فتوؤں کی گرم بازاری

مولانا ندیم الواجدی
آج کل فتووں کے متعلق بہت کچھ لکھا پڑھا اور سنا جارہا ہے، میڈیا نے اس موضوع کو بار بار اٹھا کر اسے ایک مسئلہ بنادیا ہے، ورنہ فتوی پوچھنے اور بتلانے کا کام نیا نہیں ہے، ہر دور میں مسلمان اپنے علماء اور فقہاء سے مسائل معلوم کرتے رہے ہیں، زبانی بھی اور تحریری بھی، اسلام کے دور اوّل میں صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے سوالات پیش کرتے اور جواب پاتے، یہ تمام سوال وجواب حدیث کی کتابوں میں موجود ہیں اور امت آج تک ان سے استفادہ کر رہی ہے۔ سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وہ صحابۂ کرامؓ یہ خدمت انجام دیتے رہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے فقہی بصیرت سے نوازا تھا، علامہ ابن القیمؒ نے ’’اعلام الموقعین‘‘ میں ایک سو تیس صحابۂ کرامؓ کے اسمائے گرامی ذکر کئے ہیں جو فتویٰ دیا کرتے تھے، یہ سلسلہ اس وقت سے اسی طرح چل رہا ہے اور قیامت تک اسی طرح جاری رہے گا۔ فقہی احکام مدون ہونے کے بعد فتویٰ نویسی نے باقاعدہ ایک فن کی شکل اختیار کرلی، پہلے طلبہ ماہر فن اساتذہ کی خدمت میں رہ کر فقہ وفتاویٰ کی تعلیم حاصل کرتے تھے، بعد میں اس فن کی درسگاہیں بن گئیں اور طلبہ ان درسگاہوں میں رہ کر یہ فن حاصل کرنے لگے، ماضی میں بہت سے فقہاء ایسے گزرے ہیں جنہوںنے اس موضوع پر باقاعدہ کتابیں لکھی ہیں، یاان کے فتاویٰ جمع کئے گئے ہیں، اس طرح کی فقہی کتابیں اور مجموعے کئی کئی ضخیم جلدوں میں ہیں، ان میں بہت سی کتابوں کی باقاعدہ تعلیم ہوتی ہے؛بعض کتابیں مطالعے میں رکھی جاتی ہیں اور بوقت ضرورت ان کی طرف مراجعت کی جاتی ہے، ماضی قریب میں برصغیر ہندوپاک میں بھی ایسے بہت سے فقہاء گذرے ہیں جن کے فتاویٰ کے مجموعے اُردو میں مرتب ہوکر شائع ہوئے، جیسے فتاویٰ دارالعلوم دیوبند، امدادالفتاویٰ، احسن الفتاویٰ، فتاویٰ رحیمیہ، فتاویٰ محمودیہ، خیر الفتاویٰ، فتاویٰ عثمانی وغیرہ، آج بھی بہت سے مفتیانِ کرام ایسے ہیں جن پر امت اعتماد کرتی ہے، اور ان کے فتاویٰ کو حرف آخر سمجھا جاتا ہے۔
یہاں یہ عرض کردینا ضروری ہے کہ مفتی اپنی طرف سے کچھ نہیں بتلاتا، بلکہ پیش آمدہ سوال یا مسئلے کا حل کتاب وسنت کی روشنی میں پیش کرتا ہے، اور اگر اسے کتاب وسنت میں کوئی واضح ہدایت نہیں ملتی تو اس مسئلے کی نظیریں تلاش کرتا ہے اور ان کی روشنی میں حل ڈھونڈتا ہے، خود اپنی عقل سے کوئی فیصلہ نہیں کرتا۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ایک مسلمان کی زندگی پر فقہی احکام ومسائل کا گہرا اثر مرتب ہوتا ہے، بہت سے نیک لوگ جو شریعت کے سانچے میں ڈھل کر زندگی گزارنا چاہتے ہیں وہ قدم قدم پرشریعت کی رہ نمائی حاصل کرتے ہیں، اور اس کے لیے انہیں کتابوں سے مدد لینی پڑتی ہے اور اگر کتابوں سے ان کی ضرورت پوری نہیں ہوتی تو وہ اہل علم کی طرف لپکتے ہیں اور ان سے پوچھتے ہیں، علماء حضرات بھی مسئلہ بتلانے میں تأمل نہیں کرتے کیوںکہ وہ سمجھتے ہیں کہ شریعت میں مسلمانوں کی رہ نمائی ان کی ذمہ داری ہے۔ فتوی کی اہمیت کو ہر مسلمان تسلیم کرتا ہے، خواہ وہ باعمل مسلمان ہو یا بے عمل۔
