تدبر،حکمت،تحمل

دوٹوک:قاسم سید
اترپردیش کے ریاستی اسمبلی انتخابات میں ابھی وقت ہے لیکن اس کی دستک سنائی دینے لگی ہے۔ سماجوادی پارٹی نے ایک تہائی امیدواروں کے ناموں کااعلان کرکے بظاہر دیگر پارٹیوں سے سبقت حاصل کرلی ہے۔ اس میں ملائم سنگھ کی بہو اپرنایادو بھی شامل ہیں جو اتفاق سے اب تک اس گلیارے سے دورتھیں۔سماجوادی پارٹی کی قیادت کو بخوبی احساس ہے کہ ڈور اس کے ہاتھ سے چھوٹ رہی ہے ۔ چنانچہ اس کے غیر اعلان شدہ سیاسی حلیف جو ابتدائی دور سے انگلی پکڑ کر چل رہے تھے اور اقتدار کی بالائی میں شریک تھے دوری بنانے لگے ہیں۔ رفیق الملک کی گاہے بگاہے تقریروں میں چھپا درد جھلکنے لگا ہے ۔ انہوں نے صاف طورپر اعتراف کیا ہے کہ اگر ابھی الیکشن ہوجائیں تو ہم ہار جائیں گے ۔ انہیں شاید مسلمانوں کی ناراضگی اور بے رخی کاپتہ چل گیاہے۔ اس لئے دیگر متبادل پرکام ہورہا ہے جس سے سب آشناہیں جہاں تک بی ایس پی کا تعلق ہے پورے یقین واعتماد کے ساتھ اپنی صفیں درست کرنے میں لگی ہے وہ لااینڈ آرڈر کے مسئلہ پر الیکشن لڑے گی جو سماجوادی پارٹی حکومت کا ہمیشہ سب سے کمزور پہلو اور دکھتی رگ رہا ہے۔ مظفرنگر اور دادری تو صرف دومثالیں ہیں۔ بی جے پی بھی بلی کے بھاگوں چھینکاٹوٹنے کا انتظار کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے وہ سیکولر دوستوں کی آپسی لڑائی کا فائدہ اٹھائے گی۔ اس الیکشن میں اویسی فیکٹر بھی اپنی موجودگی درج کرائے گا جوان لوگوں کے باعث تشویش ہے جونہیں چاہتے کہ انتشار کی اینٹوں سے بی جے پی کا گھر بن جائے ۔ اویسی کی پارٹی اترپردیش کو سیاسی لیباریٹری سمجھ رہی ہے۔ فرقہ وارانہ اعتبار سے انتہائی حساس زرخیززمین لگتی ہے۔ اویسی کے بارے میں ایک تاثر رہا ہے کہ ان کی سرگرمیوں سے براہ راست بی جے پی کو فائدہ پہنچتا ہے ۔ کوئی انہیں بی جے پی کا ایجنٹ کہتا ہے تو کسی کے نزدیک وہ مسلمانوں کیلئے مسیحا ہیں۔ خاص طور سے نوجوان ان میں کشش محسوس کرتے ہیں ۔ بھاگوت کے بھارت ماتا کی جے سے متعلق بیان میں حرارت اس وقت پیدا ہوئی جب اویسی نے کہاکہ گردن پر چھری رکھ دی جائے تو بھی وہ بھارت ماتا کی جے نہیں بولیں گے پھر ایک نان ایشو بھی ایشو بن گیا ۔ لوگ اسے بھی اتفاق نہیں سمجھتے کہ اویسی اور بھاگوت ایک ہی وقت میں یوپی کے د ورے پر تھے لیکن ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو اپنی سیاسی پارٹی بنانے کا حامی ہے ۔ بہر حال ہم اویسی سے اختلاف کریں یا اتفاق یوپی کا الیکشن ان سے متاثر ضرور ہوگا کسی کا بھی کھیل بگاڑ نے اور بنانے میں اہم رول ادا کرسکتے ہیں۔
مسلمانوں کا سواداعظم اونٹ کے کروٹ بدلنے کاانتظار کررہا ہے۔ سیاسی ماحول بنانے اور انتخابات میں موثر رول ادا کرنے کیلئے سردست کوئی لائحہ عمل نہیں ہے اور اس پوزیشن میں بھی نہیں ہے۔ کانفرنسوں کے ذریعہ طاقت کامظاہرہ کرنے اور مطالباتی فہرست پیش کرنے پر سارا زور صرف ہے۔ کوئی وزیراعظم کے بلاوے کی بے قراری وبے صبری سے راہ تک رہا ہے اسے بدلتے ہوئے نازک حالات اورآنے والے طوفان کااحساس ہے کہ نہیں کچھ کہنا مشکل ہے۔
