این ایس جی کی رکنیت کا چیلنج !

پس آئینہ :شمس تبریز قاسمی
وزیر اعظم نریندر مودی ہندوستان کے اولین وزیر اعظم ہیں جنہوں نے اتنہائی قلیل عرصے میں سب سے زیادہ ملکوں کا سفر کیا ہے ،دوسال کے قلیل عرصے میں وہ دنیا کے 38 ممالک کا دورہ کرچکے ہیں،ان کے بین الاقوامی اسفار کی کثرت کو دیکھتے ہوئے بعض تجزیہ نگار یہاں تک کہ چکے ہیں کہ خارجہ پالیسی میں نریندر مودی ہندوستان کے اولین وزیر اعظم جواہر لال نہروسے بھی آگے نکل گئے ہیں اور بین الاقوامی تعلقات کو استوار کرنے میں ان کایہاں کوئی ثانی نہیں ہے لیکن سچائی یہ ہے کہ ان کے کثرت اسفارسے صرف ملک کا خزانہ خالی ہوا ہے اس میں کوئی اضافہ نہیں ہوسکا ہے ، ان کی تفریح اور سیر ہوئی ہے ملک کے فلاح وبہبودکا کہیں کوئی نام ونشان نہیں ہے ،گجرات مسلم کش فساد کے بعد جن ملکوں میں جانے پر پابندی عائد ہوگئی تھی وہاں جانے کا موقع ملا ہے اور بس ۔
حالیہ دنوں میں ہند۔امریکہ بڑھتے تعلقات کے پیش نظر یہ امید جگی تھی کہ شاید باراک اوبامہ نریندر مودی کی دوستی کا بھرم رکھتے ہوئے این ایس جی کی ممبرشپ سے ہندوستان کو سرفراز کرکے بی جے پی حکومت کو سرخرو ہونے کا موقع دیدیں گے اور دوسال کی مدت میں پہلی مرتبہ حکمراں جماعت بی جے پی کو فخریہ انداز میں یہ کہنے کا موقع ملے گا کہ نریندر مودی کی قیادت میں ہندوستان کو عالمی سطح پرکوئی کامیابی ملی ہے ؛ لیکن یہ خواب بھی شرمند ہ تعبیر نہیں ہوسکا اور مسلسل کوششوں کے باوجود این ایس جی کی رکنیت حاصل کرنے میں ہندوستان مکمل طور پر ناکام ثابت ہوا ،امریکہ سے ایٹمی ڈیل ہونے ،باراک اوبامہ کی باربار یقین دہانی کے باوجود گذشتہ دنوں جنوبی کوریاکی راجدھانی سیول میں منعقدہ این ایس جی کے سالانہ اجلاس میں تمام ممبران نے ہندوستان کی شمولیت کی درخواست کو یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا کہ ’’میٹنگ کے شرکاء این پی ٹی (ایٹمی عدم پھیلاؤ کا معاہدہ) کی مکمل ،بھرپور اور جامع حمایت کرتے ہوئے اسے عالمی سطح پر ایٹمی عدم پھیلاؤ کا سنگ میل قراردیتے ہیں،چین سمیت دس سے زائد اہم ممالک نے یہ کہتے ہوئی نئی دہلی کا خواب چکناچور کردیا کہ این پی ٹی پر دستخط نہ کرنے والے ممالک میں سے کسی مخصوص ملک کو ترجیح دینے کے بجائے کوئی واضح اصول اپنایا جائے اور اس طرح یہ ایشو ڈیڈلاک کا شکا رہوگیا ۔
ین ایس جی Nuclear Suppliers Group جوہری ہتھیار کی سپلائی کرنے والے ممالک کا ایک ایسا گروپ ہے جو جوہری ہتھیار کے پھیلاؤ سے تحفظ کا مطالبہ کرتاہے اور جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے قوانین کے تحت جوہری مواد سپلائی کرنے کے لیے قوانین پر عمل درآمد کرواتا ہے ،بالفاظ دیگر پرامن مقاصد کے پیش نظر جوہری مواد کی تجارت کا یہ نگراں ادارہ ہے ۔دنیا کے 48 ممالک اس کے ممبر ہیں جس میں امریکہ ،ایگلنڈ ،چین ،جرمنی سمیت بیشتر یورپی ممالک شامل ہیں ،مسلم ملکوں میں صرف ترکی اور قزاقستان کو اس کی رکنیت حاصل ہے ۔
اس گروپ کے قیام کا پس منظرمئی 1974میں جوہری ٹیسٹ کیلئے ہندوستان میں ہونے والا دھماکہ ہے جس کے بعد نومبر 1975 میں سات ممالک کناڈا ،جرمنی ،فرانس ،جاپان،روس ،ایگلنڈاور امریکہ کے درمیان سب سے پہلی میٹنگ ہوئی اور 78 تک مسلسل اس سلسلے میں گفت وشنید جاری رہی ۔1991 میں ایک مرتبہ پھر جوہری ہتھیاروں کے عدم فروغ کے سلسلے میں بات چیت ہوئی اور اس کے بعدسے یہ سلسلہ تقریبا جاری ہے ، 1994 میں این ایس جی کے رہنما قوانین میں جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کا اصول شامل کیا گیا جس کے مطابق اس گروپ کاکوئی رکن ملک جوہری مواد کی سپلائی صرف اسی صورت میں کرے گا جب وہ اس بات کا اطمینان کر لے کہ اس سپلائی کے نتیجے میں جوہری ہتھیاروں کا پھیلاؤ نہیں ہو گا۔این ایس جی کے رہنما اصول مختلف عالمی قوانین سے وابستہ ہیں جو جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے حوالے سے نافذ ہوتے ہیں۔ ان میں ایک معاہدہ نامہ Nuclear Non-Proliferation Treaty این پی ٹی ہے یعنی جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کا معاہدہ اور ایسے مختلف علاقائی معاہدے شامل ہیں جن پر مختلف ممالک نے دستحظ کر رکھے ہیں۔ رکن ممالک کے لیے لازمی ہے کہ وہ این پی ٹی معاہدے پر دستخط کر چکے ہوں،این ایس جی کے تمام فیصلے مکمل اتفاقِ رائے کی بنیاد پر اس کی پلینری اجلاس میں ہوتے ہیں جس کا انعقاد سال میں ایک بار ہوتا ہے اور کی صدارت مختلف ممالک باری باری کرتے ہیں۔این ایس جی کے مرکزی معاملات کوایک تکون چلاتی ہے جس میں اس کی سابقہ، موجودہ اور مستقبل کی چیئر شامل ہیں جو اس وقت ارجنٹائن اور کوریا پر مشتمل ہے کیونکہ اس وقت اس کے چیئر ارجنٹائن کے رفائل ماریانو گراسی ہیں۔
گذشتہ آٹھ سالوں سے ہندوستان این ایس جی کی رکنیت کا دعویدار ہے ،امریکہ کے ساتھ ایٹمی ڈیل فائنل ہوجانے کے بعد ستمبر 2008 میں این ایس جی ارکان نے ایک میٹنگ کے دوران ہندوستان کو این ٹی پی پر دستخط نہ کرنے کے باوجودچند شرطوں کے ساتھ اپنی فہرست میں شامل کرنے پر اتفا ق کرلیاتھا،2010 میں امریکی صدر باراک اوبامہ نے این ایس جی میں ہندوستان کو شامل کرنے کی مکمل حمایت بھی کی تھی ،نریندر مودی کے دورہ امریکہ کے دوران بھی انہیں یہ خواب دکھلایا گیا تھاکہ این ایس جی میں ہندوستان کی رکنیت یقینی ہے،اس کے علاوہ فرانس ،برطانیہ سمیت کئی ملکوں نے بھی حمایت کا مکمل وعدہ کررکھاتھا لیکن گزشتہ دنوں اجلاس میں یہ کہ کر یہ مسترد کردیاگیا کہ ہندوستان اس کی ممبر شپ کا اہل نہیں ہے ۔
نریندر مودی چین کا دورہ کرچکے ہیں،چینی صدژی فنگ بھی ہندوستان آچکے ہیں اور مودی سے قربت کا اظہار کرنے کیلئے انہوں نے ان کے آبائی وطن احمد آباد کا سفر کیا تھا لیکن اجلاس میں چین نے واضح لفظوں میں یہ کہ دیا کہ این ٹی پی پر جن ملکوں نے دستخط نہیں کیا ہے وہ اس گروپ کی رکنیت کا حقد ار نہیں ہے ،چین کی یہ صاف گوئی دوستی پر محمول کی جائے یہ یا مخالفت پر کیوں کہ این ایسی جی میں شرکت کیلئے این ٹی پی معاہدہ پر دستخط شرط ہے اور ہندوستان کا اس سے اتفاق نہیں ہے ایسے میں ہندوستان کو رکنیت کا خواب دکھلانے والے ممالک دھوکہ دہی سے کام کررہے ہیںیا پھر ہندوستان کیلئے کوئی مخصوص گنجائش نکالی جارہی تھی جس کی چین نے مخالفت کرکے ہندوستان کے بڑھتے قدم کوروکنے کی کوشش کی ہے ،رواں ماہ نریندر مودی نے سوئزلینڈ کا دورہ کیاتھا جہاں سوئس وزیر اعظم نے این ایس جی میں ہندوستان کی رکنیت کی حمایت کا وعدہ کیاتھا لیکن اجلاس کے دوران سوئزلینڈ نے بھی مخالفت کی اس کے علاوہ برازیل ،ترکی ،آئر لینڈاور آسٹریلیا نے بھی ہندوستان کی مخالفت جن تمام ممالک کانریندر مودی دورہ کرچکے ہیں اور ان کے ممالک کے ساتھ اپنے قریبی تعلقات کو بھی فخریہ انداز میں بیان کرتے رہے ہیں۔
ہندوستان کی دعویداری کے بعد مئی 2016 میں پاکستان نے بھی رکنیت کی درخواست پیش کررکھی ہے ،اس کے علاوہ اسرائیل اور نامبیا بھی رکنیت کا دعویدا ر ہے ، اب دیکھنا یہ ہے کہ ہندوستان کو اس کی رکنیت کب ملتی ہے اور مخالفین کو آمادہ کرنے میں نریندر مودی کہاں تک کامیاب ہوپاتے ہیں،ملک کی ترقی کیلئے شب روز سفر کرنے والے وزیر اعظم کا یہ خواب کب شرمندہ تعبیر ہوگا،حالاں کہ ہندوستان کی اصل منزل اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مستقل رکنیت کا حصول ہے جس کیلئے بھی امریکہ سمیت کئی ممالک وعدہ کرچکے ہیں۔ (ملت ٹائمز)
(کالم نگار ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر ہیں)
stqasmi@gmail.com