دیر آید درست آید

قاسم سید 

اگر ناامیدی کے سمندر میں غوطہ لگاتے وقت توقعات و امکانات کا سیپ ہاتھ آجائے تو اس کی خوشی ناقابل بیان ہوجاتی ہے، جیسے دل کی بنجر زمین پر کوئی پودا خود بخود اُگ آئے، مایوسی کے تپتے صحرا میں امیدوں کی نرم پھوار برس جائے یا ساون کی پہلی بارش سے پیاسی مٹی میں سوندھی خوشبو بکھر جائے، تاریکی کتنی گھٹاٹوپ ہو ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا ہو، مگر ماچس کی ایک تیلی سیاہ اندھیرے کا سینہ چیرنے کے لئے کافی ہوتی ہے۔ اسی طرح منفی لکیر کتنی لمبی کیوں نہ ہو اس پر پلس کا ہلکا سا نشان بھی اسے اثبات میں بدل دیتا ہے۔ گزشتہ دنوں چیختی چلاتی، دل میں بھالا اتارتی خبروں کے درمیان ایک دو خبریں ایسی آئیں جن سے لگتا ہے کہ اقبال کو اپنی کشت ویراں سے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ مٹی میں نمی بھی ہے اور زرخیز فصل اُگانے کی صلاحیت بھی۔

ہندوتو، گائے اور وکاس کے امتزاج سے تیارکردہ سیاسی کاک ٹیل نے بھلے ہی عارضی طور پر ملک کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے، لیکن مجموعی طور پر عوام نے یہ ثابت ضرور کیا ہے کہ ان کے ڈی این اے میں تعصب، عدم روادای، فرقہ واریت، منافرت کے اجزائے ترکیبی نہیں ہیں، وہ ہر اس سیاست کو مسترد کرتے ہیں جو اپنے مخالفوں کو صرف دشمن بلکہ ملک دشمن ثابت کرتی ہے۔ بات بات پر پاکستان بھیجنے کی دھمکی دیتی ہے، جو گھروں میں تانک جھانک کرتی ہے کہ آپ نے کیا پکایا اور کیا کھایا ہے اور محض افواہ کی بنا پر کسی کا بھی قتل جائز سمجھتی ہے۔ جو تکثیری معاشرہ میں فسطائیت کو واحد راستہ سمجھتی ہے۔ اخلاق کے قتل پر ملک گیر احتجاج اور گجرات کے موجودہ حالات اس طرح اشارہ کرتے ہیں کہ سمندری جھاگ تھوڑی دیر کے لئے ضرور فریب میں مبتلا کرسکتے ہیں، لیکن یہ سحر زیادہ وقت تک قائم نہیں رہتا۔ گزشتہ دنوں متنازع بنادیے گئے اسلامی مبلغ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے میڈیا ٹرائل نے ملک میں ہیجان برپا کردیا اور ایسا لگنے لگا تھا کہ شاید اس سے خطرناک آدمی اس وقت کم از کم ہندوستان میں نہیں ہے، اس پر جلد اور سخت کارروائی ناگزیر ہے۔ ایسے میں ان تمام بیانوں، تقریروں اور نفرت سے بھری مہمات کو نظرانداز کردیا گیا، جس کے نتائج ہریانہ، مہاراشٹر اور گجرات میں دکھائی دے رہے ہیں یا پھر ان سے توجہ ہٹانے کے لئے یہ مہم چھیڑی گئی ہو۔ نیشنل میڈیا خاص طور سے الیکٹرانک میڈیا کے بڑے سیکشن نے ذاکر نائیک کو خود ہی سزا دینے اور پھانسی پر لٹکادینے کا ماحول بنانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ بدقسمتی سے کارپوریٹ اردو میڈیا کا ایک حصہ بھی اس مہم میں کود پڑا اور اپنی مسلکی منافرت و ذہنی کثافت کی ساری غلاظت باہر انڈیل دی۔ اسے  پروان چڑھانے، خون دینے اور برگ و بار لانے اور کھاد فراہم کرنے میں بلاشبہ ہمارا حصہ کم نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اب دل کے کسی گوشہ میں گنہگاری کا احساس کچوکے لگاتا ہو۔ ایک طرف فحاشی کا سیلاب گھروں میں داخل کرنے کی سازش، دوسری طرف مسلکی منافرت پھیلانے کی مذکوم کوشش۔ یہ فنکاری اتنی مہارت سے ہوتی ہے کہ عام قاری گرفت نہیں کرپاتا۔ میڈیا کے تعلق سے مجرمانہ غلطی کا قصاص تو ادا کرنا ہی پڑے گا، مگر تشویش کی بات یہ ہے کہ اب بھی ہم نے اس پہلو کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے کی زحمت نہیںکی ہے۔ حلوائی کی دکان پر داداجی کی فاتحہ پر اصرار کہاں تک مناسب ہے؟ یہ سوچنا تو ہوگا۔

ذاکر نائیک کو پہلے مہاراشٹر اے ٹی ایس اور اب مرکزی حکومت سے کلین چٹ مل گئی ہے۔ اس نے اعتراف کیا ہے کہ ذاکر نائیک کی اسلامی ریسرچ فائونڈیشن اور دہشت گردوں کے درمیان رابطہ کا کوئی ثبوت نہیں ملا اور نہ ہی ان کے فائونڈیشن نے ایف سی آر اے کی خلاف ورزی کی ہے۔ بہرحال نائیک نے ایک انگریزی نیوز چینل ٹائمز نائو کے خلاف 500 کروڑ کا ہتک عزت کا مقدمہ دائر کردیا اور دیگر چینلوں و اشاعتی اداروں پر مقدمہ کی تیاری ہے۔ یہ وہی بات ہے جو ان کالموں میں بار بار کی جاتی ہے کہ میڈیا ٹرائل کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کی ضرورت ہے تاکہ ان کے بگڑے دماغوں کا علاج ہوسکے۔ یہ اپنی ساکھ، اعتبار اور وقار تو کھوتا جارہا ہے، لیکن آدم خوری کی جو عادت پڑگئی ہے اس سے نجات دلانے کا انتظام بھی کیا جانا چاہئے۔ اس کے لئے اگر ایک مانیٹرنگ سیل بنائیں اور وکلا کا گروپ تیار ہو جو مانیٹرنگ سیل کی رپورٹ پر مقدمہ تیار کرے، خاص طور سے دہشت گردی کے معاملہ میں میڈیا کا ایک سیکشن لگاتار اسلام اور مسلمانوں کے خلاف دہشت پیدا کرنے کی مہم عرصہ سے چھیڑے ہوئے ہے، مگر اس کا بھی کوئی نوٹس نہیں لیا گیا، جس کے نتیجہ میں سیکڑوں گھر سماجی طور پر دیوالیہ کردیے گئے۔ یہ سلسلہ دراز ہوتا گیا۔ ذاکر نائیک نے ٹھوس قدم اٹھاکر نئی راہ دکھائی ہے کہ گرمی گفتار کے ساتھ گرمی اقدام بھی درکار ہے۔ میڈیا ٹرائل ہی پبلک ٹرائل کا ماحول تیار کرتا ہے۔ بھیڑ کو انصاف کرنے پر اکساتا ہے، گئورکشک کے نام پر حشرات الارض کی نمودار ’مورل پولیس‘ کو کسی کا قتل کرنے، گوبر کھلانے، پیشاب پلانے اور نیم برہنہ کرکے سرعام وحشیانہ پٹائی کے لئے ورغلاتا ہے اور پھر پرائم ٹائم میں ایسے عناصر کی وکالت کرنے والوں کو اسکرین پر لاتا ہے۔ جب تک اس پر قانونی طور پر لگام نہیں کسی جائے گی، یہ سلسلہ تھمنے والا نہیں ہے۔ مسلم جماعتیں اس سمت میں پیش رفت کریں گی، اس کا انتظار رہے گا۔

دوسری خبر ملک کی اہم اور قدیم ترین تنظیم جمعیۃ علماء نے مسلم دلت مشترکہ ریلی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سیاسی طور پر مسلمان دلت طبقہ سے کبھی قریب نہیں رہے، نہ ہی ان کی قیادت کے ساتھ اشتراک عمل کیا۔ ماضی میں اجگر فارمولہ نے خون کشید کیا، پھر مائی کے بہانے سیاسی و معاشی سطح پر ٹھکانے لگایا گیا۔ کبھی برہمنوں کی انگلی پکڑی اور ان کے درباری بن کر کالر اونچا کرتے رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے تمام اتحاد غیرفطری غیرمنطقی تھے، کیونکہ مظلوم طبقہ کا اتحاد تو مظلوم طبقہ سے ہی ہوسکتا ہے۔ ہم بھلے ہی بغلیں بجائیں، کف لگے کپڑے پہن کر اترائیں، مگر حقیقت تو یہی ہے کہ سیکولر پارٹیوں کے طویل راج میں مسلمانوں کی حیثیت دلتوں سے بھی بدتر ہوگئی ہے۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ اس کی تائید کرتی ہے۔ ریزرویشن کے سہارے دلت آگے بڑھتا گیا، حالانکہ اس کی سماجی حیثیت میں کوئی فرق نہیں آیا اور سماجی حیثیت کو ذہن میں رکھ کر ہماری قیادت نے بھی دوری بناکر رکھی۔ ہم بھلے ہی سماجی مساوات کا نعرہ لگائیں، مگر ذہنی طور پر اس میں تردد کرتے ہیں۔ خود مسلمانوں میں عملاً مسجد کے علاوہ کہیں مساوات کا تصور باقی نہیں رہا۔ حقیقت یہ ہے کہ دلت طبقہ ہی ہمارا فطری اتحادی ہے جس کو چھیڑنا کسی کے بس کی بات نہیں۔ گجرات میں دلتوں کے تیوروں نے سب کو سمجھادیا ہے۔ ہندو راشٹر کے تصور میں گرچہ وہ سب سے نچلے پائیدان پر ہیں، لیکن سیاسی نفع و نقصان میں ان کا پلڑا بھاری ہے۔

مسلمانوں کو سب سے زیادہ نقصان یادو سے ہاتھ ملاکر ہوا ہے۔ صرف اترپردیش میں گزشتہ بیس سال کا گوشوارہ دیکھ لیں، سر شرم سے جھک جائے گا، لیکن دلتوں سے صرف سیاسی اتحاد کافی نہیں ہے۔ ان کے دانشور، تھنک ٹینک اور سوشل انفارمروں سے رشتۂ اشتراک بنانا ہوگا۔ جمعیۃ نے اس سلسلہ میں ایک قدم آگے بڑھایا ہے اور یقیناً یہ آخری قدم نہیں ہوگا اور معاملہ صرف ریلی تک محدود نہیں رہے گا۔ الیکشن آتے جاتے رہتے ہیں، لیکن مسلمان جس طرح حاشیہ پر ڈھکیل دیا گیا ہے اس کی سیاسی حیثیت کو صفر پر پہنچادیا گیا ہے۔ بے وزنی و بے وقعتی ختم کرنے، اپنا وجود تسلیم کرانے کا یہ بہترین لائحۂ عمل ہے۔ اس کا دائرہ وسیع کیا جائے۔ یہ دو طاقتیں مل کر ہندوستان کا وہ نقشہ تیار کرنے کی اہلیت رکھتی ہیں جس کا خواب ہمارے اکابرین نے اپنی آنکھوں میں سجویا تھا۔(ملت ٹائمز)

qasimsyed2008@gmail.com

SHARE