دار العلوم دیوبند فرقہ پرستوں کے نشانے پر

مولانا ندیم الواجدی
جمہوریۂ ہندوستان کے پہلے صدر ڈاکٹر راجندر پرشاد ۱۹۵۷ء میں دار العلوم دیوبند دیکھنے کے لیے تشریف لائے ،اس موقع پر انہوں نے اپنے اس تأثر کا اظہار کیا’’یہ ایک تاریخی بات ہے کہ ہندوستان میں انگریزی سلطنت کو کبھی خوشی کے ساتھ برداشت نہیں کیا گیا یہاں تک کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے زمانے میں بھی کچھ ایسے لوگ موجود تھے جو بغاوتیں کرتے رہتے تھے، اسی سلسلے کا بہت بڑا واقعہ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی تھا ،جس میں اس علاقے کے ساتھ ساتھ ملک کے دوسرے علاقوں نے بھی حصہ لیا اورآزادی کے لیے لوگوں نے سخت جدو جہد کی ،تمام وہ علمائے کرام جنہوں نے اس دار العلوم کو قائم کیا جنگ آزادی میں شریک تھے، چناںچہ دار العلوم کے قیام سے پہلے اور اس کے بعد بھی انہوں نے جنگ آزادی کو جاری رکھا اور اسی کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے اپنی روحانی تعلیم وتربیت کے ساتھ آزادی کا بھی اہتمام کیا‘‘۔ اس سے پہلے مشہور گاندھیائی لیڈر آنجہانی ونوبابھاوے ۱۹۵۱ء میں اپنے دورۂ دار العلوم کے موقع پر ان خیالات کا اظہار کرچکے تھے‘‘یہ ایک ادارہ ہے جس نے پہلے دن سے برٹش سامراج کی مخالفت کی ہے اور اس محاذ پر سب سے پہلے قربانیاں پیش کی ہیں’’ دار العلوم کے لیے ملک کے سیاسی اور قومی لیڈروں کے یہ خیالات نئے نہیں ہیں، جو بھی دار العلوم کو قریب سے دیکھتا اور اس کے بزرگوں کی قربانیوں کا حال جانتا وہ برملا یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوتا کہ ملک کی آزادی کے لیے دار العلوم دیوبند کی بڑی خدمات ہیں۱۹۸۰ء میں دار العلوم دیوبند کے اجلاس صد سالہ کے موقع پر وزیر اعظم ہند مسز اندرا گاندھی دیوبند تشریف لائیں تو ان خیالات کی گونج ان کے اس خطاب میں سنائی دی جو انہوں نے اجلاس صدسالہ کی افتتاحی تقریب میں لاکھوں سامعین کے رو برو کیا، انہوں نے کہا تھا ’’دار العلوم دیوبند کے بزرگوں نے ہندوستان کی آزادی کی جو تحریک شروع کی تھی اس سے لوگوں کے دلوں میں آزادی حاصل کرنے کا جذبہ ابھرا اورامنگ پیدا ہوئی اور انہی کی کوششوں کی بہ دولت ہندوستان آزاد ہوا، اسلام اور مسلمانوں نے اس ملک کو بہت کچھ دیا ہے، اس کی ثقافت کو مالا مال کیا ہے اور یہاں کی زندگی پر گہرے اثرات قائم کئے ہیں‘‘۔
جس ادارے نے ملک کی آزادی کے لئے اس قدر قربانیاں دی ہوں آزاد ہندوستان میں اس کی قربانیوں کا عملی طور پر اعتراف کیا جانا چاہئے تھا، اس کے برعکس یہ کوشش کی جاتی رہی ہے کہ اس ادارے کو فرقہ پرستی، تنگ نظری، شدت پسندی اور تشدد پسندی کے الزامات لگا کر بدنام کیا جائے اور اس کی قربانیوں پر پانی پھیر دیا جائے، جب سے بی جے پی سیاست میں طاقت ور ہوئی ہے اس وقت سے یہ سلسلہ برابر