مولانا سید احمد ومیض ندوی
استاذ حدیث دارالعلوم حیدرآباد
دورِ حاضر سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کا دور ہے، مواصلات کی حیرت انگیز ترقی نے ساری دنیا کو گلوبل ولیج میں تبدیل کر دیا ہے، انٹر نیٹ کی ایجاد نے معلومات کے انبار لگا دیئے ہیں، علم و سائنس کے بڑھتے قدموں نے وسائلِِ زندگی میں بے تحاشہ اضافہ کر دیا ہے، ہر قسم کے سامان آرائش کی فراوانی ہے، لیکن یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے، دورِ حاضر کی تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ وسائل کی بہتات کے باوجود موجودہ دور کا انسان مسائل میں گھر ا ہوا ہے، اس وقت ساری انسانیت انتہائی پیچیدہ قسم کے مسائل میں گرفتار ہے، مغربی ممالک ہوں کہ مشرقی دنیا، ترقی یا فتہ علاقے ہوں کہ پسماندہ ممالک ساری انسانی آبادی الجھنوں کا شکار ہے، عالمگیر نوعیت کے مسائل کا سامنا ساری دنیا کو ہے، اور ایسا بھی نہیں کہ ان مسائل کے حل کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہوتی بلکہ دنیا بھر کے دانشور اوربے پناہ دماغی صلاحیتوں کے حامل مفکر اور صفِ اول کے مدبر بار بار سرجوڑ کے بیٹھتے ہیں اور مسائل کے حل کے لیے عالمی کانفرنسوں اور سیمیناروں کا انعقاد عمل میں لایا جاتا ہے، اور بعض مسائل ایسے ہیں جن کے حل کے لیے اقوام متحدہ کی نگرانی میں باقاعدہ بیٹھکیں ہوتی ہیں، مگر نشستند و خوردند و برخاستند کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
انسانیت کو لاحق مسائل کاحل وہی ذات کر سکتی ہے جو انسانوں کی خالق ہے جس پروردگار نے انسان کی شکل میں حیرت انگیز مشین بنایا ہے وہی بہتر طور پر جانتا ہے کہ اس مشین کو کیا کمزوریاں لاحق ہوسکتی ہیں اور اس میں آنے والی خرابیوں کو کیسے دور کیا جاسکتا ہے چنانچہ اس خالق کائنات نے جہاں حضرت انسان کو پیدا فرمایا وہیں اس کے مسائل کے حل کے لیے حضرات انبیاء کرام کو مبعوث فرمایا اور خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ ؐ کو بھیج کر قیامت تک پیدا ہونے والے نت نئے مسائل کے حل کا سامان فراہم فرمایا، اس وقت انسانیت جتنے مسائل سے دو چار ہے اس کا حل صر ف اور صرف سیرت رسولؐ اور تعلیمات اسلام میں ہے۔
اس وقت سب بڑا مسئلہ جس سے دنیا کے سارے ممالک دوچار ہیں، تحفظ و سلامتی اور انسانی حقوق کی حفاظت کا ہے، دنیا کے ہر خطہ میں انسان عدم تحفظ کا شکار ہے، انسانی خون ارزاں سے ارزاں ہوتا جارہا ہے، گزشتہ صدی میں دنیا دو عظیم جنگوں کا سامنا کر چکی ہے، جن میں لاکھوں انسان مارے گئے ان دو جنگوں کے باوجود حالا ت میں تبدیلی نہ آسکی، اب دنیا کی صورتِ حال یہ ہے کہ دھماکے روز کا معمول بن چکے ہیں، کسی دن کے اخبارات دھماکوں کی خبروں سے خالی نہیں ہوتے، اور ایک ایک دھماکے میں سیکڑ وں لوگ ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوتے ہیں اور لاکھوں کی املاک تباہ ہوتی ہے، عراق میں دس لاکھ سے زائد شہری مارے گئے، افغانستان میں تباہی کا سلسلہ ہنوز جاری ہے، بوسینا کی قیامت صغریٰ اب تک ذہنوں سے محو نہیں ہوئی، جہاں کی اجتماعی قبروں سے اب تک نعشیں بر آمد ہورہی ہیں جن ممالک کو اپنے سیکوریٹی نظام پر ناز ہے وہاں بھی انسانی جان کو خطرات لاحق ہیں امریکہ جیسے سپر پاور ملک میں اچانک فائرنگ کے واقعات معمول بن چکے ہیں، اسکولوں میں دن دھاڑے فائرنگ ہوتی ہے، شاپنگ مالوں میں دھماکے ہوتے ہیں، الغرض پوری دنیا بارود کے ڈھیر پر کھڑی ہے، سلامتی و تحفظ کے مسئلہ پر ہر ملک انتہائی حساس ہے، سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے نت نئے مہلک ہتھیار تیار کئے جارہے ہیں، ہر ملک اپنے بجٹ کا ایک بڑا حصہ دفاع پر خرچ کررہا ہے، اس سب کے باوجود کہیں انسانوں کو تحفظ حاصل نہیں، سیرت رسولؐ اس کا حل بتاتی ہے، آپ ا کی آمد سے پہلے قتل و غارت گری اور لوٹ کھسوٹ عام تھی، معمولی باتوں پر جنگ چھڑ جاتی تھی اور چالیس چالیس برس تک جاری رہتی تھی، مختلف قبائل میں آپسی رسہ کشی عروج پر تھی ایسے نازک حالات میں رحمتِ عالمؐ نے اپنی پاکیزہ تعلیمات کے ذریعہ ایسا انقلاب بر پا کردیا کہ خونخوار انسان امن و سلامتی کے علمبردار بن گئے ، ایک دوسرے کی جان کے درپے رہنے والے ایک دوسرے پر جان نچھاور کرنے والے بن گئے، عورتوں کو مکمل تحفظ حاصل ہو گیا، آپؐ نے انسانی جان کی عظمت بڑھا دی، خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر صاف اعلان کیا کہ تمہارا خون تمہارا مال ایک دوسرے کے لیے حرام ہے جس طرح یہ دن یہ شہر قابل احترام ہے، جرائم کے انسداد اور جان ومال کے تحفظ کے لیے آپ نے لوگوں میں ایک دوسرے کے حقوق کا احترام اور ان کی ادائیگی کی فکر پیدا کی، اور آخرت میں جوابدہی کا احساس پیدا کیا، چنانچہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں ہر شخص خوف خدا سے سرشار ہوتا تھا، دوسروں پر ظلم تو دور رہا کسی کے بارے میں معمولی بات کہنا بھی ان کے لیے گراں گزرتا تھا، فکر آخرت اور مرنے کے بعد کی زندگی میں ہونے والے حساب و کتاب کے یقین کے بغیر حقوق انسانی کا تحفظ ممکن نہیں اورنہ ہی انسانی جانوں کے اتلاف کا یہ لا متناہی سلسلہ ختم ہوسکتا ہے، احساس جو ابد ہی اور آخرت کی سزا کے ڈر کے ساتھ جرائم اور قتل وغارت گری کے سدِ باب کے لیے آپ نے حدود و قصاص او رتعزیرات کا مؤثر نظام قائم فرمایا، قاتل کی سزا قصاص اور چور کے لیے قطعِ ید شراب نوشی پر اسی کوڑے اور شادی شدہ کے زنا میں مبتلا ہونے اور گواہوں کے ذریعہ ثابت ہونے پر سنگساری کی سزا مقرر فرمائی، موجودہ مغربی دنیا ان سزاؤں کو وحشیانہ قرار دیتی ہے لیکن وہ یہ نہیں جانتی کہ ایک قاتل پر حد جاری کرنا ہزاروں افراد کے تحفظ کا ضامن ہے، چنانچہ حدود و قصاص کا یہ نظام جن مسلم مسلکوں میں رائج ہے وہاں قتل و جرائم کے واقعات کی شرح انتہائی کم ہے۔
دوسرا عالمی مسئلہ جس سے پوری دنیا دوچار ہے وہ غربت اور بھکمری ہے، آج کی مہذب دنیا میں جہاں سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی سے اسباب زندگی اور وسائل آرائش کی بہتات ہے، مختلف ملکوں میں لاکھوں افراد نانِ شبینہ کے محتاج ہیں افریقی ملکوں میں لاکھوں باشندے ایسے ہیں جنہیں بھوک کی شدت نے ہڈی کے ڈھانچوں میں تبدیل کردیا ہے، فاقہ کے سبب ہر سال لاکھوں افراد بلک بلک کر جان دے رہے ہیں خود ہمارے ملک میں بھی خطِ افلاس کے نیچے زندگی گزارنے والوں کی شرح چالیس فیصد سے زائد ہے، لاکھوں ہندوستانیوں کو ایک وقت کا صحیح کھانا نصیب نہیں حتیٰ کہ پینے کا پانی تک میسر نہیں ، سیرت رسولؐ میں اس کا علاج موجود ہے، آپ نے زکوٰۃ کا نظام قائم فرمایا اس سے ہٹ کر غریب رشتہ داروں، پڑوسیوں اور ضرورت مند انسانوں کی حاجت برآری کی تلقین فرمائی، یتیموں اور بیواؤں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی، اگر صحیح معنی میں سارے صاحب نصاب مسلمان اپنے مالوں کی زکوٰۃ نکالنے لگیں تو امت مسلمہ کا کوئی فرد بھوکا نہیں رہے گا، نبی کی ان تعلیمات کو اگر دنیا کے سارے انسان اپنا لیں تو غربت کے خاتمہ میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔
ایک اور عالمی مسئلہ جس نے عالمی قائدین کی نیند حرام کردی ہے معاشی بحران کا ہے، معاشی بحران اس وقت سارے یوروپ اور امریکہ کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے، امریکہ کے بیسوں بینکوں کا دیوالیہ ہو چکا ہے، بیسیوں کمپنیاں ٹھپ پڑ چکی ہیں، مہنگائی روز افزوں ہے عام اشیاء کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگی ہیں، سیرت رسولؐ اور قرآنی تعلیمات میں اس مسئلہ کا شافی علاج ہے، موجودہ معاشی بحران در اصل سودی نظام معیشت کی دین ہے، اسلام بلا سودی نظام معیشت پیش کرتا ہے ، سودی نظام پر مبنی بینکاری فیل ہو چکی ہے، خود مغرب کے صفِ اول کے ماہرین معاشیات اس کا اعتراف کرچکے ہیں اور خود مغربی حلقوں سے بلا سودی اسلامی بینکنگ سسٹم کے لیے آوا ز بلند ہورہی ہے، اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے، چنانچہ سود پر مبنی معیشت اپنا بوریہ بستر لپیٹ رہی ہے، اب ایک ہی راستہ رہ گیا ہے، کہ انسانیت نبی رحمت کے دامن سے وابستہ ہوجائے، اور آپ کے لائے ہوئے نظام معیشت کو رواج دے۔
موجودہ دور کی ایک لعنت جو عالمگیر شکل اختیار کر چکی ہے وہ ذات پات اور رنگ و نسل کی بنیاد پر انسانوں میں تفریق کی لعنت ہے، نسلی امتیاز اور قومیت و علاقائیت کے تعصبات انتہا کو پہنچ چکے ہیں، یوروپ اور امریکہ جیسے حقوق انسانی کے دعویدار ملکوں مین کالے گوروں میں امتیاز عام ہے، گورے کالوں سے اس درجہ نفرت کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ کھانے میں تک عار خیال کرتے ہیں چنانچہ گوروں کی ہوٹلوں میں کالوں کا داخلہ ممنوع ہے، نبیؐ نے سرے سے اس کا خاتمہ کر دیا ، آپؐ نے بتایا کہ انسانوں کے درمیان رنگ و نسل اور قومیت کی بنیاد پر تفریق در اصل انسانیت کے ساتھ ظلم ہے، سارے انسان آدم کی اولاد ہیں سب برابر کے حقوق رکھتے ہیں، انسانوں میں اگر فرق کیا جاسکتا تو وہ صرف اخلاق و کردار اور تقویٰ کی بنیاد پر کیا جاسکتا ہے، کسی عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر اور گورے کو کالے پر کوئی فضیلت نہیں، آپ نے ایک ہی جھنڈے تلے صہیب رومی کو بھی لایا اور سلمان فارسی کو بھی، بلال حبشی کو عربوں کا سردار بنایا، نسلی امتیاز اور علاقائی عصبیت کی لعنت سے نجات سیرت رسول ﷺ ہی سے ممکن ہے۔
موجودہ دور کا ایک عالمی مسئلہ بدعنوانی اور کرپشن کا ہے، اس وقت پوری دنیا اس لعنت میں گرفتار ہے کرپشن سارے نظام کو کھوکھلا کررہا ہے، ہمارا ملک تو بد عنوان ملکوں میں سر فہرست سمجھاتا ہے ، جہاں بد عنوانی سیاسی زندگی کا جزو لا ینفک سمجھی جارہی ہے، آئے دن اسکامس منظر عام پر آرہے ہیں ۲۰۱۰ء تو حکومت کے لیے اسکنڈلوں کا سال رہا، G2 اسپکٹرم اسکام سوسائٹی اسکام کامن ویلتھ گیمز اسکام، پتہ نہیں کن کن ناموں کے اسکام سامنے آئے، بدعنوانی قوانین سے ختم نہیں کی جاسکتی اس کے لیے جب تک سیاست دانوں میں احساس جوابدہی نہ پیدا ہو ، بد عنوانی کا خاتمہ ممکن نہیں۔
اسی طرح آج کا ایک اہم مسئلہ خاندانی نظام کا بکھراؤ اور معاشرتی زندگی کا عدم استحکام ہے جو اس وقت مغربی معاشروں کو تباہی کے دہانے پر پہنچا رہا ہے، اسلامی تعلیمات کے بغیر مستحکم خاندانی نظام ممکن نہیں، مغربی معاشرے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکے ہیں، شادیوں کا تصور ختم ہوتا جارہا ہے، ۵۰؍ فیصد سے زائد نوجوان لڑکیاں کنواری مائیں بن رہی ہیں ، بیشتر شادیوں کا انجام طلاق کی صورت میں ظاہر ہورہا ہے، مغربی ممالک کے بچے ماں باپ کی شفقت سے محروم ہیں، ماں باپ اولاد پر کنٹرول کھوتے جارہے ہیں، کامیاب خاندانی اور عائلی زندگی صرف اسلام اور سیرتِ رسولؐ پیش کرتی ہے، مغرب اگر اپنی بقا چاہتا تو اسے معاشرتی زندگی کی نبوی تعلیمات کو اپنانا ہوگا، اسلام خاندان کے ہر فرد کے حقوق و فرائض کا ایک مکمل اور مربوط نظام رکھتا ہے اور عورت اور مرد میں سے ہر ایک کا دائرہ متعین کرتا ہے، بہترین خاندان کی تشکیل کے لیے عورتوں پر گھر یلو تربیت کی ذمہ داری ڈالتا ہے۔
فحاشی و عریانیت اور جنسی بے راہ روی آج کے دور کا ایک انتہائی پیچیدہ مسئلہ بن چکی ہے، پوری دنیا اس کی لپیٹ میں ہے، مغربی ملکوں میں فحاشی کو قانونی درجہ حاصل ہوچکا ہے، آزادی کے نام پر انسانوں کو حیوانوں کی صف میں کھڑا کیا جارہا ہے، میڈیا جسے اچھے پاکیزہ معاشرہ کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کرنا چاہیے صرف غلاظتوں کی آماجگاہ بن چکا ہے، مغربی معاشرہ کے انسان کتوں کی طرح بے حجابانہ جنسی ہوس پوری کررہے ہیں، سیرت رسولؐ ہی دنیا کو اس لعنت سے بچا سکتی ہے، آپ ا کی تعلیمات میں حیا کو ایمان کا لازمی جز قرار دیا گیا ہے، آپؐ نے فرمایا کہ بے حیا باش و ہر چہ خواہی کن ، عورتوں کے لیے حجاب ضروری قرار دیا گیا ، مردوں کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنی نگاہوں کی حفاظت کریں، بری نگاہ کو شیطان کا تیر قرار دیا گیا، بے حیائی اور عریانیت کے سبب اس وقت انسانیت ایڈز کی شکل میں عذاب الہٰی سے دو چار ہے، ہر سال دنیا بھرمیں لاکھوں افراد لقمۂ اجل بن رہے ہیں، ایڈز کے خدائی عذاب سے بچنے کے لیے ہر ملک اپنے بجٹ کا بڑا حصہ استعمال کررہا ہے، عالمی سیمناروں کا انعقاد عمل میں لایا جارہا ہے، لیکن اس سے چھٹکارے کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی، جب تک سماج سے فحاشی اور برہنگی اور جنسی بے راہ روی کا خاتمہ نہ کیا جائے ایڈز سے نجات ممکن نہیں، نبوی تعلیمات کے نفاذ سے انسانیت اس عذاب سے چھٹکارا پاسکتی ہے۔
دورِ حاضر کی ایک خطرناک لعنت نشہ بازی اور منشیات کی لت ہے، عالمی صحت تنظیم WHO کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں دو ارب لوگ شراب نوشی کرتے ہیں، ہندوستان میں سڑک حادثات میں روزانہ تقریباً ۲۸۲ لوگ مرتے ہیں، جس میں اکثر حادثوں کے پیچھے شراب نوشی کار فرما ہوتی ہے شراب کے ساتھ دیگر منشیات کا استعمال آج کے مشینی معاشرہ میں تیزی سے فروغ پارہا ہے، شراب و نشہ بازی کا بنیادی سبب موجودہ معاشرہ میں سکون سے محرومی ہے موجودہ مشینی مادہ پرست معاشرہ میں سکون نام کی چیز نہیں ہے مادی وسائل رکھنے والا بھی پریشان ہے اور ان سے محروم افراد بھی مضطرب ہیں، سکون کے لیے بھنگ، شراب، گانجہ، ہیروئن، مارفین جیسی چیزوں کا سہارا لیا جاتا ہے، آج دنیا کی ساری حکومتیں ڈرگس اور منشیات کے مسئلہ سے حیران وپریشان ہیں، امریکہ میں ۱۹۱۸ء سے ۱۹۳۳ء کے درمیان نشہ بندی مہم کے دوران اربوں ڈالر خرچ کر کے بھی مقصد حاصل نہیں ہوا، منشیات کی لعنت کاحل نبی نے بتایا ہے ، شراب کی حرمت نازل ہوئی تو مدینہ کی نالیوں میں شراب پانی کی طرح بہنے لگی، شراب سے پاک معاشرہ نبوی تعلیمات، خوفِ خدا اور اخروی جزا و سزا کے یقین کے بغیر ممکن نہیں۔
الغرض اس مضمون میں موجودہ دور کے چند مسائل کا سرسری ذکر کیا گیا ہے، خلاصہ یہ کہ ہمارے سارے دردوں کا درماں سیرتِ رسول ﷺ ہے، ہمارے سارے مسائل کا حل تعلیماتِ نبویؐ میں ہے، آج کی انسانیت کو یہ راز کون بتائے؟ مسلمانوں پر اس کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، لیکن خود سیرتِ رسولؐ سے عاری مسلمان دوسروں کو کیسے تلقین کرسکیں گے، ربیع الاول میں صرف نعرے لگانے سے محبتِ رسولؐ کا حق ادا نہیں ہوتا، بلکہ ہماری گردنوں پر عائد ہونے والی ذمہ داریوں کو نبھانا پڑے گا، اپنے طرز عمل سے نبی ﷺ کی پاکیزہ تعلیمات کو دنیا کے سامنے پیش کرنا ہوگا، ظاہری بے روح حرکات سے ہم دنیا والوں کو تو فریب دے سکتے ہیں لیکن اللہ اور اس کے رسول کو فریب نہیں دے سکتے، آج کی انسانیت سیرت رسولؐ سے محرومی کے سبب تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے اسے بچا نے کے لیے قومِ رسول ہاشمی کو آگے آنا ہوگا۔
Email: awameez@gmail.com
Mob: 09440371335