دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں

مولانا ندیم الواجدی
اقتدار کے نشے میں بدمست، عددی اکثریت کے غرور میں مبتلا بی جے پی کی حکومت نے وہی کیا جو اسے کرنا تھا اور جس کی اس سے توقع کی جارہی تھی، ۲۷؍ دسمبر کا دن ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے ۶؍دسمبر سے بھی زیادہ سخت صبر آزما اور تکلیف دہ ہے اس دن ایک مسجد شہید کی گئی تھی آج صنف نازک کے ساتھ ہمدردی اور مساوات کے نام پر جمہوریت کے سب سے بڑے مندر میں شریعت کا قتل کردیا گیا، یہ ملک اپنی جمہوری قدروں اور روایتوں کے لئے مشہور رہا ہے، مسلمانوں کا آٹھ سو سالہ دور حکومت اگرچہ موجودہ دور کی نام نہاد جمہوریت کی کسوٹی پر کھرا نہیں اترتا لیکن اس پورے دور میں جمہوریت کی حقیقی روح موجود تھی، مسلمان بادشاہوں نے اپنی مطلق العنانیت کے باوجود ہندوؤں کی تہذیبی روایات اور معاشرتی وسماجی اقدار سے کبھی چھیڑ چھاڑ نہیں کی، ان کے مذہبی تشخص کو برقرار رکھا، ان کو ان کے عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے کی مکمل چھوٹ دی، انگریزوں نے بھی اپنے دو سو سال کے اقتدار کے دوران کبھی یہ کوشش نہیں کی مسلمانوں اور ہندوؤں کے عائلی معاملات میں مداخلت کرے، ضرورت پڑی تو انھوں نے علماء کے مشورے سے شریعت ایکٹ بنا کر بھی نافذ کیا جس پر آج تک ہندوستانی عدالتوں میںعمل ہوتا چلا آرہا ہے، آزادی کے بعد بھی ہزاروں نا انصافیوں اور حق تلفیوں کے باوجود مسلمان اپنی شریعت پر چلنے اور عمل کرنے میں آزاد رہے، بی جے پی کی حکومت نے ہندوستان کی ہزار سالہ روایتوں پر کاری ضرب لگانے کا تہیّہ کرلیا ہے، طلاق ثلاثہ کے حوالے سے منظور کیا جانے والا بل اس کی طرف پہلا قدم ہے۔
پارلیمنٹ کے ایوان زیریں لوک سبھا میں یہ بل چند گھنٹوں کے اندر اندر پیش بھی کردیا گیااور منظور بھی کرالیا گیا، اب ایوان بالا راجیہ سبھا میں پیش کیا جائے گا، امید یہی ہے کہ وہاں بھی یہ بل منظور ہوجائے گا، کیوں کہ اس معاملے میں سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کانگریس بھی برسر اقتدار پارٹی کی ہم خیال نظر آرہی ہے، کانگریسی لیڈروں کا خیال ہے کہ اگر وہ لوگ بل کی مخالفت کرتے تو ہندوتوا طاقتوں کو فائدہ پہنچتا، کیوں کہ اس کے ذریعے بی جے پی ہندوتوا کارڈ کھیلنے کا منصوبہ رکھتی تھی، ہم نے بل کو کمزور کرنے کی حکمت عملی اپنا کر مشروط حمایت کی تاکہ یہ بل اسٹینڈنگ کمیٹی میں ٹک نہ پائے، اگر بل کو پارلیمنٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی میں پیش کیا جاتا تو سزا کی گنجائش ختم ہوجاتی، یہ کانگریسیوں کا خیال ہے، ہمارا خیال یہ ہے کہ کانگریس نے اس بل کی مکمل حمایت کی ہے اگرچہ کانگریس کی ایم پی شسمتادیوی نے کُھل کر بل کی مخالفت کی، لیکن