شاہ بانوسے سائرہ بانوتک

دوٹوک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قاسم سید

کیا رمضان المبارک کی مبارک ساعتوں سے فیض یاب ہونے کے بعد ایک اور آزمائش ہماراانتظارکررہی ہے، کیا ہم واقعی اس کا سامنا کرنے کےلئے تیار ہیں۔ ملک کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات ،حکومت کے جارحانہ تیور اور عائلی امورکے حوالہ سے عدالتوں کے برہم مزاج پائے استقامت کوڈگمگانےکی کوشش نہیں کریں گے۔ کیاسائرہ بانو کیس ہمارے صبروتحمل ،استقامت اورقوت برداشت کا امتحان لے گا۔ کیا ہم ملک گیر سطح پر جمہوری انداز میں بغیر مشتعل ہوئے تحریک چلانےکاحوصلہ رکھتے ہیں۔ کیا مسلم پرسنل لابورڈ کے ارباب بست دکشا اور مسلم جماعتیں اس طوفان کی ہلاکت خیزیوں سے آگاہ ہیں۔ کیا باہمی جنگ وجدال میں مصروف ایک دوسرے کی گردن اتارنے کے درپے فرزندان توحید تمام اختلافات کوپس پشت ڈال کر بنیان مرصوص کا مظاہرہ کرسکیں گے۔ سیاسی وفاداریوں اور مسلکی اختلافات کو پائوں تلے روند کر ایک صف میںآنے کا حوصلہ دکھائیں گے۔ 

دراصل سپریم کورٹ طلاق ثلاثہ معاملہ کی سماعت کو زیادہ وسیع پیرایہ میں دیکھے گا سائرہ بانو کیس کے تناظر میں وہ یہ فیصلہ کرے گا کہ عدالت کس حد تک مسلم پرسنل لامیں مداخلت کرسکتی ہےاور کیا اس کی کچھ دفعات سے شہریوں کو آئین کی طرف سے فراہم کردہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا کاخیال ہے کہ یہ سنگین معاملہ ہے اس سے بڑی تعداد میں لوگ متاثر ہوں گے اگر مسائل پرگہرائی سے غور وفکر کی ضرورت ہوتی ہے تو معاملہ بڑی بنچ کے حوالہ کیاجاسکتا ہے ۔ چیف جسٹس نے تین طلاق،تعدادازدواج اورحلالہ وغیرہ پر ہونے والے ٹی وی مباحثوں پرپابندی لگانے سے بھی انکارکردیا کہ عدالت اس سےمتاثرہوکر فیصلہ نہیں کرتی نیزیہ کہ مسلم پرسنل لاکوآئینی ڈھانچہ کی کسوٹی پر پرکھنا ہوگا۔ اب اگلی سماعت 6ستمبرکوہوگی کیونکہ عدالت جلد بازی میں فیصلہ نہیں کرنا چاہتی ۔مسلم پرسنل لابورڈ کا موقف ہے کہ سپریم کورٹ اس معاملہ میں مداخلت نہیںکرسکتا کیونکہ یہ قانون پارلیمنٹ کا بنایاہوانہیںہے۔

بتایاجارہا ہے کہ بورڈ طلاق ثلاثہ ،تعداد ازدواج اور شرعی امورمیں عدالتی مداخلت کے سوال پر پوری تیاری کے ساتھ کیس لڑرہا ہے ۔ عدالتوں میں مقدمات جیتنے کا ٹریک ریکارڈ اچھانہیں رہاہے۔ شاہ بانو کیس ہویا بابری مسجد کی ملکیت کامقدمہ دونوں جگہ ہارملی ہے ۔ضروری نہیں کہ آگےبھی ایسا ہو لیکن سپریم کورٹ کے کئی معروف وکلا نے اس مقدمہ میں بھی امیدوں کے مطابق نتیجہ آنے پر اپنے تحفظات کااظہار کیاہے۔ مختصراً یوں کہاجاسکتا ہے کہ ایک نیاچیلنج منھ پھاڑے کھڑاہے گویاہم چل کر وہیںآگئے جہاں شاہ بانو کیس کے دوران تھے یہ ہماری عدم توجہی ،عدالتوں کی حددرجہ فعالیت اور حکومت کی نیت میں فتور کی وجہ سے ہوا۔ حالانکہ سائرہ بانو کیس نیانہیں ہے ۔ شاہ بانو تحریک کے نتیجہ میں راجیوگاندھی سرکار نے دبائو میں آکر ترمیمی بل منظور کردیاتھا مگر2016آتے آتے یہ بات ثابت ہوگئی کہ مسلم پرسنل لابورڈ کے ماہرین قانون نے اس ایکٹ کی زبان ،اسپرٹ اورپیچیدہ ضابطوں کی بھول بھلیوں کو توجہ نہیں دی۔ شاہ بانو جیسی رولنگ بار بارآتی رہیں مثلاً سپریم کورٹ کے جسٹس دیپک مشرا اورجسٹس پرفل چندرپنت کی بنچ نے شمیمہ فاروقی بنام شاہد خان کیس میں رولنگ دی کہ مسلم خواتین کو دفعہ125کے تحت اپنے سابق شوہر سے نان ونفقہ لینے کاحق ہے اور یہ اس وقت تک رہے گا جب تک وہ دوسری شادی نہیں کرلیتی یعنی صرف عدت کی مدت میں ہی گزارہ بھتہ نہیں دےگا، مسلم مطلقہ دوسری شادی تک نان ونفقہ وصول کرنے کا حق رکھتی ہے اس کا مطلب تو یہی ہے کہ دفعہ125مسلم پرسنل لا سے ٹکراتی ہے مگراس کا اطلاق بے روک ٹوک ہو رہا ہے ترمیمی ایکٹ کوئی معنی نہیں رکھتا کیونکہ اس میں یہ گنجائش نکالی گئی تھی کہ مدعی چاہے تو شریعت یا ملکی ازدواجی قانون کے تحت بھی حق سے لےسکتا ہے اسے مسلمانوں کی ایمانی کمزوری کہہ کرآگے بڑھا جاسکتا ہے لیکن یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ اس وقت چلاتی گئی ملک گیر تحریک کے وہ نتائج برآمدنہیں ہوئے کہ شریعت میں مداخلت کادروازہ بالکل بند ہوجاتا اس کےلئے بورڈ کی قیادت قصوروار رہے یانتائج کے حصول میں جلد بازی کامزاج حکومت کی بدنیتی کا زیادہ دخل ہے یا ہماری سادہ لوحی کا یہ فیصلہ تو مورخ کرے گا ۔ راجیو گاندھی سرکار نے ایک طرف مسلم مطلقہ خواتین بل لاکر مسلمانوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کی وہیں دوسری طرف ایک ترمیم کے ذریعہ خواہش مند جوڑوں کو دفعہ125سے رجوع کرنے کی سہولت دے کر اور اسے بل کاایک حصہ بناکر ہندواکثریت کے برہم جذبات کو اعتدال پر لانے اور آئین کی بالادستی کی دہائی دینے والوں کی منھ بھرائی کی حکمت عملی اختیار کی۔ دراصل یہ ایسا چوردروازہ تھا جس نے ساری محنت پر پانی پھیر دیا۔ دفعہ125مطلقہ بیوی کو ’’بیوی‘‘ کی سطح پر رکھ کر سابق شوہر کو نکاح ثانی  یا تاحیات اس کی کفالت کا ذمہ دارٹھہراتی ہے اور ملک کی سب سے بڑی عدالت نے شاہ بانو کیس میں قانون شریعت کونظرانداز کرکے مطلقہ شاہ بانو کے سابق شوہر محمداخلاق خان 179روپے بیس پیسے ماہانہ بطور نفقہ اداکرنے کا حکم دیاتھا اور رولنگ بھی دی تھی کہ ضابطہ فوجداری اور مسلم پرسنل لا میں تصادم کی صورت میں ہر حال میں بالادستی ضابطہ فوجداری کو حاصل ہوگی۔ ایک سال کی طویل جدوجہد کے بعدحکومت نے مسلمانوں کا موقف تسلیم کیا تھا لیکن ترمیمی بل کی منظوری کے بعد سے آج تک نہ جانے کتنے مقدمات عدالتوں میںآئے اور ان کے بارے میں ایسے فیصلے آئے جو شریعت سے راست متصادم تھےمگر ان کانوٹس نہیں لیاگیا جبکہ اپنی نوعیت اور حساسیت کے اعتبار سے وہ شاہ بانو کیس سے کم نہیں تھے مگر قوم میں وہ تڑپ ،بے چینی ،اضطراب اور ماہی بے آب کی سی تڑپ نظر نہیں آئی جو متقاضی ومطلوب تھی جس کا نتیجہ اب سائرہ بانو کیس کی شکل میں سامنے آیاہے۔

