فلسطین نےیو اے ای کے فیصلے کو غداری قرار دیا ، امارت سے سفیر واپس بلایا

محمود عباس نے او آئی سی کا ہنگامی اجلاس بلانےکا مطالبہ کیا ۔ حماس کی جانب سے بھی فیصلے کی مذمت۔ حیران کن طور پر عمان، بحرین اور مصر کی جانب سے فیصلےکا خیر مقدم ۔ بائیڈن اور انتونیو غطریس کی جانب سے بھی معاہدے کی تعریف ۔

متحدہ عرب امارت اور اسرائیلی کے درمیان سفارتی تعلقات بحال کرنے کے فیصلے پر فسلطین اتھاریٹی کے صدر محمود نے سخت برہمی کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے یو اے ای کے اس فیصلے کو فلسطینی کاز کے ساتھ غداری قرار دیا۔ اتنا ہی نہیں فلسطین نے متحدہ عرب امارت سے اپنا سفیر بھی واپس بلانے کا فیصلہ کیاہے۔ واضح رہے کہ اسرائیل ، امریکہ اور متحدہ عرب امارت کے درمیان یہ معاہدہ جمعرات کی دیر رات تکمیل کو پہنچا اور امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ٹویٹر پر اس کا اعلان کیا۔ ٹرمپ نے معاہدے کی کاپی بھی ٹویٹر پر پوسٹ کی جس کے بعد دنیا بھر میں ہنگامہ مچ گیا۔ فلسطینی صدر محمود عباس نے جمعرات کی دیر رات ہی اپنے مخصوص لیڈران کا ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا اور اس معاہدے پر صلاح مشورہ کیا تاکہ اس پر کوئی جامع بیان جاری کر سکیں ۔ گفت وشنید کے بعدد فلسطین اتھاریٹی کے حکام اس نتیجے پر پہنچے کہ وہ اس معاہدے کو پوری طرح مسترد کریں گے۔ فلسطین اتھاریٹی کے علاوہ جنگجو تنظیم، حماس اور ’اسلامی جہاد‘ نے بھی اس معاہدے کو پوری طرح مسترد کر دیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ حماس کے لیڈر اسماعیل ہانیہ اور فلسطینی صدر محمود عباس کے درمیان اس تعلق سے فون پر گفتگو بھی ہوئی ہے اور دونوں نے اس معاہدے کو پوری شدت کے ساتھ مسترد کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ البتہ او آئی سی اور عرب لیگ کا اس پر اب تک کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔
فلسطین اتھاریٹی کے سابق وزیر ماجد المصری نے کہا کہ ’’ہمیں پہلے ہی اندازہ تھا کہ اسرائیل اور یو اے ای کے درمیان پردے کے پیچھے کوئی معاہدہ ہو رہا ہے لیکن اب یہ لوگ کھل کر سامنے آگئے ہیں ۔‘‘ المصری کہتے ہیں کہ ’’ یہ ہمارے لئے افسوسناک خبر ہے۔ یہ ہماری پیٹھ میں خنجر گھونپنے جیسا ہے۔‘‘ بیشتر فلسطینی لیڈروں حتیٰ کہ عوام نے اس فیصلے کو فلسطینیوں کے ساتھ دھوکا قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ متحدہ عراب امارت کو فلسطین کے تعلق سے کوئی سودار کرنے کا اختیار بالکل نہیں ہے۔ اس کا فیصلہ فلسطینی خود کریں گے۔
عرب ممالک میں الگ الگ رد عمل
متحدہ عرب امارت کے فیصلے پر دنیا بھر میں حیرانگی ہے لیکن عرب ممالک میں اس تعلق سے ۲؍ طرح کی رائے ہے۔ بحرین، عمان اور مصر نے تو کھل کر اس معاہدے کی حمایت میں بیان دے دیا ہے۔ البتہ دیگر عرب ممالک اس پر خاموش ہیں ۔ بلکہ یہ کہا جائے تو بہتر ہے کہ اب تک عرب ممالک میں سے کسی نے اس معاہدے کی مخالفت نہیں کی ہے۔ مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی نے معاہدے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدام فلسطین کی زمین پر اسرائیلی تعمیرات کو روکنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ انہوں نے ایک ٹویٹ کے ذریعے کہا کہ ’’مریکہ، متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کا مشترکہ اعلامیہ مشرقِ وسطیٰ میں امن کی راہ ہموار کرے گا۔‘‘ عبدالفتاح السیسی نے محمد بن زاید کے اس اقدام کو ’تاریخی‘ قرار دیا۔
متحدہ عرب امارت کے پڑوسی ملک عمان نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے ۔ اور امید ظاہر کی ہے کہ اس سے مشرق وسطیٰ میں امن قائم کیا جا سکے گا۔بحرین نے بھی کہا ہے کہ متحدہ عرب امارات کے تاریخی اقدام سے خطے میں امن کی کوششیں مضبوط ہوں گی۔ ادھر اردن نے اس معاملے میں کھل کر کوئی بیان دینے سے گریز کیا ہے۔اردن کا کہناہے کہ اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان معاہدے کا دار و مدار اسرائیل کے ردِ عمل پر ہوگا۔اردن کے وزیرِ خارجہ ایمن سفادی نے کہا ہے کہ وہ نہ تو اس معاہدے کا خیرمقدم کرتے ہیں اور نہ اسے مسترد کریں گے۔ان کے بقول اسرائیل کو اپنے غیر قانونی اقدامات اور فلسطین کے عوام کے حقوق کی خلاف ورزی سے باز آنا ہوگا۔ واضح رہے کہ سعودی عرب نے اب تک اس معاملے پر سرکاری سطح پر اب تک کوئی بیان نہیں دیا ہے لیکن وہاں کے عوام سوشل میڈیا پر اس فیصلے پر سخت ناراضگی کا اظہار کر رہے ہیں ۔
