مولانا ندیم الواجدی
شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کے ایک شاگرد مولانا مناظر احسن گیلانیؒ لکھتے ہیں: ’’حضرت الاستاذؒ نے میرے ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ دیوبند کا مدرسہ ۱۸۵۷ء کی ناکامی کی تلافی کے لئے قائم کیا گیا تھا، تعلیم و تعلم، درس و تدریس جن کا مقصد اور نصب العین ہے میں اُن کی راہ میں مزاحم نہیں ہوں لیکن میں نے اپنے لئے تو اسی راہ کا انتخاب کیا ہے جس کے لئے یہ نظام حضرت الاستاذ مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے قائم کیا تھا، فرائض الٰہیہ جس حد تک بن پڑا ادا کرتا رہا، اب آخری کام رہ گیا ہے جسے آخری حد تک گزار دوں گا (احاطۂ دار العلوم میں بیتے ہوئے دن، ص: ۱۷۱) وہ کام کیا تھا، ناکامی کے لفظ سے اس کی پوری وضاحت ہوتی ہے، وہ کام تھا غیر ملکی استعماریت پسندوں یعنی انگریزوں کو ارضِ وطن سے باہر نکال کر ملک کو آزاد کرانا، ۱۸۵۷ء میں یہ تحریک ناکام ہوگئی تھی لیکن اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ اب ہمیشہ کے لئے یہ باب بند کردیا جائے، اہل دانش ناکامی سے تحریک پاتے ہیں اور شکست کے ملبے میں دبے ہوئے تجربات سے فائدہ اٹھا کر کامیابی کی طرف قدم بڑھاتے ہیں، یہی تھا حضرت شیخ الہندؒ کا نصب العین اور اسی کی خاطر انھوں نے اپنی زندگی گزاری، انجمن ثمرۃ التربیت، جمعیۃ الانصار، نظارۃ المعارف، ریشمی رومال کی تحریک، مولانا عبید اللہ سندھیؒ کی جلا وطنی، ان کے ذریعے جلا وطن حکومت کا قیام، اسارت مالٹا، جمعیۃ علماء کا قیام، خلافت کمیٹی، ترکِ موالات، نمک سازی آندولن، سول نافرمانی تحریک، کوئٹ انڈیا تحریک یہ سب اسی مرد فعال کی جدوجہد کے بال وپر ہیں، حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ نے اپنی ایک تقریر میں ارشاد فرمایا تھا کہ ’’۱۸۵۷ء کے بعد صرف یہی جماعت تھی جس نے آزادی کے تصور کو زندہ رکھا اور بالآخر اس تصور کا سب کو دیوانہ بنا کر چھوڑا، علماء دیوبند نہ صرف تحریک آزادی کی جدو جہد کرنے والوں کی صف اول میں رہے ہیں بل کہ اکثر اوقات انھوں نے تحریک آزادی کی قیادت بھی کی ہے اور زیادہ غور سے دیکھا جائے اور انصاف سے کام لیا جائے تو اوّل اوّل یہ خیال انھوں نے ہی دیا، آزادی کے جذبے میں جو حرارت، طاقت اور عمومیت پیدا ہوئی وہ انہی کی رہین منت تھی، ان میں سے متعدد حضرات نے انگریز حکومت کے خلاف علَمِ جہاد بلند کیا، انگریزی فوجوں سے دوبار جنگ کی، متعدد حضرات ایسے تھے جنھوں نے اپنی زندگی کا خاصہ حصّہ جیلوں میں گزارا، حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کی تحریک آزادی کی تاریخ علماء اور دینی شخصیتوں کی تاریخ کے ساتھ اس طرح گھل مل گئی ہے کہ ایک کو دوسرے کے ساتھ جدا کرنا بہت مشکل ہے‘‘۔ (تاریخ دار العلوم دیوبند:۱/۵۰۹، ۵۱۰(