یہ طوفان اپنی آستینوں میں کتنی بجلیاں پوشیدہ رکھے ہے اس کا اندازہ لگایاجاسکتا ہے ہندوستانی سیاست 1986سے اب تک کئی کروٹیں لے چکی ہے ۔ موجودہ حالات کسی بھی طرح موافق معلوم نہیں ہوتے سیاست میںمسلمانوں کے بے وزنی اور بے وقعتی میںاضافہ ہورہا ہے اب سیاسی پارٹیاں حکمت عملی طے کرتے وقت مسلمانوں کے بارے میں سوچنے ان کے جذبات کا خیال رکھنے کی زحمت نہیں کرتیں بلکہ انہیںبوجھ سمجھنے لگی ہیں۔ 24کریٹ کے سیکولرزم کے نقلی سونے کا مقابلہ24کریٹ کے ہندوتو کے اصلی سونے سے ہو رہاہے اور یہ بھی دواور دوچار کی طرح واضح ہے کہ اگر خدانخواستہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ہماری خواہش اور مرضی کےمطابق نہیں آیا تو کوئی ہمارے ساتھ کھڑانہیں ہوگا۔ بساط الٹ چکی ہے نئے مہرے بچھا دے گئے ہیں ۔ بی جے پی نے جب یہ ثابت کردیا کہ مسلمانوں کے بغیر بھی اکثریت کے ساتھ اقتدار حاصل کیاجاسکتا ہے تو ہر سیکولر پارٹی اب اس نہج پر سوچے لگی ہے ۔ 

ملت کے سامنے جو چیلنج آنے والے ہیں وہ ہندوستانی سیاست کو بری طرح متاثر کرنے والے ہیں مسلم پرسنل لا کا تحفظ اور بابری مسجد کے مقام پر مندر کی تعمیر سال کے آخر تک کا بار بار اعلان، ہم نے اس کی کیاتیاری کی ہے جبکہ اترپردیش کے الیکشن بھی سرپر ہوں گے ۔ مواقع برف کی طرح پگھل رہے ہیں  ہم اس صورت کا مقابلہ کرنے کےلئے کہاں تک تیار ہیں آیابورڈ پر بہت کچھ ذمہ داری عائد ہوتی ہے اس کی توانائی کو بچاکر رکھنے کی ضرورت ہے ۔وہی آئین مسلم پرسنل لا کے سامنے کھڑا ہے جس کو بچانے کے لئے ملک گیر مہم چلائی جارہی ہے ۔ سوال یہ بھی پیدا کیاجارہا ہے کہ آئین اور مسلم پرسنل لا میں بالادست کون ہے ۔جدید فکر کی خواتین سامنے لائی جارہی ہیں جو شریعت اور مولویوں سے آزادی مانگ رہی ہیں ۔ تین طلاق کی آڑ میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مہم میں مزید شدت کاامکان ہے۔ سوالوںکا گھناجنگل ہے اور دیوں میں امید کا دیا روشن کرنے والی ایک پگڈنڈی تک نہیں ہے ۔ مایوسی کفر ہے اور اللہ کی رحمت سے ناامید ی زیبا نہیں لیکن خالق ارض وسما کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ وہ ایسی قوتوں کی مدد نہیں کرتا جو خود حالت بدلنے پر آمادہ نہ ہوں۔ خداکرے سائرہ بانو کیس ہمارے حوصلوں کو نئی اڑان دے ۔شریعت کو دل میں اتار نے اور عمل کرنے کا جذبہ پیدا کردے اور منافقانہ زندگی کے عذاب سے نجات کا باعث بن جائے ۔

qasimsyed2008@gmail.com

SHARE