اقراء خالد کو صد مبارکباد ۔
کناڈا جیسے ملک میں جہاں مسلمان صرف تین فیصد ہیں وہاں اسلام فوبیا کے خلاف قرارد منظور کرالینا کوئی آسان کام نہیں تھا،محترمہ اقراء خالد کو اس کیلئے بے پناہ مخالفت کا سامناکرناپڑاہے، بل کی مخالفت میں بڑے پیمانے پر احتجاج کیا گیا ہے اور اب بھی یہ سب ہورہاہے ،انہیں دہشت گرد تک کہاگیا ہے،داعش اور دیگر دہشت گردتنظیموں کیلئے کام کرنے کا الزام عائد کیا گیاہے ،بل پاس ہوجانے کے بعد جب اقراء خالد نے فیس بک پر اپنے حامیوں کا شکریہ اداکرتے ہوئے قرارد اد کے منظور ہونے کی اطلاع دی تو وہاں بھی ان پر گالیوں کی بوچھا ر کردی گئی ،نازیبا ریمارکس کئے گئے ،پاکستانی ہونے کا طعنہ دیاگیا لیکن اقراء خالد کے جذبے اور حوصلے کو سلام جن کے پائے ثبات میں کوئی لغز ش نہیں آئی اور جب تک کامیابی نہیں مل گئی ان کی جدوجہد جاری رہی ،ایک عیسائی رکن پارلیمنٹ نیکی آشتو جب نے ٹوئٹر پر بل پاس ہونے کی اطلاع دیتے ہوئے اقراء خالد کو مبارکباد پیش کی تو انہیں بھی چوطرف سے تنقید کا نشانہ بنایاگیا۔
کنیڈین پارلیمنٹ کا اقدام دنیا بھر کے دیگر ممالک کے ساتھ مسلم ممالک کیلئے بھی راہ عمل اور درس عبر ت ہے جہاں آزادی کے نام پر سب سے زیادہ اسلام کا مذاق اڑایاجاتاہے ،اسلام اور شریعت کے بارے میں بکواس کرنے والوں کے خلاف جب کاروائی کا مطالبہ کیاجاتاہے تو اسے اظہار رائے کی آزادی ختم کرنے کا عنوان دیا جاتاہے ،ایسے لوگوں کو دقیانوس اور شدت پسند کہاجاتاہے ،پاکستان جیسامسلم ملک میں اس باب میں سرفہرست ہے جہاں کا لبرل طبقہ اظہار ائے کے نام پر تمام حدود کو پارکرجاتاہے اور اسلام کے خلاف کچھ اس اندازسے باتیں کی جاتی ہیں جس کی ایک انتہاء پسند اسلام دشمن شخص سے بھی توقع نہیں ہوتی ہے ،بہر حال یہ بات خوش آئند ہے کہ جس پاکستان سے تعلق رکھنے والے طارق فتح نے کناڈا میں اسلام کی شبیہ بگاڑنے اور دین اسلام سے عوام کو متنفر وبیزار کرنے کی کوشش کی تھی اسی پاکستان سے تعلق رکھنے والی ایک لبرل خاتون اقراء خالد نے بل پاس کراکر اسلام کے خلاف بکواس کرنے کے دروازے بند کردیئے ہیں او ایم سی سی کے تحت کام کرنے والے طارق فتح جیسے منافق لوگوں کے سارے عزائم ومنصوبے خاک میں مل گئے ہیں۔ محترمہ اقراء خالد کو یہ عظیم کارنامہ انجام دینے کیلئے ایک مرتبہ پھر دل کی اتھا گہرائیوں سے مبارکباد ۔مبارکباد ۔
(کالم نگار ملت ٹائمز کے سی ای او اور ایڈیٹر ہیں)
stqasmi@gmail.com