چل رہا ہے، اور اس وقت تو شاید ہی کوئی دن ایسا جاتا ہو جب بی جے پی کا کوئی ایم ایل اے، ایم پی، کوئی وزیر، ترجمان، یا دوسرے تیسرے درجے کا کوئی لیڈر دار العلوم کو نشانہ نہیں بناتا، اب تو ان کی جرأت یہاں تک بڑھ گئی ہے کہ وہ دار العلوم دیوبند سے نکلنے والے فتوؤں پر بھی رائے زنی کرنے لگے ہیں،جب کہ فتوؤں پر رائے دینا نہ ان کا کام ہے نہ ان کو اس کا حق ہے، مقصد اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ ان فتوؤں کو غلط معنی پہنا کر یا خود ساختہ سیاق وسباق میں لے کر ملک کے عوام کو خاص طور پر مسلمانوں کو گمراہ کیا جائے اور اس ملک میں سرمایۂ ملت کے سب سے بڑے نگہبان اور محافظ کی حیثیت عرفی کو مجروح کردیا جائے، حال ہی میں دار العلوم دیوبند سے بینک کی ملازمت کے سلسلے میں ایک فتوی شائع کیا گیا ہے، کسی شخص نے مفتیانِ دار العلوم دیوبند سے سوال کیا تھا کہ اس کی شادی کے لئے کچھ رشتے آئے ہیں، ان میں ایک رشتہ بینک میں ملازمت کرنے والی لڑکی کا بھی ہے، جواب میں یہ فتوی دیا گیا ہے کہ ایسے گھرانے میں شادی سے احتراز کرنا چاہئے، یہ فتویٰ کیا شائع ہوا میڈیا نے آسمان سر پر اٹھا لیا کہ دار العلوم نے ان گھرانوں میں شادی کو حرام قرار دیا ہے، جہاں کے لوگ بینکوں میں ملازمت کرتے ہیں، حالاں کہ فتوے میں ایسا کچھ بھی نہیں، حرام یا حلال کا لفظ نہیں، بل کہ احتراز کرنے اور بچنے کا مشورہ ہے، اس سلسلے میں دار العلوم دیوبند کے دوسرے فتوے بھی پیش نظر رہنے چاہئیں جن میں ایسی لڑکیوں سے شادی کرنے کو جائز قرار دیا گیا ہے جن کے والد بینکوں میں ملازمت کرتے ہیں، اس فتوے کے حوالے سے میڈیا میں بکواس کا سلسلہ جاری ہے، بی جے پی کی اترپردیش یونٹ کے ترجمان نے دار العلوم دیوبند پر دقیانوسیت کا الزام لگایا ہے، دار العلوم دیوبند کے مہتمم نے اپنے ایک اخباری بیان میں کہا ہے کہ کوئی سیاسی جماعت دار العلوم دیوبند کے تئیں کیا نظریہ رکھتی ہے اس پر وہ کچھ نہیں کہیں گے، البتہ وہ یہ ضرور کہیں گے کہ دار العلوم دیوبند سے جو فتوے دئے جاتے ہیں وہ قرآن وحدیث کی روشنی میں دئے جاتے ہیں دار العلوم یہ کام قرآن وحدیث کی روشنی میں کرتا رہے گا۔
کیوں کہ بینکوں میں ملازمت کا معاملہ اہم ہے اور ملک کے سینکڑوں بینکوں میں ہزاروں مسلمان ملازمت کررہے ہیں، دار العلوم کے فتوے کو جس طرح پیش کیا گیا ہے اس سے بہت سے سوالات کھڑے ہوئے ہیں، اس لئے ضروری ہے کہ آج کے کالم میں اس پر کچھ گفتگو ہوجائے۔
