مشرقی بحیرہ روم میں توانائی کی تلاش کے حوالے سے ترکی نے یورپی یونین کو ناراض کر دیا تھا تاہم جرمن چانسلر کا کہنا ہے کہ اب اس پر مذاکرات کا وقت ہے۔
جرمن حکومت کی جانب سے پیر آٹھ فروری کے روز جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ چانسلر انگیلا میرکل نے ترکی کے صدر طیب رجب ایردوآن سے بات چیت کے دوران ”مشرقی بحیرہ روم کے حوالے سے حالیہ مثبت پیش رفت کا خیر مقدم کیا ہے۔”
دونوں رہنماؤں کے درمیان ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے بات چیت ہوئی جس میں میرکل نے کہا کہ اب، ”وقت آگیا ہے کہ اس حوالے سے بات چیت کے ذریعے پیش رفت کی جائے۔”
ترکی نے قبرص اور یونان کے ساحلوں سے متصل ان متنازعہ پانیوں میں تیل اور گیس کے ذخائر کی تلاش شروع کر دی تھی جس پر قبرص اور یونان دونوں ہی اپنا اپنا دعوی کرتے ہیں۔ ترکی بھی ان پانیوں پر اپنا دعوی کرتا ہے اور اس سے یورپی یونین کے ساتھ ترکی کے تعلقات مزید خراب ہوگئے تھے۔
گیس کے ذخائر کی تلاش
مشرقی بحیرہ روم میں قبرص کے ساحل کے قریب سمندری پانیوں کے حوالے سے ترکی اور یونان کے درمیان تنازعہ کافی پرانا ہے۔ تاہم ترکی نے گزشتہ برس اگست کے مہینے میں اس علاقے میں توانائی تلاش کرنے کے مقصد سے اپنا ایک جہاز روانہ کر دیا تھا۔ یورپی یونین نے اسے اس قدم سے باز رہنے کے لیے متنبہ کیا تھا تاہم ترکی نے اس کی پرواہ نہیں کی تھی۔
گزشتہ برس دسمبر میں یورپی یونین کے ارکان نے اس حوالے سے ترکی پر پابندیاں عائد کرنے کے لیے ووٹ دیا۔ یورپی یونین کا الزام ہے کہ ترکی نے یکطرفہ طور پر اشتعال انگیز کارروائی کی اور اس کے ذریعے یونین کے خلاف بیان بازی میں بھی اضافہ ہوا۔
یورپی یونین نے ترکی پر مزید معاشی پابندیوں کی بات یہ کہہ کر چھوڑ دی تھی کہ سخت پابندیوں پر حتمی فیصلہ یونین کی آئندہ میٹنگ میں کیا جائے گا جو 25 اور 26 مارچ کے دوران ہونے والی ہے۔
نئی شروعات
یورپی یونین نے جب پابندیوں کی دھمکی دی تھی اس وقت تو ایردوآن نے اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے اسے نظر انداز کر دیا تھا۔ تاہم اب اس حوالے سے ان کے الفاظ میں پہلے جیسی سختی نہیں ہے۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے بھی ان کے اس دعوے پر مثبت انداز میں رد عمل ظاہر کیا تھا کہ وہ اس تنازعے کے حل کے لیے، ”ایک نئی شروعات کریں گے۔”
پورے یورپ میں سب سے زیادہ ترک نژاد افراد جرمنی میں بستے ہیں اور اسی لیے مختلف متنازعہ مسائل کے حوالے سے جرمنی یورپی یونین اور ترکی کے درمیان کئی بار ثالثی کی کوشش کرتا رہا ہے۔ اس میں سب سے اہم پناہ گزینوں سے متعلق سن 2016 کا ایک معاہدہ ہے جس کے تحت ترکی غیر قانونی تارکین وطن کو یورپ کی طرف جانے سے باز رکھتا ہے۔