نقطہ نظر: ڈاکٹر محمد منظور عالم
حالات کا مقابلہ کرنا۔ مشکلات کا سامناکرنا۔ چیلنجز قبول کرنا،اسلامی تعلیمات کو اپنا کر دنیا میں اپنا وجود برقراررکھنا مسلمانوں کی نمایاں صفت رہی ہے۔ ہر دو رمیں مسلمانوں نے اس خوبی کو اپنایا ہے۔ اسی خوبی سے مسلمانوں کو دنیا کی عظیم قوموں کی فہرست میں نمایاں مقام ملا ہے۔ دنیا کے وسیع رقبہ پر مسلمانوں نے حکومت کی ہے۔ کئی عظیم سلطنت کی بنیادرکھی ہے اور جب کبھی مسلمانوں نے حوصلہ سے کام نہیں لیا۔ حالات سے گھبرا کر بزدلی اختیار کرلی۔ حکمت سے کام لینے کے بجائے خوف اور ڈر کو خود پر سوار کرلیا انہیں ذلت ورسوائی کا سامناکرنا پڑا۔تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ چودہ سو سالہ تاریخ میں کئی مرتبہ مسلمانوں کو بدترین حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان کی سلطنت اور حکومت تباہ وبرباد ہوئی ہے لیکن مسلمانوں نے حالات کا مقابلہ کیا۔ ان کی نسلوں نے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر اپنا وجود بحال کرنے کی کوشش کی اور پھر دنیا میں انہوں نے پہلے سے زیادہ طاقت،قوت اور عظیم سلطنت حاصل کی۔ سب سے طاقتور سلطنت کی بنیاد رکھی۔
حالیہ دنوں میں ایک مرتبہ پھر مسلمانوں کو بدترین زوال کا سامناہے۔ مسلمان وہاں بھی پریشانیوں اور مشکلات سے دوچار ہیں جہاں ان کی اپنی حکومت ہے۔جن سرزمیں کی حکمرانی مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہیں۔ مسلمان وہاں بھی شدید حالات سے دوچار ہیں جہاں وہ اقلیت میں ہیں ایسے حالات میں مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ حالات کا جائزہ لیں۔ حکمت اور دانشمندی کو بروئے کارلائیں اور زمانے میں اپنا وجود قائم کریں۔ اپنی شناخت بنائیں۔ کسی کے دباؤ میں آئے بغیر اپنے حقوق کی بحالی اور اسلامی شعائر کو فروغ دینے کی لڑائی لڑیں۔
ہندوستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں مسلمانوں نے پہلی صدی ہجری کے آخر ی دور میں قدم رکھ دیاتھا۔ پھر دسویں صدی عیسوی میں مسلمانوں کی یہاں باضابطہ سلطنت بن گئی۔ پندرہویں صدی میں مغلوں نے یہاں آکر ہندوستان کی تقدیر بدل دی۔ دنیا کی عظیم حکومتوں کے مقابلہ میں ہندوستان کو لاکھڑ ا کردیا اس کارقبہ کئی ملکوں تک وسیع کردیا۔انگریزوں نے قبضہ کرلیا تو مسلمانوں نے اس کے خلاف آزادی کی جنگ چھیڑ دی۔تحریک آزادی زور پکڑی۔ براداران وطن نے بھر پور ساتھ دیا اور بالآخر ہندوستان آزادی کی دولت سے ہمکنار ہوگیا۔ ایک آزاد،سیکولر اور جمہوری حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ تمام شہریوں کو بغیر کسی مذہبی،لسانی اور علاقائی تفریق کے یکساں حیثیت دی گئی۔ ہندو،مسلمان سکھ عیسائی نے ایک ساتھ رہنے کا عزم کیا لیکن سترسالوں کے دوران ہندوستان کی یہ تصویر اب بدلنے لگی ہے۔ سماج میں نفرت اور فرقہ پرستی پنپ رہی ہے۔مذہبی منافرت کو اہمیت دی جارہی ہے ایسے میں مسلمانوں کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ حسن اخلاق کا مظاہرہ کریں۔ اتحاد ویکجہتی کو فروغ دیں۔ دعوت دین کے فریضہ کو اپنا شعار بنائیں۔اپنے عمل،اخلاق اور کیرکٹر سے اسلام کی تشہیر کرکے دوسروں کو مائل اور قائل کرنے کی کوشش کریں۔
