تبلیغی جماعت اور دارالعلوم دیوبند

مولانا ندیم الواجدی
خبر ہے کہ دارالعلوم دیوبند کے ایک سفیر کے ساتھ مہاراشٹر کے شہر بیڑ کی کسی مسجد میں تبلیغی جماعت کے لوگوں نے بدسلوکی کی ہے، ان کو بُرا بھلا کہا، ان کا سامان مسجد سے باہر پھینک دیا، ان کے کپڑے پکڑ کر کھینچے، دارالعلوم کے سفیر اس مسجد میں چندہ کرنے کے لیے گئے تھے، تبلیغی جماعت کے لوگوں نے جن کا تعلق مولانا سعد کے گروپ سے بتلایا جاتا ہے ان کو چندہ نہیں کرنے دیا، مولانا سعد کے خلاف دارالعلوم دیوبند نے جو فتوی دیا ہے اور اس کے بعد احاطۂ دارالعلوم میں جماعت کی سرگرمیوں پر جو پابندی عائد کی ہے اس سے یہ لوگ بے حد خفا تھے اور دارالعلوم دیوبند کو بے نقط سنارہے تھے، یہ خبر پڑھ کر ہمیں دلی صدمہ ہوا، آج سے پہلے تبلیغی جماعت کے واقعات پر ہم نے قلم نہیں اٹھایا، اب بھی نہ اٹھاتے اگر یہ افسوس ناک واقعہ پیش نہ آتا، حالاں کہ اس دوران ہمارے کئی بے تکلف دوستوں نے ہم سے یہ سوال بھی کیا کہ تم جو الّم غلّم اور الاَ بلاَ لکھتے رہتے ہو، جو بھی اہم یا غیر اہم واقعہ رونما ہوتاہے وہ تمہارے قلم کی زد میں آتا ہے، کیا وجہ ہے تبلیغی جماعت کے اختلافات پر تم کبھی کچھ نہیں لکھتے؟ مرکز نظام الدین میں عرصۂ دراز سے اُتھل پُتھل جاری ہے، اس کے اثرات دور دور تک محسوس کئے جارہے ہیں، عملا یہ جماعت دو حصوں میں بٹ چکی ہے، دونوں ایک دوسرے سے بیزار اور متنفر، دونوں کے کام ایک اور راستے جدا جدا، دارالعلوم دیوبند جو اس جماعت کی طاقت اور قوت کا سرچشمہ اور اس کی وسعت اور پھیلاؤ کا وسیلہ ہے اس جماعت سے خود کو الگ کرچکا ہے، اتنے بڑے سانحے کے بعد بھی تمہارا قلم خاموش ہے، اب ہم اپنے دوستوں کو کیا بتلائیں کہ یہ کتنا اہم، حسّاس اور نازک معاملہ ہے، اور اس معاملے پر لکھنا کتنا صبر آزما اور تکلیف دہ ہے، ذرا سی بے احتیاطی اور قلم کی لغزش آگ میں تیل کا کام کرسکتی ہے، اور معمولی چنگاری کو شعلہ بنا سکتی ہے، یہی سوچ کر خاموش رہے اور اب تک اس موضوع کو نظر انداز کرتے رہے، مگر اب جماعتیوں کی شرمندہ کردینے والی حرکتوں پر مہر بہ لب رہنا اور اختلاف کے اس فتنے سے اٹھنے والی چنگاری کا دور کھڑے ہوکر نظارا کرنا بھی ہمارے اختیار میں نہیں رہا، پیش نظر مضمون کو ایک بے اختیار شخص کے جذبات واحساسات کا آئینہ بنا کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔
تبلیغی جماعت کا قیام ۱۹۲۶ء میں ہوا، اس کے بانی دارالعلوم دیوبند کے عظیم فرزند، شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کے لائق شاگرد حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلوی ؒتھے، شیخ الہندؒ کے تلامذہ کی خصوصیت یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک اپنے گرامی قدر استاذ کی کیمیا اثر نگاہ کی بہ دولت کندن بن کر چمکا، اور افق عالم پر آفتاب ماہتاب کی طرح روشن ہوا، ہر شاگرد نے اپنے ذہن وفکر کی مناسبت سے کارہائے نمایاں انجام دئے، بلکہ ان میں سے بعض شاگرد تو ایسے ہیں جنھوں نے اپنے تجدیدی کارناموں سے ایک تاریخ رقم کی، حضرت مولانا الیاس کاندھلویؒ کا شمار بھی ایسے ہی لوگوں میں ہوتاہے، ان کے متعلق استاذِ گرامی قدر حضرت شیخ الہندؒ کا یہ ارشاد زبان زدِ خاص وعام ہے کہ مولانا الیاسؒ کو دیکھ کر مجھے صحابۂ کرام یاد آجاتے ہیں، ان پر ابتداء ہی سے بڑوں کی نظر کرم تھی، ایک مرتبہ کاندھلہ میں حضرت شاہ عبدالرحیم رائے پوریؒ، حضرت مولانا خلیل احمد انبہٹویؒ، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒجیسے اساطینِ علم وفضل جمع تھے، نماز کا وقت ہوا تو سب نے مولانا الیاس ؒ کو آگے کردیا، مولانا نہایت لاغر اور نحیف الجثہ تھے، کسی نے ازراہ ظرافت کہا کہ ریل کے اتنے بڑے بڑے ڈبّے اور اتنا چھوٹا سا انجن، انہی حضرات میں سے کسی نے جواب دیا کہ یہ مت دیکھو کہ انجن چھوٹا ہے، یہ دیکھو کہ اس چھوٹے سے انجن میں کتنی طاقت ہے، دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد مولانا الیاس کاندھلویؒ مظاہر علوم سہارن پور میں مدرس ہوگئے، مگر جلدی ہی تدریسی زندگی کو خیر باد کہہ کر دلّی منتقل ہوگئے جہاں نظام الدین میں بنگلہ والی مسجد کو انھوں نے اپنی علمی، دینی اور دعوتی سرگرمیوں کا مرکز بنایا، جلدی ہی ان کی نظر میوات کی سنگلاخ اور دینی اعتبار سے بے آب وگیاہ زمین پر پڑی جو کسی ابر ِباراںکی منتظر تھی، انھوں نے اس سنگلاخ زمین کو اپنی محنت کی آماجگاہ بنالیا، دلّی کے قریب یہ علاقہ اگر چہ مسلمانوں سے بھرا ہوا تھا مگر وہ سب نام کے مسلمان تھے، دین سے دور، بلکہ دین سے نا آشنا اور بیگانہ، برادران وطن کی تہذیب وتمدن سے قریب بلکہ ان کے رنگ میں رنگے ہوئے، مولانا الیاسؒ جب ان مسلمانوں کو دیکھتے تو ان کا دل کڑھتا، اُن کی آنکھیں گریہ کرتیں، میوات سے مولانا کا تعلق بہت پرانا تھا، ان کے والد مولانا اسماعیلؒ اس علاقے میں آتے جاتے تھے، جب اہل میوات کو یہ معلوم ہوا کہ مولانا اسماعیل کے ایک بیٹے بنگلہ والی مسجد میں فروکش ہیں تو وہ لوگ حاضر خدمت ہوئے اوراُن سے اپنے یہاں چلنے کی درخواست کی، مولانا الیاس کاندھلویؒ نے یہ شرط رکھ دی کہ اگر تم اپنے یہاں مکاتب قائم کرنے کا وعدہ کرو تو میں تمہارے یہاں چل سکتا ہوں، اس طرح مئو قوم کے نونہالوں کی دینی تعلیم کا آغاز ہوا، مولانا نے پورے علاقے میں سو سے زیادہ مکاتب قائم کئے، اور ان میں پڑھانے کے لیے اپنے شاگردوں کو متعین کیا، اس کے لیے انھوں نے اپنا تمام سرمایہ صرف کردیا، جو ہدایا آتے وہ بھی سب ان مکاتب کے اخراجات میں لگادیتے، مولانا نے مئو قوم کی بے دینی کا مشاہدہ اپنی آنکھوں سے کیا تھا، وہ ان کی حالت دیکھ کر کڑھتے تھے اور ان کے اصلاح حال کی تدبیریں سوچتے رہتے تھے، وہ سمجھتے تھے کہ مکاتب کے قیام سے نونہالوں کو تو دینی تعلیم سے آراستہ کیا جاسکتا ہے، لیکن بڑوں کی اصلاح نہیں ہوسکتی، پھر بچوں کی تعلیم وتربیت بھی بڑوں کے ارادے، شوق، نیت اور جذبے پر منحصر ہے، اگر ماں باپ میں دین کا شوق نہیں ہوگا تو وہ اپنے بچوں کو کب ان مکاتب میں وقت ضائع کرنے کے لیے بھیجیں گے، ایک مرتبہ ان کو ایک ایسے نوجوان سے ملایا گیا جو ان کے کسی مکتب میں قرآن کریم پڑھ کر نکلا تھا، مولانا نے دیکھا کہ اس کی داڑھی منڈی ہوئی ہے یہ دیکھ کر ان کو یقین ہوگیا کہ صرف مکاتب سے اس قوم کو دین کے راستے پر نہیں لایا جاسکتا، یہ یقین ہی تھا جس نے ان کے دل میں دعوت وتبلیغ کا داعیہ پیدا کیا، بڑھتے بڑھتے یہ داعیہ فکر وخیال میں ڈھل گیا، فکر وخیال سے عمل کی شکل اختیار کرگیا، انھوں نے ان پڑھ، جاہل اور دین نا آشنا میواتیوں کو کلمے اور نماز کی دعوت دینی شروع کردی، اس کے لیے انھوں نے کتنی اذیتیں سہیں اور کتنی مشقتیں اٹھائیں اس کا ذکر طوالت طلب ہے، ان کی سوانح میں کہیں پڑھا ہے کہ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ وہ کھیت میں ہل چلاتے کاشت کار سے درخواست کرتے کہ نماز کے لیے چلو وہ ان کے ہاتھ میں ہل تھما دیتا کہ تم اتنے ہل چلاؤ میں نماز پڑھ کر آتاہوں، انھوں نے میوات کے بہ کثرت دورے کئے، بعض دوروں میں ان کے ساتھ مخلص احباب کا جم غفیر ہوتا، یہ لوگ دین کی دعوت دینے کے لیے میوات کے چپے چپے پر پھیل جاتے، آہستہ آہستہ دعوت وتبلیغ کی یہ تحریک مغربی یوپی کے دیہات وقصبات میں بھی پھیلتی چلی گئی، میوات کے سیدھے سادے مسلمان جن پر پہلے دین کی محنت کی گئی تھی ٹولیاں بنا بناکر کئی کئی دن کے لیے دعوتی دوروں پر نکلتے، خود بھی دین سیکھتے اور دوسروں پر بھی محنت کرتے، مولانا پر اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے اسی کی دھن سوار رہتی تھی، اسی کی فکر غالب رہتی تھی۔
شروع میں علماء کرام اس تحریک سے کچھ زیادہ متأثر نہیں تھے، بلکہ بہت سوں کو تو اس کی کامیابی میں بھی شبہ تھا، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ بڑے با بصیرت عالم تھے، وہ اس تحریک کا گہرائی سے جائزہ لے رہے تھے، انھیں تردد تھا کہ آٹھ آٹھ سال تک مدرسوں کی فضاؤں میں پروان چڑھنے والے لوگ دعوت دین کا کام نہیں کرپاتے یہ بے چارے ان پڑھ دیہاتی کیا کریں گے، مگر جب انھوں نے ان پڑھ دیہاتیوں کی محنتوں کے اثرات کا بہ چشم خود مشاہدہ کیا اور آنے والوں سے ان کی کیامیابیوں کے قصّے سنے تو انھیں اپنی رائے بدلنی پڑی، ایک مرتبہ حضرت مولانا الیاس کاندھلویؒ تھانہ بھون تشریف لائے اور حضرت تھانوی سے اپنی تحریک کے طریقۂ کار اور اس کی کامیابی کے امکانات پر گفتگو کرنی چاہی تو حضرت تھانوی ؒ نے یہ کہہ کر انھیں روک دیا کہ بس بس کسی دلیل کی ضرورت نہیں، مجھے آپ کے کام پر پورا اطمینان ہے، آپ نے تو ماشاء اللہ یاس کو آس سے بدل دیا، اس جملے میں حضرت نے ان کے نام الیاس کی طرف اشارہ کرکے ایک خوب صورت مفہوم پیدا کیا، یہ پہلا موقع تھا جب دیوبند کے کسی بڑے عالم نے مولانا الیاس کی تحریک کی تائید کی اور یہ تائید اس تحریک کے لیے سنگ میل بن گئی، حضرت تھانویؒ کی تائید کے بعد تو گویا تمام علمائے دیوبند کی توجہ اس تحریک کی طرف ہوگئی، ایک وقت ایسا بھی آیا کہ بڑے بڑے علماء دیوبند حضرت مولانا الیاس ؒ کی دعوت پرمرکز حضرت نظام الدین تشریف لے جاتے اور کئی کئی روز قیام کرکے وہاں سے واپس آتے، ایسے ہی کسی موقع پر یہ حضرات جمع ہوئے، حضرت مولانا عبدالقادر رائے پوریؒ ، حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحبؒ مہتمم دارالعلوم دیوبند، مولانا مفتی محمد کفایت اللہ دہلویؒ، مولانا محمد شفیع صاحب ؒ مہتمم مدرسہ عبدالرب دہلی، حافظ عبداللطیف صاحبؒ ناظم مدرسہ مظاہر علوم سہارن پور، حضرت مولانا اعزاز علی صاحبؒ ناظم تعلیمات دارالعلوم دیوبند، حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ شیخ الحدیث مظاہر علوم سہارن پور، علماء کرام کے اس اجتماع کے بعد مدارس کے طلبہ اور اساتدہ کی جماعتیں بھی شروع ہوگئیں، ایک مرتبہ دیوبند سے طلبہ کی جماعت آئی حضرت اس وقت بیمار تھے، اتنے بیمار کہ بات کرنا بھی مشکل تھا، مولانا منظور نعمانی ؒسے جو اس وقت مرکز نظام الدین میں موجود تھے فرمایا اپنے کان میرے منھ کے قریب لاؤ، پھر فرمایا کہ یہ طلبہ اللہ کی امانت اور اس کا عطیہ ہیں، اس کی قدر اور اس نعمت کا شکریہ ہے کہ ان کا وقت ان کی حیثیت کے مناسب پورے اہتمام سے کام میں لگایا جائے اور ذرا سا وقت بھی ضائع نہ جائے۔ (ملفوظات مولانا الیاس، ص:۱۰۰) یہ بتلانے کی ضرورت نہیں کہ دیوبند کے علماء اور طلبہ نے اس تحریک میں تن من دھن سے شریک ہوکر اس کو عروج بخشا، شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی اور حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب ان علماء میں سر فہرست ہیں جو تبلیغی جماعت کے بڑے بڑے اجتماعات میں اسٹیج کی رونق بنتے تھے، اور ان کی تقریروں سے ان اجتماعات کا آغاز اور اختتام ہوتا تھا، حضرت مولانا الیاسؒ دور اندیش اور صاحب بصیرت انسان تھے، انھیں اچھی طرح معلوم تھا کہ علماء کے بغیر یہ تحریک پروان نہیں چڑھ سکتی، اسی لیے وہ ہمیشہ جماعتوں میں نکلنے والوں کو یہ نصیحت فرماتے تھے، ’’ہمارے عام کارکن جہاں بھی جائیں وہاں کے حقانی علماء اور صلحاء کی خدمت میں حاضری کی کوشش کریں، وہ عوام کو علماء کی مرتبہ شناسی، قدر دانی اور ان سے استفادہ کرنے کی طرف توجہ دلاتے رہتے تھے، ان کو بہ تاکید علماء کی خدمت میں حاضر ہونے کی فہمائش کرتے تھے، ان کی ملاقات اور زیارت کا ثواب بیان فرماتے تھے اس طرح انھوں نے عوام، تجار اور کاروباری لوگوں کو علماء سے اتنا قریب کردیا کہ پچھلے برسوں میں (غالباً تحریک خلافت کے بعد) کبھی اتنے قریب نہیں ہوئے‘‘۔ (مولانا محمد الیاس اور ان کی دینی دعوت، ص۔ ۱۲۳) ۔ (جاری)
nadimulwajidi@gmail.com

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں