طلاق کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟

مولانا ندیم الواجدی
بی جے پی نے تین طلاق کے معاملے کو مسلمانوں کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی جو پالیسی اپنائی تھی اس پر وہ پوری مضبوطی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے، گجرات اسمبلی کے انتخابات میں بھی تین طلاق کو اہم ایشو بنایا گیا، ایسا لگتا ہے کہ ملک میں تین طلاق کے علاوہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے، اگر یہ مسئلہ حل ہوجاتا ہے تو ملک امن و سلامتی، خوش حالی اور ترقی کی راہ پر گامزن ہوجائے گا، تین طلاق کے مسئلے نے ترقی اور خوش حالی کی تمام راہیں مسدود کررکھی ہیں، پہلے تو عدالت عالیہ نے تین طلاق کو غیر مؤثر، باطل اور کالعدم قرار دیا اور اب یہ قانون لایا جارہا ہے، عدالت کی دلیل یہ تھی کہ قرآن میں تین طلاق کا ذکر نہیں ملتا، عدالت کی دوسری دلیل یہ تھی کہ جب تم لوگ تین طلاق کو بدعت کہتے ہو اور اس کی مذمت کرتے ہو تو اسے شریعت کا حصہ کیسے کہہ سکتے ہو، افسوس وکیلِ دفاع عدالت کو یہ بتلانے میں ناکام رہے کہ تین طلاق کا ذکر قرآن میں موجود ہے، وہ یہ عدالت کو بھی نہ بتلا سکے کہ تین طلاق شریعت کا حصہ کیسے ہے، عدالت نے تین طلاق کو کالعدم قرار دینے کے ساتھ ساتھ حکومت کو یہ مشورہ بھی دیا تھا کہ وہ تین طلاق کے خلاف قانون بنا کر نافذ کرے۔ ۱۵/ دسمبر ۲۰۱۷ء کو مرکزی کابینہ نے وزارت قانون وانصاف کی طرف سے پیش کئے گئے ایک مسودۂ قانون کو منظوری دی ہے، امروز فردا میں یہ مسودۂ قانون بحث کے لئے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا، وہاں سے منظوری کے بعد پارلیمنٹ کے ایوان بالا میں رکھا جائے گا، توقع یہ ہے کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوان اس مسودۂ قانون کو منظوری دے دیں گے۔ لوک سبھا میں تو بی جے پی کی اکثریت ہے ہی، راجیہ سبھا میں بھی شاید اپوزیشن اس بل کی مخالفت نہ کرے، کیوں کہ سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کانگریس نے کہا ہے کہ اگر یہ قانون سپریم کورٹ کی رہ نما ہدایات کے خلاف نہ ہوا تو وہ اس کی تائید کرے گی۔
ایسا لگتا ہے کہ مرکزی حکومت کی وزارت قانون نے اس بل کا مسودہ جسے ’’مسلم وومن پروٹکشن آف رائٹس آن میرج‘‘ کا نام دیا گیا ہے نہایت عجلت میں تیار کیا ہے، یہ مسودۂ بل کئی تضادات کا مجموعہ ہے، اور اس میں عقل وانصاف کے تقاضوں کو بھی نظر انداز کیا گیا ہے، ایک ذمہ دار حکومت کا پہلا فرض یہ ہے کہ وہ اپنے تمام شہریوں کے ساتھ مساوات کی بنیاد پر انصاف کرے، اس قانون کے ذریعے مسلم خواتین کے حقوق کا تحفظ کرنے کی نام نہاد کوششوں کے درمیان مسلم مردوں کے حقوق پامال کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو حکومت کی بدنیتی کو ظاہر کرتی ہے، ایک عام آدمی بھی یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ حکومت کا منشاء مسلم خواتین کی ہمدردی کی آڑ میں شریعت اسلامیہ کو نشانہ بنانا ہے، بی جے پی اور اس کی ہم نوا تنظیمیں نہیں چاہتیں کہ مسلمان اس ملک میں رہ کر اپنی شریعت پر عمل کریں اور اپنی الگ شناخت بنائیں، تین طلاق مسلمانوں کے سماج میں کبھی کوئی مسئلہ نہیں رہا، غیر جانب دارانہ سروَوں کے ذریعے یہ حقیقت سامنے آچکی ہے کہ مسلمانوں میں طلاق کا تناسب بہت کم ہے اور اس میں بھی تین طلاق کے معاملات آٹے میں نمک کے برابر ہیں، بی جے پی نے خواہ مخواہ تین طلاق کو ہوّا بنا رکھا ہے، اور اس کے ذریعے شریعت پر نشانہ سادھنے کی کوشش کررہی ہے ، لیکن یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ بی جے پی اتنی آسانی کے ساتھ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکتی، خواہ وہ کتنے بھی قانون بنائے، ہوسکتا ہے اس کے اقدامات ان مسلمانوں کو بھی شریعت کے قریب لے آئیں جو اپنی جہالت، کم علمی اور لا پرواہی کے سبب شریعت سے دور رہتے ہیں، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلمان غربت، افلاس، بے روزگاری، ظلم، نا انصافی سب کچھ برداشت کرسکتا ہے لیکن شریعت پر کوئی آنچ آئے یہ بات وہ کسی قیمت پر برداشت نہیں کرسکتا، اس لئے حکومت اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ وہ اس طرح کے قانون بنا کر مسلمانوں کو ان کے مذہب سے دور کرسکتی ہے۔
حکومت کی بدنیتی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ وہ جس کمیونٹی کے خلاف قانون بنانے جارہی ہے اس کے کسی ایک فرد یا کسی ایک جماعت سے بھی اس نے رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کی،یہاں تک کہ ان خواتین سے بھی جن کے حقوق کی حفاظت کے لئے یہ قانون بنایا جارہا ہے، انصاف کا تقاضہ تو یہ تھا کہ وزارات قانون بل کا ڈرافٹ تیار کرنے سے پہلے مسلمانوں کے قابل اعتماد اداروں کو اعتماد میں لیتی، علمائے دین اور شریعت اسلامیہ کے ماہرین سے مشورہ کرتی، خاص طور پر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کو رائے مشورے کے لئے طلب کرتی اور اس سے تجاویز طلب کرتی، ویسے بھی اس نے بورڈ کے ایک جملے کی آڑ لے کر قانون بنانے کی کوشش کی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بورڈ کو اہمیت دیتی ہے اور اس کے مشورے کو قابل عمل تصور کرتی ہے، اگر کسی وجہ سے حکومت نے ایسا نہیں کیا تو اسے چاہئے تھا کہ وہ مسوّدۂ قانون کابینہ میں رکھنے سے پہلے عام کرتی اور اس پر رائے طلب کرتی، عموماً حکومتیں اس طرح کے معاملات میں وسیع مشاورت کرتی ہیں، ایسے معاملات میں جن کا تعلق بیس پچیس کڑوڑ افراد سے ہو اور وہ معاملات نازک بھی ہوں جلد بازی میں کوئی قدم نہیں اٹھایا جاتا، وزارت ِ قانون کے اس طرزِ عمل سے ایسا لگتا ہے کہ اسے قانون بنانے سے زیادہ دلچسپی نہیں ہے بل کہ مسلمانوں کو اذیت اور تکلیف دینے میں زیادہ دلچسپی ہے، وزارت قانون کو اس بات کی بھی وضاحت کرنی چاہئے تھی کہ آخر اس قدر جلد بازی کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے، عدالت کا فیصلہ آنے کے بعد مرکزی وزیر قانون نے خود یہ بات کہی تھی کہ عدالت نے اپنے فیصلے کے ذریعے تین طلاق کا معاملہ ہی ختم کردیا ہے اب اس پر کسی قانون کی ضرورت نہیں ہے، سوال یہ ہے کہ اب ایسی کیا ضرورت پیش آگئی کہ خاص اس مسئلے پر گروپ آف منسٹرس تشکیل دیا گیا اور آناً فاناً میں بل کا مسوّدہ تیار کرکے کابینہ سے منظور کرالیا گیا اور اسے پارلیمنٹ میں پیش کرنے کی تیاری بھی کرلی گئی، مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ مسوّدہ تیار کرنے والوں نے جلد بازی میں اس بات پر بھی دھیان نہیں دیا کہ وہ طلاق کو غیر مؤثر اور غیر نافذ بھی مان رہے ہیں اور اس پر انتہائی سخت سزا بھی دے رہے ہیں، ایک طرف تو مجوزہ قانون میں یہ بات کہی جارہی ہے کہ طلاق باطل ہے، کالعدم ہے، دوسری طرف طلاق دینے والے کو تین سال قید کی سخت سزا بھی دی جارہی ہے اور اس پر تعزیری جرمانہ بھی لگایا جارہا ہے، سوال یہ ہے کہ جب طلاق واقع ہی نہیں ہوئی تو سزا کس بات کی ہے، قاعدے کی بات تو یہ تھی کہ حکومت پہلے تو طلاق کو مؤثر تسلیم کرتی پھر کوئی سزا تجویز کرتی، اب صورت یہ ہوگی کہ ایک مسلمان شخص اپنی بیوی کو طلاق دے گا، مگر اس کی طلاق باطل ہوگی یعنی از روئے قانون