آپسی اتحاد اور اتفاق بھی مسلمانوں کی بنیادی ضرورت ہے۔ قرآن کریم میں اتحاد واتفاق کو بہت اہمیت کے ساتھ بیان کیاگیا ہے۔ اللہ تعالی کا مسلمانوں کو واضح ارشاد ہے اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور آپس میں اختلاف مت پیدا کرو۔
وَاعتَصِمْوابِحَبلِ اللہِ جَمِیعاًوَلَا تَفَرَّقْوا۔
’اور تم سب ملکر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو – “ ]2[
آیتِ مبارکہ میں فرد واحد کے بجائے پوری امت سے خطاب ہے۔ اعتصام بحبل اللہ یعنی اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لینا ہرمسلمان کا فریضہ ہے۔ قران نے صرف خدا کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کے حکم پر اکتفا نہیں کیا ہے بلکہ کہا ہے ’’جَمِیعًا“ کہ سب مل کر خدا کی رسی کو تھامیں۔ مسلمانوں کو ساتھ ساتھ مل کر اجتماعی شکل میں اعتصام بحبل اللہ کرنا ہو گا اور ایک دوسرے کے ساتھ متحد ہونا ہو گا۔ بالفاظِ دیگر اس آیت کریمہ میں اتحادِ اْمت کا حکم دیا گیا ہے اور تفرقہ سے بالکل منع کیا گیا ہے۔ مفسرینِ کرام کے نزدیک ” حبل اللہ “ سے مراد کتاب و سْنت ہیں۔ لہٰذا اْمت مسلمہ کے درمیان کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی شکل میں اتحاد و اتفاق کی دو مضبوط بنیادیں موجود ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا فرمان ہے:
” میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں: ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری سنت۔ جب تک تم ان دونوں کو مضبوطی سے تھامے رہو گے گمراہ نہ ہو گے۔ “
اللہ تعالیٰ کا پیغام اور اس کی تعلیمات وہدایات قرآن کریم کی شکل میں موجود ہے۔ اس میں انسانوں کے لیے زندگی گذارنے کا طریقہ بیان کیا گیا ہے۔ جس کی عملی شکل حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے۔ اس لیے مسلمانوں کو چاہئے کہ کتاب و سنت کی بنیاد پر متحد و متفق ہوں۔ یہ پیش نظر رہے کہ اتحاد کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتاہے کہ تمام مسلمان اپنی انفرادی رائے، اپنے اعتقادات اور خیالات سے دستبر دار ہو جائیں، بلکہ اتحاد سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ ہر شخص اپنے اعتقادات پر قائم رہتے ہوئے مجموعی اتحاد کا ثبوت پیش کرے۔دوسروں کی رائے اور دلیل کے تئیں احترام، وسعت قلبی اور رواداری کامظاہرہ کرے۔ تعصب سے پرہیز کرے کیونکہ تعصب تنازع ا ور تصادم کو جنم دیتا ہے۔ اتحاد کی اہمیت کے ساتھ اللہ تعالی نے آپسی اختلاف و انتشار اور فخر و غرورکو مشرکوں کا شیوہ قراردیاہے۔ قرآن کریم کی آیت ہے۔
ولا تکونوا من المشرکین من الذین فرقو ادینھم وکانوا شیعا) (روم ۳۱)
اور ان مشرکوں میں سے نہ ہو جانا جنہوں نے اپنا دین الگ کر لیا اور گروہوں میں بٹ گئے۔ جب انسان اتحاد و اتفاق کو طاق نسیاں میں رکھ کر گروہوں اور ٹولیوں میں بٹ جاتا ہے، تو ان کا انجام کیا ہوتا اور کس طرح سے انہیں اس کا نتیجہ ملتا ہے اس کی وضاحت کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا ” ولا تنازعوا فتفشلوا و تذھب ریحکم “ (انفال ۴۶) اور آپس میں جھگڑا نہ کرو ورنہ تم لوگ بزدل ہو جاؤ گے ور تمہاری ہوا اکھڑ جائیگی۔مزید فرمایا (ولا تکونوا کالذین تفرقوا واختلفوا من بعد ماجاء ھم البینات والٰئک لھم عذاب علیم)(ال عمران ۱۰۵)اوران لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو فرقے میں بٹ گئے اور روشن دلائل آ جانے کے بعد آپس میں اختلاف کرنے لگے یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے دردناک عذاب ہے۔
