قاسم سید
گنگا جمنا تہذیب کی علامت کہی جانے والی زبان حلاوت و شرینی جس کے گھر کی لونڈی ہے، خوبصورت دل کو موہ لینے والے الفاظ جس کی ڈیوڑھی پر پانی بھرتے ہیں، جس کی اثرپذیری سحر سامری سے زیادہ معلوم ہوتی ہے، جو ہندوستانی تہذیب و ثقافت کا چلتا پھرتا نمونہ ہے، جس کا دل اتنا وسیع ہے کہ جو لفظوں کے قریب محسوس ہوا اپنا رشتہ بنالیا، اس لئے لشکری زبان کہلائی، وہ دوسروں کو نوازتی رہی، زندگی دیتی رہی بھلے ہی اس کا دم گھٹتا رہا۔ ایک طرف اردو ادب کا دائرہ پھیلتا رہا، وہ صنوبر کی طرح سر اٹھاکر تازہ ہواؤں کو اپنے وجود میں پہنچاتا رہا، وہیں اردو زبان کا قد روزبروز گھٹتا رہا۔ اس کی بہت ساری وجوہات گنائی جاسکتی ہیں۔ اسے نقصان پہنچانے میں صرف تنگ نظری، تعصبات اور مذہبی دشمنی کا حصہ ہی نہیں بلکہ نادان دوستوں اور عاقبت نااندیشوں کی جذباتی، وقتی اور سطحی کارروائیوں کا بھی بڑا ہاتھ رہا۔ جو بظاہر بڑی خوشنما، جاذب نظر اور دلکش معلوم ہوتی ہیں، لیکن عواقب و نتائج کے اعتبار سے نہایت مہلک اور سم قاتل رہی ہیں، جنھوں نے اندھے جوش میں بے ثبات جذباتی فیصلوں کے ذریعہ اردو دشمنی کے جذبہ کو غذا فراہم کی، اردو کا راستہ تنگ کیا، خواہ ان کا یہ عمل غیرشعوری رہا ہو اور وہ اپنے عمل میں مخلص ہوں، لیکن ان کے رویوں نے اردو کے مستقبل کے کھلیانوں کو برباد کیا ہے۔ اس کی داستان بہت خونچکاں ہے اور دیکھا جائے تو اردو کو نقصان پہنچانے میں صرف حکومتوں، سرکاری اداروں کا دخل ہی نہیں ہے بلکہ اپنوں کے منافقانہ اور خودغرضانہ رویہ نے بھی اس کا گلا گھونٹنے کا کارخیر انجام دیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کروڑوں کے بجٹ اردو اکادمیوں کی چھاتہ بردار فوج، سرکاری و نیم سرکاری اردو اداروں کی بھرمار ہونے کے باوجود آخر اردو زبان سمٹتی کیوں گئی؟ یہ بجٹ کہاں اور کیوں جھونکا جاتا رہا؟ اس کا احتساب کیوں نہیں کیا گیا؟ مشاعروں، سمیناروں اور قوالیوں سے اردو زبان کا کتنا بھلا ہوا۔ اسکولوں سے اردو کا بستہ اٹھادیا گیا، کہیں سے آواز نہیں آئی۔ مثلاً اترپردیش میں اردو میڈیم کا ایک بھی سرکاری اسکول نہیں۔ اگر طالب علم اردو پڑھنا چاہتا ہے تو انتظامیہ کی طرف سے ایسی شرائط ہیں کہ وہ اردو بطور زبان لے ہی نہیں سکتا۔ اردو زبان مسلم قیادت اور جماعتوں کے ایجنڈے میں کبھی رہی نہیں۔ ایک ایسی زبان جس کو سرکاری رابطہ کی زبان بنانے کی ووٹنگ کے دوران ہندی کے مساوی ووٹ آئے، اس کا حلقہ تنگ ہوتا جارہا ہے۔ اردو کے نام پر روٹی کھانے والے، اردو کے نام پر روزگار حاصل کرنے والے، حکومت سے انعامات و وظائف میں خود کو اگلی صف کا مستحق سمجھنے والے، اردو کے نام پر سب سے زیادہ سرکاری مراعات حاصل کرنے والے، اردو کے حوالہ سے سارا گھی اپنی تھالی میں انڈیلنے والے کتنے فیصد ایسے ہیں جن کے گھروں میں اردو کی رسائی ہے۔ ہمدردی کا ڈھونگ رچاتے ہیں اور اپنے ہاتھوں سے سقراط کو زہر پلاتے ہیں۔ ان کے نام کی تختیاں بھی انگریزی میں ہوتی ہیں جو اردو کے پروفیسر اور اسکالر کہلاتے ہیں، اپنے بچوں کو اس ڈر سے اردو نہیں پڑھاتے کہ وہ انگریزی تہذیب سے ہم آہنگ نہیں اور وہ روزگار فراہم نہیں کرتی۔ اس لئے یہ بات کہنے میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہئے کہ اردو کے نام پر ساری خیرات لوٹنے اور مراعات پر قابض جاگیردارانہ ذہنیت رکھنے والا طبقہ ہی اردو کا اصل دشمن ہے، جو ہمدردی جتانے کے نام پر ساری ملائی کھاتا رہا ہے۔ اب اردو کونسل کے ایک فرمان نے اردو کے نام نہاد ہمدردوں کے ماتھے پر بل ڈال دیا ہے۔ ان کی سوئی ہوئی غیرت و حمیت نے انگڑائی لی ہے اور اسے جابرانہ نظام کی آہٹ قرار دے رہے ہیں۔ فروغ اردو کونسل کی طرف سے ایک ہدایت نامہ آیا ہے کہ اب انہی کتابوں و تصنیفات کو سرکاری مدد دی جائے گی جو یہ حلف نامہ دیں کہ ان کے مسودہ میں ملک اور سرکار کے خلاف کوئی مواد نہیں ہے۔ اس اقرارنامہ یا حلف نامہ کی خانہ پُری کے بعد ہی مدد دی جاسکے گی۔ کونسل اپنے موقف پر قائم ہے اور اسے کوئی شرمندگی بھی نہیں ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ کونسل سرکاری ادارہ ہے اور سرکاری ملازم کا فرض ہے کہ وہ قومی و سرکاری مفادات کا تحفظ کرے، یعنی اب گیند لشکر اردو کے جرنیلوں اور سپہ سالاروں کے پالے میں ہے کہ ہمارا موقف تو واضح اور ناقابل تبدیل ہے، فیصلہ آپ کریں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ دوردرشن اور ریڈیو پر یہ روایت بہت پہلے سے ہے اور ناقدان نے اس پر کبھی انگلی نہیں اٹھائی۔ ان سے مطالبہ ہورہا ہے کہ یہ اردو والوں کی توہین ہے اور تحریر و تالیف کی آزادی پر حملہ ہے اور اردو والوں کی حب الوطنی پر سوالیہ نشان لگایا جارہا ہے۔ حکومت وقت کی خامیوں، کوتاہیوں اور کمزوریوں کے خلاف ہمیشہ لکھا گیا ہے۔ اردو ترقی کونسل کی تشکیل حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ دینے کے لئے نہیں بلکہ اردو زبان و ادب کے فروغ کے لئے ہوتی ہے۔ این سی پی یو ایل کا یہ فیصلہ غیرضروری ہے وغیرہ وغیرہ۔
ہمیں یہ معلوم کرنا چاہئے کہ اب اردو کے جسور و غیور کریں گے کیا، اگر واقعی وہ بہادر ہیں اور مخلص ہیں انھیں چاہئے کہ وہ احتجاجاً اردو کونسل سے امداد لینا بند کردیں، کونسل کے پروگراموں کا بائیکاٹ کریں، کونسل کے بین الاقوامی سمیناروں اور مشاعروں میں شرکت سے معذرت کرلیں، کونسل سے ہر طرح کا رشتہ منقطع کرلیں، اسے احساس دلائیں کہ یہ فیصلہ غلط ہے اور اسے واپس لینا ہوگا۔ کونسل کے دروازوں پر حاضری دینا بند کردیں، اس سے پروجیکٹ نہ لینے کا عہد کریں، اس کی مختلف کمیٹیوں سے علیحدگی اختیار کرلیں اور قید تنہائی دینے کا اجتماعی فیصلہ کرلیں۔ اپنے مسودات کے لئے امداد لینا بند کردیں۔ آخر جمہوری احتجاج اور دباؤ کا اور کیا راستہ ہے۔ اگر وہ ایوارڈ دیتی ہے تو نہ لیں اور لئے ہیں تو واپس کردیں۔ ڈائرکٹر کو معافی مانگنے پر مجبور کردیں، اس کے خلاف دھرنا دیں، مظاہرے کریں، میمورنڈم پہنچائیں۔ پروفیسر حضرات جو اس فیصلے سے متفق نہیں ہیں، اپنے طلبائے عزیز کو بھی کونسل کے پروگراموں میں شرکت سے روکیں۔ کیا ایسا ہوگا؟ کیا اردو برادری کے سرخیل اور جھنڈابردار ایسا کوئی قدم اٹھائیں گے؟ شاید یہ دنیا کا سب سے بڑا عجوبہ ہوگا کہ ایسے جرات مندانہ فیصلے کریں۔ جن کی ریڑھ سے غیرت و حمیت کا پانی نکل گیا ہے، جو فرشی سلام کے عادی ہیں، جن کا مزاج خوشامدانہ اور درباری طرز کا ہے، جو سرکاری مراعات کے عادی ہوچکے ہیں، ان مٹھی بھر بمشکل دس فیصد لوگوں نے اردو کے تمام سرکاری وسائل پر غاصبانہ قبضہ کرلیا ہے، جو اردو زبان کے اصل مجرم ہیں، جو میر و غالب کی بوٹیاں آج تک نوچ نوچ کر کھارہے ہیں۔ اردو کا مافیا کیا کونسل سے برات کا اظہار کرنے کی ہمت رکھتا ہے۔ گھٹنوں کے بل چلنے اور زمین پر رینگ کر روٹی کے ٹکڑے حاصل کرنے کی عادت ہوگئی ہے، جن کی زندگی ظل الٰہی کو سلام کرنے اور سرکاری مراعات پر گزر گئی، وہ کونسل سے پنجہ آزمائی کرسکیں گے؟ جن کی گردنیں منوں احسانات کے بوجھ سے دبی ہوئی ہیں، آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرسکیں گے؟ چند ہزار کی مالی منفعت کے لئے جوڑتوڑ کرنے والے، پروجیکٹ کے حصول کے لئے لابنگ کرنے والے، مختلف بہانوں سے رسم و رواہ بڑھانے کے راستے تلاش کرنے والے یہ کاغذی سپاہی آزمائش کی ذرا سی بارش میں بہہ جائیں گے۔ ان کے پروں میں قوت پرواز نہیں، ان کے لہجوں میں اعتماد کی گھن گرج نہیں، کیونکہ یہ آوازیں روح سے نہیں پیٹ سے نکلتی ہیں۔ اردو کے نام پر خوشامدیوں، چاپلوسوں اور درباریوں کی ایسی فوج وجود میں آگئی ہے جس نے اردو کے لئے مختص سرکاری خزانہ کو عوام سے دور رکھا ہے۔ جس طرح سیاسی رہنماؤں اور حکومت کے کارندوں پر الزام ہے کہ وہ سرکاری خزانہ کو صرف 15 فیصد عوام تک پہنچنے دیتے ہیں، اسی طرح اردو برادری کے چند سو لوگ اردو بولنے والے کروڑوں لوگوں تک 15 فیصد حصہ بھی نہیں پہنچنے دیتے ہیں۔ پروگرام کے اختتام پر ملنے والے ظہرانے، عصرانے یا عشائیہ کے علاوہ اور کہاں تک ان کی رسائی ہے، براہ کرم بتائیں۔ اگر کچھ کرنا ہے تو جرات سے کرئیے ورنہ اخباری بیانات کی تلواروں سے جنگ لڑنے کا دکھاوا مت کرئیے۔ یہ ڈھونگ، یہ منافقت اس دور میں چلنے والی نہیں ہے۔ اردو کونسل اور دیگر سرکاری اردو ادارے اگر روایتی انداز میں خدمات انجام دینے پر اب بھی یقین رکھتے ہیں تو مان لیجئے کہ ابھی آپ مخصوص پروگراموں میں شرکت کرنے والے سامعین کو رخصت ہوتے وقت لفافہ دیتے ہیں، کل کو لفانہ لینے والے بھی نہیں ملیں گے۔ کرسیاں سامعین کو آج بھی ڈھونڈتی ہیں، اس لئے پتوں پر پانی مت چھڑکئے، ٹھوس کام کیجئے۔ اردو کو خدا کے لئے مشاعروں، سمیناروں اور قوالیوں سے آزاد کردیجئے اور زبان کے فروغ پر کچھ سال اور فنڈ مختص کردیجئے ورنہ کل اردو بھی میوزیم میں رکھی نظر آئے گی۔(ملت ٹائمز)
(مضمون نگار سینئر صحافی اور روزنامہ خبریں کے چیف ایڈیٹر ہیں )
qasimsyed2008@gmail.com