انتونیو غطریس اور جو بائیڈن کا بیان
اسرائیل کے غرب اردن میں ’الحاق‘ کے منصوبے کی مخالفت کرنے والے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو غطریس نے اس معاہدے کا خیر مقدم کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ’’ یہ معاہدہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان دوبارہ بامقصد مذاکرات کا موقع فراہم کرے گا۔نیزیہ معاہدہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان دو ریاستی حل اور مشرقِ وسطیٰ میں امن کیلئے مددگار ثابت ہو گا۔ ادھر اسرائیلی الحاق کے مخالف اور امریکی صدارتی انتخابات میں ڈیمو کریٹک پارٹی کے امیدوار جوبائیڈن نے بھی اس معاہدے کو ایک ’تاریخی قدم‘ قرار دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ’’ اس اقدام سے خطے میں کشیدگی کم ہو گی۔بائیڈن نے اس بات پر زور دیا کہ اسرائیل مشرق وسطیٰ کا اٹوٹ انگ ہے اور ایک حقیقی وجود پر مبنی ریاست ہے۔ اسرائیل اور ہمسایہ عرب ممالک کے مابین مزید تعاون کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے۔
متحدہ عرب امارت کی جانب سے صفائی
متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے معاہدے کی فطری طور پر دنیا بھر میں مخالفت ہونی ہی تھی۔ ایسی صورت میں ابو ظہبی کے ولی عہد شیخ محمد بن زاید کیلئے لازمی تھا کہ وہ اس معاملے پر صفائی دیتے۔ لہٰذا ہر سمت سے تنقیدوں کے بعد انہوں نے بیان دیا ہے کہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان کوئی سمجھوتا طے پانے تک مقبوضہ بیت المقدس ( یروشلم) میں اپنا سفارت خانہ نہیں کھولے گا۔ واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی ثالثی میں اسرائیل اور متحدہ عرب امارت کے درمیان جمعرات کو ایک معاہدہ ہوا ہے جس کی رو سے متحدہ عرب امارات اسرائیل سے تمام طرح کے تعلقات بحال کرے گا جبکہ اسرائیل غرب ارد ن میں اپنے غاصبانہ پروگرام کو ’معطل‘ ( منسوخ نہیں ) کرے گا۔
ابوظہبی کے ولی عہد شیخ محمد بن زاید نے ٹویٹر پر اس معاہدے کی تصدیق کی ہے اور کہا ہے کہ اس کے تحت اسرائیل مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے بعض علاقوں پر اپنی خود مختاری کے نفاذ کے منصوبے سے دستبردار ہوجائے گا۔شیخ محمد بن زاید نے کہا ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے صدر ڈونالڈ ٹرمپ سے فون کال میں مزید فلسطینی علاقوں کو اسرائیلی ریاست میں ضم نہ کرنے سے متعلق ایک سمجھوتے سے اتفاق کیا ہے۔اس کے علاوہ یو اے ای اور اسرائیل نے دوطرفہ تعاون کے فروغ اور سفارتی تعلقات استوار کرنے کے لئے ایک نقشہ راہ وضع کرنے پر بھی اتفاق کیا ہے۔ ان تینوں ممالک کی جانب سے جاری کردہ ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے’’ اس تاریخی سفارتی پیش رفت سے مشرق وسطیٰ کے خطے میں امن کو آگے بڑھانے میں مدد ملے گی۔ یہ معاہدہ دلیرانہ سفارت کاری ، تینوں لیڈروں کے ویژن اوریو اے ای اور اسرائیل کے عزم و حوصلے کا بیّن ثبوت ہے۔اس سے خطے میں دستیاب عظیم مواقع سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملے گا۔ تینوں ممالک کو اس وقت بہت سے چیلنج درپیش ہیں اور وہ تینوں آج کی تاریخی کامیابی سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔‘‘ واضح رہے کہ نہ ہی اسرائیلی وزیراعظم نے نہ ہی شیخ زاید نے اپنے بیان میں یہ واضح کیا ہے کہ اسرائیل کب تک غرب اردن میں ’الحاق‘ کے اپنے منصوبے کو ’معطل ‘ رکھے گا ۔ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ آئندہ اسرائیل اس منصوبے پر عمل نہیں کرے گا۔