کیا ہندوستان بغیر نقدی کے چل سکتا ہے؟

سمیر ہاشمی
آٹھ نومبر کی شام جب وزیر اعظم نریندر مودی ہزار اور پانچ سو کے نوٹ کو بند کرنے کا اعلان کر رہے تھے تب اسی وقت ممبئی میں سڑک کنارے سبزی فروخت کرنے والے وشال گپتا اپنی دکان بند کرنے کی تیاری کر رہے تھے۔وزیر اعظم کے اعلان کے بعد سڑکوں پر لوگ نکل آئے تھے، اے ٹی ایم کے باہر لمبی لمبی لائنیں لگ گئیں اور لوگ دکانوں کی طرف ضرورت کاا ساما ن خریدنے کے لئے بھاگنے لگے۔وشال گپتا بتاتے ہیں، بیس منٹ میں دکان کی ساری سبزی فروخت ہوگئی، ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ لیکن اس دن کے بعد سے ان کی کمائی تقریبا بند ہو گئی، کچھ ہی کسٹمر دن بھر میں ان کی دکان پر آ پاتے ہیں۔گاہک نہیں ملنے کی وجہ سے ان کی دکان کی سبزیاں خراب ہو گئی اور ان کو قریب دس ہزار کا نقصان اٹھانا پڑا۔اب ان کا کہنا ہے، حالات تھوڑے بہتر ہوئے ہیں، مجھے دن بھر میں اب چار یا پانچ گاہک ایسے مل جاتے ہیں جو پے ٹی ایم سے پیسے دیتے ہیں۔ وشال گپتا کی طرح ہی کئی اور چھوٹے تاجر بھی اب موبائل اور کارڈ کا سہارا لے رہے ہیں۔حکومت کے اس فیصلے سے سب سے زیادہ فائدہ پی ٹی ایم جیسی کمپنیوں کو ہی ملا ہے،موبائل سے ادا کرنے کے معاملے میں پے ٹی ایم ہندوستان کی سب سے بڑی کمپنی ہے۔پے ٹی ایم کا کہنا ہے کہ اس کے کاروباری لین دین میں سات سو فیصد کا اضافہ ہوا ہے اور ہر دن ہونے والا لین دین پچاس لاکھ تک پہنچ چکا ہے۔پے ٹی ایم کا یہ بھی دعوی ہے کہ ایپ ڈاؤن لوڈ کرنے والوں کی تعداد میں تین سو فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔
فی الحال پے ٹی ایم کے ذریعے 85000 تاجر جڑے ہوئے ہیں لیکن کمپنی کا مقصد ہے کہ مارچ 2017 تک پچاس لاکھ تاجر اس سے جڑ جائیں۔پے ٹی ایم کا چین کی بڑی ای کامرس کمپنی علی بابا کے ساتھ معاہدہ ہے۔پے ٹی ایم کے سینئر نائب صدر کرن واس ریڈرنے بی بی سی کو بتایا،اس اعلان کے بعد سے ہمارے کاروبار میں اہم اضافہ ہوا ہے، ہم چھوٹے شہروں اور قصبوں میں اپنے دفتر کھول رہے ہیں تاکہ اپنا کاروبار بڑھاسکیں۔بلکہ بڑے پیمانے پر بھارتی بینک بھی لوگوں کو کیش۔لیس لین دین کے لئے آن لائن بینکنگ اور موبائل خدمات کی مدد لینے کو کہہ رہے ہیں۔اس فیصلے کے فورا بعد پے ٹی ایم نے اخبارات میں پورے صفحات کا اشتہارات دیا تھا اور وزیر اعظم کو مبارکباد دی تھی، اشتہارات میں اسے ایک تاریخی فیصلہ بتایا گیا تھا۔
اسمارٹ فون کے لحاظ سے چین کے بعد بھارت دوسرا سب سے بڑا بازار ہے، اس کے ساتھ ہی انٹرنیٹ یوزرس کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے،فی الحال ملک میں 40 کروڑ سے بھی زیادہ انٹرنیٹ یوزرس ہیں اور امید ہے کہ 2020 تک یہ تعداد 70 کروڑ تک پہنچ جائے گی۔لیکن اس کے باوجود اب بھی ملک میں آن لائن اور موبائل سروس سے خریداری کرنے والوں کی تعداد ملک کی سوا ارب آبادی کے مقابلے میں بہت کم ہے۔بھارت کو اب کیش۔لیس معیشت بننے کے لئے طویل سفر طے کرنا باقی ہے۔زیادہ تر لوگ یہاں نقد میں ہی لین دین کرنا پسند کرتے ہیں، اس ذہنیت کو تبدیل کرنے میں اب زیادہ وقت لگے گا اور کوششیں بھی بڑے پیمانے پر کرنی ہوگی۔بھارت کی آدھی سے زیادہ آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے، ان علاقوں میں موبائل کوریج ملنا اب بھی ایک مسئلہ ہے اور یہ کیش۔لیس انڈیا کے چیلنج کو اور بڑھانے والا ہے۔بھارت میں گزشتہ دو سالوں کے اندر لاکھوں بینک اکاؤنٹ کھولے گئے ہیں لیکن ابھی بھی لاکھوں لوگ ایسے ہیں جن کے پاس کوئی اکاؤنٹ نہیں ہے۔ملک میں اب بھی 65 کروڑ کے پاس ڈیبٹ کارڈ ہے اور ڈھائی کروڑ کے پاس کریڈٹ کارڈ ہے۔ڈیبٹ کارڈ کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے لیکن زیادہ تر لوگ اس کا استعمال صرف اے ٹی ایم سے پیسے نکالنے کے لئے ہی کرتے ہیں۔وہ اب بھی اس کا استعمال لین دین میں ادا کرنے کے لئے نہیں کرتے ہیں۔
پرائس واٹر ہاؤس ،وپرس انڈیا کے اقتصادی امور کے ماہر ویسیش بیلگاوی بتاتے ہیں،چھوٹے چھوٹے کام دھندے کرنے والوں کو ڈیبٹ اور کریڈٹ کارڈ قبول کرنے والی مشین لینے کی بڑے پیمانے پر ضرورت ہے، ان میں سے زیادہ تر تاجر نقد میں ہی لین دین کرنا چاہتے ہیں۔شہروں میں جہاں آہستہ آہستہ تاجر طبقہ کیش۔لیس کی طرف بڑھ رہا ہے وہیں شہروں اور دیہات میں اب بھی اسے لے کر کوئی خاص جوش نہیں دیکھنے کو مل رہا ہے۔اب بھی بہت سے ہندوستانیوں کے دماغ میں یہ سوچ بیٹھی ہوئی ہے کہ انٹرنیٹ اور موبائل سے لین دین کرنا محفوظ نہیں ہے۔بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ حالات درست ہونے کے بعد ویسے کلائنٹ جو حالیہ دنوں میں کیش۔لیس ادا کرنے کی طرف بڑھ چکے ہیں، انہیں واپس بازار میں نقدی میں لانا ایک اہم کام ہوگا۔ایک ایسے ملک میں جہاں آج نقد رقم اور کل قرضے جیسے محاورے چلتے ہو کیش۔لیس معیشت کے ہدف کو حاصل کرنا آسان کام نہیں ہو گا۔(بشکریہ بی بی سی)

SHARE