مکرمی!
ہندوستانی مسلمان بھی بڑا عجیب ہے ۔ وہ اپنے برادران وطن کی طرح حد سے زیادہ جذباتی بھی ہے اور باتونی بھی ۔ بات کا بتںگڑ بنانے اور رائی کو پربت بنا کر پیش کرنے میں وہ اپنے برادران وطن کے شانہ بشانہ ہے ۔ فکری جمود اور عقیدت اور روایت پرستی میں وہ اپنے بھائیوں سے دو قدم آگے ہے ۔ وہ نہ صرف خلاف روایات باتوں کو نا پسند کرتا ہے بلکہ ایسا اقدام کرنے والوں کو بھی سزا کا حقدار سمجھتا ہے ۔ جذباتیت میں وہ اس قدر مبتلا ہے کہ لمحوں میں کسی کو بھی اوج ثریا تک پہوںچا سکتا ہے۔ اس کے یہاں عقل اور دلائل زیادہ معنی نہیں رکھتے ۔ وہ جب عقیدت پہ آتا ہے تو نقل کر کے دوسروں کے اشعار کو پڑھنے والوں کو بھی شاعر اسلام کے خطاب سے نوازتا ہے ، تیز و طرار آواز میں رٹی ہوئی تقریر کرنے والوں کو خطیب العصر کا لقب دیتا ہے ، اور اسکے جذبات کے سائے میں جینے والے سیاستدانوں کو اپنا مسیحا مانتا ہے ۔
وہ اس قدر بھولا ہے کہ اپنے نفع اور نقصان کا فیصلہ وہ خود نہیں کر پاتا ہے ۔ نہ اسکے پاس مستقبل کا کوئی لائحہ عمل ہے ، نہ حال کی کوئی پلاننگ ، اور نہ ہی وہ ماضی سے سبق حاصل کرنے کو تیار ہے ۔ وہ کہتا تو اپنے آپ کو داعی ہے ، پر داعیانہ صفات سے وہ خالی ہے ۔ وہ خالی الذہن بھی اور خالی القلب بھی ، اس پر بقول حجاج ابن یوسف کوئی بھی بھونکنے والا (اتباع کل ناعق)باآسانی اپنا سکہ جما سکتا ہے ۔
اس میں شک نہیں کہ ہندوستانی مسلمان موجودہ حالات کے تناظر میں ایک عجیب سی کشمکش میں مبتلا ہے ۔ وہ اپنے آپ کو ایسے دوراہے پہ کھڑا پا رہا ہے جہاں سے منزل بھی کوسوں دور ہے اور راستے بھی پر خطر ہیں ، اورصحیح اور درست راستے کا تعین بھی اسکے لئے انتہائی دشوار ہے ۔ ایک طرف رہبر ان قوم کا روایتی طریق ہے تو دوسری طرف ایک نئے اکسپرمنٹ کا فارمولہ ۔ ظاہر ہے روایات سے محبت اور جذباتیت کے ایکسٹرا ڈوز نے اسے اس قابل ہی نہیں رکھا ہے وہ کچھ نیا سونچے ۔ ماضی کی سوجھ بوجھ کی غلطیوں سے کو ئی فائدہ اٹھانا تو درکنار اس تعلق سے کوئی غور و فکر کرے ۔
ظاہر ہے یہ روایتی طریق امت کیلئے نہ تو ماضی میں سود مند ثابت ہوا ہے اور نہ مستقبل میں اس کے کسی اچھے نتیجے کی امید (الا ماشاء اللہ) ہے ۔
بابری مسجد کے تعلق سے جب ملک کے مایہ ناز عالم ، مولانا سلمان حسینی ندوی نے اس روایتی طریق سے ہٹ کر ایک نیا فارمولہ پیش کیا تو کچھ دیر کیلئے ایسا لگا جیسے کوئی خیر وجود میں آنے والا ہے ۔ ملک میں بڑھتی نفرتوں کی کھائی کو ختم کرنے کی ایک امید جاگی۔ بالآخر اختلاف آراء کو اس امت کیلئے ایک فال نیک قرار دیا گیا ہے ۔ تاریخ کے ایک حقیر طالب ہونے کے ناطے اور حالات حاضرہ سے تھوڑی سی دلچسپی کی وجہ سے یہ بات کہی جا سکتی ہے مولانا کی رائے ایسی نہیں تھی جسے بہت ہلکے میں لیا جاتا ۔ ضرورت تھی کہ کھلے ماحول میں اس پر علمی اور فکری مباحثے ہوتے ۔ دلائل اور قرائن کی روشنی میں تبادلہ خیال کیا جاتا ۔ بھائی چارگی اور صلح و آشتی کے فروغ کی ایک اور کوشش کی جاتی ۔ لیکن یہ امید بس ایک امید ہی رہ گئی ۔ ہماری روایت پرستی نے نہ تو صرف مولانا کی بات کو قابل غور نہ سمجھا بلکہ ایسی فضا بنائی کہ خود مولانا نے اپنے موقف سے رجوع کرنے کا اعلان کردیا ۔ اس دوران نہ صرف مولانا کی ذاتیات پہ حملہ کیا گیا بلکہ انکے کردار کو بھی مشکوک بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی گئی ۔ ظاہر ہے مولانا کو قریب سے دیکھنے والا ہر فرد اس بات سے آگاہ ہے جو بھی بیھودہ سرگوشیاں مولانا کے خلاف کی گئیں وہ سب بے بنیاد ہیں ۔ ویسے بھی امت مسلمہ ہندیہ کا یہ رویہ اپنے بہی خواہوں کیلئے کوئی نیا نہیں ۔
واللہ المستعان
ولانزکی علی اللہ احدا
سيد ہدايت اللہ ندوي
مقيم حال دوحة ، قطر