نقطہ نظر: ڈاکٹر محمد منظور عالم
بھارت صدیوں سے مختلف تہذیب ، زبان اور متنوع کلچر کا پیکر ملک رہاہے۔ اس ملک کی سب سے نمایاں شناخت اور خصوصیت یہ ہے کہ یہاں مختلف ذات ، تہذیب اور کلچر کے لوگ صدیوں سے آباد ہیں۔ علاقہ ایک ، خطہ ایک لیکن تہذیب کلچر اور معاشرہ میں جینے کا انداز الگ ہے۔کھان پان ، لباس پوشاک، رہن سہن سب مختلف رہاہے ، یہ بھارت کی ایسی خصوصیت جو دنیا میں کہیں بھی دستیاب نہیں ہے ، صدیوں سے یہاں یہ دیکھنے میں آیاہے کہ مختلف قوموں، نسلوں اور طبقات کا کلچر دوسرے سے مختلف رہتاہے۔ صرف مذہب کی بنیاد پر تہذیب اور کلچر میں تبدیلی نہیں ہوتی ہے بلکہ ایک ہی مذہب میں ہونے کے باوجود نسل ، علاقہ اور خطہ کی بنیاد پر کلچر مختلف ہے ، سا?تھ کے ہند?ں کی تہذیب کچھ اور ہے اور نارتھ انڈیا کے ہندﺅوں کی تہذیب اس سے بالکل مختلف ہے ، خود نارتھ انڈیا میں ذات اور کاسٹ کی بنیاد پر تہذیبوں میں نمایاں فرق پایا جاتا ہے لیکن ان سب کے باوجود بھارت میں اتحاد ، اتفاق اور باہمی اشتراک پایا جاتا رہا ہے۔ الگ الگ تہذیب اور کلچر سے ہونے کے باوجود سبھی برسوں سے آباد ہیں ، ایک ساتھ اور معاشرہ میں رہتے ہیں ، یہی بھارت کی سب سے نمایاں خصوصیت اور شناخت ہے۔ آج کی تاریخ میں اسی شناخت اور خصوصیت کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ، آر ایس ایس کی مکمل منصوبہ اور سازش یہ ہے کہ مختلف تہذیب اور کلچر کے حامل سماج پر ایک طرح کی تہذیب تھوپ دی جائے ، سبھی کو ایک طرح کی زندگی جینے ، یکساں طور پر سماجی معاملات طے کرنے کا پابند بنا دیا جائے ، شادی نکاح کی رسم و روایات ، موت کے بعد تجہیز وتکفین ، بچہ کی ولادت کے بعد خوشیاں اور زندگی کے سبھی مراحل سارے بھارتیہ ایک انداز میں کریں ، یہ آر ایس ایس کی سوچ ہے جو بھارت کے مزاج ، شناخت اور پہچان کے خلاف ہے اور ایسا کبھی بھی ممکن نہیں ہے۔ بھارت میں یہ کبھی نہیں ہوسکتا ہے کہ سبھی قوم ، نسل اور ذات کے لوگوں کی زندگی جینے ، معاشرہ میں رہنے اور سماج میں قائم رہنے کا طریقہ ایک ہوجائے۔ آر ایس ایس کی یہ کوشش کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی ہے۔
انگریزوں کا قبضہ ہوجانے کے بعد سبھی ذات ، دھرم اور مذہب کے لوگوں نے مل کر آزادی کی جنگ میں حصہ لیا تھا۔ مختلف تہذیب ، کلچر اور مذہب سے تعلق رکھنے والے شہریوں نے متفقہ طور پر انگریزوں کے خلاف محاذ قائم کیاتھا ، اپنی کوششوں ، بلند حوصلوں اور جرات مندانہ اقدام کے سبب انگریزوں کو بھارت چھوڑنے پر مجبور کردیا تھا ، ہندوستان کی آزادی میں سبھی کا خون شامل ہے۔ مسلمان ، ہندو ، سکھ عیسائی ، دلت آدی واسی سبھی نے ایک ہوکر انگریزوں کے خلاف آزادی کی جنگ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیاتھا، مختلف تہذیب ، الگ الگ آئیڈلوجی ، متنوع نظریات اور مختلف خطہ کے لوگوں نے آزادی کی جنگ میں حصہ لیا تھا لیکن آج جنگ آزادی کی تاریخ بدلی جارہی ہے۔ آزادی کے ہیروز کو گمنا م بنانے کی سازش رچی گئی ہے ، جن لوگوں نے آزادی کی جنگ میں حصہ لینے سے گریز کیا تھا بلکہ انگریزوں کا ساتھ دیاتھا ان کو ہیرو بنانے کی کوشش کی جارہی ہے ، ان کی قربانیوں کو اہتمام کے ساتھ بتایا جارہا ہے اور مسلمانوں کی قربانیوں کو فراموش کیا جارہا ہے ، مسلم مجاہد ین آزادی کے ناموں کو ہٹایا جارہاہے ،ان کی قربانیاں اور خدمات تاریخ کے اوراق سے غائب کردی گئی ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف آر ایس ایس کی یہ بدترین سازشوں میں سے ایک ہے۔
جہاں تک بات ہے تاریخ بدلنے کی ، مسلمانوں کی شبیہ خراب کرنے اور اسے غلط دکھانے کی تو یہ صر ف مجاہدین آزادی تک محدود نہیں ہے بلکہ ہندوستان میں حکومت کرنے والے تمام حکمرانوں کی تاریخ ہی غلط پیش کی جارہی ہے ، تاریخی حقائق کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کئے جارہے ہیں ، مسلم بادشاہوں کے بارے میں جھوٹی کتابیں لکھی جارہی ہیں ، جھوٹی تاریخ پر مبنی فلمیں بنائی جارہی ہیں اور اس طرح نئی نسل کو ان سے بدظن کیاجارہاہے ، نئی نسل کے ذہنوں کو پراگندہ کیا جارہے ، نئی نسل کو بتایاجارہاہے کہ مسلمان بادشاہوں نے یہاں کے عوام پر بے انتہائ ظلم کیا ، ہندو اور مسلم کے درمیان تفریق برتی جبکہ حقیقت اور تاریخی سچائی اس کے برعکس ہے ، مسلمانوں حکمرانوں نے مذہب کے نام پر کبھی کوئی تفریق نہیں برتی ، مغلیہ بادشاہت ، اس سے قبل ابراہیم لودھی ، علاﺅ الدین خلجی اور مملکت غلاماں کی حکومت میں ہندﺅوں کو بڑے بڑے مقام اور رتبے حاصل تھے، اہم ترین وزراتوں پر یہ فائز ہوتے تھے۔
ہندوستان کی مثال آج بھی دنیا میں پیش کی جاتی ہے کہ یہاں مختلف مذہب ، تہذیب اور ذات کے لوگ ایک ساتھ صدیوں سے آباد ہیں ،باہم شیر وشکر رہتے ہوئے آرہے ہیں لیکن آر ایس ایس کی منصوبہ بندی ہے کہ بھارت میں مختلف تہذیب اور کلچر نہ رہے ، یہاں کے سبھی شہری خود کو ایک تہذیب کا پیروکار سمجھنے لگیں ، سبھی کی پہچان ایک ہندو قوم کے طور پر ہو ، آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت لگاتار اس پر فوکس کررہے ہیں ، گذشتہ کچھ سالوں سے وہ اپنی ہر تقریر میں یہ جملہ داہرارہے ہیں کہ بھارت کے سبھی لوگ ہندو ہیں ، سبھی کے آباﺅ اجداد ایک ہیں ، سبھی کا ڈی این اے ایک ہے اور اس طرح بطور قوم سبھی ایک ہیں۔ موہن بھاگوت اور آر ایس ایس کے اس بیانہ کے پیچھے ان کے مقصد یہ ہے کہ پوری دنیامیں ایک ہندو قوم کا تعارف ہوجائے ، ابھی تک دنیا میں ہندو قوم کا کوئی تعارف نہیں ہے ، بھارت میں جو لوگ رہتے ہیں آئے ہیں ان کی پہچان ہندو قوم کی کبھی رہی بھی نہیں ہے ، برہمن ،راجپوت اور دلتوں کے ذریعہ ہی پہچان رہی ہے ، مذہب کے طور پر سنسکرت کا نام آتاہے ، ہندو اور ہندتوا جیسے لفظ کا تعلق کبھی بھی مذہب ، قوم اور کلچر سے نہیں جوڑا گیا۔ اس لفظ کی حیثیت بس اتنی سی تھی کہ سندھو سے نکلا ہوا لفظ ہندو ہے اور اسی سے ہندوستان بناہے ، کسی تہذیب ، کلچر اور قوم کا اس سے کوئی رابطہ نہیں ہے لیکن پچھلے دو سو سالوں میں ایک منصوبہ بندی کے تحت سنسکرت دھرم کے ماننے والوں کو ہندو دھرم کا پیرو کار کہاگیا ، دھیرے دھیرے دلتوں کو بتایاگیا کہ اس کا دھرم ہندتوا ہے ، پھر بڈھسٹوں ،جینیوں اور دوسرے مذاہب کو بھی اسی میں ضم کرنے کی کوشش کی گئی او راب مسلمانوں کو ہندو قوم کے طور پر پیش کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ اسی ایجنڈا کے تحت باربار کہاجاتاہے کہ بھارت میں جنم لینے والے سبھی شہری ہندو ہیں لیکن موہن بھاگوت صاحب کایہ نظریہ حقیقت کے خلاف ، بھارتیہ روایات سے متصادم اور جھوٹی پر مبنی ہے۔ ہندو کا لفظ بطور قوم کبھی بھی استعمال نہیں ہوا ہے اور نہ ہی اس لفظ میں اتنی صلاحیت ہے کہ یہ قومیت کی پہچان اور شناخت بن سکے ، قوموں کی تشکیل تہذیب ، کلچر اور ثقافت سے ہوتی ہے ، کچھ لوگوں کا مانناہے کہ قوموں کی تشکیل مذہب سے ہوتی ہے ، دونوں بنیاد پر ہندو لفظ میں یہ صلاحیت نہیں ہے کہ وہ قومیت کے مفہوم کی ترجمانی کرسکے ،بھارت کے عوام کے تہذیب اور ثقافت کبھی بھی ایک نہیں رہی ہے ، سا?تھ انڈیا کے لوگوں کی تہذیب الگ ہے ، نارتھ انڈیا کی تہذیب الگ ہے ، ویسٹ کی تہذیب الگ ہے اور نارتھ کی تہذیب الگ ہے ، سماجی طور پر زندگی گزار نے ، رشتہ طے کرنے ، شاد ی بیاہ ، رسومات ، عبادات ، آپسی معاملات ، کھان پان سب کچھ الگ الگ ہے۔ خاص طو رپر سا?تھ انڈیا اور نارتھ انڈیا کے عوام کے طرز زندگی میں جو تفریق پائی جاتی ہے اس میں دور دور تک کوئی یکسانیت نہیں ہے ، خود مسلمانوں کی تہذیب الگ ہے ، ساﺅ تھ انڈیا میں ہندو اور مسلمان دونوں کی تہذیب کا کچھ حصہ مشترک ہے لیکن نارتھ انڈیا میں یہاں بھی بہت زیادہ فرق پایاجاتاہے اس لئے یہ دعوی مسترد ہے کہ بھارت کے سبھی لوگوں کی تہذیب اور ثقافت ایک ہے اور جب مشترکہ تہذیب کا دعوی غلط ثابت ہوگیا تو تہذیبی طور پر سبھی کا ہندو ہونا بھی غلط ہے ، اسے صحیح نہیں کہاجاسکتاہے ، اگر یہ کہاجائے کہ قوم کی شناخت مذہب سے ہوتی ہے او رمذہبی طور پر سبھی بھارتیہ ہندو ہیں تو یہ دعوی بھی سرے سے خارج ہوجاتاہے کیوں کہ بھارت میں الگ مذہب کے لوگ رہتے ہیں ، سنسکرت دھرم کے ماننے والے اگر ہندو قوم کہلائیں گے تو پھر مسلمان ، سکھ ، عیسائی ، بڈھسٹ اور دوسرے ہندو نہیں ہوسکتے ہیں کیوں کہ یہ لفظ ایک مخصوص دھر م کے ساتھ خاص ہوگیا ہے۔ مجموعی طور پر ہندوستان کے سبھی لوگوں کو ہندو قرار دینے کی کوئی وجہ نہیں ہے ، یہ دعوی سرے خارج ہوجاتاہے ، ایسا کہنا محض ہٹ دھرمی ہے ، ہند جگہ کا نام ہونے کی وجہ سے ہندی اور ہندوستانی کہاجاتاہے لیکن ہندو بطور ایک قوم کہنا سراسر غلط ، بکواس اور بے معنی ہے اور سچائی یہی ہے کہ ہندوستان کے لوگ مختلف قوم ، تہذیب ، ثقافت ، کلچر اور مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اور برسوں باہم شیرو شکر رہتے ہوئے یہاں آباد ہیں۔یہی بھارت کی شناخت اور پہچان ہے اور اسے قائم رہنا چاہیئے ، جو لوگ اسے ختم کرنے کی کوشش کررہے ہیں ، سبھی بھارتیہ کی تہذیب کو ضم کرنے کی جدوجہد کررہے ہیں وہ بھارت شناخت ، پہچان اور فطرت کے خلاف اقداما ت کررہے ہیں جس میں کبھی بھی کامیابی نہیں مل سکتی ہے اور ایسے لوگوں کی مخالفت ضروری ہے۔
دستور ہند میں جو حقوق اور اختیار ات دیئے گئے ہیں اسے پامال کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں، آزادی ، مساوات ، انصاف اور بھائی چارہ پر لگاتارحملہ ہورہاہے ، آئین ہند میں دیئے گئے سبھی کو یکساں حقوق سلب کرنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے ، پوری طاقت کے ساتھ یہ کوشش کی جارہی ہے کہ منواسمر تی کو نافذ کردیاجائے اور ایک مرتبہ پھر دلتوں کو غلام بنادیاجائے ، ان حاصل شدہ مساوات ، انصاف اور آزادی کے حق کو سلب کرلیاجائے ، عورتوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالاجارہاہے ، خواتین کی عزت وعصمت محفوظ نہیں ہے ، ریپ کے واقعات آئے دن بڑھتے جارہے ہیں، لائ اینڈ آڈر کا فقدان ہے ، کرائم ، ماب لنچنگ ، مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی اور غنڈہ گردی لگاتار بڑھتی جارہی ہے ، احترام انسانیت اور اکرام انسانیت کے جذبے کا فقدان ہے۔ ان حالات میں ضرورت ہے بابائے قوم مہاتماگاندھی کے بتائے ہوئے راستہ پر چلنے کی ،انہوں نے ملک کیلئے جو نقشہ کھینچا تھا ، ملک کو جس راہ پر گامزن کیاتھا اسے اپنا آج کے حالات میں ضروری ہے۔
بہر حال ملک سنگین صورت حال سے دوچار ہے،آئین ہند کی روح پامال ہور ہی ہے ، انصاف ، مساوات اور آزادی کا حقدار سبھی کو ٹھہرانے کے بجائے اسے مخصوص کیاجارہاہے، دلتوں ، آدی واسیوں کو دوبارہ غلام بنانے کی سازش رچی جارہی ہے ، مسلمانوں ، عیسائیوں اور دوسری اقلیتوں کے خلاف اکثریت کے ذہن میں نفرت پیدا کی جارہی ہے ، تاریخ کے اوراق سے مسلمانوں کا نام مٹایاجارہاہے ، جن لوگوں نے دیش کیلئے کوئی قربانی نہیں دی انہیں ہیرو بناکر پیش کیا جارہاہے۔ ایسے حالات میں یہ سوال اٹھتاہے کہ کیا ایسے حالات میں ملک امن کا گہوراہ بن سکتاہے ، مظلوموں کو انصاف مل سکتاہے ، انسانوں کا احترام اور اکرام باقی رہ سکتاہے اور سب سے بڑا سوال بھارت کی شناخت اور پہچان پر ہے کہ اسے کیوں ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ، پوری دنیا میں اپنی نمایاں شناخت رکھنے والے بھارت کی اس خصوصیت کو کیوں خطرہ میں ڈال دیاگیاہے اور کیا یہ سب کرکے بھارت کی ترقی ہوگی ، دنیا میں اہمیت بڑھے گی یا پھر ذلت ورسوائی اور ندامت کا سامنا کرنے پڑے گا ، ایک ایسے وقت میں جب دنیا کے ممالک اپنے یہاں متنوع تہذیب ، کلچر اور مختلف مذہب کی بات کررہے ہیں ، سیکولزم اور جمہوریت کی جانب مضبوطی سے قدم بڑھارہے ہیں ،آر ایس ایس اس کے برعکس جاکردیش کی ترقی ، کامیابی اور خصوصیت کو کیوں نقصان پہونچانا چاہتی ہے ؟
( مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)