بدقسمتی سے ہمارے دور میں ذرائع ابلاغ نے انسانی دل ودماغ پر اپنا تسلط جما لیا ہے، وہ انسان کی زندگی کے ہرگوشے میں کچھ اس طرح دخیل ہوگیا ہے کہ ہم چاہیں بھی تو اس سے چھٹکارا نہیں پاسکتے، اب سے کچھ سال پہلے تک یہ صورت حال نہیں تھی، ہمارے ملکوں میں الیکٹرانک میڈیا کے نام پر صرف سرکاری چینل دوردرشن تھا جس نے خبرناموں اور تفریحی پروگراموں تک خود کو محدود کر رکھا تھا، صرف اخبارات ہی وسیلہ ٔ اطلاع تھے، عام طور پر فضا بھی فرقہ واریت کی بادسموم سے اس حد تک مکدر نہیں ہوئی تھی، اس لیے لوگ محض باخبر رہنے کے لیے یا تفریح طبع کے لیے اخبارات ورسائل دیکھتے تھے۔ جب سے الیکٹرانک میڈیا کے نام پر سینکڑوں کی تعداد میں ملکی اور غیرملکی چینل شروع ہوئے ہیں انہوں نے سب کو اپنے حصار میں لے لیا ہے، کیا بچے، کیا بوڑھے، کیا جوان، اس لیے کہ ان چینلوں کے پاس ہر عمر اور ہر معیار کے لوگوں کے ذوق کی تسکین کے لیے سامان موجود ہے، خبریں بھی ہیں، فلمیں بھی ہیں، کھیل کود بھی ہے، کارٹون بھی ہے، موسیقی بھی ہے، اکثر وبیشتر چینل رات دن رواں دواں رہتے ہیں، چینلوں کی کثرت نے ان کے درمیان مقابلہ آرائی کی فضا پیدا کر دی ہے، ہر چینل یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنے ناظرین کے سامنے ایسا کچھ پیش کرے جس سے اس کی واہ واہ ہو، ناظرین کی تعداد بڑھے، اس کے نتیجے میں اشتہارات زیادہ ملیں، خوب پیسہ کمائیں، مسابقت کا یہ جذبہ انہیں نت نئے موضوع تلاش کرنے پر مجبور کرتا ہے۔
فتوے سے زیادہ دلچسپ موضوع ان چینلوں کو کوئی دوسرا نہیں مل سکتا، کیوں کہ وہ فتوؤں کی آڑ میں اسلام اور مسلمانوں کا مذاق اڑاکر نہایت آسانی کے ساتھ اپنی ٹی آر پی بڑھا سکتے ہیں۔
سب سے پہلے تو ہم یہ عرض کرنا چاہیںگے کہ فتویٰ دینے کی ذمہ داری کوئی معمولی ذمہ داری نہیں ہے اس میں کسی چیز کے جواز یا عدم جواز، حلت یا حرمت کے متعلق اللہ تعالیٰ کے حکم کو بتلانا پڑتا ہے اس طرح ایک مفتی شریعت کی ترجمانی کرتا ہے، اس ترجمانی کے دوران وہ کسی شرعی حکم میں ادنیٰ درجے کا تغیر بھی نہیں کرسکتا، وہ اس حکم کی توضیح وتشریح تو کرسکتا ہے ،مگر اسے یہ اجازت نہیں کہ وہ اس میں کوئی تبدیلی کرے۔ اس طرح دیکھا جائے تو یہ بڑی ذمہ داری ہے، اگر ہم یہ کہیں کہ یہ ایک پل صراط ہے تو اس میں کوئی مبالغہ نہیں، مسئلہ بتلانے میں صحابۂ کرام ؓ جیسے لوگ بھی احتیاط سے کام لیتے تھے، صحابۂ کرامؓ کے واقعات میں ہے کہ اگر کسی صحابیؓ سے کوئی سوال کیا جاتا تو وہ دوسرے کے پاس اور دوسرا تیسرے کے پاس بھیج دیتا یہ سلسلہ اسی طرح دراز ہوتا یہا ںتک کہ سائل پہلے والے صحابی کی طرف واپس آجاتا اور ان سے دریافت کرتا۔ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ فرماتے ہیں کہ ’’مجھ کو فقہ ہی میں بولتے ہوئے ڈر معلوم ہوتا ہے، مسائل کا بہت نازک معاملہ ہے۔‘‘ (الافاضات الیومیۃ ج۱ ص۹۴) ایک جگہ فرمایا ’’فقہ کا فن بڑا ہی نازک ہے، میں اتنا کسی چیز سے نہیں ڈرتا جتنا اس سے ڈرتا ہوں۔‘‘ (حسن العزیز ج۱ ص۱۴۴) حضرت مولانا محمدقاسم نانوتویؒ بانی دارالعلوم دیوبند کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ فتویٰ نہیں دیتے تھے بلکہ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کے پاس بھیج دیا کرتے تھے۔ (حسن العزیز ج۲ ص۲۰۳) مگر آج کل شرعی مسائل کے باب میں بے باکی بہت بڑھ گئی ہے، حد یہ ہے کہ بعض وہ لوگ جومحض صورت سے عالم لگتے ہیں مسئلہ بتلانے بیٹھ جاتے ہیں، بہت سے اہل علم کو دیکھا ہے کہ وہ ہر سوال کا جواب دینا ضروری سمجھتے ہیں چاہے انہیں معلوم ہو یا نہ معلوم ہو، خواہ انہیں اس مسئلے کی تحقیق ہو یا نہ ہو، وہ لاادری (میں نہیں جانتا) کہنا اپنی شان کے منافی سمجھتے ہیں حالانکہ حضرت امام مالکؒ جیسا محدث اور فقیہ بھی اس میں کوئی جھجک نہیں سمجھتاتھا، ان کے حالات زندگی میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ امام صاحبؒ سے ۴۰ سوال کئے گئے، جن میں سے ۳۶ کے جواب میں انہوںنے لا ادری کہا، صرف چار کا جواب دیا، حضرت تھانویؒ نے یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد لکھاہے کہ آخر خوفِ خدا بھی کوئی چیز ہے۔ (الافاضات الیومیہ ج۱ ص۵۹)
اصل بات یہ ہے کہ ہم تعلیمی انحطاط میں مبتلا ہیں، تیز رفتار زندگی نے ہمیں ہر شعبے میں برق رفتاری کا عادی بنا دیا ہے، پہلے لوگ سالہا سال کی محنت کے بعد کسی لائق بنتے تھے، اب وقت رہا ہے اور نہ محنت، حضرت مولانا محمد تقی عثمانی نے اپنے والدماجد مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی ؒکے حالات زندگی میں لکھا ہے کہ ’’کسی بھی علم وفن میں کوئی بھی اعلا مقام حاصل کرنے اور اس مقام کو خدمت دین اور خدمت خلق کے نقطۂ نظر سے مفید بنانے کے لیے بڑے مراحل سے گزرنا ہوتا ہے، حضرت والد صاحب کو اللہ تعالیٰ نے علومِ دین اور بالخصوص فقہ وفتویٰ میں جو مقام بلند عطا فرمایا وہ اللہ تعالیٰ کی عطائے خاص کے علاوہ اس طرز عمل کا نتیجہ ہے جو اس سلسلے میں آپ نے اختیار فرمایا، اور اس طرز عمل کا خلاصہ احقر کی ناچیز رائے میں چار چیزیں ہیں (۱)پیہم محنت (۲)للہیت (۳)بزرگوں کی صحبت اور ان سے تربیت حاصل کرنے کا اہتمام (۴)اور غایت احتیاط۔ (البلاغ مفتی اعظم نمبر۴۱۱)
آج کل جو حضرات فقہ وفتاویٰ کی تعلیم حاصل کرکے منصب افتاء پر بیٹھ جاتے ہیں وہ خود اپنا احتساب کریں کہ ان چار امور میں سے ان کے پاس کیا چیز ہے؟ اگر ہم یہ کہیں تو غلط نہ ہوگا کہ ہمارا نظام فتویٰ رو بہ انحطاط ہے، اس سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا، اس کی چند بنیادی وجوہات ہیں جن کی طرف ہم ذیل میں اشارہ کرنا چاہتے ہیں۔
گذشتہ دس پندرہ برسوں کے درمیان جگہ جگہ دارالافتاء قائم ہوچکے ہیں، پندرہ بیس برس پہلے صرف مشہورو معروف مرکزی مدارس میں افتاء کے شعبے ہوا کرتے تھے، اب شاید ہی کوئی مدرسہ ایسا ہو جہاں یہ شعبہ قائم نہ ہو، ہم بعض ایسے مدارس سے واقف ہیں جہاں عربی کے درجات موجود نہیں ہیں، لیکن وہاں افتاء کی تعلیم بھی دی جاتی ہے، اور فتویٰ دینے کا بندوبست بھی ہے، بعض لوگوں نے چھوٹے چھوٹے قصبوں میں، بلکہ گاؤں دیہات میں اپنے ذاتی دارالافتاء بنا لیے ہیں، ان اداروں میں افتاء کی تعلیم بھی ہوتی ہے اور یہاں سے فتوے بھی جاری کئے جاتے ہیں، ایسے لوگوں کو سوچنا چاہیے کہ وہ اس طرح کے ادارے قائم کرکے نظام افتاء کی خدمت کے بجائے اس نظام کا توازن بگاڑ رہے ہیں، صحیح بات یہ ہے کہ مسلم معاشرے میں مفتی کو جو وقار اور اعتبار حاصل ہے اسے پانے کے لیے ہمارے نوجوان علماء اپنے نام کے ساتھ مفتی کا سابقہ لگانا چاہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ آج ہر دینی درسگاہ میں افتاء کی تعلیم حاصل کرنے والوں کا ایک ہجوم ہے، اہل مدارس بھی افتاء کی تعلیم کو اپنی حصول یابیوں میں سرفہرست رکھنے پر مجبور ہیں کیوںکہ چندہ دہندگان کی پسندیدگی اسی کو حاصل ہے، طلبہ کی خواہش، ذمہ داران مدارس کی کوشش اور چندہ دینے والوں کی پسندیدگی کے تکون نے اس تعلیم کو اس کے اعلا معیار سے ہٹا دیا ہے، بعض مدارس سے صرف نام کے مفتی نکل رہے ہیں، ان میں نہ فقہی شعور پایا جاتا ہے، اور نہ عصری اسلوب میں مسائل کی تفہیم کا سلیقہ، اور نہ معاشرتی تقاضوں اور ضرورتوں کا صحیح ادراک، یہی وجہ ہے کہ بالکل بدیہی معاملات میں بھی متضاد فتاویٰ جاری ہوتے ہیں، فتووں کے اس تضاد نے معاشرے میں نظامِ فتویٰ نویسی کو مذاق کا موضوع بنا دیا ہے، پہلے اگر کوئی فتویٰ جاری ہوتا تھا تو متعلقہ لوگ اس کے سامنے خود کو دینی اور سماجی اعتبار سے بے بس محسوس کرتے تھے، اب وہ اس کے اثرات سے خود کو آزاد تصور کرتے ہیں، متعلقہ افراد کو سوچنا چاہیے کہ آخر یہ صورت حال کیوں پیدا ہوئی؟
نظام افتاء کی اس توسیع پسندی نے اس نظام کی مرکزیت کو کمزور کردیاہے، اب سے چند سال پہلے تک اہم مسائل ومعاملات میں دارالعلوم دیوبند جیسے مرکزی اداروں کی طرف رجوع کیا جاتا تھا، اور ان اداروں سے جاری ہونے والے فتووں کو حرف آخر سمجھا جاتا تھا، اب صورت حال تبدیلی کی طرف مائل ہے، اور اس سے ہمارے اداروں کی مرکزیت کو خطرہ لاحق ہوگیاہے، ارباب بست و کشاد کو اس پورے نظام کا جائزہ لینے سے پہلے اس پہلو کو بھی سامنے رکھنا ہوگا۔
