نقطۂ نظر: ڈاکٹر محمد منظور عالم
مسلمانوں کی ترقی ،مسائل کے حل ، آپسی اتحاد و اتفاق ، انتشار کے خاتمہ اور قومی یکجہتی کے فروغ کیلئے اجتماعی قیادت ضروری ہے ۔ جب تک اجتماعی قیادت پیدانہیں ہوگی ۔مشترکہ لیڈر شپ کا وجود عمل میں نہیں آئے گا تب تک مسلمانوں کی ترقی ، مسائل کا حل اور یکجہتی کا فروغ ممکن نہیں ہے ۔ گذشتہ مضمون میں تفصیل سے بتایاگیا تھا کہ اجتمامی قیادت کی اہمیت کیاہے ۔ اجتماعی قیادت ضروری کیوں ہے اور کس وجہ سے آج کے دور میں اجتماعی لیڈر شپ کی بہت زیادہ ضرورت ہوگئی ہے ۔ آج کے کالم میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اجتماعی قیادت کا وجود کیسے ممکن ہے ۔ کیسے اجتماعی لیڈر شپ وجود میں آئے گی اور اس کیلئے کن طریقوں کو اپنانا ہوگا ۔ کن نکات پر چلنا ہوگا ۔
اجتماعی قیادت کیلئے چار امور سب سے اہم اور ضروری ہیں ۔ اپریسیشن ، کوآرڈینیشن، کوآپریشن ، کولیبریشن اپریسیشن کا مطلب حوصلہ افزائی ، ستائش اور دوسروں کے کاموں کو سراہنا ۔ جولوگ جس شعبہ میں بھی کام کررہے ہیں ان کی حوصلہ افزائی اور ستائش ضروری ہے۔انہیں یہ احساس دلانا ہمارے مشن کا بنیادی حصہ ہونا چاہیئے کہ آپ شاندار اور تعمیری کام کررہے ہیں ،ملک وملت کو آپ سے فائدہ ہورہاہے ۔ آپ اسی طرح محنت ،لگن اور حوصلہ کے ساتھ یہ کام جاری رکھیں۔ نمبر دو : کورڈینیشن ، جو لوگ کام کررہے ہیں ، ملک و ملت کیلئے قیمتی اثاثہ ہیں ان سے رابطہ قائم کریں۔ ان سے تعلق بنایا جائے ، ان کے ساتھ رابطہ خوشگوار اندا ز میں قائم کیا جائے ، موقع بہ موقع ساتھ بیٹھنے کی کوشش کی جائے ، ایک ساتھ بیٹھ کر مختلف مسائل پر گفتگو کی جائے۔ نمبر تین : کو آپریشن : جو لوگ میدان عمل میں سرگرم ہیں ہم ان کی مدد کریں ، ان کا ساتھ دیں۔ ان کا تعاون کریں ، ان کے راستے میں پتھر پھینکنے کے بجائے ان کی مدد کریں ، انہیں آگے بڑھائیں ، ان کے کاموں کا تعارف کرائیں اور یہ احساس دلائیں کہ وہ اس کام میں تنہا نہیں ہیں بلکہ بہت سارے لوگ اس مشن میں ان کے ساتھ ہیں۔ نمبر چار : کو لیبریشن : ہم لوگوں کو ساتھ لیکر چلیں ، ساتھ ملکر کام کریں ، باہمی تعاون اور اشتراک کو فروغ دیں ساتھ بیٹھنے سے مسائل حل ہوتے ہیں ،متعدد طرح کے نکات سامنے آتے ہیں اور غلط فہمیاں دورتی ہوتی ہیں۔
مذکورہ چاروں امور اجتمامی قیادت کے اہم اجزاء ہیں ۔ اس کے ساتھ ایجوکیشن اور تعلیم پر توجہ ضروری ہے ۔جو لوگ تعلیم ، میڈیکل اور دیگر میدانوں میں سرگرم ہیں ان سے رابطہ کیا جائے ، ان سے تعلقات قائم کئے جائیں ، ان کی خدمات لی جائے ، انہیںساتھ ملایا جائے ، ملک وملت کیلئے ان کے علوم ،تجربات اور مشاہدات سے استفادہ کیا جائے ۔
اہل علم ، دانشوران ، مفکرین ، صحافیوں ، ارباب حل وعقد ، علماء، مبلغین ، سماجی کارکنان اور دیگر اہم شخصیات کو شامل کرکے ایک کمیٹی بنائی جائی ، سبھی کو ساتھ میں شامل کیا جائے اور ایک مشترکہ کمیٹی بنائی جائی، ملت کی ہمدردی اور قوم کی فکرمندی کیلئے ان کی ذہن سازی کی جائے ، انہیں الگ الگ شعبوں میں خدمت کیلئے آمادہ کیا جائے اور ملت کو ان سے استفادہ کا موقع دیا جائے ۔مسیج اور پیغام کو عوام تک پہنچایا جائے ، ذرائع ابلاغ کے تمام طریقوں کو اختیار کیا جائے ، جدید ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کا بھی سہارا لیاجائے اور ملت کے ہر فردتک ضروری میسیج پہنچایا جائے ۔
سبھی طبقات اور گروپ کو شامل کرنا اس لئے اہم اور ضروری ہے کہ الگ الگ لوگوں کی صلاحیتیں مختلف ہوتی ہیں ، سبھی کے پاس لیاقت اور قابلیت ہوتی ہے ، جب میڈیکل ، قانون ، صحافت ، مذہب ، سیاست ، سماج ، معیشت اور دیگر سبھی شعبوں سے تعلق رکھنے والے ایک ساتھ جمع ہوں گے ،اپنے خیالات ، مشورے اور آئیڈیاز شیئر کریں گے تو ایک مضبوط لائحہ عمل تشکیل پائے گا ۔ مضبوط ہدف اور منصوبہ طے ہوگا ۔
اجتماعی قیادت ، ملی اتحاد اور اجتماعی لیڈر شپ کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ دلوں سے وسوسہ ، خدشہ اور خوف کو ختم کیا جائے ، کسی کے بارے میں شک نہ کیا جائے ، کسی کے تعلق سے کوئی وسوسہ دلوں میں نہ رہے ، اگر کوئی ماحول خراب کرنے کی کوشش کرے ، ذہنوں کو پراگندہ کرے ، کوئی وسہ ڈالے تو ایسے موقع پر براہ راست تحقیق کرنے کی کوشش کی جائے ، صاحب معاملہ سے رجوع کرلیا جائے ، دلوں میں کسی طرح کا شک اور وسوسہ نہ پیدا کیا جائے کیوں کہ یہی چیز اتحاد اور اجتماعی قیادت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوت ہوتی ہیں ۔
امت مسلمہ کی بنیادی ذمہ داری انسانیت کی فلاح وبہبود ، عوام کی بھلائی ، جہالت اور تاریکی کے دلدل سے نکالر کی ہدایت اور روشنی کی جانب گامزن کرنا اور انہیں سیدھا راستہ دکھانا ہے ۔اللہ تعالی امت مسلمہ کو قرآن کریم میں خیر امت اسی لئے کہاکہ کیوں یہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کاحکم دیاگیاہے ۔ لوگوں کو اچھے اور بھلائی کے کاموں کی جانب رہنمائی کرنا اور انہیں غلط اور برے کاموں سے روکنا بنیادی ذمہ داری میں شامل ہے ۔امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہماری خصوصی شناخت اور اسی بنیاد پر خیر امت کا لقب دیاگیاہے ۔ اس کے علاوہ تکریم انسانیت کو عام کرنا ، انصاف ، مساوات ، آزاد ی اور بھائی چارہ کو فروغ دینا ہمارے فرائض میں شامل ہونا چاہیئے ۔ اسلام تکریم انسانیت اور احترام آدمیت کا قائل ہے ۔ اسلام تمام انسانوں کو مساوات، انصاف اور آزادی کا حق دیتاہے ۔ اسلام کے بنیادی اصول میں کسی پر کسی کو برتری ،کسی کو غلام بنانا ، کسی کا استحصال کرنا ، کسی پر ظلم کرنا شامل نہیں ہے ۔ اسلام تمام انسانوں کے ساتھ یکساں حقوق اور یکساں سلوک کا قائل ہے ۔ اور اسلام کے اس عظیم پیغام کو عام کرنا ، عوام تک پہونچانا ، بھید بھاﺅ اور نسلی ،علاقی بنیاد لوگوں کو استحصال سے بچانا ہماری بنیادی ذمہ داری میں شامل ہونا چاہیے ۔ہمارے ملک میں ایک طبقہ لگاتار انسانوں کو غلام بنانے اور بنیادی حقوق سے محروم رکھنے کی کوشش کررہاہے ۔ اس کا مشن اور مقصد انسانوں کو مساوات ، آزادی ، انصاف اور یکساں حقوق سے محروم رکھنا ہے ۔ ایسی کوششوں کو ناکام بنانا، اسطرح کے مذموم مقاصد کو روکنا ضروری ہے اور اس کیلئے ہم سب کوسامنے آنا ہوگا اور اجتماعی قیادت ایسی سوچ کے خلاف مؤثر کردار ادا کرسکے گی ۔
اجتماعی لیڈر شپ کی وجہ سے یہ سبھی اہم کام کرنا آسان ہوگا ۔ امت مسلمہ کے مشن کو آگے بڑھانے میں سہولت ملے گی ۔ انسانیت کو ظلم وستم بچانے سے میں ہم معاون و مددگار ثابت ہوں گے ۔ سماج ومعاشرہ میں انصاف کا راج قائم ہوسکے گا ۔ دولت ، علاقہ ، نسل اور ذات کی بنیاد پر انسانوں کے درمیان تفریق اور برتری کا خاتمہ ہوگا ۔