جب ووٹنگ کا وقت آیا تو اس کی حمایت میں ووٹ دیا، اگر شسمتا دیوی نے بل کے متعلق جو کچھ کہا وہ ان کے ذاتی خیالات کے بہ جائے پارٹی کے خیالات تھے تو ووٹنگ کے دوران بل کی مخالفت کیوں نہیں کی گئی، اگر حکومت نے بل کو اسٹینڈنگ کمیٹی میں لے کر جانے کا مطالبہ نہیں مانا تو کانگریس کے ممبران پارلیمنٹ نے شور کیوں نہیں مچایا، اپنی نشستوں سے اٹھ کر ہنگامہ آرائی کیوں نہیں، واک آؤٹ کیوں نہیں کیا، اپوزیشن پارٹیاں اپنے مطالبات منوانے کے لئے اس طرح کے حربے اختیار کرتی ہیں، کانگریس کو اس طرح کے حربے اختیار کرنے سے کس چیز نے روکا، صحیح بات یہ ہے کہ کانگریس بھی اب ہندوتوا کی طرف بڑھ رہی ہے، شاہ بانو کیس میں اس وقت کے کانگریسی وزیر اعظم راجیو گاندھی نے پارلیمنٹ میں بل لا کر مدھیہ پردیش کی عدالت کے ایک فیصلے کو کالعدم قرار دیا تھا، اگرچہ بابری مسجد کا تالا کھلوار کر انھوں نے ہندو اور مسلمانوں میں اپنی مقبولیت کا توازن برقرار رکھنے کی کوشش کی تھی اور اقتدار حاصل بھی کرلیا تھا لیکن بی جے پی اس بل کو ہمیشہ کانگریس کے خلاف استعمال کرتی رہی ہے، کانگریس چاہتی ہے کہ اس کی پیشانی پر لگا ہوا یہ داغ دُھل جائے، وہ سمجھتی ہے کہ اقتدار کے حصول کے لئے اس کو اپنی یہ امیج ختم کرنی ہوگی کہ وہ مسلم نواز ہے، حالاں کہ کانگریس کبھی بھی حقیقی معنوں میں مسلم نواز نہیں رہی ، اگر وہ مسلم نواز ہوتی تو بابری مسجد کبھی شہید نہ ہوتی، مسلم نوجوان سرکاری ملازمتوں سے محروم نہ ہوتے، اس کا پچاس سالہ دور اقتدار ہزاروں مسلم کش فسادات سے لہولہان نہ ہوتا، مسلمان بچے کوڑے کرکٹ کے ڈھیڑ سے کچرا چننے کے بجائے اسکولوں میں نظر آتے، آج مسلمانوں کی جو حالت زار ہے وہ سب کانگریس کی انتخابی سیاست کا نتیجہ ہے، اور جن حالات سے مسلمان اس وقت گزر رہے ہیں وہ بھی کانگریس کی کمزور اور ناعاقبت اندیش قیادت کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔
کانگریس کا تو کیا ماتم کریں کہ اسے تو ایسا ہی کرنا تھا اور آئندہ بھی مسلمان اس سے کوئی اچھی امید نہ رکھیں، اصل دکھ تو ان مسلم ممبران پارلیمنٹ کے رویّے پر رہا ہے جو اتنے اہم بل پر بھی جو خالصتاً شریعت مخالف تھا اپنی اپنی پارٹیوں کی وفاداریوں سے بندھے رہے، انھوں نے ایک لمحے کے لئے بھی یہ نہیں سوچا کہ وہ پارٹی کے ممبر پارلیمنٹ بعد میں ہیں پہلے مسلمان ہیں، ممبر تو وہ آج ہیں کل نہیں رہیں گے، پارٹی کی وابستگی بھی آج ہے کل ختم ہوسکتی ہے، لیکن اسلام سے ان کا جو رشتہ ہے وہ اٹوٹ ہے، کل بھی تھا آج بھی ہے اور کل بھی رہے گا، بائیس میں سے صرف ایک مسلم ممبر پارلیمنٹ بھری لوک سبھا میں بل کی مخالفت کرتے نظر آئے، باقی یا تو اس اہم موقع پر موجود ہی نہیں تھے یا موجود تھے تو منہ میں گھنگنیاں ڈالے بیٹھے رہے، اب تاویلیں کی جارہی ہیں، اپنی خاموشی اور غیر موجودگی کا جواز تلاش کیا جارہا ہے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اگر بائیس کے بائیس مسلم ممبران پارلیمنٹ مل کر بھی بل کی مخالفت کرتے تب بھی یہ بل منظور ہوجاتا، ہمیں یہ بات تسلیم ہے کہ بل کو منظور ہونا تھا اور منظور ہوکر رہتا لیکن پارلیمنٹ کی تاریخ میں یہ واقعہ بھی رقم ہوتا کہ اس معاملے میں تمام مسلم ممبران پارلیمنٹ پارٹی وفاداریوں سے اوپر اٹھ کر ہم خیال نظر آئے، سب نے ایک آواز ہوکر بل کی مخالفت کی، کچھ نہ ہوتا مگر مسلمانوں کا کلیجہ تو ٹھنڈا ہوجاتا کہ ان کے ووٹوں سے منتخب ہوکر پارلیمنٹ کے ایوانوں میں پہنچنے والے ممبران نے کچھ تو بھرم رکھا ہے، کچھ تو ان کا خیال کیا ہے، کچھ تو ان کے زخموں پر مرہم رکھا ہے، کچھ تو ان کی اشک سوئی کی ہے، ایسا ہوتا تو ہندوستان کے ہر مسلمان کا سر فخر سے بلند ہوجاتا، آج وہ سرنگوں، شرمندہ، افسردہ اور غم زدہ نظر آرہے ہیں، اس لئے نہیں کہ پارلیمنٹ نے بل پاس کردیا ہے بل کہ اس لئے بھی کہ ان کے قائدین، ان کے محبوب لیڈر ان کی امنگوں پر، ان کی توقعات پر کھرے نہیں اترے، انہیں اسلام اور شریعت سے زیادہ اپنی کرسی عزیز ہے، وہ مسلمانوں سے زیادہ پارٹیوں کی زنجیروں میں چکڑے ہوئے ہیں، بہ ہر حال طلاق ثلاثہ پر بل پاس ہوچکا ہے، اب یہ قانون مسلمانوں کی ازواجی زندگی کا تانا بانا بکھیرنے کے لئے استعمال کیا جائے گا، کوشش کی جائے گی کہ مسلمان شریعت سے دور ہوتے چلے جائیں، آج طلاق پر پابندی لگائی جارہی ہے، کل تعدد ازواج کے خلاف بل پاس ہوگا، پرسوں اسلام کے نظام وراثت پر قانون سازی ہوگی، نکاح کے طور طریقے بھی بدلنے کی کوشش کی جائے گی، اگر مسلمانوں نے طلاق ثلاثہ بل کے خلاف مکمل مزاحمت نہیں کی تو یہ سلسلہ رکنے والا نہیں ہے۔مسلم خواتین کو بغیر محرم کے سفر حج پر جانے کی اجازت دینے اور وزیر اعظم کے ذریعے اس معاملے کو عورتوں کے ساتھ امتیازی سلوک قرار دینے کو بھی اسی تناظر میں دیکھنا چاہئے، سفر حج کے لئے محرم کی شرط نہیں ہی ہے ، صدیوں سے اس پر عمل ہورہا ہے، یہ خالصتاً ایک شرعی مسئلہ ہے موجودہ حکومت اس معاملے میں بھی مداخلت کررہی ہے، وزیر اعظم نے من کی بات میں جو کچھ کہا اس کے بعد وزیر اقلیتی امور مختار نقوی نے کہہ دیا ہے کہ جن تیرہ سو خواتین نے بغیر محرم سفر حج کی درخواست کی ہے ان کو بغیر قرعہ اندازی کے حج پر جانے کی اجازت دی جائے گی، حکومت اس معاملے میں بھی شریعت کو نشانہ بنانا چاہتی ہے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اشارہ دیا ہے کہ وہ اس بل کو عدالت میں چیلنج کرے گا، ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں ہے کہ ہم سپریم کورٹ میں جائیں اور بل میں موجود تضادات کے حوالے سے اسے چیلنج