نقطۂ نظر: ڈاکٹر محمد منظور عالم
مصائب ومشکلات انسانی زندگی کا بنیادی حصہ ہے ۔ عروج وزوال ، تنگ دستی وخوشحالی ، رنج و مسرت کا ہر ایک انسان کو سامنا کرنا پڑتا ہے اور اسی کا نام انسانی زندگی ہے۔ مشکل ، پریشانی اور مصیبت میں صبر و استقلال ، ہمت وحوصلہ اور جرات سے کام لینا کامیابی کی منزلیں طے کرنے کیلئے ضروری ہے ۔ہندوستان کے موجودہ حالات میں صبر و استقلال کی بہت ضرورت ہے ۔ جس طرح کے حالات ہیں ایسے میں یہ ضروری ہے کہ صبر سے کام لیا جائے ۔ مستقل مزاجی کا مظاہرہ کیا جائے اور استقلال سے کام لیا جائے ۔اللہ تعالی نے قرآن کریم میں بھی صبر کے ذریعہ مدد حاصل کرنے کا حکم دیاہے ۔ ارشاد خداوندی ہے یا ایہا الذین آمنو استعینو بالصبر والصلاة ۔ کہ ایے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعہ مدد حاصل کرو ۔
اللہ تعالی نے امت مسلمہ پر بڑی ذمہ داریاں عائد کی ہے ۔ انسانیت کی اصلاح ۔ انہیں گمراہی سے بچانا، جہالت سے نکالنا ۔ علم کی دولت سے آراستہ کرنا ، ان کے سماجی مسائل کا خاتمہ کرنا ۔ ان کی معیشت کو بہتر بنانا ۔ غربت کے خلاف جنگ لڑنا ،انصاف فراہم کرنا ۔ مساوات قائم کرنا ، ظلم سے نجات دلانا ،سماجی ہم آہنگی برقرار رکھنا بنیادی ذمہ داری ہے ۔یہ بنیادی امور ہیں جس کی بنیاد پر کسی بھی سماج اور معاشرہ میں خوشحالی آتی ہے ۔ امن وسکون قائم ہوتاہے ، محبت اور بھائی چارہ کو فروغ ملتاہے ، لوگ خوشحالی کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں ۔ ایک دوسرے کے ساتھ ملکر رہتے ہیں ۔فساد ، لڑائی اور ہنگامہ نہیں ہوتاہے ۔ آپس میں سب ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں ۔ سب ایک دوسرے کا خیال کرتے ہیں ۔ یہ معاشرہ ایک گلدستہ کی طرح خوبصورت ہوتاہے جس کی مہک اور خوشبو سے پورا ملک خوشبودار بن جاتاہے ۔ ایسا معاشرہ تشکیل دینا ضروری ہے لیکن اس کیلئے طویل جدوجہد اور محنت در کار ہے۔
ہمارے ملک کے حالات مسلسل خراب ہوتے جارہے ہیں ۔ ہر آنے والے دن یہ احساس ہوتاہے کہ اس سے برا دورپہلے کبھی نہیں رہا۔ پچھلے سترسالوں سے ہمارا یہی احساس ہے اور ہم یہ سوچ کر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ یہ وقتی پریشانیاں ہیں ۔ آگے چل کر حالات بہتر ہوجائیں گے لیکن ہم دیکھ رہے ہیں حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں ۔مسائل و مشکلات بڑھتے جارہے ہیں ۔ سیاسی ، سماجی ، معاشی ، تعلیمی ہر میدان میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہاہے ۔ دقتوں کا پہاڑسامنے کھڑا کردیاگیاہے ۔ سیاسی طور پر مسلمانوں کو بے بس ، کمزور اور غیر ضروری بنادیاگیاہے ۔ ملک میں زہر بودیاگیاہے اورمسلمان سیاسی طور پر حاشیہ پر جاچکے ہیں ۔ پارلمینٹ اور اسمبلیوں میں نمائندگی دس فیصد سے بھی کم ہوگئی ہے ۔ مسلم ووٹوں کی حیثیت اور قدروقیمت بھی بے معنی بنادی گئی ہے۔مسلمانوں کی اپنی سیاسی پارٹیاں بھی برائے نام ہیں ۔زمینی سطح عوام کے درمیان مقبول نہیں ہونے دیاجاتاہے ۔ سماجی سطح پر بھی مسلمانوں کی حیثیت بے معنی بنائی جاچکی ہے ۔ مسلم سماج بہت زیادہ پسماندہ ہوچکاہے ۔ تہذیب وثقافت کا بھی فقدان ہوچکاہے ۔شہروں اور دیہاتوں ہر جگہ مسلم سماج نفسیاتی دباﺅ اور خوف کا شکار ہے ۔معاشی سطح پر بھی مسلمانوں کی حالت سب سے بدترہوچکی ہے ۔ تجارت میں مسلمان بہت پیچھے جاچکے ہیں ۔ اعلی ترین سرکاری ملازمت میں مسلمانوں کی نمائندگی صرف دو فیصد رہ گئی ہے ۔ بی اور سی گریڈ میں بھی مسلمانوں کو زیادہ ملازمت نہیں مل رہی ہے ۔پرائیوٹ اور ملٹی نیشنل کمپنیوں میں بھی اب مذہب کے نام پر امتیاز برتا جارہاہے ۔ مسلمانوں کی اکثریت بے روزگار اور معاشی تنگی کی شکار ہے ۔ تعلیمی امور میں بھی مسلمان انتہائی پسماندہ ہیں ۔ اعلی تعلیم حاصل کرنے والے مسلمان صرف دو فیصد ہیں ۔ ساٹھ فیصد سے زیادہ مسلم بچے ناخواندگی کے شکار ہیں ۔ مسلم علاقوں میں اسکول وکالجز بھی نہیں ہیں۔ معاشی تنگ دستی کی و جہ سے بہت سارے والدین اپنے بچوں کو خواہش کے باوجود تعلیم یافتہ بنانے سے محروم رہ جاتے ہیں ۔بنیادی تعلیم بھی بہت سارے بچے حاصل نہیں کرپاتے ہیں ۔تعلیم حاصل کرنے کی عمر میں وہ فیکٹریوں ، ہوٹلوں اور کارخانوں میں محنت مزدوری کا کام کرتے ہیں ۔سچر کمیٹی کی رپوٹ میں تفصیل سے مسلمانوں کی سماجی ، سیاسی ،تعلیمی ، پسماندگی کا جائزہ لیاگیا ہے اور بتایاگیاہے کہ مسلمانوں کی زمینی سطح پر کیا صورت حال ہے ۔ کانگریس حکومت میں جسٹس سچر کی رپوٹ آئی تھی ۔ طویل عرصہ گزرگیاہے لیکن کسی بھی حکومت نے سچر کمیٹی کی سفارشات پر عمل کرنے کی کوشش نہیں کی ہے ۔کانگریس حکومت نے بھی اسے نافذ نہیں کیا اور نہ ہی موجودہ حکومت سے یہ توقع ہے کہ وہ ان سفارشات پر کبھی توجہ دے گی اور اسے نافذ کرے گی ۔ان سارے ایشوز کو حل کرنا ضروری ہے لیکن یہ تفصیل طلب ہیں اور اس کیلئے طویل وقت درکار ہے تاہم صبر ،حوصلہ اور ہمت کے ساتھ ان مسائل کو حل کیا جاسکتاہے ۔
صبر بہت بڑی طاقت ہے ۔ صبر کے سہارے بہت سے مسائل کو حل کیا جاسکتاہے ۔ بھارت میں جن مسائل کا سامناہے جس طرح مسلمانوں کو ہر قدم پر پریشان کیا جارہاہے ۔ لگاتار گرفتاری ہورہی ہیں ۔ یو اے پی اے اور این ایس اے لگاکر مسلم نوجوانوں کو جیل میں بند کیا جارہاہے ۔ مسلمانوں کی معیشت پر حملہ کیا جارہاہے ۔ مسلمان جن چیزوں کی تجارت کرتے ہیں اسے ختم کیا جارہاہے ۔ روزگار کے مواقع ناپید کئے جارہے ہیں ۔ میڈیا میں مسلمانوں کے خلاف زہر اگلا جارہاہے ۔ مسلمانوں کی تعلیمات پر حملہ کیا جارہاہے ۔ مسلمانوں کی شناخت پر سوال کھڑ ے کئے جارہے ہیں ۔ مسلمانوں کی حب الوطنی کو مشکو ک بنایاجارہاہے ۔ مسلمانوں کی خدمات کا انکار کیا جارہاہے ۔ آزادی سے پہلے ، آزادی کے حصول اور آزادی کے بعد ہر دور میں مسلمانوں نے بے دریغ قربانیاں دی ہے ۔ ملک کی تعمیر وترقی میں ان کا خصوصی کردار رہاہے لیکن آج ان پر سوال کھڑے کئے جارہے ہیں ۔ یہ امور ہیں جس سے مسلمان ذہنی طورپر پریشان ہیں ۔نفسیاتی دباﺅ کے شکار ہیں ۔ مستقبل کے تئیں پریشان اور خوفزدہ ہیںلیکن ہمیں ان حالات سے نکلنا ہے ۔ اس کا حل ڈھونڈھنا ہے ۔ ان مسائل ومشکلات پر قابو پانا ہے ۔مکمل طور پر منصوبہ بندی کرنی ہے اور اس سلسلے کی پہلی کڑی صبر ہے ۔ اس لئے ہمیں صبر کا دامن تھامنا ہوگا ۔ جلد بازی کے بجائے صبر سے کام لینا ہوگا ۔ صبر کے وسیع مفہوم کو سمجھنا ہوگا ۔ صبر کے ساتھ مستقبل کیلئے لائحہ عمل طے کرنا ہوگا اور وقت آگیاہے کہ مسلمان اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے ایک منتخب لیڈر شپ پیدا کریں اس سلسلے میں مزید باتیں اگلی قسط میں ملاحظہ فرمائیں ۔
(مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹر ی ہیں)