اصولی طور پر یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ اسلام کچھ مافوق الفطرت قصے کہانیوں کا مجموعہ نہیں ہے بل کہ یہ ایک مکمل دین، مستقل تہذیب اور جامع نظام حیات ہے، پیدائش سے لے کر موت تک انسانی زندگی کا کوئی مرحلہ ایسا نہیں ہے جس کو اسلام نے نظر انداز کیا ہو، معمولی معمولی سے امورمیں بھی اسلام کی تعلیمات موجود ہیں، قریش مکہ مسلمانوں کا یہ کہہ کر مذاق بنایا کرتے تھے کہ تمہارے نبی تو تمہیں پاخانہ پیشاب کرنے تک کا طریقہ بتلاتے ہیں، اس پر مسلمان بہ طور فخر کہا کرتے تھے کہ ہاں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں بتلاتے ہیں کہ ہم دائیں ہاتھ سے استنجاء نہ کریں، پاخانہ پیشاب کے وقت قبلہ کی طرف منہ کرکے نہ بیٹھیں، لید اور ہڈی سے استنجاء نہ کریں، کم از کم تین ڈھیلوں سے استنجاء کریں، آج کے دور کے مشرکین اور ملحدین بھی دین پسند مسلمانوں کا مذاق اڑانے مین مکے کے نام نہاد مشرکین سے کم نہیں ہیں، چناں چہ جب بھی اسلام کی کوئی ایسی تعلیم ان کے سامنے آتی ہے جو ان کی محدود عقل وفہم میں نہیں سما پاتی تو وہ علماء دین کا کچھ اسی طرح مذاق اڑاتے ہیں جس طرح مشرکین مکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اڑایا کرتے تھے، حیرت کی بات تو یہ ہے کہ خود مسلمانوں میں بھی ایک بڑا طبقہ ایسا ہے جو اسلامی تعلیمات کو مشرکین کی آنکھوں پر لگی ہوئی عینک سے دیکھتا ہے، دار العلوم کے حالیہ فتوے کے بعد ایک بڑے اُردو اخبار کے ایڈیٹر نے اسے سود سے جوڑ کر دیکھا ہے، ایڈیٹر کو حیرت ہے کہ دار العلوم دیوبند بینک سے ملنے والے سود کی حرمت کا قائل ہے، ان کے خیال میں بینک سے جو رقم کھاتہ داروں کو ملتی ہے وہ انٹرسٹ ہے سود نہیں ہے، یہ غلط فہمی اتنی عام ہے کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی بینک سے ملنے والے سود کو منافع سمجھ کر لیتے ہیں اور اسے اپنی ضرورتوں میں استعمال کرتے ہیں، ایڈیٹر صاحب کی عقل کا ماتم کرتے ہوئے صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ دنیا کے کسی بھی کاروبار میں منافع متعین نہیں ہوتا بل کہ وہ نفع بازار کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ ساتھ کم وبیش ہوتا رہتا ہے، جب کہ بینک کا سود پہلے سے متعین اور طے شدہ ہوتا ہے، وہ اپنے اکاؤنٹ ہولڈرز کو اپنے کاروبار میں نفع ونقصان کی شرائط پر شریک نہیں کرتا بل کہ وہ انہیں ان کی جمع شدہ رقوم پر متعینہ مدت میں متعینہ رقم کی یقین دہانی کراتا ہے اور متعینہ مدت میں ادا بھی کرتا ہے اسی کو سود کہتے ہیں اور یہی ربا ہے۔
اسلام کی نظر میں سود کس قدر بڑا جرم ہے، اور کتنا بڑا گناہ ہے، اس کا اندازہ قرآن کریم کی اس آیت سے لگایا جاسکتا ہے جس میں سود خور کی سزا کا اعلان کیا گیا ہے، فرمایا: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سود کا جو بقایا رہتا ہے اسے چھوڑ دو، اگر تم مسلمان ہو، اور اگر تم ایسا نہیں کرتے تو خدا اور اس کے رسول کی طرف سے اعلانِ جنگ سن لو‘‘ (البقرہ: ۲۷۸، ۲۷۹) اس آیت میں سود خوروں کے لئے اعلان جنگ ہے، یہ سزا زنا اور قتل جیسے جرائم پر بھی نہیں دی گئی اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سود لینا دینا کتنا بڑا گناہ اور کس قدر سنگین جرم ہے، ایک حدیث میں ہے کہ جان بوجھ کر سود کا ایک درہم کھانے والا ایسا ہے جیسے اس نے چھتیس مرتبہ زنا کرلیا ہو،(مسند احمدبن حنبل:۳۶/ ۲۸۸، رقم الحدیث: ۲۱۹۵۷) حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سود لینے والے پر سود دینے والے پر، سودی معاملات لکھنے والوں پر لعنت فرماتے ہوئے سناہے، ایک حدیث میں ان لوگوں کو بھی شامل کیا گیا ہے جو سودی لین دین پر گواہی کا کام کرتے ہیں۔ (مشکوۃ: ۲۴۶) بینک کی ملازمت کے عدم جواز کا جو فتویٰ دیا جاتا ہے اس کی بنیاد یہی حدیث ہے، عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ بینک میں جو لوگ ملازمت کرتے ہیں وہ نہ سود دے رہے ہیں اور نہ سود لے رہے ہیں پھر ان کی ملازمت ناجائز کیوں ہو، جب ہم سود لینے دینے کو گناہ سمجھتے ہیں تو گناہ کے کاموں میں امداد کرنا یا ان میں کسی قسم کا تعاون کرنا بھی جائز نہ ہونا چاہئے، قرآن کریم میں یہ واضح ہدایت موجود ہے: ’’اور گناہ اور ظلم کے کاموں میں ایک دوسرے کی اعانت مت کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ سخت سزا دینے والا ہے‘‘(المائدہ: ۲)۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ بینک کے وہ کام جن میں سودی معاملات لکھنے پڑتے ہوں جائز نہیں ہیں، بینک ملازمین اگر براہ راست سودی معاملات لکھتے ہوں یا ان کے حکم سے لکھے جاتے ہوں تو وہ سودی معاملات لکھنے والے ہیں، یا ان کی گواہی دینے والے ہیںاور لعنت کے دائرے میں آتے ہیں، اسی سے مفتیان کرام نے یہ اصول بھی مستنبط کیا ہے کہ جو لوگ براہ راست سودی معاملات کے لکھنے پڑھنے میں ملوث نہیں ہیں بل کہ وہ بینکوں کے دوسرے کاموں میں مثلاً بینکوں کی حفاظت، یا دوسری ٹیکنیکل سرگرمیوں میں لگے ہوئے ہوں ان کے لئے بینکوں میں ملازمت کرنا یا اگر وہ ملازم ہوں تو ان کو اپنی ملازمت جاری رکھنا جائز ہے، جو لوگ بینکوں میں ناجائز ملازمت کررہے ہیں ان کو چاہئے کہ وہ دوسری ملازمتوں کے لئے کوشاں رہیں، اگر کوئی دوسرا ذریعۂ معاش ہو تو بینک کی ملازمت چھوڑ دیں اگر کوئی دوسرا ذریعہ معاش نہ ہو اور فقر وفاقہ کا اندیشہ ہو تو ملازمت جاری رکھیں مگر ساتھ ہی حلال اور جائز ذریعہ معاش کی تلاش بھی جاری رکھیں، دار العلوم دیوبند سمیت تمام دار الافتاؤں سے اسی طرح کے فتوے دئے جاتے ہیں اور آئندہ بھی اسی طرح کے فتوے دئے جائیں گے، ان فتوؤں کے تناظر میں اگر کوئی شخص دقیانوسیت کا الزام لگائے تو لگاتا رہے، قرآن وحدیث کی تعلیمات واضح بھی ہیں اور اٹل بھی، قیامت تک ان میں تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں ہے ،سود کی حرمت بھی نص قطعی سے ثابت ہے فرقہ پرستوں اور ترقی پسندوں کے کہنے سے اس کو نہ حلال کیا جاسکتا ہے اور نہ حلال سمجھا جاسکتا ہے۔
nadimulwajidi@gmail.com