کہاں گئے دہشت گردی کی مذمت کرنے والے ؟
پس آئینہ :شمس تبریز قاسمی
ترکی ان دنوں مسلسل دہشت گردانہ حملوں کا سامنا کررہاہے ،پے درپے ہونے والے حملوں میں سینکڑوں بے گناہ مارے جاچکے ہیں ، ہزاروں کی تعدادمیں زخمی ہیں ،14 مارچ کو درالحکومت انقرہ میں حملہ ہواجس میں 37 افراد مارے گئے ،125 افرادسے زائد زخمی ہوئے ،اس سے قبل 4 مارچ کو ایک خود کش حملہ ہواتھا جس میں دوفوجی افسر ہلاک ہوئے،18 مارچ کو پے درپے انقرہ میں دوحملے ہوئے ،ایک حملہ فوجی قافلہ پر کیا گیا جس میں 28 فوجی نوجوان جاں بحق ہوگئے اور 61 زخمی جبکہ دوسرے حملے میں 6 فوجی نوجوان دنیا سے چل بسے ، اکتوبر 2015 میں بھی ترکی میں ایک امن ریلی کے دوران قیامت خیز حملہ ہواتھاجس میں ایک سو سے زائد افراد مارے گئے تھے ، اور دوسو افراد شدید زخمی ہوئے تھے ،ان حملوں میں سے بعض کی ذمہ داری داعش نے قبول کی اور بعض کی کردجنگجو گروپ نے جسے ترکی نے ایک دہشت گردتنظیم قراردے رکھاہے ۔قارئین کو یاد ہوگا کہ اسی انداز کا ایک دہشت گردانہ حملہ 13 نومبر 2015 کو فرانس کی راجدھانی پیرس میں ہواتھا ،اس حملہ میں 128 افراد مارے گئے تھے ،جبکہ دوسو کے قریب زخمی ہوئے تھے ،حملہ کے فورا بعد اس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی ۔
گذشتہ چھ ماہ میں دوملکوں میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کی یہ مختصر داستان ہے ،ترکی میں اب تک چار متواتر دہشت گردانہ حملے ہوئے ہیں جس میں 173 سے زائد افراد مارے گئے ہیں جبکہ فرانس میں صرف ایک دہشت گردانہ حملہ ہواہے جس میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 128 ہے ،آپ کو یہ بھی یاد ہوگا کہ جب فرانس میں حملہ ہواتھا تو پوری دنیا میں قیامت بر پاتھی،ہرطرف شوروہنگامہ تھا ،شمال سے لیکر جنوب تک اور مشرق سے لیکر مغرب تک عام آدمی سے لیکر خاص تک ہر کوئی بیک زبان ہوکر دہشت گردی کی مذمت کررہاتھا ،فرانس نے چن چن کر حملہ آور وں کو مارنے کا عزم ظاہر کیاتھا ،یورپ میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف انتہاء پسندی کی تحریک شروع ہوگئی تھی ،دنیا کے سبھی حکمراں فرانس کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے نظر آئے تھے،مسلم حکمرانوں نے بھی اس حملہ کی سخت مذمت کی ،ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی دہشت گردی کی مذمت کرتے ہوئے رنج والم کی اس گھڑی میں فرانس کے ساتھ قدم سے قدم ملانے کا عزم ظاہر کیا تھا ،ہندوستان کے مسلم رہنما بھی اس حملے کی مذمت کررہے تھے ،اردو اخبارات میں مذمتی پریس ریلیز کی بھیڑ لگی تھی ،ایک رہنما نے دہشت گردی کی مخالفت میں ہندوستان کے 70 شہروں میں احتجاجی ریلی کا اہتمام کیاتھا ،میڈیا میں پیر س حملہ مسلسل موضوع بحث رہا ،دنیا بھر کے ٹی وی چینلز او راخبارات میں ہفتوں یہ خبر چلتی رہی ،اردو اخبارات نے بھی کئی دنوں تک اس معاملے سے جڑی خبریں لیڈاسٹوری بناکر شائع کی ،اداریے لکھے گئے ،مضامین اور خصوصی فیچرس کا اہتمام کیا گیا لیکن اسی انداز کا دہشت گردانہ حملہ جب ترکی میں ہورہاہے تو کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی ،دہشت گردی مخالف تحریک کے علمبردار امریکی صدر باراک اوبامہ کو شاید ترکی میں ہونے والے پے درپے حملوں کی خبر تک نہیں ہوپارہی ہے ، وہائٹ ہاوئس سے مذمتی قرارد اد پاس کرنے کے بجائے کردوں کی حمایت کا پروانہ جاری کیاجاتاہے جسے ترکی حکومت دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرتی ہے ،اقوام متحدہ ان حملوں کے تئیں خاموش ہے ،عالمی امن کے ٹھیکڈار مذمتی بیان تک جاری نہیں کرتے ہیں ،سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ متحرک رہنے والے ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی کو بھی ٹوئٹ کرنے کی توفیق نہیں ہوسکی ، مسلم ممالک کے رہنما ؤں نے بھی ترکی میں ہونے والے حملہ کی مذمت نہیں کی ،ستر شہروں میں دہشت گردی مخالف ریلی کا اہتمام کرنے والے رہنما کابھی کوئی مذمتی بیان میری نظروں سے نہیں گزرا ،ان رہنماؤں نے بھی ایک پریس ریلیز تک جاری نہیں کی جو پیرس حملہ کی سخت لفظوں میں مذمت کررہے تھے ،عالمی میڈیامیں ان خبروں کے حوالے سے کوئی ہلچل نہیں دکھی ،ہندوستان کے اردو اخبارات میں اس پر کوئی تجزیہ اور اداریہ نہیں لکھاگیا ،فیس بک اور سوشل میڈیا پر اس حملہ کے حوالے سے خاموشی چھائی رہی ،پیر حملہ ہواتھا تو فیس بک ، گوگل یوٹیوب سمیت متعدد سوشل میڈیا نے اظہار تعزیت کی تھی ،فیس بک میں وہاں کے جھنڈے کے ساتھ ڈی پی پکچر تبدیل کرنے کا آپشن دیا گیاتھا ،لیکن ترکی او ردیگر مسلم ملکوں میں ہونے والے متواتر دہشت گردانہ حملوں کا کسی کو احساس تک نہیں ہوپاتا ہے یا پھر انہیں یوں لگتاہے کہ ان حملوں میں مرنے والے مسلمان ہیں اس لئے اس کی مذمت ضروری نہیں ہے ،دہشت گردی کا شکار ایک مسلم ملک ہواہے اس لئے اس کے ساتھ تعزیت کو ئی معنی نہیں رکھتی،مذمت اور اظہار یکجہتی صرف مغربی ملکوں میں ہونے والے واقعات کے ساتھ خاص ہے ،آج کے میڈیا اداروں کی ذہیت یہ ہے کہ کسی مسلمان کا قتل ہوجانا کوئی خبر نہیں ہے ،ہاں بریکنگ نیوز یہ ہے کہ کسی غیر مسلم کا قتل ہوجائے ۔گذشتہ 14مارچ کو ترکی میں ہونے والے دہشت گردانہ حملہ کی خبر ایک عربی اخبار کے ذریعہ تقریبا رات کے ایک بجے مجھے ملی ،میں سونے کی تیاری میں تھالیکن ہم نے اسی وقت وہ خبر اپنے نیوزپورٹل ملت ٹائمز میں ترجیحی طور پر شائع کی ۔