اترپردیش سب سے بڑی رزم گاہ بنے گا اور راجیہ سبھا میں طاقت کے توازن میں فیصلہ کن کردار نبھائے گا ۔ یقینااس سے باخبر ہوں گے ہمیں کسی کی نیت پر شبہ کرنے کاحق نہیں لیکن دل ودماغ میں خواہشات کے علاوہ اور کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ مگر داددینی ہوگی کہ آزمائش بھرے سنگین ماحول میں بھی ایک طبقہ بریلویت ،دیوبندیت، تصوف رافضیت وغیرہ کے حق وناحق ہونے میں دلائل وبراہین کا انبار لگائے ہوئے ہے ۔ چنانچہ مسجد وں کے میدان جنگ میں تبدیل ہونے کا الارم بج چکا ہے۔ مسلکی فرقہ واریت کے ہتھیاروں کو صیقل کیاجارہا ہے ۔ ان پیچیدہ اور سنگدل مسائل کے ساتھ اترپردیش کی اقلیت کیاکرے۔ کس سمت میں جائے اور کیوں اس پر غور کرنے کیلئے فرصت نہیں ہے۔ اس کی تیاری میں دلچسپی نہیں ہے۔ سماجوادی پارٹی کی محبت ودیوانگی میں متاع جان ودل لٹانے کے باوجود کچھ ہاتھ نہیں آیا وہ بنیادی ایشو پر عمل درآمدمیں ناکام رہی ہے۔ ان میں مسلم ریزرویشن اور بے گناہوں کی رہائی سب سے خاص ہے۔ اب امید بھی نہیں کہ انتخابی سال میں کوئی جوکھم مول لے گی ۔ سماجوادی پارٹی کی قیادت سافٹ ہندتو اور بی جے پی کے ساتھ غیر اعلان شدہ مفاہمت کے راستہ پر چل پڑی ہے اس کی اپنی سیاسیِ ضرورت ومصالح ہیں۔ سیاسی پارٹی کے طورپر کوئی بھی فیصلہ لینے کی مجازہے لیکن کیا مسلمانوں کوبھی اپنا راستہ چننے کا حق ہے یاہمیشہ کی طرح اندھی گلیوں میں گھومتیرہیں گے ان کی الگ سیاسی پالیسی ہونی چاہئے یاجو بی جے پی کو ہر اسکے اسے ووٹ دینے کے فرسودہ، شکست خوردہ خودکش فارمولہ پر بغیراحتساب وسوال عمل کرتے رہیں گے، یابعض مسلم جماعتوں کے سیاسی آقاؤں کی خواہشات کی بھینٹ چڑھتے رہیں گے ۔ دراصل سوال مسلم قیادت اور مسلم عوام کے درمیان عدم اعتماد اور رابطہ کے فقدان کی وجہ سے زیادہ شدت اختیار کرگیا ہے ۔ دونوں ایکد وسرے کی کسوٹی پر کھرے نہیں اترے اس کیلئے سنجیدہ کوشش کبھی نہیں کی گئی دوسرے اور تیسرے درجہ کی قیادت کے فقدان کے بعدکئی نسل سے رشتہ بنانے میں دشواری ہوئی ہے۔ یہی مسئلہ کی جڑ بئی ہے۔
اترپردیش میں مسلمانوں کی آبادی5.18فیصد ہے جبکہ یادو صرف 9فیصد ہیں ،اوبی سی 45فیصد ہے اس میں 79ذاتیں آتی ہیں۔ ایس سی کل آبادی کا 5.20فیصد ہیں اس میں 66ذاتیں شامل ہیں اسے سیاسی حکمت عملی کا دیوالیہ پن کہا جائے گا کہ 5.18فیصد آبادی کاایک بھی ترجمان لوک سبھا میں نہیں ہے۔ 9فیصد یادوآبادی مودی طوفان میں بھی انہیں جتاکرلائی ۔5.18فیصدآبادی کی اکثریت یادو کو اپنا رفیق ومسیحا مانتی چلی آئی ہے اس کا رزلٹ سامنے ہے تو کیاآبادی کا تیسرا سب سے بڑا فیصد پنڈلم کی طرح گھومتارہے گا۔ اس کے سامنے کوئی باوقار باعزت راستہ ہے کہ نہیں۔