غیرمعیاری مفتیوں کے اس سیلِ رواں پر قابو پانے کے لیے ضروری ہے کہ افتاء کی تعلیم کو چند مرکزی درسگاہوں تک محدود کیا جائے، اور ان درسگاہوں میں بھی اس تعلیم کے لیے ایسی شرائط عائد کی جائیں کہ صرف قابل اور ذی استعداد طلبہ ہی ان شرائط کی تکمیل کرسکیں، اکثر مدارس میں افتاء کی تعلیم کے لیے صرف ایک سالہ کورس ہے، یہ مدت اچھا مفتی بننے کے لیے بہت مختصر ہے، کم از کم سہ سالہ نصاب تعلیم ضروری ہے اس میں دوسال مختلف علوم وفنون کی تعلیم کے لیے اور ایک سال تدریب وتمرین کے لیے ہونا چاہیے ، زیرتعلیم طالب علم کو اسی وقت افتاء کی سند سے سرفراز کرنا چاہیے جب ہر طرح سے یہ تسلی اور اطمینان ہوجائے کہ وہ صحیح معنی میں مفتی بننے کا اہل ہے۔ افتاء کی تعلیم کے نصاب میں فقہ وفتاویٰ کی کتابوں کے ساتھ ساتھ انگریزی اور ہندی زبانیں بھی سکھلائی جائیں، اور ان سماجی، اقتصادی اور نفسیاتی علوم میں بھی مہارت پیدا کرائی جائے جن کی ضرورت فتویٰ نویسی کے دوران پیش آسکتی ہے، ایک مفتی کے لیے ضروری ہونا چاہیے کہ وہ جدید وقدیم علوم کا ماہر، وقت کے تقاضوں سے باخبر، اور عصری اسلوبِ تفہیم سے واقف اور ظاہر وباطن کے اعتبار سے اسلامی تعلیمات پر سختی کے ساتھ عمل پیرا ہوا۔
مرکزی درسگاہوں میں قائم دارالافتاء کے علاوہ اس میدان میں جو ادارے اس وقت کام کر رہے ہیں ان کو چاہیے کہ وہ اپنی سرگرمیوں کو محدود کریں، خاص طور پر سیاسی اور سماجی طور پر حساس اور مختلف فیہ مسائل ومعاملات میں فتویٰ دینے سے اجتناب کریں اور ان کو مرکزی اداروں پر محوّل کردیں۔
آج کل فتویٰ پوچھنے کا رجحان بہت زیادہ بڑھ گیا ہے، کوئی بھی واقعہ ہو، کسی بھی طرح کا مسئلہ ہو فوراً ہی شریعت کے بعض ہمدرد اور بہی خواہ حضرات خواہ وہ اس واقعے سے براہ راست متعلق ہوں یا نہ ہوں ایک عدد سوال نامہ تیار کرکے مفتیان کرام کی طرف بڑھا دیتے ہیں، اور اسے کارخیر سمجھنے کی غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتے ہیں، بیشتر حضرات صرف جذبہ خود پرستی اور خودنمائی کی تسکین کے لیے اس طرح کے سوال نامے مرتب کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ مفتیان کرام کو سوالات کی پیچیدگی میں الجھادیں، مفتیان کرام بھی ہر رطب ویابس کا جواب دینا، اور ہر مسئلے پر اپنی رائے ظاہر کرنا ضروری سمجھتے ہیں، یہ صحیح ہے کہ مفتی کی ذمہ داری یہ نہیں ہے کہ وہ سوالات کی گہرائی میں جائے اور سائل کی نیت کا پتہ لگائے، لیکن اس کو اتنا بھی سادہ لوح نہیں ہونا چاہیے کہ وہ کسی سائل کی شرانگیزی کو نہ سمجھ سکے، یا جواب سے پیدا ہونے والے ردّعمل کا اندازہ نہ لگاسکے، اس لیے مفتیانِ کرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ حساس معاملات میں خاموشی کا وطیرہ اپنائیں یا وسیع تر مشاورت کے بعد فتویٰ دیں اس سلسلے میں مرکزی درسگاہوں کو مفتیان کرام کے لیے رہ نما اصول وضع کرنے چاہئیں۔
nadimulwajidi@gmail.com

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں