صدائے جرس:اشرف استھانوی
فاربس گنج پو لس فائرنگ کے معاملے میں آخر کار وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا۔ جسٹس مادھویندر شرن کی صدارت والی ایک نفری عدالتی کمیشن کی جو رپورٹ بجٹ اجلاس کے آخری دن اور آخری مرحلے میں ریاستی قانون سازیہ میں پیش کی گئی ، وہ فاربس گنج کے مظلومین کو انصاف اور ظالموں کو سزا دلانے میں پوری طرح ناکام رہی ہے۔ کمیشن نے وہی کیا جو حکومت کی منشا تھی اور جس کا فیصلہ اس نے روزِ اول سے ہی کر لیا تھا۔ عدالتی تحقیقات کے نام پر تقریباً چار سالوں کا طویل وقت اور کروڑوں روپے صرف معاملے کی لیپا پوتی پر صَرف کئے گئے اور ایک بار پھر ان غریب مسلمانوں کو ہی قصور وار ٹھہرایا گیا جو متبادل راستے کا مطالبہ کر رہے تھے جن پر فاربس گنج پولس نے گولیاں برسا کر ایک شیرخواربچہ اور ایک حاملہ خاتون سمیت چار افراد کو موت کی نیند سلا دیا تھا۔
کمیشن نے فائرنگ کو جائز ٹھہرایا ہے۔ لیکن ارریہ ضلع کی ا س وقت کی ایس پی گریما ملک کو الزامات سے بری کر دیا ہے۔ البتہ ڈی ایم، ایم سرونن کو تنازعہ کے حل میں دلچسپی نہ لینے اور چہار دیواری کی تعمیر کے لئے ایس ڈی او صدر پر غیر ضروری دباؤ قائم کرنے کا قصور وار گردانا ہے اور ان کے خلاف حکومت سے محکمہ جاتی کارروائی کی سفارش کی ہے۔ کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ میسرس اور وسندرم کی طرف سے ڈی ایم ایم سرونن کو اس بات کی اطلاع دی گئی تھی کہ فیکٹری کے کیمپس کی چہار دیواری کی تعمیر میں مقامی لوگ رکاوٹیں پیدا کر رہے ہیں اور چہار دیواری کی تعمیر سے قبل متبادل راستہ فراہم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ لیکن ضلع مجسٹریٹ نے اس متنازعہ معاملے کے حل کے لئے کوئی ٹھوس پہل نہیں کی۔ انہوں نے فریقین کی میٹنگ طلب کرکے بیچ کا راستہ نکالنے کی بھی کوشش نہیں کی اوراس معاملے سے خود نپٹنے کی بجائے ایس ڈی او پر ساری ذمہ داری ڈال دی اور جلد از جلد چہار دیواری کی تعمیر کے لئے ان پر دباؤ بھی قائم کیا۔
کمیشن نے بیاڈا یعنی بہار انڈسٹریل ایریا ڈیلوپمنٹ اتھاریٹی کے حکام کے کردار پر بھی سوال اٹھایا ہے اور انہیں راستے کا مسئلہ حل کرنے کے لئے مثبت پہل نہ کرنے کا بھی مجرم گردانا ہے۔ حکومت سے متعلقہ حکام کے خلاف کارروائی کی سفارش کی ہے۔ کمیشن نے فائرنگ کے معاملے میں فاربس گنج کے اس وقت کے تھانہ انچارج انیل کمار گپتا کو بھی قصور وار ٹھہرایا ہے۔ کمیشن کا ماننا ہے کہ مقامی چوکیدار نے تھانہ انچارج کو معاملے میں پیدا شدہ کشیدگی کی اطلاع دی تھی۔ لیکن تھانہ انچارج اس کی اطلاع اپنے تک محدود رکھی اور کوئی احتیاطی قدم نہیں اٹھایا۔اس طرح انہوں نے اپنے فرائض کی ادائیگی میں لا پرواہی برتی ۔ کمیشن نے اس کے علاوہ اس المیہ کے لئے انٹلی جنس کی ناکامی کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ حکومت نے کمیشن کی رپورٹ پر جو کارروائی رپورٹ پیش کی ہے اس کے مطابق ڈی ایم ، ایم سرونن کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی شروع کرنے ، تھانہ انچارج کے معاملے میں ڈی جی پی کو 15 دنوں کے اندر رپورٹ پیش کرنے اور انٹلی جنس کی ناکامی کے معاملے میں متعلقہ حکام کی شناخت کرکے ان کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی شروع کرنے کی ہدایت جاری کردی گئی ہے۔
عدالتی کمیشن نے اس معاملے میں سماج دشمن عناصر کا بھی ہاتھ دیکھا ہے۔ اس کا ماننا ہے کہ جمعہ کی نماز کے بعد کچھ لوگوں نے مسجد میں موجود لوگوں کو راتوں رات تعمیر کی گئی چہار دیواری کو منہدم کرنے پر اُکسایا جس کے نتیجے میں لوگ فیکٹری احاطہ میں داخل ہوئے، انہوں نے قانون اپنے ہاتھ میں لیا، دیوار منہدم کی اور کیمپس میں ہنگامہ مچایا۔ اس لئے ان لوگوں کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہئے۔حکومت نے کمیشن کی اس سفارش پر ارریہ کے موجودہ ایس پی کو ہدایت دی ہے کہ وہ مقدمات کی تحقیق میں سازش کے پہلو کا بھی پتہ لگائیں اور جو لوگ اس سازش میں ملوث تھے ان کے بارے میں پندرہ دنوں کے اندر رپورٹ پیش کریں۔
دیکھا جائے تو یہ پوری رپورٹ مضحکہ خیز اور متضاد ہے۔ رپورٹ میں ایک طرف یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس وقت کے ڈی ایم نے تنازعہ کو حل کرنے کی کوشش نہیں کی اور فریقین کی میٹنگ طلب کرکے بیچ کا راستہ نکالنے کی کوشش نہیں کی اور دوسری طرف مقامی لوگوں کو بھی قصور وار قرار دیا جا رہا ہے۔ تنازعات کے حل میں ڈی ایم ،ایس پی اور ایس ڈی او کا مشترکہ کردار ہوتاہے۔ اگر مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لئے ڈی ایم ذمہ دار ہیں تو ایس پی اور ایس ڈی او کو بری الذمہ کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟کمیشن ایک طرف یہ بھی مانتا ہے کہ ڈی ایم اور تھانہ انچارج کو تمام معاملات کی اطلاع تھی مگر ان لوگوں نے کوئی احتیاطی قدم نہیں اٹھایا۔ دوسری طرف اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ المیہ انٹلی جنس کی ناکامی کا نتیجہ ہے اور اس کے لئے متعلقہ حکام کی شناخت کرکے ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے۔انٹلی جنس کی ناکامی اس وقت مانی جاتی جب سارا معاملہ پوشیدہ ہوتا۔ یہاں تو حکومت سے لے کر انتظامیہ تک سب کو سارے معاملے کی اطلاع تھی ۔ یہ تضاد اس لئے پیدا ہوا ہے کیوں کہ اس میں قصور واروں کو بچانے اور مظلوموں کو پھنسانے کی کوشش کی گئی ہے۔
سیدھی سی بات یہ ہے کہ بیاڈا کی وہ زمین پچاسوں بر س سے رام پور ہ اور بھجن پورہ گاؤں کے لوگوں کے آمد و رفت کا راستہ تھی۔ وہ زمین جب بی جے پی کے رکن قانون ساز کونسل اشوک اگر وال کو فیکٹری لگانے کے لئے دی گئی اور فیکٹری کا کیمپس تیار کرنے کے لئے چہار دیواری کی تعمیر کا کام شروع ہوا تو مقامی لوگوں نے راستے کا سوال اٹھایا۔انہیں اس سے کوئی مطلب نہیں تھا کہ اس زمین پر کیا بنے اور کیا نہ بنے۔وہ تو محض اتنا چاہتے تھے کہ ان کے لئے تھوڑا راستہ چھوڑ دیا جائے۔ اس کی اطلاع حکومت سے لے کر انتظامیہ تک ایک ایک فرد کو تھی۔ اس میں فیکٹری کے مالک اشوک اگرول اور انتظامیہ کا سب سے اہم کردار تھا۔ یہ لوگ مل بیٹھ کرتنازعہ کا حل تلاش کر سکتے تھے۔ یا مقامی باشندوں کے لئے راستہ چھوڑ سکتے تھے۔ لیکن چوں کہ اشوک اگروال سیاسی آدمی تھے اور نہ صرف اس وقت کے حکمراں اتحاد میں شامل بی جے پی کا حصہ تھے بلکہ اس وقت کے نائب وزیر اعلی سوشیل کمار مودی کے بھی بے حد قریبی تھے۔ اس لئے انہوں نے حکومت کی طرف سے انتظامیہ پر یہ دباؤ ڈالا کہ وہ جلد از جلد چہار دیواری کا کام مکمل کرانے میں فیکٹری انتظامیہ کی مدد کرے ۔ انتظامیہ کے لوگ عام طور پر حکومت کی خوشنودی حاصل کرنے میں لگے رہتے ہیں اور حکومت کی مدد کرکے اپنا پی آر بنانے کے چکر میں رہتے ہیں۔اس لئے ڈی ایم اور ایس پی ہوں یا ایس ڈی او اور تھانہ انچارج سب کے سب اشوک اگروال کی مدد کے لئے بے چین ہو گئے۔ انہوں نے مقامی باشندوں کا درد سمجھنے یا اسے دور کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ مقامی باشند ے ویسے بھی غریب مسلمان تھے۔ ان کی مدد کرکے افسران کو کچھ حاصل ہونے والا نہیں تھا۔جب کہ حکمراں ٹولے کی مدد کرکے وہ بہت کچھ حاصل کر سکتے تھے۔ اس لئے انہوں نے ایک طرفہ جانبدارانہ فیصلہ کیا اور فیکٹری کے مالک کو راتوں رات دیوار کھڑی کرنے میں پوری مدد کی۔ جمعہ کے بعد جب غریب مسلمان اپنا راستہ بند کئے جانے کے خلاف احتجاج کرنے کے لئے اس جگہ پر پہنچے تو اس وقت بھی انہیں سمجھانے، بجھانے یا متبادل راستہ دینے کی یقین دہانی کرکے معاملے کو ٹھنڈا کرنے کی بجائے ان پر اندھا دھند فائرنگ کرکے انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور ساری ذمہ داری احتجاج کرنے والوں کے سر ڈال دی گئی۔ حالاں کہ اس کے لئے حکومت اور انتظامیہ کے علاوہ فیکٹری کے لوگ پوری طرح ذمہ دار تھے۔احتجاج کرنے والے یا راستہ مانگنے والے سماج دشمن عناصر ہوتے تو پولس کی فائرنگ سے مرنے والوں میں شیر خوار بچہ اور حاملہ خاتون شامل نہ ہوتیں۔یہ لوگ غریب، بے سہارا، مظلوم اور نہتے تھے۔ دوسری طرف اربابِ اقتدار کی خوشنودی حاصل کرنے والے پولس کے لوگ تھے جن میں سے ایک کو میڈیا کی آنکھوں نے ایک زخمی نوجوان کو اپنے بوٹوں سے روند روند کر موت کے گھاٹ اتارتے ہوئے دیکھا اور بعد میں وہ فوٹیج پورے ملک میں وائرل ہوا جسے پوری دنیا نے بہار پولس کی بربریت کو اپنی ننگی آنکھوں سے دیکھا۔اس پوری کارروائی کے دوران پولس اور انتظامیہ کے لوگوں کے ساتھ فیکٹری کے مالک کے پالتو غنڈے بھی شامل تھے۔اس کے باوجود اگر کمیشن کا یہ ماننا ہے کہ یہ انٹلی جنس کی ناکامی کا نتیجہ ہے یا اس کے لئے مقامی لوگ ذمہ دا ر ہیں یا ایس پی گریما ملک اور صدر ایس ڈی او فاربس گنج بے قصور ہیں تو ا س سے صرف یہی ظاہر ہوتا ہے کہ کمیشن قصور واروں کو بچانے اور ظالموں کو سزا دلانے کے لئے قائم کیا گیا تھا اور اس کام کو اس نے بخوبی نبھایا۔ اس کمیشن کو تحقیقات کے لئے چھ ماہ کا وقت دیا گیا تھا جو بہت کافی تھا کیوں کہ سب کچھ آئینے کی طرح صاف تھا۔ اس کے باوجو د اس نے چار سال کا وقت لیا اور بلا وجہ سرکاری پیسے کا غلط استعمال ہوتا رہا۔جس وسندرم فیکٹری کے احاطے کی تعمیر سے اتنا بڑا مسئلہ کھڑا ہوا، اسے اور اس کے مالک اشوک اگرول کو تحقیقات کے دائرے سے باہر رکھا جانا اور ضلع پولس کی سربراہ گریما ملک اور فاربس گنج کے ایس ڈی او کو کلین چٹ دینا نتیش حکومت کے اصلی چہرے کوبے نقاب کرتا ہے۔
2011 میں نتیش حکومت اگر سوشیل مودی اور ان کے دباؤ میں اشوک اگروال کو بچانا چاہ رہی تھی تو یہ بات سمجھ میں آتا ہے مگر اب جب کہ ان دونوں میں چھتیس کا آنکڑا ہے، تب بھی حکومت اسی راہ پر چل رہی ہے یہ بات سمجھ سے پَرے ہے۔ دراصل فاربس گنج فائرنگ کے معاملے میں مسلمانوں کے ساتھ انصاف نہ ہونے کا اشارہ اسی دن مل گیا تھا جب داخلہ سکریٹری عامر سبحانی نے اپنی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں مسلمانوں کو ہی قصور وار قرار دیا تھا اور ایک شیر خوار اور حاملہ خاتون سمیت چار افراد کی ہلاکت کوکراس فائرنگ کا نتیجہ قرار دے دیا تھا۔ حالاں کہ بعد میں قومی اقلیتی کمیشن کی ٹیم نے جب بھجن پورہ گاؤں کا دورہ کیا تھا اور متاثرین کی آہ و بکا سنی تھی تو اس کے چےئر مین وجاہت حبیب اللہ نے عامر سبحانی کی رپورٹ کو گمراہ کن اور حقیقت سے پَرے بتایا تھا۔لیکن تب تک جو نقصان ہونا تھا وہ ہو چکا تھا۔ حکومت نے چوں کہ یہ مان لیا تھا کہ قصور وار مسلمان ہی ہیں اس لئے اس معاملے کو مہلوکین کو معاوضے سے بھی محروم کر دیا گیا تھا۔کمیشن کی حتمی رپورٹ آنے کے بعد جو مسلمان پہلے سے ہی ظلم ، بربریت اور نا انصافی کا کرب جھیل رہے تھے ، اب ان کے خلاف سازش رچنے کے نئے مقدمات قائم کئے جائیں گے اور انہیں مزید آزمائش میں ڈالا جائے گا اور یہ سب کچھ قانون ، انصاف اور کمیشن کی رپورٹ پر عمل درآمد کے نام پر کیا جائے گا۔
3 جون 2011 کو جب یہ المناک واقعہ پیش آیا تھا تو آر جے ڈی کے سربراہ لالو پرساد ، کانگریس کے قومی نائب صدر راہل گاندھی ، معروف کمیونسٹ لیڈر آنجہانی اے کے وردھن ، سیتا رام یچوری، معروف فلم ساز مہیش بھٹ، معروف حقوق انسانی کی علمبردار شبنم ہاشمی،تیستا سیتلواڈ وغیرہم بھجن پورہ گاؤں پہنچے تھے اور حکومت کو ہدفِ تنقید بنایا تھا۔ان لوگوں نے سی بی آئی جانچ کا بھی مطالبہ کیا تھا مگر نتیش حکومت نے ایک نہ سنی اور ایک سبکدوش ہائی کورٹ جج کی قیادت میں کمیشن قائم کرکے معاملے کو ٹھنڈے بستے میں ڈالنے کی کوشش کی۔مگر آج کانگریس اور آر جے ڈی نتیش حکومت میں شامل ہے اس لئے یہ امید بھی نہیں کی جا سکتی ہے کہ وہ مسلمانوں کی حمایت میں آواز بلند کریں گے یا مظلوموں کو انصاف دلانے کے لئے حکومت پر دباؤ ڈالیں گے۔اس سے قبل بھاگلپور فساد کمیشن کی تحقیقاتی رپورٹ بھی سرد خانے میں ڈالی جا چکی ہے۔ جسٹس این این سنگھ کمیشن بھی چھ ماہ کے لئے قائم ہوا تھا مگر آٹھ برسوں تک کام کرتا رہا اور جب رپورٹ آئی تو حالات بدل چکے تھے۔ کل کے سیاسی دشمن دوست بن چکے تھے۔ اس لئے اس رپورٹ پر نہ تو ایوان قانون سازیہ میں بحث ہوئی اور نہ ہی اس کی سفارش پر کسی بڑی کارروائی کی تفصیل سامنے آئی ہے۔دوسری سیاسی پارٹیوں کو بھی مسلمانوں کے معاملے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ صرف سی پی آئی ایم ایل اس کے ایم ایل اے محبوب عالم، ریاستی سکریٹری اے کے کنال اورجنرل سکریٹری دیپانکر بھٹا چاریہ ہی اس کے خلاف آواز بلند کرتے رہے ہیں۔ ہاں قانون سازیہ میں رپورٹ پیش کرنے کے لئے کانگریس کے رکن اسمبلی شکیل احمد خان نے بھی آواز اٹھائی تھی مگر ان کے علاوہ سب خاموش ہے۔
گجرات اور دوسری بی جے پی ریاستوں میں مسلمانوں کے ساتھ انصاف نہ ہو ،یہ بات تو پھر بھی سمجھ میں آتی ہے مگر بہار کی نام نہاد اقلیت نواز حکومت میں بھی مسلمانوں کو انصاف نہ ملے اور عدالتی کمیشنوں کے فیصلے ظالموں کے حق میں جائیں تو اس سے زیادہ شرم کی بات اور کیا ہوگی۔
(مضمون نگار معروف تجزیہ نگار اور سینئر صحافی ہیں)