سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے امامِ حرم کا استعمال

اشرف استھانوی
امامِ حرم، پاسبانِ امن، شیخ صالح بن محمد الطالب گزشتہ دنوں ہندوستان کے امن دورے پر تھے۔ اس دوران انہوں نے بہار کی راجدھانی پٹنہ اور قومی راجدھانی دہلی سمیت کئی مقامات پر امن کانفرنسوں اور میڈیا کانفرنسوں سے خطاب کرتے ہوئے اسلام کو امن و سلامتی کا مذہب قرار دیا اور ساری دنیا کو یہ پیغام دیا کہ اسلامی تعلیمات پر عمل کرکے ہی عالمی سطح پر امن قائم کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے بھارت سمیت ساری دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ آج دنیا کے مختلف حصوں میں اسلام کے نام پر جو خون خرابہ ہورہا ہے، اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش ہے۔ اصل اسلام وہ ہے جو پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفےٰؐ لے کر آئے تھے اور جس پر آج بھی دنیا کے بیشتر مسلمان عمل پیرا ہیں۔ امامِ حرم کے مطابق وہ سعودی فرماں روا شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے حکم پر امن اور خیر کا پیغام دینے کے لئے ہندوستان آئے تھے۔ حالانکہ ان کے اس دورے میں ویزا کی دشواریوں کے سبب قدرے تاخیر اور ردّ و بدل بھی سامنے آیا۔
پٹنہ میں انہیں یکم اپریل کو تاریخی گاندھی میدان میں نمازِ جمعہ کی امامت کرنی تھی اور امن کانفرنس سے خطاب کرنا تھا۔ مگر امام حرم کا دورہ پہلے مرحلہ میں ملتوی ہونے کے بعد گاندھی میدان میں نمازِ جمعہ کا پروگرام منسوخ کرنا پڑا اور امن کانفرنس بھی امامِ حرم کے خطاب کے بغیر اختتام پذیر ہوگئی۔ اس کے بعد وہ دوسرے دن پٹنہ پہنچے تو وہ ایک خاص جماعت بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ خاص شخص کے ذریعہ ہائی جیک کرلئے گئے۔ پٹنہ کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں امامِ حرم چوبیس گھنٹے مقید رہے۔ امامِ حرم کے ہر پروگرام میں ایک خاص چہرہ اور ایک خاص گروپ ان کے پاس نظر آیا۔ امامِ حرم سے ہر مسلک اور مشرب کے لوگ شرف نیاز حاصل کرنا چاہتے تھے، مگر انہیں امامِ حرم تک پہنچنے ہی نہیں دیا گیا۔ امامِ حرم سے شرفِ نیاز وہی لوگ حاصل کرسکے جنہیں امامِ حرم سے بھی زیادہ لمبی داڑھی اور ٹوپی والے شخص نے ملانا چاہا۔
کہنے کو تو یہ امامِ حرم کا امن دورہ تھا اور اس کا اظہار خود امامِ حرم نے میڈیا کانفرنس کے دوران کیا بھی، لیکن حقیقتاً یہ امن کانفرنس کے منتظم اور توحید ایجوکیشنل ٹرسٹ کشن گنج کے چیئرمین مطیع الرحمن کے سیاسی مقاصد کے حصول کا ذریعہ بن گیا۔ مطیع الرحمن، امامِ حرم کو اسٹیٹ گیسٹ کا درجہ نہیں دلا سکے مگر خود اپنا سیاسی قد اونچا کرنے کا خاطرخواہ انتظام ضرور کرلیا۔ انہوں نے امامِ حرم کو راجدھانی پٹنہ کے سب سے مہنگے ہوٹل موریہ میں ٹھہرایا اور امامِ حرم کے رتبہ اور وقار کا استعمال اپنے سیاسی مقصد کے حصول کے لئے منمانے طریقہ سے کیا۔ عام طو رپر مسلم اور غیرمسلم سیاستداں اپنی سیاسی دوکان چمکانے کے لئے مسلمانوں کا استعمال کرتے ہیں مگر مطیع الرحمن نے تو اپنی سیاسی مقصد برآوری کے لئے امامِ حرم کے وقار کو ہی داؤ پر لگایا اور ہوٹل موریہ میں ہی مخصوص سیاسی ڈنر پارٹی کا اہتمام کیا گیا۔ اس ڈنر پارٹی یا ڈنر ڈپلومیسی کا جو لوگ حصہ بنے، ان میں راشٹریہ جنتادل کے سربراہ لالو پرساد، نائب وزیراعلیٰ تیجسوی پرساد یادو، وزیرتعلیم اشوک چودھری، سابق نائب وزیراعلیٰ سوشیل کمار مودی اور کئی ارکانِ اسمبلی کے علاوہ پٹنہ کے میئر افضل امام بھی شامل تھے۔ ریاستی وزیراعلیٰ نتیش کمار بھی امامِ حرم کے اعزاز میں ڈنر دینا چاہتے تھے لیکن حالات کو بھانپتے ہوئے اپنا پروگرام منسوخ کردیا اور امامِ حرم سے شرفِ نیاز حاصل کرنے کا ارادہ بھی ترک کردیا۔ رات کی خاموشی میں مسلم رہنما یا مذہبی رہنما جمع ہوتے اور کسی خاص معاملہ پر غو رکرنے کے لئے سرجوڑ کر بیٹھتے تو سمجھ میں آتا کہ یہ امن، آپسی اتحاد اور بھائی چارہ کے فروغ کی ایک کوشش ہے۔ امارت شرعیہ نے اتحاد امت کانفرنس رکھا تھا، لیکن عین وقت پر یہ پروگرام بھی منسوخ ہوگیا۔ مختلف مسلکوں کے قائد جمع ہوتے تو سمجھا جاتا کہ کلمۂ وحدت کی بنیاد پر مسلمانوں کو متحد کرنے اور انہیں اپنے عمل سے اسلام کی سچی تصویر پیش کرنے پر آمادہ کرنے کی ایک کوشش تھی جس کی موجودہ دَور میں سخت ضرورت ہے۔ مگر مطیع الرحمن اور ان کے ہمنواؤں کے طرزِ عمل سے ایک بات پھر صاف ہوگئی کہ اب بھی ان کے درمیان آپسی بھائی چارہ یا مسلکی رواداری نہیں ہے تو یہ لوگ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ مل جل کر مکمل رواداری کے ساتھ کیسے رہ سکتے ہیں؟ اگر نہیں رہ سکتے ہیں تو تو پھر مذہبی رواداری کی بنیاد پر قائم ہونے والا ’’امن‘‘ کیسے قائم ہوسکتا ہے؟
کہنے کی ضرورت نہیں کہ محض کانفرنسوں کا انعقاد کرکے یا لمبی چوڑی تقریریں جھاڑ کر اسلام کے امن کے پیغام کو دیگر مذاہب کے ماننے والوں تک نہیں پہنچایا جاسکتا ہے۔ امامِ حرم نے میڈیا کے توسط سے بھی اسلام کی جو تصویر دنیا کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی، وہ محض تھیوری تھی۔ ایسی تھیوری جس کو دنیا کے لوگ بہت پہلے سے سنتے آرہے ہیں مگر ان کے سامنے اسلام کی جو عملی تصویر آرہی ہے، وہ اس سے بالکل میل نہیں کھاتی ہے۔ ہمیں اسلام کا اصلی چہرہ دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے تو عملی سطح پر ہمیں اپنے اندر تبدیلی لانی ہوگی۔ دنیا سن کر نہیں مانے گی کہ اسلام امن، سلامتی اور رواداری کا مذہب ہے۔ وہ تو دیکھ کر ہی مانے گی۔ پیغمبر اسلامؐ نے بھی جب اسلام پیش کیا تھا تو سن کر نہیں، بلکہ ان کے اخلاقِ حسنہ اور اعلیٰ کردار سے متاثر ہوکر لوگوں نے جوق در جوق اسلام کو قبول کیا تھا۔ علمائے کرام اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اسلام تلوار کی طاقت سے نہیں بلکہ اخلاق کی طاقت سے پھیلا۔ مگر آج ہمارا حال یہ ہے کہ ہم خود آپس میں متحد نہیں ہیں۔ ہم تمام مسالک کا احترام نہیں کرپاتے ہیں تو ہم سے یہ امید کیسے کی جاسکتی ہے کہ ہم تمام مذاہب کا احترام کریں گے اور رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ’’جیو اور جینے دو‘‘ کے فارمولے پر عمل کریں گے۔
دنیا بھر کے مسلمان جب فریضۂ حج کی ادائیگی کے لئے جاتے ہیں تو ایک امام کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں۔ مگر واپس آتے ہی پھر خانوں میں تقسیم ہوجاتے ہیں۔ اب اسی امامِ حرم سے وہ مل بھی نہیں سکتے، ان سے دعائیں بھی نہیں لے سکتے، ان کا دیدار بھی نہیں کرسکتے۔ تو کسی کے قدموں میں اپنا دل کیسے نکال سکتے ہیں؟ اور جب تک مسلمان اپنا یہ کردار دنیا کے سامنے نہیں لائیں گے، دنیا کے لئے وہ قابلِ قبول ہرگز نہیں ہوں گے۔
مطیع الرحمن چاہتے تو اس موقع کا استعمال حکومت وقت پر مسلمانوں کے مسائل کے حل کے لئے دباؤ ڈالنے کے لئے کر سکتے تھے۔ مگر یہ تب ہوتا جب وہ خودغرضی کے جذبہ سے پاک ہوتے اور بہار کے تمام مسلمانوں کے مسائل کو اپنا مسئلہ سمجھنے کی فراخ دلی کا مظاہرہ کرپاتے۔ مگر انہیں نہ تو اسلام کی اصلی تصویر دنیا کے سامنے پیش کرنے میں دلچسپی تھی اور نہ ہی مسلمانوں کے مسائل کے حل میں۔ انہیں تو اپنا اور اپنے مسلک سے وابستہ چند افراد کے مفاد کی فکر تھی جس کے لئے انہوں نے وہ سب کچھ کیا جو نہ انہیں زیب دیتا تھا اور نہ ہی امامِ حرم کے وقار اور رتبہ کے مطابق تھا۔ اس کا فائدہ بہت جلد مطیع الرحمن کو تو ملے گا ہی، اہلِ بہار کو بھی نظر آئے گا۔ ہم اس کی نشاندہی بھی کرسکتے ہیں، لیکن فی الوقت نہیں کریں گے۔ وقت بہت جلد دنیا کے سامنے بے نقاب کردے گا اور تب ہماری طرح عام لوگوں کو بھی یہ بات سمجھ میں آجائے گی کہ مطیع الرحمن کیوں ہرحال میں امامِ حرم کو بہار لانا چاہتے تھے اور ان کے بہار آنے کے بعد وہ اور ان کے خاص لوگ کیوں ان کے اِرد گرد گھیرا ڈالے رہے۔
مطیع الرحمن نے میڈیا کانفرنس کے موقع پر ایک بات صحیح کہی تھی کہ داڑھی اور ٹوپی رکھ کر مسلمان غلط کام کرسکتا ہے۔ بیشک ان کا اشارہ کسی اور طرف رہا ہوگا، مگر ہم سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اس جملہ کی آڑ میں اپنے جیسے مولویوں کا کردار پیش کیا ہے۔ اس کا ثبوت و ہ اپنے عمل اور کردار سے پیش کرہی چکے ہیں۔ ایک ثبوت انہوں نے اس وقت بھی پیش کیا تھا جب وہ یہ کہہ رہے تھے کہ بہار وہ سرزمین ہے جہاں سے گوتم بدھ اور مہاویر جیسی ہستیوں نے امن کا پیغام دیا۔ مطیع الرحمن چاہتے تو اس میں حضرت مخدوم جہاںؒ کے کردار کا بھی ذکر کرسکتے تھے جنہوں نے خدمت خلق کی بنیاد پر نہ صرف مخدومِ جہاں کا خطاب حاصل کیا بلکہ بلاامتیاز سب کو ساتھ لے کر چلنے کا وہ درس بھی دیا جس پر چلنے کا دعویٰ تو آج کئی حکومتیں کررہی ہیں مگر چل نہیں پارہی ہیں۔ اور اگر چلنا سیکھ جائیں تو ریاست اور ملک کا نقشہ بدل جائے اور وہ خود ہمیشہ کے لئے ناقابلِ تسخیر بن جائیں۔(ملت ٹائمز)
(مضمون نگار سینئر صحافی اور تجزیہ نگار ہیں )

SHARE