اے گرفتار ہوس تجھ کو خبر ہے!

قاسم سید
26 جنوری 1950 کو آئین کا نفاذ اس ملک کے عوام کے لئے آزادی کا سب سے بہترین تحفہ تھا جس کے مطابق ملک میں موجود تمام مذاہب کے حاملین کو اپنے تہذیبی ورثہ پر عمل کرنے کی پوری و یکساں آزادی حاصل ہوئی۔ آئین میں ان تصورات کے تعلق سے جو باتیں آئیں اس کی دلیل سب سے پہلے دفعہ 14، 16 اور 18 میں ملتی ہے۔ ان دفعات کے ذریعہ مساوات کی کھل کر توضیح کی گئی۔ دراصل اکثریتی اور اقلیتی فرقہ کے درمیان تعداد کے اعتبار سے کافی بڑا فرق ہے، اس کا تقاضہ تھا کہ ہندوستانی آئین میں اکثریتی طبقہ کے بالمقابل یکساں حقوق کی فراہمی کو تسلیم ہی نہیں کیا گیا بلکہ اور زیادہ حقوق دینے کی بات کہی گئی، جس کا اظہار آئین کی دفعہ 30 اور 31 میں ہوتا ہے۔
دوسری طرف مذہب کی بنیاد پر تقسیم ہند کے بعد یہ سوال یقیناً اٹھا کہ باقی حصہ ہندو اسٹیٹ کیوں نہ ہو؟ اس وقت ملک کے قومی لیڈروں نے دستورساز اسمبلی میں طے کیا کہ یہاں مسلمانوں کی تعداد پاکستان سے کہیں زیادہ ہے اور دیگر وجوہات کو سامنے رکھ کر ہندوستان کا کیرکٹر سیکولر اسٹیٹ طے کیا اور جمہوری سیکولر ملک بنا، جہاں ہندوستانی عوام کے سیکولر مزاج نے اس کردار کی حفاظت کی وہیں عدلیہ نے بھی نازک اوقات میں اپنا آئینی فرض نبھایا۔ حالانکہ آزادی کے وقت ایک طبقہ ایسا ضرور تھا جو ملک کو ہندو راشٹر بنانے کے حق میں تھا۔ اس نے ترنگے کی مخالف بھی کی تھی، اس کی جگہ بھگوا جھنڈے کو ملک کے ہزاروں سال قدیم کلچر کا ترجمان بتایا، اس نے دستور کو منواسمرتی کی بنیاد پر بنانے کی بھی پرزور وکالت کی تھی۔ یہ آواز اس وقت کمزور تھی، فضا میں ارتعاش ضرور ہوا، لیکن تحریک آزادی کے لیڈروں کی وسعت نظری، دوررس سوچ اور سیکولر ذہن کی وجہ سے ایسا نہیں ہوسکا۔ بعد میں گاندھی جی کا قتل ہوا اور ہندوستان میں تشدد و جبر کے ذریعہ آواز کو دبانے کا جمہوری ملک میں پہلا واقعہ بن گیا۔ قاتل کو سزائے موت ہوئی جس کو جدید ہندوستان میں مہامنڈت کرنے کی جرات بھی پیدا ہوگئی۔ آزادی کے 67 سال کے بعد وہ آوازیں جو تحریک آزادی کے وقت اور اس کے فوری بعد کمزور تھیں، آج وہ نہ صرف ملک میں سپرپاور کی حیثیت میں ہیں بلکہ ان کے ابرو چشم کے اشاروں پر ملک کے مستقبل کی زلفیں سنواری جارہی ہیں۔ اب آئین پر حملے عام بات ہیں، ملک کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کا مطالبہ حکمرانوں کی صفوں سے ہورہا ہے۔ اب تو ترنگے کی جگہ بھگوا جھنڈے کے وقار و عظمت اور تبدیلی کی بات زور و شور سے ہورہی ہے۔ یہ یقیناً قابل غور ہے کہ ملک کے سیکولر مزاج، نام نہاد سیکولر پارٹیوں کے طویل دور اقتدار کے باوجود یہ عناصر آخر اتنے موثر کیسے ہوگئے کہ وہ اقتدار پر براہ راست اور بالواسطہ دونوں طریقہ سے قابض ہیں۔ صرف اقلیتی ادارے ہی نہیں اقلیتوں کو آئین میں دیے گئے حقوق پر سوالیہ نشان بن گئے ہیں، بلکہ یہ کہا جانے لگا ہے کہ اقلیتی فرقہ کی اتنی بڑی تعداد کو اقلیت کب تک کہا جائے گا۔ آئین اس پر خاموش ہے، مگر بحث شروع ہوچکی ہے۔ اس کے اثرات مستقبل قریب میں نظر آنے لگیں گے۔ اقلیتوں کے حقوق کو چیلنج کرنے کے ساتھ نئی تشریح کی جاسکتی ہے اور مسلمانوں کو اقلیت کے دائرے سے نکالا بھی جاسکتا ہے، جیسے حالات میں ان میں کچھ بھی ممکن ہے۔ مسلم پرسنل لا پہلے بھی زد میں تھا، جب کانگریس کی حکومت تھی اور آج بھی زد میں ہے جب بی جے پی کی حکومت ہے اور بہت کچھ ہونے والا ہے۔ شاید آنے والے طوفان کی تباہی اور ہلاکت خیزی سے ہم ابھی تک بے خبر ہیں یا بے خبر رہنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں، کیونکہ جو بولے وہ کنڈی کھولے والا معاملہ آجاتا ہے۔ سائرہ بانو کیس ہمارا ایسڈ ٹیسٹ ثابت ہونے والا ہے۔
یہاں ایک بات سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جہاں تک اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کا معاملہ ہے آئین ہر طرح کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔ عدالتیں اس کی سب سے بڑی کسٹوڈین ہیں۔ اگر حکومتوں کی نیت میں کبھی فتور بھی آیا تو عدالتوں نے آگے بڑھ کر اس طرح کی کوششوں کو ناکام بنادیا، لیکن سیاسی پارٹیوں کا اس تعلق سے ایک ہی مذہب ہے۔ مثلاً فسادات ہر پارٹی کے زمانہ میں ہوئے، دہشت گردی کے مقدمات میں مسلم نوجوانوں کو پھنسانے، ان کی زندگیاں تباہ کرنے، تعلیم یافتہ لڑکوں کا کردار اور ان کی سماجی زندگی کو ملیامیٹ کرنے کے واقعات ہر پارٹی کی سرکار میں یکساں رہے، خواہ وہ کانگریس ہو یا بی جے پی، این سی پی ہو یا سماجوادی پارٹی، لیفٹ پارٹیاں ہوں یا کوئی بھی علاقائی جماعت، کشمیر سے کنیاکماری تک ہر پارٹی کا اس طرح کے معاملات میں نظریہ اور عمل یکساں ہے۔ اس اقلیت کی تعریف میں کسی زمانہ میں سکھ بھی تھے، مگر ان دنوں انھیں راحت ہے۔ اس غیرجماعتی موقف کی یکسانیت قابل توجہ، دلچسپ حیرت انگیز اور عبرت آمیز ہے، اس لئے یہ غلط فہمی دل سے نکال دینی چاہئے کہ فلاں پارٹی مسلمانوں کی زیادہ ہمدرد اور فلاں پارٹی زیادہ مخالف ہے، ہاں طریقہ کار ضرور مختلف رہا ہے۔ ہر پارٹی کے کردار میں منافقت، دوغلاپن، دھوکہ دہی، مکاری اور جعلی سیکولرازم کی سڑاند محسوس ہوگی، انھیں اس کے لئے معاف نہیں کیا جاسکتا۔ ان کی کرتوتوں اور منافقتوں کے سبب دستور پر بھی امتحان کی گھڑی آگئی ہے۔
اعتدال پسند ہندوؤں کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے اور وہ بھی سخت دباؤ میں ہیں۔ دراصل جعلی سیکولرازم کا مقابلہ جعلی نیشنلزم سے ہے اور مسلمان چکی کے دو پاٹوں میں پس رہا ہے۔ مثال کے طور پر جب بھی کوئی معاملہ آتا ہے مثلاً گائے، سوریہ نمسکار، گھر واپسی، بھارت ماتا کی جے، کامن سول کوڈ، گیتا، ہر تنازع کا نشانہ مسلمان ہیں جبکہ ملک کے دیگر فرقوں کو اس سے کوئی پریشانی نہیں، اس سے تاثر یہ جاتا ہے کہ مسلمان ہی ہندو راشٹر کا روڑا ہیں۔ ان مسائل پر دیگر سیاسی پارٹیوں کا موقف دوغلا ہے۔ وارث پٹھان کے معاملہ میں مہاراشٹر اسمبلی کے اندر کانگریس اور این سی پی کی حب الوطنی کا مظاہرہ سب نے دیکھا تو پھر ان مسائل میں دیگر پارٹیاں ہمارا ساتھ کیوں دیں گی؟ ان باتوں کو بڑی چالاکی سے نیشنلزم یا قوم پرستی سے جوڑ دیا گیا ہے۔ قوم پرستی اور حب الوطنی کو ہم معنی کردیا گیا ہے۔ جو اس کے خلاف بولے گا وہ دیش دروہی کہلائے گا۔ اب معاملہ کنہیا کمار سے بڑھ کر پی چدمبرم تک چلا گیا ہے، جو حساس امور پر اپنے ہم مذہبوں کو فوراً دیش دروہی کہہ سکتے ہیں تو مسلمان کیا حیثیت رکھتے ہیں، اس لئے اپنا سیاسی نفع نقصان نظر میں رکھتے ہوئے ہر پارٹی پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی ہے۔ تعصب، عدم رواداری، فرقہ واریت اور منافرت سکہ رائج الوقت ہوتے جارہے ہیں، جو اپنے مخالفوں کو دشمن بلکہ ملک دشمن سمجھتے اور سمجھاتے ہیں۔ بات بات پر انھیں پاکستان بھیجنے کی دھمکی دی جاتی ہے۔ افواہ کی بنا پر کسی کا بھی قتل جائز ہوگیا ہے، سرعام گولی مارنے کی دھمکی کو راشٹربھکتی بتایا جاتا ہے۔ اخلاق، کلبرگی اور پنسارے اس کی بین مثال ہیں۔ نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ قومی سلامتی کے مشیر سپریم کورٹ کے ججوں کو دہشت گردی اور قومی سلامتی پر سرکاری نظریہ کی بریفنگ کرتے ہیں اور دہشت گردی پر غیرجماعتی موقف کے پس منظر میں گراں قدر مشورے دے رہے ہیں۔
حالات بتاتے ہیں کہ سیاسی پارٹیوں پر مکمل بھروسہ خودکش آمیز ہے، وہ ضرورتوں کی سوداگر ہیں، اس کی ایک نہیں ہزاروں مثالیں ہیں، البتہ اکثریت کے اعتدال پسند لوگوں کو ساتھ لے کر لڑائی لڑی جاسکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کس طرح دانتوں کے درمیان زبان کو محفوظ رکھا جائے، یہ حکمت عملی اشتعال انگیزی اور جارحانہ لب و لہجہ کی اجازت نہیں دے گی۔ ہمیں بیک وقت جعلی سیکولرازم اور جعلی نیشنلزم سے نمٹنا ہے، دونوں فسطائی چہرے ہیں، یہ ٹھنڈے اور گرم تار مل کر فسطائیت کی بجلی پیدا کرتے ہیں۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے لئے ناگزیر ہیں۔ سائرہ بانو کیس ان کو مزید غذا فراہم کرے گا، کیونکہ اندیشہ یہی ہے کہ فیصلہ ہمارے خلاف آئے گا۔ اب حالات 86 والے نہیں ہیں، یہ 2016 ہے، ہم اسے جتنا جلد سمجھ لیں گے اتنا ہی اچھا ہوگا۔ بدقسمتی سے ہم اس وقت شدید قسم کی بے سمتی کا شکار ہیں، کوئی کسی کی بات سننے پر آمادہ نہیں، کوئی کسی کے ساتھ ٹھوس ایجنڈے پر بیٹھنے کو تیار نہیں، ایک دوسریکا گریبان چاک کرنا، منھ نوچنا اور ایک دوسرے کو لہولہان کرنا ہی معراج کمال ٹھہرا ہے۔ طفلان خود معاملہ کا یہ کھلنڈراپن کہاں لے جائے گا! ستم یہ ہے کہ بے داغ اجالوں کی صبح نو کے داعی بھی ان کمین گاہوں کے تاریک گوشوں سے رشتہ جوڑ بیٹھے ہیں، جن کی صفت کوزہ گری نے ہمیں اس حال تک پہنچایا ہے۔ کیا ہم طویل، صبر آزما، سنجیدہ جدوجہد کے لئے تیار ہیں۔ یاد رکھئے ہمیشہ کی طرح ابراہیم کا سب سے پہلا سامنا آذر سے ہوگا۔(ملت ٹائمز)
(مضمون نگار سینئر صحافی اور روزنامہ خبریں کے چیف ایڈیٹر ہیں )
qasimsyed2008@gmail.com