اسلام اور حقوق انسانی

عبد الباسط ندوی
کل ندوة العلماء لکھنؤ میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کی مجلس عاملہ کا دورہ زہ اجلاس اختتام پذیر ہوا جس میں تین طلاق دینے والوں کی حوصلہ شکنی کےلئے مہم چلانے کے ساتھ ہی سماجی بائیکاٹ کی بات کہی گئی اور اسی کے ساتھ طلاق شدہ خواتین کو بورڈ سے ہر ممکن مدد فراہمی کی یقین دہانی کرائی گئی ساتھ ہی مسلمانوں سے درخواست کی گئی کہ وہ فضول خرچی سے بچیں اور دہیز کی بجائے خواتین کو وراثت میں ان کا حق دیں۔ دراصل بات جب خواتین یا حقوق انسانی کی ہوتی ہے تو شریعت مطہرہ کے بنائے گئے اصول اور ضوابط پر اگر عمل کیا جائے تو کسی بھی انسان کو اس پر انگلی اٹھانے کا موقع نہیں مل سکتا یہ الگ بات ہے کہ ہر سماج میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی ذاتی غلطیوں کی وجہ سے ان کے مذہب کو نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن اسلام چونکہ ایک عالمی مذہب ہے اور اسلام کے اصول و ضوابط اتنے مستحکم اور عدل و مساوات پر مبنی ہیں کہ اگر اس کی صاف و شفاف تعلیمات انسانوں کے سامنے آجائیں تو کوئی بھی ان سے متاثر ہوئے بنا نہیں رہ سکتا یہی وجہ ہے کہ جو کوئی بھی مطالعہ سے اسلام کو سمجھتا ہے وہ اسلام کی حقانیت اور بنی نوع انسانی کے لئے بنائے گئے زریں اصولوں سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ پاتا اور یہ حال اس وقت ہے جب عالمی پیمانہ پر اسلاموفوبیا کے تحت مہم چلاکر اسلام کا چہرہ مسخ کرنے کی کوششیں عروج پر ہیں اور مغربی ممالک کے زیر کنٹرول ذرائع ابلاغ اس مہم میں ہر اول دستہ کا رول ادا کر رہے ہیں۔بہر حال جائزہ لینے کےلئے اسلامی نفرت و عداوت پر مبنی تاریخ کافی طویل ہے جس پر کہاں کہاں تک ماتم کیا جائے ۔ لیکن ہندوستانی پس منظر میں ہم یہاں کے ذرائع ابلاغ کے غیر حقیقت پسندانہ بلکہ کسی حد تک معاندانہ کردار پر بحث کر سکتے ہیں اور ظاہر ہے اسلاموفوبیا کی مہم میں ہندوستانی ذرائع ابلاغ کسی سے پیچھے رہنا نہیں چاہتے۔آج کل ذرائع ابلاغ نے ہندوستان میں تین طلاق کے خلاف اور یکساں سول کوڈ کے حق میں آسمان اس طرح سر پر اٹھا رکھا ہے کہ لگتا ہے کہ ہندوستان کی ترقی کا راز تین طلاق کا خاتمہ اور پسماندگی کی وجہ تین طلاق کا وجود ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اپنی آنکھوں (طبقہ ) کا شہتیر نظر نہیں آتا جہاں طلاق دینے کی نوبت ہی نہیں آتی اور سیدھا عورت کو جلاکر راہی ملک عدم کردیا جاتا ہے اور اس کا تناسب مسلمانوں میں رائج تین طلاق کے تناسب سے کہیں زیادہ ہے۔عجیب بات ہے کہ ایک ایسے ملک میں جہاں جانوروں کے نام پر انسانوں کا قتل عام بات ہوگئی ہے وہاں ہمارے وزیر اعظم مون برت رکھ لیتے ہیں جبکہ تین طلاق کے مسئلہ پر انھیں اتنی تکلیف ہوتی ہے کہ انھیں ہندوستان کی ترقی سمیت ملک کا قانون خطرہ میں نظر آتا ہے اور وہ مسلم بہنوں کی تکلیف میںغم سے نڈھال ہوئے جارہے ہیں حالانکہ مسلم بہنوں کا غم دور کرنے اور ان کی اصل تکلیف کا مداوا کرنے کے لئے امت مسلمہ کے زعماء اور ملی قائدین کئی مرتبہ وزیر اعظم کو ان کی تعلیمی پسماندگی دور کرنے کا مشورہ دے چکے ہیں لیکن انھیں مسلم خواتین کی غربت اور پسماندگی کی وجہ سے کسمپرسی کی حالت پر ذرا بھی ترس نہیں آتا، انھیں تو فکر ہے سنگھ پریوار کے ایجنڈہ کو نافذ کرنے کی ۔