مولانا ندیم الواجدی
۱۹/ فروری ۲۰۱۸ء کے تمام اخبارات میں دو خبریں صفحہ اوّل پر شاہ سرخیوں کے ساتھ شائع ہوئی ہیں، ایک خبر تو گؤ رکشک سے تعلق رکھتی ہے، ملک کی راجدھانی دہلی کے رام لیلا میدان میں منعقد ایک جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے راجستھان گؤ رکشا کمانڈوز فورس کے صدر ایس ایس ٹائیگر نے کہا ہے کہ ہم اُس ہندوستان کے آئین کو نہیں مانتے جہاں ہماری ماں کاٹی جارہی ہے، ہندوستان سو کڑوڑ ہندؤں کا ملک ہے، جس ملک میں ہماری ماں کی حفاظت کے لیے قانون نہیں ہوگا اس ملک کے کسی قانون کو ہم نہیں مانیں گے، ٹائیگر نے اور بھی بہت کچھ کہا ہے، اس نے کہا ہے کہ ہم جہاں بھی گائے ماتا کو قتل ہوتے ہوئے دیکھیں گے قاتل کو سرعام گولی مادیں گے، جہاں گائے کٹے گی وہاں قصائی کٹے گا، یہ اور اس طرح کے جملے اپنی زبان سے وہی شخص ادا کرسکتا ہے جسے حاکم وقت کا کوئی ڈر خوف نہ ہو، لیکن یہ الگ موضوع ہے جس پر اظہارِ خیال کرنا اس وقت مقصود نہیں ہے، اس خبر کے حوالے سے ہم صرف یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ سو کڑوڑ ہندؤں کے اس ہمدرد اور بہی خواہ کو گائے ماتا کے قتل پر اس قدر پریشانی ہے کہ وہ غصے سے اپنا آپا کھو بیٹھا ہے، دوسری طرف سو کڑوڑ ہندؤں کی حقیقی ماؤں کی اسے کوئی فکر نہیں ہے جن کی تعداد دن بہ دن گھٹتی جارہی ہے، نیتی آیوگ نے حال ہی میں ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ملک کی ستر ہ بڑی ریاستوں میں جنسی شرح تناسب میں زبردست گراوٹ آئی ہے، حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر ریاستوں میں بی جے پی برسر اقتدار ہے، ان میں بھی گجرات شرح فہرست ہے جہاں بچیوں کی پیدائش بچوں کے مقابلے میں 53 پوائنٹ کم ہے، یعنی ہر ہزار لڑکوں کے مقابلے میں 854 لڑکیاں پیدا ہورہی ہیں، شرح تناسب میں یہ فرق سال بہ سال بڑھتا جارہا ہے، اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو مستقبل کی ماؤں کے حوالے سے خطرناک صورت حال پیدا ہوسکتی ہے، اگرچہ حکومت بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ کی تحریک چلا رہی ہے اور اس پر کڑوڑوں روپئے خرچ کئے جارہے ہیں، لیکن اس رپورٹ کے بعد ایسا لگتا ہے کہ حکومت کا یہ پروگرام صرف نعرے کی حد تک تو کامیاب ہے کہ آپ اسے ہر بس، ہر ٹرک اور ہر ای رکشا پر لکھا ہوا دیکھ سکتے ہیں لیکن حقیقت میں اس پر کوئی عمل نہیں ہورہا ہے بلکہ گائے ماتا آندولن کی آندھی میں بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ کی تحریک تنکے کی طرح اُڑی چلی جارہی ہے۔
لڑکیوں کو پیدائش سے قبل رحم مادر میں قتل کردینے کا یا پیدائش کے بعد موت کے گھاٹ اتاردینے کارواج صدیوں پُرانا ہے، ملک اگر چہ تعلیمی اعتبار سے آگے بڑھ رہا ہے، اور معاشی ترقی میں بھی تیز رفتاری کے ساتھ قدم بڑھا رہا ہے لیکن وہ صدیوں پرانے اس رواج سے پیچھا نہیں چھڑا پایا ہے، حکومت کی تمام تر پابندیوں کے باوجود شادی شدہ جوڑے الٹراساؤنڈ کے ذریعے یہ پتہ لگانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں کہ ان کے گھر میں لڑکا آنے والا ہے یا لڑکی، اگر لڑکی کی نشاندہی ہوتی ہے تو بہت سے بدبخت جوڑے اسی وقت اسقاط کرادیتے ہیں، اس بارے میں ایک مطالعاتی رپورٹ منظر عام پر آئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بہت سے گھرانوں میں لڑکی کو آج بھی سماجی بوجھ تصور کیا جاتا ہے، چند سال قبل تک ملک میں چھ سال کی عمر کے لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی تعداد 7.1ملین کم تھی، رپورٹ کے مطابق ۱۹۸۰ء سے ۲۰۱۰ء تک تیس سال کی مدت میں بارہ ملین لڑکیوں کو ان کی جنس کی بنیاد پر پیدائش سے پہلے ہی مار دیا گیا ہے، اس رجحان کی وجہ سے اب لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکوں کی تعداد ۳۲ ملین زیادہ ہوگئی، اگر پورے ملک کی مردم شماری رپورٹ کا جائزہ لیں تو یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ ہندوستان میں ایک ہزار مردوں کے مقابل عورتوں کی تعداد صرف ۹۳۳ ہے، جب کہ دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں صورت حال دوسری ہے، روس میں ایک ہزار مردوں کے مقابلے میں خواتین کی تعداد سب سے زیادہ گیارہ سو چالیس ہے، جب کہ امریکہ میں 1029اور جاپان میں 1091عورتیں پائی جاتی ہیں، برازیل، نائیجریا اور انڈونیشیا میں بھی مردوں کے مقابلے میں عورتوں کی تعداد زیادہ ہے، بنگلہ دیش ، سری لنکا اور نیپال جیسے پس ماندہ ملکوں میں بھی صورت حال ہندوستان سے بہتر ہے، اس وقت ہمارا ملک عورتوں کی تعداد میں کمی کے اعتبار سے دنیا کے ملکوں میں دسویں مقام پر ہے۔
عورتوں کی گھٹتی ہوئی تعداد سے ہندو سماج میں تشویش پیدا ہونے لگی ہے، راجستھان سے خبر آئی ہے کہ صوبے میں لڑکیوں کی گھٹتی ہوئی تعداد سے پریشان جین مذہب کی خواتین رحم مادر میں دختر کشی کے خلاف مہم چلارہی ہیں، جین خواتین کی اس مہم کو سادھوؤں اور سنتوں کی حمایت بھی حاصل ہے، مہم چلانے والوں کو جین مذہبی شخصیتوں نے یہ یقین بھی دلایا ہے کہ ان اشلوکوں اور منتروں میں تبدیلی کی جائے گی جن میں بیٹیوں کو فوقیت دی گئی ہے اور ان تبدیل شدہ اشلوکوں کو شادی بیاہ جیسی تقریبات کے دوران پڑھا بھی جائے گا تاکہ سننے والوں کے سامنے خواتین کی اہمیت اور عظمت واضح ہوسکے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ مردوں کے مقابلے میں عورتوں کی کم حیثیت کا تعلق ہندو مذہب کی روایات سے بھی ہے، یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں آج بھی عورتوں کو دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے، یوں تو مندروں میں دیویوں کی پوجا بھی کی جاتی ہے لیکن حقیقی زندگی میں مردوں کے ناروا سلوک کا شکار یہی دیویاں یعنی عورتیں بنتی ہیں، رحم مادر میں دختر کشی سے بچ کر جو لڑکیاں دنیا کے آنگن میں قدم رکھ دیتی ہیں ان کے ساتھ بچپن ہی سے سوتیلے پن کا سلوک کیا جاتا ہے، گھر کے کام کاج سے لے کر تعلیم وتربیت تک کے ہر مرحلے میں لڑکوں کو لڑکیوںپر فوقیت دی جاتی ہے، کوشش کی جاتی ہے کہ لڑکوں کو زیادہ تعلیم یافتہ بنایا جائے کیوں کہ یہ کہیں جانے والے نہیں ہیں، لڑکیاں پرایا دھن ہیں ان پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت نہیں ہے، جب وہ جوان ہوجاتی ہیں تو ان کو معقول رشتے نہیں ملتے، جو رشتے ملتے ہیں وہ بھاری بھرکم جہیز کے ساتھ ہی لڑکیوں کو قبول کرتے ہیں، کم جہیز لانے والی لڑکیوں کو سسرال میں طعنے سننے پڑتے ہیں، تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یہاں تک کہ بہت سی لڑکیاں جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں اتنا ہی نہیں بلکہ ہر نحوست کی ذمہ داری عورتوں کے سر ڈال دی جاتی ہے اس میں مائکے اور سسرال کی بھی کوئی قید نہیں ہوتی، ہر جگہ صنفِ نازک ہی مورد الزام ٹھہرائی جاتی ہے، معاشرے میں عورتیں اتنی کمزور تصور کرلی گئی ہیں کہ ان کو زبردستی جنسی ہوس کا نشانہ بھی بنایا جاتاہے، حقیقی معنی میں یہ ملک مردوں کے تسلط والا ملک بن چکا ہے، حکومت کی تمام تر کوششوں کے باوجود عورتوں کو وہ حق نہیں مل پارہا ہے جس کی وہ مستحق ہیں اور نہ وہ عزت مل پارہی ہے جو انھیں ملنی چاہئے۔
دختر کشی کا رواج نیا نہیں ہے، اب رحم مادر میں لڑکیوں کو قتل کیا جارہا ہے، ایک زمانہ وہ تھا جب الٹراساؤنڈ جیسی مشینیں ایجاد نہیں ہوئی تھیں اور لوگ یہ پتہ نہیں لگا پاتے تھے کہ ان کی بیویوں کی کوکھ میں کیا پل رہا ہے اس وقت وہ پیدائش کا انتظار کرتے تھے، پیدائش کے بعد جب انھیں یہ معلوم ہوتا کہ نو مولود لڑکی ہے تو بہت سے بد بخت، سیاہ دل اور سخت جان لوگ پیدائش کے بعد یا کچھ ماہ وسال کے بعد ان کو مار ڈالتے یا زندہ درگور کردیتے، یہ اسلام کی آمد سے پہلے کے حالات ہیں اور عرب کا دور جاہلیت ان حالات کاچشم دید گواہ ہے، قرآن کریم میں دور جاہلیت کے اس رجحان کا سخت نوٹس لیا گیا اور اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کے خلاف سخت رویّہ اپنایا جس کے نتیجے میں عورتوں کی عظمت رفتہ بحال ہوئی، آج ہم نہایت فخر کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جس نے عورتوں کو تحت الثری سے نکال کر اوج ثریا تک پہنچایا ہے، اور اس کو بیٹی، بہو، بہن، ماں اور بیوی ہر روپ میںعزت بخشی ہے اور سربلندی عطا کی ہے، اسلام کی آمد سے قبل عرب معاشرے میں صنف نازک کے ساتھ بدترین سلوک کیا جاتاتھا ان کو حقارت کی نظر سے دیکھاجاتا تھا، اگر کسی کو لڑکی کی ولادت کی خبر دی جاتی تو غم اور پریشانی سے اس کا چہرہ سیاہ پڑجاتا، اور اس بری خبر کی وجہ سے وہ لوگوں سے چھپا چھپا پھرتا ، اور سوچتا کہ وہ اس نومولود لڑکی کو اس کی ذلت کے ساتھ اپنے پاس رکھے یا اس کو مٹی میں دبا کر اپنا پیچھا چھڑالے۔ (سورہ نحل: ۵۸/ ۵۹) سیرت کی کتابوں میں ایک واقعہ لکھا ہے، دور جاہلیت میں اپنی بیٹی کو قتل کرنے والے ایک صحابیؓ نے سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بتلایا کہ میری ایک بیٹی تھی جواس عمر کو پہنچ چکی تھی کہ بات کو سمجھ سکے اور بات کرسکے، وہ جب بھی مجھے دیکھتی خوشی سے جھوم اٹھتی، اور میری آواز پر دوڑی چلی آتی، ایک روز میں نے اس کو بلایا اور اپنے ساتھ چلنے کو کہا، وہ میرے ساتھ چل پڑی اور تمام راستے مجھ سے باتیں کرتی رہی، میں اس کو لے کر قبرستان پہنچ گیا، میں نے اس کے لیے قبر کی جگہ منتخب کی، میں زمین پر بیٹھ کر ہاتھوں سے مٹی اٹھانے لگا وہ بھی اپنے ننھے منے ہاتھوں سے مٹی اٹھانے میں میری مدد کرنے لگی، مٹی کھودتے اور اٹھاتے وقت میرے کپڑوں پر جو مٹی لگ جاتی تھی میری بچی اٹھ کر میرے کپڑے صاف کردیتی، قبر تیار ہوئی تو میں نے اس کو اس میں بٹھایا اور اس پر مٹی ڈالنی شروع کی، وہ بھی اپنے ننھے ہاتھوں سے اپنے اوپر مٹی ڈالنے لگی، وہ اس وقت ہنس رہی تھی، جب مٹی اس کے سرتک پہنچی تو خوف زدہ ہوکر رونے لگی اور ابو ابو کرنے لگی، لیکن میں نے کچھ نہ سنا، اور اس کو زندہ دفن کردیا، سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر رونے لگے یہاں تک آپ کی ہچکیاں بندھ گئیں، یہ وہ واقعہ ہے جو دختر کشی کے خلاف اسلام کی تحریک کا نقطۂ آغاز بنا، اسلام نے اس عمل کی سخت مذمت کی، اور اس کو انتہائی نا پسندیدہ عمل قرار دیا، اس کے برعکس لڑکیوں کی پرورش کو کار ثواب اور حصول جنت کا ذریعہ قرار دیا، ایک حدیث میں ہے، جس شخص نے تین لڑکیوں کی پرورش کی، ان کی اچھی تربیت کی، اُن سے حسن سلوک کیا، پھر ان کا نکاح کردیا، اس کے لیے جنت واجب ہوگئی۔ (مسند احمد بن حنبل: ۳/ ۳۰۳) ایک اور حدیث میں ہے: ’’جس شخص کے یہاں بچی پیدا ہوئی اور اس نے جاہلیت کے طریقے پر اس کو زندہ درگور نہیں کیا، اور نہ اس کو حقیر وذلیل سمجھا اور نہ لڑکوں کو اس کے مقابلے میں ترجیح دی اللہ تعالیٰ اس شخص کو جنت میں داخل فرمائے گا‘‘۔ (سنن ابی داؤد، رقم الحدیث: ۴۴۸۰)
قرآن کریم کی بے شمار آیات اور سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی لا تعداد احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام عورتوں کے حق میں سراپا رحمت بن کر آیا ہے، ضرورت ہے کہ عورتوں سے متعلق اسلامی تعلیمات کو عام کیا جائے اور برادران وطن کو بتلایا جائے کہ بیٹیاں اللہ کی رحمت ہیں، زحمت نہیں ہیں، ان کو رحم مادر میں قتل نہ کیا جائے، پیدا ہوجائیں توان کو بوجھ نہ تصور کیا جائے، بلکہ ان کو اللہ کی رحمت سمجھ کر پروان چڑھایا جائے، ہوسکتا ہے ان تعلیمات سے رحم مادر میں دختر کشی کے اس رجحان کا خاتمہ ہوجائے یا اس میں کمی آجائے، بعض اخباری رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ صورت حال تشویش ناک ہے، اگر یہ رجحان اسی طرح بڑھتا رہا تو معاشرے میں لڑکیوں کی تعداد خوفناک حد تک گھٹ جائے گی، مستقبل میں لڑکیوں کے حصول کے لیے مارا ماری ہوگی، بہت سے لڑکے بغیر شادی کے رہ جائیں گے اور وہ اپنی جنسی خواہشات کی تکمیل کے لیے تشدد کے راستے اپنائیں گے یا غیر فطری طریقے اختیار کریں گے، دونوں ہی صورتوں میں زوال پذیر معاشرہ کچھ اور زوال کی طرف بڑھے گا یہاں تک کہ اخلاقی اعتبار سے بالکل ہی تباہ و برباد ہوکر رہ جائے گا۔
nadimulwajidi@gmail.com