آج کے کالم میں یہ درد الفاظ بن کر اس لئے چھلک آیا کہ اگست کا مہینہ چل رہا ہے، پلاسی کے میدان سے انگریزوں کے خلاف جو مسلح جدو جہد شروع ہوئی تھی وہ سلطان ٹیپو، سید احمد شہیدؒ ،شاہ اسماعیل شہیدؒ اور حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ اور ان کے جانباز ساتھیوں کی قیادت میں مختلف میدانوں میں دو سو سال تک لڑی جاتی رہی، کبھی وہ جدوجہد حضرت شاہ عبد العزیزؒ کے فتوی جہاد کی صورت میں جلوہ گر نظر آئی، اور کبھی دار العلوم دیوبند کے درو دیوار پر قندیل بن کر روشن ہوئی، اور بالآخر ۱۵/ اگست ۱۹۴۷ء پر پہنچ کر ختم ہوگئی، دو سو سال کی اس مدت میں لاکھوں علماء اور عوام کے خونِ شہادت سے ارضِ چمن لالہ زار ہوئی، ہم ہر سال ۱۵/ اگست کو آزادی کا قومی دن مناتے ہیں، افسوس اس بات کا ہے کہ مسرت اور خوشی کے ان لمحات میں ہم انہیں بھول جاتے ہیں جنھوں نے لیلائے آزادی پر اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، کسی صدر یا وزیر اعظم کو یہ توفیق نہیں ہوتی کہ وہ جنگ پلاسی کا ذکر کرے، سلطان ٹیپو شہیدؒ کو خراج عقیدت پیش کرے، سیدینؒ کی تحریک کا حوالہ دے، شاملی کے میدان میں خون کا دریا بہانے والوں کا ذکرخیر کرے، ۱۸۵۷ء کی جنگ میں شہید ہونے والوں کی یاد میں دو چار آنسو بہالے، دو سو سال کی یہ طویل جدوجہد داستانِ پارینہ بنتی جارہی ہے، دار العلوم دیوبند کی شکل میں مسلمانوں کی جدوجہدِ آزادی کا روشن مینار، اور عظیم یادگار دیوبند میں قائم ہے، آزاد ہندوستان کے عوام اور حکومتوں کو چاہئے تھا کہ وہ اس یادگار پر ہر برس محبتوں اور عقیدتوں کے پھول نچھاور کرتیں کہ آج اقتدار اور اختیار کے جس نشے میں وہ بدمست ہیں اسی ادارے کے علماء کی جدوجہد کا رہین منت ہے، مگر افسوس حکومتیں عقیدت اور محبت کا مظاہرہ تو کیا کرتیں الٹا وہ اس کے روشن کردار پر تہمتوں کے داغ لگانے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہیں۔
یوم آزادی سے ٹھیک ایک ہفتہ قبل دیوبند میں جس طرح دہشت گردی کے نام پر بے گناہ اور معصوم طلبۂ مدارس کو ہراساں کیا گیا وہ آزاد ہندوستان کی حکومتوں کی بدنیتی کو اچھی طرح واضح کرتا ہے، اس سے پہلے بھی دیوبند پر یہ الزامات لگتے رہے ہیں کہ یہاں دہشت گردی پروان چڑھتی ہے، حالاں کہ الزام لگانے والے آج تک کوئی ایک ثبوت بھی پیش نہ کرسکے، سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کی حکومت میں وزیر داخلہ کی حیثیت سے لال کرشن اڈوانی نے صاف لفظوں میں یہ اعتراف کیا تھا کہ مدارس اسلامیہ کے خلاف دہشت گردی کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔
اس کے باوجود سرکاری ایجنسیوں کا رُخ دیوبند کی طرف رہتا ہے اینٹی ٹیررسٹ اسکواڈ کے مسلح دستوں نے سہارن پور پولیس کے ساتھ مل کر دیوبند سے تین اور جلال آباد سے دو طالب علموں کو گرفتار کیا، ان پر الزام تھا کہ وہ دہشت گردوں کے رابطے میں ہیں، بتلایا جاتا ہے کہ ان طلبہ سے سخت پوچھ گچھ کی گئی، مگر تفتیش کرنے والوں کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا، مجبوراً ان پانچوں طلبہ کو چوبیس گھنٹے حراست میں رکھنے کے بعد چھوڑ دیا گیا، عبد اللہ نامی جس بنگلہ دیشی کو دیوبند کے قریب ایک گاؤں سے گرفتار کیا گیا ہے اس کے بارے میں عدالت فیصلہ کرے گی کہ وہ فراڈی ہے یا آتنک وادی، چوبیس گھنٹے کے اس ڈرامے میں اے ٹی ایس نے گرفتار شدگان کو کلین چٹ دی مگر ہمارے ملک کے نیوز چینلوں نے اپنا تمام وقت طلبۂ مدارس کو دہشت گرد ثابت کرنے میں لگا دیا، ہندی اخبارات بھی کب پیچھے رہتے انھوں نے صفحے کے صفحے یہ ثابت کرنے کے لئے سیاہ کئے کہ دیوبند میں دہشت گردی فروغ پارہی ہے، حکومتوں کا رُخ، سرکاری ایجنسیوں کا کردار اور میڈیا کا رویّہ بہت سے سوال پیدا کرتا ہے، ہم ہندوستانی مسلمانوں کو ٹھنڈے دل کے ساتھ ان کا جواب تلاش کرنا ہے، آخر کب تک ملّت کے معصوم نوجوان دہشت گردی کے الزام میں تختۂ مشق بنتے رہیں گے، یہ تو ان طلبہ کی خوش قسمتی تھی کہ وہ اے ٹی ایس کے چنگل سے چوبیس گھنٹے کے بعد باعزت باہر نکل آئے، کتنے ہی نوجوان ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹتے کاٹتے بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھ چکے ہیں، کچھ جیلوں میں آج بھی بند ہیں اور کچھ عدالتوں کے ذریعے با عزت بری کئے جاچکے ہیں، مولانا ارشد مدنی کے علاوہ کسی قائدِ ملّت کو حکومت سے یہ سوال کرنے کی جرأت نہیں ہوئی کہ آخر یہ سلسلہ کب تلک چلے گا، انھوں نے حکومت سے اس کا جواب بھی مانگا ہے کہ ان طلبہ کو گرفتار کرنے سے پہلے تحقیق کیوں نہیں کی گئی، محض شک کی بنیاد پر اتنا بڑا قدم کیوں اٹھایا گیا، اس کا ذمہ دار کون ہے؟ ان طلبہ کی گرفتاری کی خبر جیسے ہی عام ہوئی ہر شخص کی زبان پر ان کی بے گناہی کا چرچا تھا، مگر کسی میں یہ جرأت نہ تھی کہ وہ ان گرفتاریوں کے خلاف آواز اٹھاتا، حکومتوں سے فریاد کرتا یا عدالتوں کے دروازے کھٹ کھٹاتا ، زیادہ تر مدرسے تو تمام دن یہ شکر ادا کرتے رہے کہ گرفتار ہونے والوں میں ان کے مدرسے کا کوئی طالب علم نہیں تھا، بے حسی اور بزدلی کے اس تناظر میں یہ یقین ہی نہیں آتا کہ ہم اس بوڑھے شیخ الہندؒ کی اولاد ہیں جس نے مالٹا کی قید قبول کی مگر انگریزوں کے سامنے جھکنا گوارا نہیں کیا، رہا ہونے کے بعد بھی اس نے جب کہ وہ مشت استخواں بن چکا تھا اور ضعیفی نے اس کے جسم کی ساری توانائی چھین لی تھی، اس کی جرأت و شجاعت اور ہمت کا عالم وہی تھاجب وہ دیوبند سے حجاز کے لئے رخت سفر باندھ رہا تھا بل کہ واپسی کے بعد اس کی جوشیلی تقریریں اور تحریریں بتلاتی ہیں کہ اسارت مالٹا سے پہلے انگریزوں سے نفرت کی جو آگ اس کے سینے میں دبی ہوئی چنگاری بن کر سلگ رہی تھی اسارت مالٹا سے واپسی کے بعد وہ شعلۂ جوالہ بن کر استعماریت کے خرمن کو خاکستر کرنے کے لئے بے قرار نظر آئی، کیا واقعی ہم اسی بہادر شیخ الہندؒ کے بیٹے ہیں؟ یوم آزادی کے اس پُر مسرت ماحول میں اور معصوم طلبہ کی گرفتاریوں کے اُداس پس منظر میں کچھ ایسا ہی درد ہے جو آج چھلک کر لفظوں میں ڈھل گیا ہے۔
nadimulwajidi@gmail.com