اس کی بیوی رشتۂ ازواج سے بدستور بندھی رہے گی، مگر شوہرکو محض اس جرم میں کہ اس نے طلاق کا لفظ استعمال کیا ہے تین سال کے لئے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جائے گا، یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کا یہ فیصلہ مسلم خواتین کے حقوق کا تحفظ ہے یا ان پر ظلم ہے، آخر جب ان کے شوہر ناکردہ گناہ کی پاداش میں داخلِ زنداں ہوجائیں گے تو ان کی اور ان کے بچوں کی کفالت کون کرے گا، ایسا لگتا ہے کہ حکومت طلاق کے معاملے کو دودھاری تلوار بنانا چاہتی ہے، ایک طرف تو وہ مسلم مردوں کو پابند سلاسل کرنا چاہتی ہے، دوسری طرف ان کے بیوی بچوں کو در در کی ٹھوکریں کھاتے ہوئے اور کاسۂ گدائی لے کر سڑکوں پر بھیک مانگتے ہوئے دیکھنا چاہتی ہے۔
حکومت کو تین طلاق سے دشمنی ہے، اور اب تک اس نے اسی کو اپنا مدَّعا بنا رکھا تھا، لیکن اس قانون میں اس نے ہر طرح کی طلاق کو باطل قرار دینے کی کوشش کی ہے، جو مسوّدۂ قانون اخبارات کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے اس کے باب دوم میں صاف لکھا ہے’’کسی بھی شخص کا اپنی بیوی کو کوئی بھی طلاق الفاظ کے ذریعے دینا خواہ زبانی ہو یا تحریری شکل میں ہو یا برقی شکل میں یا کسی بھی طرح دی جائے، غیر قانونی اور باطل ہوگی‘‘ اس عبارت کا واضح اور صاف مطلب یہ ہے کہ کوئی مسلمان مرد اپنی بیوی کو طلاق دے ہی نہیں سکتا، نہ ایک، نہ دو نہ تین، نہ زبانی نہ تحریری، اگر کسی نے کسی بھی طرح کی کوئی بھی طلاق کسی بھی ذریعے سے دی وہ غیر قانونی طلاق کہلائے گی، باطل ہوگی، یعنی طلاق دینے والا شخص اور طلاق دی ہوئی عورت بدستور میاں بیوی بنے رہیں گے، ہاں اس کو جرم سمجھا جائے گا کہ اس نے لفظ طلاق اپنی زبان سے کیوں اور کیسے نکالا، اس جرم کی پاداش میں اسے جیل جانا ہوگا اور جرمانہ بھی ادا کرنا ہوگا۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اس مجوزہ قانون کو مسترد کردیا ہے، ہر پڑھا لکھا آدمی اور ہر وہ شخص جس میں ذرا بھی عقل ہے اس کو مسترد کررہا ہے، اس کے باوجود اس مسودۂ قانون کو پارلیمنٹ میں رکھا جائے گا، اور اسے منظو ر بھی کرایا جائے گا، مسلمانوں کے پاس بہ ظاہر ایسی کوئی طاقت نہیں ہے کہ وہ اس بل کو پارلیمنٹ میں پیش ہونے سے اور اس کو منظو ر ہونے سے روک سکیں، اب صرف بات چیت کا راستہ باقی بچا ہے، اس سے مسئلہ حل ہوجائے گا اس کی امید بھی کم ہے، کیوں کہ چند ماہ پہلے جمعیۃ علماء ہند کا ایک لمبا چوڑا وفد وزیر اعظم سے مل چکا ہے اس ملاقات میں بھی تین طلاق پر بات ہوئی تھی، مگر حکومت اب بھی وہیں ہے جہاں پہلے تھی، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا وفد بھی وزیر اعظم سے ملنا چاہتا ہے ضرورمِلے، مگر یہ ملاقات بار آور رہے گی اس کی امید نہ رکھے، بی جے پی ایک مشن پر کام کررہی ہے اور وہ ہے اس ملک سے مسلمانوں کے تشخص اور ان کی اسلامی شناخت کو ختم کرنا، اس طرح کی ملاقاتوں سے وہ اپنا مشن چھوڑنے والی نہیں ہے۔
دعا تو یہی کرنی چاہئے کہ بورڈ نے وزیر اعظم سے ملاقات کرنے اور ان سے اس مجوزہ قانون کو واپس لینے کی درخواست کرنے کا جو ارادہ کیا ہے اس میں اسے کامیابی حاصل ہو اور مسلمان کسی نئی آزمائش میں نہ ڈالے جائیں، اس ملک میں ویسے ہی ان کے سامنے بہت سے مسائل ہیں، بہت سی مشکلات ہیں، بہت سے چیلنج ہیں، لیکن اگر یہ ملاقات ناکام رہی، مودی جی کے مزاج کو دیکھتے ہوئے جس کے امکانات زیادہ ہیں تو بورڈ کیا اقدام کرے گا؟ یہ سوال سب کو بے چین کئے ہوئے ہے۔
nadimulwajidi@gmail.com

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں