ایم ودودساجد
انسانی تاریخ میں کم سے کم دوانبیاء ایسے ملتے ہیں جن میں سے ایک کے والد اور دوسرے کے بیٹے کومشرف بہ اسلام ہونے کی توفیق نہ مل سکی۔ اوردونوں کافرومشرک ہی مرے۔نبی آخرالزماں ﷺکے جدامجدحضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد آزر‘بت ساز اور بت فروش تھے۔بیٹے کی بڑی کوشش کے باوجودوہ حضرت ابراہیم اور ’’ان کے واحد خدا‘‘ پرایمان نہ لاسکے۔اسی طرح دوسرے جلیل القدرنبی حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا سخت نافرمانی اور سرکشی کے سبب خدا کے عذاب کا مستحق قرارپایا۔روایات کے مطابق حضرت نوح علیہ السلام نے بنی نوع انسانی کو ساڑھے نوسوسال تبلیغ کی لیکن اپنے ہی بیٹے کو راہ راست پر نہ لاسکے۔ دونوں انبیاء نے اپنی کوشش میں کمی نہ اٹھا رکھی مگردونوں مذکورہ حوالوں کی روشنی میں کامیاب نہ ہوسکے۔
آئیے اب ایک تازہ واقعہ پرغور کرتے ہیں۔جو لوگ پچھلے چارپانچ ہفتوں سے جاری دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی اور اس سے وابستہ بعض طلبہ کے تکلیف دہ اورمفروضہ وطن مخالف قضیہ سے واقف ہیں انہوں نے اس قضیہ میں ایک مسلم نام بھی ضرور سنا ہوگا۔اس مضمون میں استعمال کرنے کے لئے ہم اس مسلم نام کو بدل کرانگریزی حروف تہجی میں سے ایکB(بی) رکھ لیتے ہیں۔اس کے والدکانام A(اے)فرض کرلیتے ہیں۔اب آئیے پہلے والدیعنیAکی مختصرتعریف سے واقف ہوجاتے ہیں۔والدطویل عرصہ سے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈکے رکن اور ترجمان ہیں۔ مسلم اشوزپر انہیں دسترس حاصل ہے۔وہ ایک ملی ماہنامہ کے ایڈیٹربھی ہیں۔وہ بہت اچھے مقرر بھی ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ وہ خود دینداراور عامل مسلمان ہیں۔وہ ایک مسلم سیاسی پارٹی کے سربراہ بھی ہیں۔12ویں جماعت تک انہوں نے اپنے صاحبزادے کو اپنے ہی ساتھ رکھ کر تعلیم دلوائی ۔ظاہر ہے کہ وہ اسکول کے اوقات کے علاوہ یعنی کم وبیش 14-15گھنٹہ اپنے والدین کے زیر سایہ رہتا ہوگا۔یہ گھرانہ خالص مسلم بستی میں آباد ہے۔جہاں پانچ وقت اذان کی صدائیں گونجتی ہیں اورجہاں رمضان کے علاوہ بھی مسجدیں نمازیوں سے بھری رہتی ہیں۔ایسے ماحول میں جس بچہ کی پرورش وپرداخت ہوگی وہ عالم دین نہ سہی عامل بردین تو ہوگا ہی۔
لیکن افسوس یہی ہے کہ ایسا نہ ہوسکا۔ہم نے اس نوجوان کافرضی نام بی(B) طے کیا تھا۔لہذا اس کے سلسلہ میں اسی نام سے بات کرتے ہیں۔بی کوجب پچھلے دنوں وطن مخالف قضیہ میں نام زد کیا گیا تو مجھے دکھ ہوا تھا۔اس لئے کہ مختلف ویڈیوز اور اخبارات میں شائع ہونے والی تصاویر میں اسے نعرے لگانے والوں کی بھیڑ میں خاموش کھڑا پایا گیا۔اس نے اپنی زبان سے وطن مخالف کوئی نعرہ نہیں لگایا تھا۔یہاں تک کہ جس وقت جواہر لعل نہرویونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کا صدرکنہیا کمار جوشیلی تقریرکر رہا تھا اور بلند آواز میں نعرے لگارہا تھا اس وقت بھی یہ مسلم نوجوان خاموش کھڑا کنہیاکودیکھ رہاتھا۔وہ کسی نعرے کے جواب میں بھی شامل نہیں تھا۔اس کے باوجود اسے وطن مخالف نعرے لگانے کے الزام میں نامزد کرلیا گیا۔ایجنسیوں نے کہا کہ وطن مخالف پروگرام کے منتظمین میں سے وہ بھی ایک تھا۔فطری طورپراس کے والداور دوسرے ہمدرداحباب نے کہا کہ اسے اس لئے نامزد کیا جارہا ہے کیونکہ وہ مسلمان ہے۔حالانکہ یہ الگ موضوع بحث ہے کہ مرکزکی موجودہ حکومت کیا اپنے سیاسی مخالفین کو محض مذہبی چشمہ سے دیکھ کر کارروائی کر رہی ہے۔لیکن پھر بھی یہاں دیانتداری کا تقاضہ ہے کہ کم سے کم اتنی بات تو ضرور کہی جائے کہ نہیں مرکزی حکومت پر یہ الزام غلط ہے۔وہ اپنے مخالفین کومذہبی چشمہ سے نہیں دیکھتی۔اسی لئے کنہیا اورانربان بھٹاچاریہ کو بھی وطن کا غدار قرار دے کر ان کے خلاف کارروائی کی گئی۔اس لئے اس مسلم نوجوان کے بارے میں یہ بات کہنا کہ اسے مسلمان ہونے کے سبب نامزد کیا جارہا ہے درست معلوم نہیں ہوتا۔میں اس موضوع پر اسی وقت لکھنا چاہتا تھا لیکن چونکہ اس وقت یہ نوجوان اپنے دوسرے ہندو ساتھی کے ہمراہ جیل میں تھا اور اس کی ضمانت کی کوششیں جاری تھیں‘پھر اس کے اہل خانہ بھی پریشان تھے اس لئے میں نے اس پر لکھنے کاارادہ موخر کردیا تھا۔اب خدا کا شکر ہے کہ یہ مسلم نوجوان ضمانت پر ہے اور اس کے اہل خانہ قدرے راحت میں ہیں۔
ان قارئین کوجو انگریزی اخبارات بھی پڑھتے ہیں یہ ضرور یاد ہوگا کہ دو پروفیسرصاحبان نے اس مسلم نوجوان پر دومضامین لکھے تھے۔ایک کی سرخی تھی:بی ——میرابیٹا۔دوسرے مضمون کی سرخی تھی:بی ——-میرا شاگرد۔ایک اور خاتون صحافی نے ایک مضمون لکھ کر اس مسلم نوجوان کی کچھ خصوصیات کا ذکر کیا تھا۔ان تینوں مضامین کو پڑھ کراور خود اس مسلم نوجوان کی تقریروں اور بیانات کو سن کرمجھے بہت دکھ ہوا تھا۔دکھ اس لئے بھی ہواکہ نئی دہلی کے جس اسکول سے اس مسلم نوجوان نے 12ویں جماعت پاس کی تھی اسی اسکول میں میرا بیٹا بھی 12ویں جماعت میں زیر تعلیم ہے۔میں نے اپنے بیٹے کو اس مسلم نوجوان کی جگہ رکھ کر دیکھاتو میری روح لرز گئی۔اس کی کسک میں آج تک محسوس کرتا ہوں۔اور بسا اوقات بھری شب میں میری آنکھ کھل جاتی ہے تو پھر لگتی نہیں۔اب آئیے سنئے اس مسلم نوجوان نے گرفتاری سے پہلے طلبہ کو خطاب کرتے ہوئے کیا کہا تھا۔اس نے کہا تھا کہ ’’مجھے پچھلے سات برسوں میں آج پہلی بارمعلوم ہوا کہ میں مسلمان ہوں۔‘‘ اس سطر سے کوئی بہت زیادہ وضاحت نہیں ہوتی ۔لہذا جب دوپروفیسرصاحبان نے اپنے مضامین میں اپنے اس بیٹے اور شاگردکے بارے میں کچھ اور تفصیل بتائی تو مذکورہ سطر کا مفہوم واضح ہوگیا۔ایک پروفیسر نے لکھا’’ کہ کلاس میں جس وقت کسی موضوع پر ریسرچ اسکالرس بحث میں مصروف ہوتے ہیں تو مذکورہ مسلم نوجوان (بی) بحث میں بڑے جوش وخروش اور سنجیدگی کے ساتھ حصہ لیتا ہے۔اور اگر کسی مذہبی موضوع پر گفتگو ہوتی ہے تو یہ نوجوان بڑی صاف گوئی اور فخرکے ساتھ ہنس کر کہہ دیتا ہے کہ— میڈم مجھے اسلام کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔مجھے اس کی یہ صاف گوئی اچھی لگتی ہے۔‘‘
دوسرے پروفیسر صاحب نے بھی اس کے سیکولرذہن اورمذہب بیزاری کی توصیف کی تھی۔زیادہ زور اسی بات پر تھا کہ مسلم گھرانہ میں پیدا ہونے کے باوجود اور مسلم نام ہونے کے باوجودوہ اسلام کے بارے میں نہ صرف یہ کہ کچھ نہیں جانتا بلکہ وہ اسلامی تعلیمات کو مانتا بھی نہیں۔خود اس کے والد نے بھی مختلف انٹرویوز میں کہا تھا کہ ان کا بیٹاathiest (لامذہب) ہے۔ایک خاتون صحافی نے اسکولی تعلیم کے دوران اس مسلم نوجوان سے اپنی تفصیلی ملاقات کا ذکر کیا۔اس نے بتایا کہ’’ اس نوجوان میں اسکول میں پڑھنے کے دوران ہی ’’باکس سے باہر‘‘بہت کچھ سوچنے کی صلاحیت تھی۔وہ خالص مسلم آبادی میں رہنے کے باوجوددقیانوسیت کے پیرایہ سے محفوظ تھا۔مگر اسے مسلم علاقوں کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک پر بڑا قلق تھا۔مثال کے طورپربٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کے واقعہ کے بعداس آبادی کو انٹر نیٹ کنکشن دینے میں کمپنیاںآنا کانی کرتی تھیں۔یہی نہیں پزا(Pizza ) پہنچانے والی کمپنیاں اس علاقہ کاآرڈر نہیں لیتی تھیں۔ہم نے اس نوجوان سے ملاقات اس کے گھر پر کی تھی۔وہ گھر کے باقی افراد سے مختلف تھا۔‘‘
مجھے اس نوجوان سے متعلق اس سے زیادہ کچھ نہیں کہنا۔میں یہ سوچتا ہوں تو لرز جاتا ہوں کہ ہم بہ حیثیت مسلمان اسکولوں اور کالجوں میں پڑھنے والے اپنے بچوں کی دینی اور اخلاقی تربیت نہیں کر رہے ہیں۔ہم خود کتنے ہی پاکباز‘باعمل اور نمازی مسلمان ہوں لیکن جب تک ہم اپنے بچوں کو بھی اسی طرز پر اسلامی تربیت نہیں دیں گے تو ہمارا باعمل مسلمان ہونا کسی کام کا نہیں۔اس لئے کہ وطن کے باغی کی تو صرف دنیا خراب ہوگی‘دین کے باغی کی تو عاقبت ہی خراب ہوجائے گی۔دنیا کا باغی کسی بھی وقت اپنی اصلاح کرسکتا ہے‘دنیاوی عدالتوں سے بری ہوسکتا ہے‘سیکولرذہن افراد کی حمایت سے سرخ روہوسکتا ہے لیکن دین کا باغی اگر اسی حالت میں مرگیا تو حشر میں نہ تو خود اصلاح کی گنجائش رہے گی‘نہ کوئی عدالت اسے بری کرسکے گی اور نہ ہی اس کے ہمدردوغم گسار اسے بچاسکیں گے۔مذکورہ نوجوان ہمیں بہت بڑا سبق دیتا ہے۔پوری ملت اسلامیہ کوبیدار ہونے کا ایک موقعہ فراہم کرتا ہے۔ہمیں اپنا احتساب کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ہمیں وقت رہتے سنبھل جانے کا ایک واضح پیغام دیتا ہے۔ہم میں سے ہر ایک اپنے بچوں کی زندگی میں جھانک کر دیکھے کہ کہیں وہ اسلامی تاریخ کے سرخیل —عمر —-کی بجائے موجودہ دور کے ’’منکر خدا— عمر—‘‘ تو نہیں بن رہے ہیں؟(ملت ٹائمز)