ہندوستان کے موجودہ ماحول میں مسلمانوں کے درمیان باہمی اتحادو اتفاق کے ساتھ برداران وطن سے بہتر تعلقات کا قیام بھی ضروری ہے۔ اپنی خود داری، اپنی روایت اور اسلامی شعار کے ساتھ ان سے ملاقات کرنا، انہیں اپنے یہاں مدعو کرنا ان کے ساتھ روابط بڑھانا وقت کا اہم تقاضا ہے۔ ڈائیلاگ اور مذاکرات کا راستہ ہمیشہ ہموار رہنا چاہیے۔ اپنے مخالفین کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا چاہیے۔ مومنافراست کو بروئے کارلاتے ہوئے موجودہ معاشرہ میں ہمیں خود بہتر اور مضبوط بنانا چاہیئے لیکن ایسی کوششوں کے درون خود کو سنبھالنا اور خود پر قابو رکھنا ضروری ہے۔ کسی سے مرعوب ہونا۔ طاقت اور حکومت سے خوفزدہ ہوجانا اور ملی مفاد کو بالائے طاق رکھ کر مخصوص فائدہ کے تحت ایسی کوششیں کرنے والے کبھی کامیاب نہیں ہوپائے ہیں۔ اقتدار اور حکومت کسی کی بھی کبھی بھی دائمی نہیں ہوتی ہے لیکن عموما کچھ لوگ اقتدار مل جانے کے بعد کمزوروں کا استحصال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں اپنے مفاد کے تحت استعمال کرتے ہیں۔انہیں استعمال کرکے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں اور ہم جانے انجانے میں آلہ کار بن جاتے ہیں۔ اس بات کا احساس تک نہیں کرپاتے ہیں کہ کہاں ہمارا استعمال کیا جارہاہے۔ ہمارے اقدام سے کون فائدہ اٹھارہاہے اس لئے مومنافراست کو بروئے کار لائیں۔ عقلمندی اور دانشمندی کے پیش نظر رکھیں۔ برابری کے ساتھ بات کرنے کی جرات پیدا کریں۔ اپنے مخالفین سے خوف زدہ ہونے کے بجائے انہیں اپنے عمل اور ہیبت سے خوفزدہ کریں۔ مرعوبیت کا لباد ہ اپنی زندگی سے پھینک دیں۔ اپنی تاریخ، اپنی خدمات، اپنی شخصیت اور اپنے وجود کی بنیاد پر کسی کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کے بجائے ان کے ساتھ برابری کی سطح پر بات کریں۔ مساوات کے ساتھ ڈائیلاگ اور مذاکرات کریں۔تبھی کوئی مشن کامیابی سے ہم کنار ہوگا ورنہ اس کا نتیجہ یکطرفہ اور اقتدار میں بیٹھے لوگوں کیلئے ہی صرف فائدہ مند اور دوسروں کیلئے نقصان کا سبب ثابت ہوگا۔
یہ اکیسویں صدی ہے۔ مسلمان یہاں اقلیت میں ہیں۔ نفرت اور فتنہ پورے ملک میں سرایت کرچکی ہے ایسے سنگین حالات میں مسلمانان ہند کی ذمہ داری ہے کہ وہ خوف کے ماحول سے باہر نکلیں۔ آپس میں اعتماد،یقین اور حسن ظن کی فضاء پیدا کریں۔ صاحب اقتدار کے سامنے گھٹنے ٹیکنے سے گریز کریں۔ خود داری،عزت نفس اور پورے وقار کے ساتھ مذاکرات کریں۔ ڈائیلاگ کاسلسلہ شروع کریں۔ کسی کو طاقتور اور صاحب اقتدار سمجھ کر خوف زدہ اور پریشان ہونے کی نفسیات سے باہر نکلیں۔ اپنے راز کو راز رکھیں۔ اس طرح کے معاملات میں میڈیا سے دوری بنائیں رکھیں۔ اپنی ملاقات اور ڈائیلاگ سے حوصلہ اور جرات کا پیغام دیں۔ یہ ہندوستان سب کا ہے۔ اس کی مٹی سے ہمارے خون کی بوآتی ہے۔ ہزاروں سال کی تاریخ اس سے وابستہ ہے اس لئے یہاں عزت و وقار کے ساتھ رہنے کیلئے ہمیں خود اپنی جنگ لڑنی ہے۔ اسی میں ہماری کامیابی مضمر ہے اور یہی ہماری مومنانہ فراست کا تقاضا ہوگا۔
(مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)