نئی دہلی: (ایم این این) 2019 لوک سبھا انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی انتخاب گھمسان بھی شروع ہو گیا ہے۔ کئی سیاسی پارٹیوں نے انتخابات کی تاریخوں پر سخت اعتراض کیا ہے۔ ممتا کی پارٹی ٹی ایم سی اور ’آپ‘ جیسی اپوزیشن پارٹیوں نے اسے مرکزی حکومت کے اثرات میں لیا گیا فیصلہ قرار دیا ہے اور اسے لے کر بیان بازی بھی شروع ہو گئی ہے۔ پارٹیوں کا الزام ہے کیا سوچ کر الیکشن کمیشن نے رمضان کے دوران ووٹنگ کرنے کا فیصلہ لیا ہے۔
دراصل رمضان کے دوران کل 543 میں سے 169 لوک سبھا سیٹوں پر ووٹنگ ہونا ہے۔ لوک سبھا انتخابات 2019 کے آخری فیز کے تین مراحل کے انتخابات جب ہوں گے تب رمضان چل رہا ہو گا، یہ ووٹنگ خاص طور یوپی، بہار، مغربی بنگال اور دہلی کی زیادہ تر سیٹوں پر ہونی ہے اور ان ریاستوں میں مسلم ووٹر سب سے زیادہ ہے۔
امسال رمضان کامقدس مہینہ 5 مئی سے شروع ہو رہا ہے۔ یعنی 6، 12 اور 19 مئی کو ہونے والی آخری تین مراحل کی ووٹنگ رمضان المبارک کے دوران ہوگی۔ عام طور پر اس مہینے میں زیادہ تر مسلم روزہ رکھتے ہیں اور ایسے میں ان کے لئے لمبی لمبی لائنوں میں کھڑے ہو کر ووٹ ڈالنا مشکل ہو جائے گا، اگر ایسا ہوا تو ان ریاستوں کے مسلم اکثریتی علاقوں میں ووٹنگ کا فیصد کم رہ سکتا ہے اور اگر ووٹنگ کا اعدادو شمار ایسا رہاتو مقامی طور پر مسلم ووٹر جن پارٹیوں کو بھی ووٹ دیتے ہیں، ان کی مخالف پارٹی کے امیدواروں کو اس کا فائدہ مل سکتا ہے۔
لکھنؤ عید گاہ کے امام و شہر قاضی مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے 6 مئی سے 19 مئی کے درمیان ہونے والے لوک سبھا انتخابات کو لے کر سخت ناراضگی ظاہر کی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ 5 مئی کو مسلمانوں کے سب سے مقدس مہینے رمضان کا چاند دیکھا جائے گا،اگر چاند نظر آجاتا ہے تو 6 مئی سے روزے شروع ہو جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ روزے کے دوران ملک میں 6 مئی، 12 مئی اور 19 مئی کو پولنگ ہوگی، جس سے ملک کے کروڑوں روزہ داروں کو پریشانی ہوگی۔
وہیں پروفیسر فوزیہ عرشی نے بھی اس پر سخت اعتراض کیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ایک طرف الیکشن کمیشن یہ کہتا ہے کہ تاریخ تہوار کو ذہن میں رکھ اعلان کیا گیا ہے،تو کیا کمیشن کو رمضان تہوار نہیں لگتا۔ پروفیسر فوزیہ عرشی نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن کو ملک کے مسلمانوں کا خیال رکھتے ہوئے انتخابات پروگرام طے کرنا چاہیے تھا۔ انہوں نے الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ 6، 12 اور 19 مئی کو ہونے والے ووٹنگ کی تاریخ تبدیل کرنے پر غور کرے۔
اتر پردیش:41 سیٹوں پر رمضان المبارک کے دوران ووٹنگ
6 مئی کو ہونے والے پانچویں مرحلے میں کل 14 سیٹوں پر ووٹنگ ہوگی۔ ان میں دھورہرا، سیتاپور، موہن لال گنج ، لکھنؤ، رائے بریلی، امیٹھی، باندہ، فتح پور، کوشامبی ، بارہ بنکی ، فیض آباد، بہرائچ، قیصر گنج اور گونڈا میں پولنگ ہوگی۔
12 مئی کو چھٹے مرحلے میں سلطان پور، پرتاپ گڑھ، پھول پور، الہ آباد، امبیڈکر نگر، شراوستی، ڈومریا گنج، بستی، سنت کبیر نگر، لال گنج، اعظم گڑھ، جونپور، مچھلی شہر اور بھدوہی سمیت کل 14 نشستوں کے لئے پولنگ ہوگی۔
19 مئی ساتویں مرحلے میں مہاراج گنج، گورکھپور، کشی نگر، دیوریا، بانس گاؤں ، گھوسی، سلیم پور، بلیا، غازی پور، چندولی، وارانسی، مرزا پور اور ربرٹس گنج سمیت کل 13 نشستوں کیلئے ووٹ پڑیں گے، یعنی رمضان کے دوران یوپی کی کل 80 سیٹوں میں 41 لوک سبھا سیٹوں پر ووٹنگ ہونی ہے۔
بہار: 21 سیٹوں پر رمضان المبارک کے دوران ووٹنگ
6 مئی کو سیتامڑھی، مدھوبنی، مظفر پور، سارن اور حاجی پور میں پولنگ ہوگی، جبکہ 12 مئی کو والمیکی نگر، مغربی چمپارن، مشرقی چمپارن، شیوہر، ویشالی، گوپال گنج،سیوان اور مہاراج گنج سیٹوں پر پولنگ ہوگی۔ 19 مئی کو پٹنہ صاحب، نالندہ، پاٹلی پتر، پہیلی، بکسر، سہسرام، جہان آباد اور کارا کاٹ میں ووٹنگ ہوگی۔ یعنی آخری تین مراحل میں رمضان کے دوران بہار کی کل 40 سیٹوں میں سے 21 سیٹوں پر ووٹنگ ہوگی۔
مغربی بنگال اور دہلی 31 سیٹوں پر رمضان المبارک کے دوران ووٹنگ
مغربی بنگال میں کل 42 لوک سبھا سیٹیں ہیں۔اس بار یہاں 6 مئی کو پانچویں مرحلے کے تحت 7، 12 مئی کو چھٹے مرحلے کے تحت 8 سیٹ اور 19 مئی کو ساتویں مرحلے کے تحت 9 سیٹوں پر ووٹنگ ہونی ہے یعنی رمضان کے دوران کل 24 سیٹوں پر پولنگ ہوگی۔ اس کے علاوہ دہلی کی تمام سات سیٹوں پر 12 مئی کو ووٹنگ کرائی جائے گی۔
بتا دیں کہ بہار میں 17 فیصد مسلمان،یوپی میں 20 فیصد اور مغربی بنگال میں 27 فیصد کے تقریباً مسلم آبادی ہے۔ ان تین ریاستوں کے سیاسی فارمولیشن کو دیکھا جائے تو یوپی میں 2014 کے انتخابات میں بی جے پی کو یکطرفہ 71 سیٹوں پر کامیابی ملی تھی، جبکہ اس انتخاب میں حالات الگ ہیں۔ ایس پی۔بی ایس پی دونوں ایک ساتھ آئے ہیں، جس سے یہ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ بی جے پی کے خلاف دلت – مسلم اور یادو ووٹر ایک ساتھ آ سکتے ہیں۔