سیاسی طورپر بے وزن بنادیئے گئے مسلمان اترپردیش کے لوک سبھا الیکشن میں مات کھاچکے ہیں تو کیا اسمبلی الیکشن میں کچھ نیاکرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ بی جے پی کوہرانے کی حکمت عملی اپنااثر کھوچکی ہے۔ اورکتنا ہرائیں گیمرکز میں توبٹھادیا یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 5.20فیصد ایس سی اور5.18فیصد مسلم کا اشتراک سیاسی بازآباد کاری کی قابل عمل صورت بن سکتا ہے؟ یعنی دلت -مسلم اتحاد کرمی کا مجرب فارمولہ اپنانے پر غور کیاجاسکتاہے یانہیں۔ ذراغور کریں کہ 4.3فیصد ،2.2فیصد لودھی،6.7فیصدٹھا کراور 13فیصد برہمن پوری قوت کے ساتھ سیاسی حصہ داری میں شریک ہیں اور 5.18فیصد حاشیے پرکھڑا ہے ۔ ایک دو وزیر، کچھ نااہل موقع پرست درباری مزاج کے لوگوں کو درجہ حاصل وزیر اور ایم ایل سی بناکر کوٹہ پورا کرلیاجاتا ہے جو صرف اپنے لئے جیتے اور مرتے ہیں۔ اترپردیش میں اقلیتی فلاح وبہبود کیلئے مختص رقم کا گزشتہ سال میں صرف 25فیصد حصہ خرچ ہوپایا کئی منصوبے ہوا میں اڑ گئے۔ کسی کو احساس نہیں ہوا۔ آواز بلندکیسے کریں وہ تو گری پڑی ہیں یہ سرکار کی غیرذمہ داری ،عدم حساسیت اور نام نہاد مسلم نمائندوں کی مجرمانہ کارکردگی کا بدترین نمونہ ہے کیونکہ18.5فیصد آبادی بے خبر ہے اسے لٹنے کی فکر ہے نہ بک جانے کا غم ۔ گریبان کون پکڑے جنہیں احتجاج کرنا آتا ہے وہ پہلے ہی سرکاری وظیفہ خواروں میں شامل ہوکر اپنا اقبال بلند کرآئے ۔ پھر وہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ اترپردیش میں دلت مسلم اتحاد کا ماحول بنایاجائے توباعزت باوقار سب سے بہتر متبادل سامنے آسکتا ہے۔
سیاسی جماعتوں اورمسلم لیڈروں کے ڈھلمل رویہ سے مسلمانوں کا بڑا طبقہ غصہ میں ہے وہ اپنی محرومی اور گونگے پن کو اویسی میں ڈھونڈسکتا ہے۔ خاص طور سے نوجوان ووٹر نئی تبدیلی کا خواب دیکھ رہا ہے جہاں اس کی حصہ داری یقینی بن سکے جو بھی یہ ضرورت پوری کرے گا وہ اس کے ساتھ چلاجائے گا بہرحال5.18فیصداور5.20فیصد کو ایک ساتھ لانے کی حکمت عملی کا رگر ہوگی؟ اس کے خدوخال کیاہوسکتے ہیں۔ انتشار کوکم سے کم کرنے کی تدابیر اور کیا ہوسکتی ہیں۔ مسلمانوں کو سرجوڑ کرسوچناہوگا اگر کسی کے ذہن میں موثر ،مربوط اور قابل عمل کوئی اور راستہ ہے تو اس پر کھلے دل سے غور کرناچاہئے۔ آنے والے وقت میں ملک اور خاص طور سے مظلوم طبقات اورکمزور اور بے وزن ہوگئے تو آنے والے پانچ سال تک کرنے کیلئے ہاتھ میں کچھ نہیں رہے گا۔ ہمیں ان کا مقابلہ کرنے ،ملک کی جمہوریت اور آئین کے تحفظ کیلئے ایک اور لڑائی لڑنے کیلئے ذہنی طورپر تیار رہنا چاہئے۔ ذہنوں میں میں وسعت اور دلوں میں گنجائش پیدا کرنے اور اختلافات کوجگہ دینے کا حوصلہ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی عادت ڈالنی ہوگی،حکمت ،تدبراور تحمل ہمیں صحیح راستہ پر لے جائیں گے۔ (ملت ٹائمز)
(مضمون نگار سینئر صحافی اور روزنامہ خبریں کے چیف ایڈیٹر ہیں)
qasimsyed200@gmail.com

SHARE