اب تو حال یہ ہوگیا ہے کہ مسلمان بھی ذرائع ابلاغ کے دباؤ میں یہ بات قبول کرنے لگے ہیں کہ مسلم خواتین کو 3 طلاق سے پریشانی ہوتی ہے ،ہوتی ہے اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا تاہم یہ اتنا بڑا مسئلہ کبھی نہیں تھا جس کے خلاف ملکی پیمانہ پر مہم چلائی جائے اور ایک اتنے بڑے طبقہ (مسلمانوں ) کو خوف و ہراس کی حالت میں مبتلا کردیا جائے ، کیونکہ اگر معاشرہ کا یہ اتنا بڑا مسئلہ ہوتا تو مسلم خواتین سڑکوں پر نکل کر مظاہرہ کرتیں یا کم سے کم مذہبی علماء کو اس بارے میں اپنا احتجاج درج کراتیں جس طرح ملک کی خواتین بہار یا دیگر مقامات پر شراب کے خلاف اپنا احتجاج درج کر ارہی ہیں لیکن حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے۔ سنگھ پریوار اور حکومت کے خفیہ ایجنڈہ پر عمل پیرا ذرائع ابلاغ کی انتھک جد و جہد اور کڑی محنت کے بعد جو چند چہرے سڑکوں یا کیمرے کے سامنے آنے پر کامیاب ہوئی ہیں ان کی تعداد اتنی ہی ہے جتنی کسی بھی مذہبی معاشرہ میں غیر مطمئن افراد کی ہوتی ہے لیکن ذرائع ابلاغ کو ان کے چہرے نظر آتے ہیں اور مسلم پرسنل لاء بورڈ نے 5 کروڑ دستخط ایک عام مہم کے تحت جمع کئے ہیں اور جن میں خواتین کی تعداد نصف سے بھی زائد ہے وہ کسی کو نظر نہیں آتے جن میںمسلم خواتین شریعت اسلامیہ مطہرہ کے ساتھ رہنے میں ہی اپنی عافیت سمجھتی ہیں۔ اور خواتین کی ایک بڑی تعداد نے سڑکوں کے سامنے آکر اپنا احتجاج درج بھی کرایا ہے کہ حکومت ان کی جائز مانگ اور حقوق دینے کی فکر کرے نہ کہ شریعت میں مداخلت کی۔ دراصل مسلم خواتین کو علم ہے کہ اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس نے خواتین کو مردوں سے بھی زیادہ حقوق دئے ہیں،وہ جانتی ہیں کہ اسلام میں ذمہ داریاں مردوں کے کاندھوں پر زیادہ ہیں اور حقوق خواتین کے زیادہ ہیں ،مغربی معاشرہ کے بر عکس اسلام خواتین کو گھروں کی ملکہ بنا کر رکھنا چاہتا ہے جبکہ مغربی فکر نے خواتین کو محض ایک پروڈکٹ بناکر اسے سر بازار فروخت کے لئے حسین و جمیل پیکنگ میں سجاکر رکھ دیا ہے جہاں وہ دن اور رات مردوں کی بے لگام خواہش پوری کرنے کے لئے بیل کی طرح کام کر رہی ہے اور مرد اس کی کمائی پر عیش کر رہے ہیں ۔مسلم خواتین جانتی ہیں کہ اسلام ہی وہ مذہب ہے جس نے انھیں وراثت میں حصہ دیا اور ماں کے قدموں تلے جنت کا سبق پڑھاکر اولاد کو ماں کی فرماں برداری کی تعلیم دی ۔ حقیقت یہی ہے کہ اگر آپ انساف پسندانہ جائزہ لیں تو دنیا کے تمام قوانین اور میثاق اقوام سب میں ہر جگہ اگر حقوق انسانی کے لئے کوئی منشور یا معاہدہ اور جابطہ مقرر کرنے کی بات آئے گی تو ہر کسی کو اسلامی عدل و انصاف اور اسلام میں بیان کیئے گئے حقوق انسانی کے ضابطوں سے مدد لینی پڑے گی۔ملک ہندوستان ہو یا اقوام متحدہ ،جب جب انسانی حقوق یا خصوصی طور سے خواتین کے حق کی بات ہو گی تو ہمیشہ سے اسلام صاف ستھرے ’مارگ درشک‘ سے انسانی کی رہنمائی کے لیے حاضر ہوتا ہے ،اسلام کی تعلیمات ہمیشہ سے انسانی کی برابری، اور فلاح و بہبود کے لیے موجود ہیںاس لیے جب بھی انسانی فلاح و بہبود کی بات ہوتی ہے تو اس میں زیادہ تر باتیں، اسلام ہی سے لی جاتی ہیںور اس کی جیتی جاگتی مثال اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کیلئے بنائے گئے وہ سب اصول ہیں جو زیادہ تر اسلام کی تعلیمات سے لئے گئے ہیں۔ اس لئے اسلام کی ان شفاف تعلیمات کو زیادہ وسیع کینوس میں سامنے لانے کی ضرورت ہے تاکہ عصبیت پر مبنی ذرائع ابلاغ کا چشمہ آنکھوں سے اتر سکے اور دنیا کے سامنے اسلام میں دیئے گیئے حقوق انسانی کی شفاف اور واضح تصویر سامنے آسکے۔
(مضمون نگار روزنامہ ہند نیوز نیوز کے سب ایڈیٹر ہیں)

SHARE