دہشت گر دی قابل مذمت ہے ، دنیا میں جہاں کہیں بھی جس کسی کا بھی قتل ہوتاہے وہ شرمناک ہے ،جو کوئی بھی دہشت گردانہ کاروائیوں کو انجام دیتا ہے وہ ناقابل معافی مجرم ہے ،لیکن دہشت گردی کے نام پر یہ دوہری پالیسی سمجھ سے بالاتر ہے کہ جب مسلم ممالک کے علاوہ کہیں معمولی ساو اقعہ بھی پیش آتاہے تو پوری دنیا ایک صف میں کھڑی ہوکر دہشت گردی مخالف جنگ لڑنے کا عزم ظاہر کرتی ہے لیکن جب وہی حملہ ترکی ،لبنان ، لیبیا ،عراق ،سعو دی عرب ،پاکستان ،افغانستان سمیت مسلم ملکوں میں ہوتا ہے تو کہیں سے کوئی آواز بلند نہیں ہوتی ہے ،معمولی سا واقعہ سمجھ کر اسے کوئی اہمیت نہیں دی جاتی ہے، مرنے والوں کے ساتھ اظہار یکجہتی نہیں کی جاتی ہے ،جو ملک اس حملہ سے دوچار ہوتاہے اس کے غم میں عالمی رہنما شریک نظر نہیں آتے ہیں ،یہی تفریق دہشت گردانہ حملہ کرنے والوں کے ساتھ بھی برتی جاتی ہے ،ایسے واقعات میں جب کوئی مسلمان ملوث پایا جاتاہے تو اسے سب سے بڑا دہشت گرد قراردیا جاتاہے ،مسلمانوں پر پابندی عائد کرنے کی بات کی جاتی ہے ،اسلام پر براہ راست حملہ کردیا جاتاہے لیکن وہی حملہ جب کسی دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والا انجام دیتاہے تو اسے ایک دوسرارخ دے دیا جاتاہے ،مذہب سے جوڑنے کے بجائے اس کا ذاتی عمل قراردیا جاتاہے ،کوشش یہ ہوتی ہے کہ اس طرح کی خبر پس پردہ رہے ،کسی کے سامنے دہشت گردوں کا مذہب ظاہر نہ ہوسکے ۔
دہشت گردی کے نام پر یہ تفریق دہشت گردی کے خاتمہ کے بجائے مزید اس کے اضافہ کا سبب بنے گی ، وہ لوگ سب سے بڑے مجرم ہیں جو دہشت گردانہ حملوں میں تفریق برتتے ہیں ،جہاں اپنا مفاد نظر آتاہے وہاں دہشت گردی کی تاویل کرکے اس کے جواز کا فیصلہ صادر کرتے ہیں ،جہاں اپنا مفاد وابستہ نہیں ہوتاہے وہاں دہشت گردی کی مذمت کرتے ہوئے اس کے خاتمہ کی بات کرتے ہیں اور دہشت گردی مخالف جنگ کے نام پر بے گناہوں اور معصوموں کا قتل کرتے ہیں ،عالمی رہنماؤں اور اقوام متحدہ کی یہ دوہری پالیسی دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ کا سبب ہے بلکہ یہی تفریق اصل دہشت گردی ہے ،جب تک دہشت گردی کی یکساں تعریف نہیں کی جائے گی ،زمان ومکان کی قید سے اسے آزاد نہیں کیا جائے گا،مذہب ،رنگ نسل اور علاقے سے علاحدہ نہیں رکھا جائے گا اس وقت تک دنیا اس لعنت سے نجات پانے میں کامیاب نہیں ہوسکتی ہے ۔
دہشت گردی کے نام پر پائی جانے والی اسی دوہری پالیسی کے پیش نظر ترکی کے صدر طیب اردگان نے کہاہے کہ اب دہشت گردی کی تعریف طے ہونی چاہئے کہ کیا ہے دہشت گردی اور کس طرح کے حملوں کو دہشت گردانہ حملے کا نام دیا جائے گا ۔ (ملت ٹائمز)
(مضمون نگار ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر ہیں )
stqasmi@gmail.com