کریں، ہوسکتا ہے وہاں کامیابی مل جائے، بہ ظاہر ایسا نہیں لگتا کہ عدالت مسلمانوں کی اشک سوئی کرے گی کیوں کہ عدالت ہی نے حکومت کو قانون سازی کا مشورہ دیا تھا، جہاں تک تین طلاق کے خاتمے کا مطالبہ ہے عدالت پہلے ہی اسے ختم کرچکی ہے، عدالت بھی تین طلاق دینے والے کو سزا دینے کے حق میں ہے، اگرا س بل میں کچھ الگ ہے تو وہ طلاق بائن کا معاملہ ہے کہ عدالت نے تین طلاق ہی کو مرکز توجہ بنایا، حکومت نے اس میں دو طلاق کو بھی شامل کرلیا، اور اگر مرکزی وزیر قانون روی شنکر کی اس تقریر پر نظر ڈالیں جو انھوں نے پارلیمنٹ میں بل پیش کرتے ہوئے کی ہے تو اس سے ایسا لگتا ہے کہ حکومت طلاق کے تمام طریقوں کو ختم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، اگر مسلمانوں نے اس بل کی پوری طاقت کے ساتھ مخالفت نہیں کی تو حکومت کے حوصلے بلند ہوں گے اور وہ اپنے اس ارادے کو بھی عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرے گی۔
اس وقت تمام مسلمان مسلم پرسنل لا بورڈ کے فیصلے کے منتظر ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ بورڈ اس سلسلے میں سخت اقدام کا اعلان کرے، جمہوریت نے ہمیں اپنی بات رکھنے کا مکمل حق دیا ہے، اس سلسلے میں ہمیں ہر وہ طریقہ اختیار کرنا چاہئے جو قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اصحاب اقتدار کو اپنا فیصلہ بدلنے پر مجبور کرسکے، ہماری خاموشی یا پسپائی حکومت کے حوصلے بلند کردے گی اور وہ مزید ناپسندیدہ فیصلے کرنے میں آزاد ہوجائے گی، اس کے ساتھ ہی ملک کے سنجیدہ اور سیکولر ذہن رکھنے والے لوگوںکو یہ بتلانا بھی ضروری ہے کہ مسلمان اس بل کے مخالف کیوں ہیں، اس بل سے مسلم عورتوں اور مردوں کو کن پریشانیوں کا سامنا کرنا ہوکا، انہیں یہ بھی بتلانا ہوگا کہ نکاح وطلاق، سول معاملات ہیں، اس بل کے ذریعے ان کو کریمنل بنادیا گیا ہے، اور سزا بھی وہ رکھی گئی ہے کہ جو ملک سے بغاوت کے جرم میں دی جاتی ہے، حکومت مسلم ممالک کا حوالہ دیتی ہے کہ وہاں طلاق ثلاثہ نہیں ہے عوام کو بتلانا ہوگا کہ کسی بھی مسلم ملک میں تین طلاق دینے والے کے لئے جیل نہیں ہے، سب سے اہم بات یہ ہے کہ مسلم پرسنل لا بورڈ، ہماری ملی تنظیمیں، ہمارے مدارس اور دوسرے ادارے سب مل کر مسلمانوں کو یہ تلقین کریں کہ اس ملک میں وہ اپنے اسلامی تشخص کے ساتھ اسی وقت تک زندہ رہ سکتے ہیں جب تک وہ اپنے دین پر عمل پیرا رہیں گے، مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ نماز، روزے کی طرح نکاح وطلاق جیسے معاملات میں بھی شریعت کے بتلائے ہوئے طریقے پر چلیں ورنہ وہ دن دور نہیں کہ اس ملک میں شرعی قوانین قصۂ پارینہ بن کر رہ جائیں گے۔
nadimulwajidi@gmail.com

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں