ٹرمپ کی انتہاء پسندی

پس آئینہ : شمس تبریز قاسمی
’’ہم دنیاسے بنیاد پرست اسلامی دہشت گردی کا خاتمہ کرکے رہیں گے‘‘ ، اس جملے کے ساتھ 20 جنوری 2017 کو ڈونالڈ ٹرمپ نے 45 ویں امریکی صدر کی حیثیت سے اپنے منصب کا حلف لیا تھا اور دس دنوں کی مدت میں انہوں نے خود انتہاء پسندی اور بنیاد پرستی پر عمل کرنا شروع کردیا ہے، اپنے دورِ صدارت کا آغاز انہوں نے ایک ایسے انتہاء پسندانہ فیصلہ سے کیا ہے جس کی سب سے زیادہ مخالفت خود امریکی عوام کررہی ہے۔
دورصدارت کے پہلے ایگزیٹیو آڈر پر دستخط کرتے ہوئے ٹرمپ نے شام ، ایران، عراق، لیبیا، صومالیہ، سوڈان اور یمن سے تعلق رکھنے والے زائرین پر 90 دنوں کیلئے امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد کردی ہے، اس فیصلے کے نتیجے میں کسی کو امریکی ایئر پورٹ سے واپس بھیج دیا گیا تو کسی کا اپنے عزیز واقارب کے یہاں جانا ممنوع اور غیر قانونی ہوگیا ،امریکی فوج میں ملازم میں ایک عراقی کی ماں کو ایئر پورٹ پر ہی تحول میں رکھ دیا گیااور بیٹے سے ملنے نہیں دیا گیا،اایک فوراسٹار عراقی جنرل کو امریکہ آنے سے رو ک دیا گیا جنہوں نے دہشت گردی کے خلاف امریکی فوج کا ساتھ دیا تھا اور سیکوریٹی کے پیش نظر انہیں فیملی کے ساتھ امریکہ منتقل کیا گیا تھا۔
ڈونالڈ ٹرمپ کے اس فیصلے کے بعد پوری دنیا میں ایک ہنگامہ برپا ہوگیا ہے، لیکن مخالفت صرف امریکہ میں عملی طور پر نظر آرہی ہے ،امریکہ کی بیشتر عوام وہاں کی معمولی اقلیت مسلم قوم کے ساتھ مکمل طور پر اظہارِ یکجہتی کررہی ہے ،ٹرمپ کے خلاف وہاں مسلسل مظاہرے ہورہے ہیں، امریکیوں نے خود کو مسلمان اندراج کرانے کا اعلان کیا ہے، سابق وزیر خارجہ نے بھی خود کو مسلمان رجسٹرڈ کرانے کا اعلان کیاہے، امریکی عدلیہ نے بھی ٹرمپ کے اس فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے، حلف برداری کے فوراً بعد خواتین نے ملین مارچ نکال کر ٹرمپ کی شدید مخالفت کرتے ہوئے یہ موقف پی کیا تھا کہ ٹرمپ کے دور میں مسلمانوں کو خطرات لاحق ہیں، ہم ہرقدم اپنے مسلم ہم وطنوں کے ساتھ ہیں،ان کی حفاظت کیلئے میدان میں آئے ہیں، ہم یکجہتی کیلئے اسکارف پہنیں گے ، اگر مسلمانوں کا رجسٹریشن شروع کیا گیا تو اپنا مسلمان رکھ کر رجسٹریشن کرائیں گے۔امریکی ریاست واشنگٹن ڈی سی کے پر اسیکیوٹر پوپ فیر گوسن نے ٹرمپ کے انتہاء پسندانہ فیصلے کو فیڈرل کورٹ میں چیلنج کرنے کی تیاری کررہے ہیں۔ امریکی اٹارنی جنرل سیلی ییٹس کو ٹرمپ نے ان کے عہدہ سے برخاست کردیا ہے محض اس وجہ سے کہ انہوں نے ٹرمپ کے فیصلے کی مخالفت اور تنقید کے ساتھ اپنے ماتحت تمام اہلکاورں کو یہ ہدایت جاری کردی تھی کہ وہ صدر ٹرمپ کے اس اقدام کا عدالتی دفاع نہ کریں کیونکہ وہ خود بھی کسی عدالت میں اس پابندی کے خلاف کسی سماعت کی صورت میں اس کا دفاع نہیں کریں گی،ٹرمپ کا یہ فیصلہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر مبنی ہے۔جن ممالک کے شہریوں پر پابندی عائد کی گئی ہے وہاں تعینات امریکی سفارت کاروں کو بھی سخت الفاظ میں وارننگ دے دی گئی ہے کہ وہ حکومتی احکامات کی تعمیل کریں یا پھر ملازمت سے دستبردار ہوجائیں ، انسانی حقوق اور ہمدردی کے نام پر پابندی لگائے ممالک کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کا ڈرامہ بند کریں ۔ مختلف تنظمیں مسلمانوں کو سہارا دے رہی ہیں، غیر مسلم وکلاء ایئر پورٹ جا کر بغیر کسی معاوضہ کے مسلمانوں کو امیگریشن چھڑارہے ہیں۔ وہاں کی مسلم تنظیمیں بھی مکمل حوصلہ ،اعتماد او ر اشتراک کے ساتھ جدوجہد کررہی ہیں۔ برطانیہ میں بھی مسلسل ٹرمپ کے خلاف مظاہرے ہورہے ہیں اور ٹرمپ کے مجوزہ سرکاری دورہ کو مستردکرنے کا مطالبہ شد ت کے ساتھ زور پکڑتا جارہا ہے۔ آٹھ لاکھ سے زائد لوگو نے دستخط کرکے ٹرمپ کے خلاف مباحثہ کرنے کا مطالبہ کیاہے۔
دوسری طرف مسلم ممالک اور ان کے حکمراں ٹرمپ کے مسلم مخالف فیصلے پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں، وہ شاید اس دن کا انتظار کررہے ہیں جب خود ان پر بھی پابندی عائد کردی جائے گی یا پھر وہ پس پردہ اپنے ایلچیوں کے ذریعہ ٹرمپ کی خدمت میں منت وسماجت کررہے ہیں کہ انہیں اس پابندی سے بخش دیا جائے ، ویسے یہ خبر ہے کہ آئندہ دنوں میں پاکستان، افغانستا ن اور سعودی عر ب پر بھی پابندی لگائی جاسکتی ہے ۔ گذشتہ دنوں سعودی عرب کے فرماں روا شاہ سلمان اور ٹرمپ کے درمیان فون پر بات چیت ہوئی تھی، دونوں حکمرانوں نے سفارتی تعلقات میں پیش رفت کے عزائم کا اظہار کیا اور ایک دوسرے کی تعریف کرکے اپنے یہاں آنے کی دعوت دی ’’لیکن خادم حرمین شریفین سے یہ نہیں ہوسکا وہ امت مسلمہ کی ہمدردی میں ٹرمپ کو ان کی انتہاء پسندی کا احساس دلائے یا پھر غیرت مند مسلم حکمراں ہونے کا ثبوت پیش کرتے ہوئے اس ملک کے دورے کی دعوت کو ٹھکرادے جہاں ان کے کلمہ گو بھائیوں کو دہشت گرد ٹھہراکر ان کے داخلے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ او آئی سی بھی خاموش ہے اور امریکی حکومت کے اس انتہاء پسندانہ فیصلے کی مذمت کرنے کی ان میں جرأت نہیں ہورہی ہے۔
ٹرمپ نے اپنے صدراتی انتخاب کا آغاز ہی انتہاء پسندی سے کیا تھا ، الیکشن کے دوران انہوں نے عظیم تر امریکہ بنانے ،مہاجرین کو دربدرکرنے اور مسلمانوں پر پابندی عائد کرنے کا وعدہ کیاتھا ،صدر بن جانے کے بعد ٹرمپ اپنے وعدے پر عمل کررہے ہیں اور عظیم تر امریکہ بنانے کیلئے وہ مسلمانوں کو دربد کرنا کامیابی کا حصہ تصور کرتے ہیں لیکن تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ ان سب کے باوجود ٹرمپ خود امریکیوں کے درمیان بھی مقبول نہیں ہیں ، انہیں اپنے مقابل ہیلڑی کلنٹن سے تین فیصد کم ووٹ ملے تھے ، حلف برداری کی تقریب میں صرف ایک لاکھ لوگوں نے شرکت کی تھی ، نیویارک ٹائمز کی رپوٹ کے مطابق 2009 میں جب باراک اوبامہ نے اپنے عہدے کا حلف لیا تھا تو اسٹیج کے چاروں طرف انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمند ر نظر آرہا تھا جس کی تعداد تقریباً چار لاکھ سے زائد رہی ہوگی لیکن 20 جنوری 2017 کو جب ٹرمپ اپنے عہدے کا حلف لے رہے تھے تو تین طرف کا حصہ مکمل خالی تھا، کوئی بھیڑنہیں تھی، کوئی ہجوم نہیں تھا، جبکہ اسی کے بعد ٹرمپ کی مخالفت اور مسلمانوں کی موافقت میں خواتین کی جانب سے نکالا گیا ملین مارچ میں اس سے کئی گنا زیادہ بڑا تھا، نیوریارک ٹائمز نے تصویر شائع کرکے تفصیل کے ساتھ لکھا تھا کہ خواتین مارچ میں ٹرمپ کی تقریب سے دوگنا زیادہ بھیڑی تھی۔ میڈیا کی یہ سچی رپوٹ بھی ٹرمپ کو برداشت نہیں ہوئی تھی اور دوسرے دن ہی انہوں نے پریس پر حملہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ میڈیا کو دنیا کا سب سے بڑا فسادی کہہ دیا۔
بہر حال ٹرمپ کسی کی سنے بغیراپنے عہد وپیمان پر قائم ہیں اور اپنے انتہاء پسندانہ فیصلہ کو عملی جامہ پہنانے کیلئے تمام حدوں کو پارکرنے پر آمادہ ہوچکے ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ ٹرمپ اپنے کن کن وعدوں کو اور پورا کرتے ہیں ۔
(کالم نگار ملت ٹائمز کے ایڈیٹر ہیں)
stqasmi@gmail.com

SHARE