قانون کے نفاذ میں بھید بھاؤ کیوں؟

نقطۂ نظر: ڈاکٹر محمد منظور عالم

کسی بھی معاشرہ ، ملک،تنظیم اور سوسائٹی میں امن وامان ، سلامتی اور انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے قانون سازی اور اس کو عملی جامہ پہنانا ضروری ہے ۔ حالیہ دنوں میں تقریبا دنیا کے ہر ایک ملک ، ہر ایک تنظیم اورادارہ میں قانون اور دستور موجودہے ۔ معمولی اداروں سے لیکر ملک تک کو چلانے کیلئے دستور اور قانون وضع کئے گئے ہیں تاکہ مرتب نظام عمل ہوسکے ، ہر طرف سکون اور سلامتی رہے ، ہر کسی کو اطمینان رہے ۔

اسی لئے قانون کی تعریف کرتے ہوئے کہاگیا ہے کہ قانون دراصل اجتماعی اصولوں پر مشتمل ایک ایسا نظام ہوتا ہے جس کو کسی ادارے کی جانب سے کسی معاشرے کو منظم کرنے کرنے کے لیے نافذ کیا جاتا ہے اور اسی پر اس معاشرے کے اجتماعی رویوں ،امور اور کارکردگی کا دارومدار ہوتا ہے۔

دوسرے لفظوں میں اس کو یوں کہا جاسکتا ہے کہ قانون ؛ رسمی اصول اور نظمیت کا ایک ایسا نظام ہے جو قانون اساسی، تشریع یعنی وضع قانون، عدالتی رائے اور اسبق جیسے شعبہ جاتِ عدل و انصاف اور حکومتی تضبیط پر محیط ہوتا ہے اور اسے معاشرے پر لاگو کرنے یا نافذ کرنے کے لیے (جب اور جتنی ضرورت پڑے) ریاستی طاقت کو استعمال میں لایا جاتا ہے۔

قانون مکمل معاشرے پر لاگو کیا جاتا ہے اس لیے یہ اس معاشرے میں بسنے والے ہر ہر فرد کی زندگی پر اثرانداز ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک قانون” عہد“ہے، جو ہر خریدی جانے والی چیز کی نظمیت کرتا ہے خواہ وہ ایک میڈیا ہاﺅس ہو ، تنظیم ہو ہو یا ایک مالیاتی ادارہ سے متعلق کسی ماخوذہ بازار سے خریدا گیا کوئی مبادلہ ہو۔اسی طرح قانون جائیداد، جو غیرمنقولہ جائیداد جیسے گھر، عمارت اور جائیداد وغیرہ کو خریدنے، بیچنے اور کرایے پر دینے سے متعلق لوازمات اور فرائض کا تعین کرتا ہے۔چناں چہ دنیا میں ملکی نظام کو چلانے کے لیے مختلف نظریات کے تحت قوانین بنائے گئے ہیں اور ان کے اجرا و نفاذ کے لیے ہر ممکن اقدامات کئے جاتے ہیں ۔ قانون پرعمل کو یقینی بنانے کیلئے متعدد ادارے کام کرتے ہیں ، کئے سارے محکمہ مستقل قانون کی پاسداری کو یقینی بنانے کیلئے قائم ک ئے جاتے ہیں لیکن کہیں اس کاخاطر خواہ نتیجہ سامنے آتاہے اور کہیں قانون کے باوجود لاقانونیت نظر آتی ہے ۔ بدامنی کا ہی بول بالا ہوتاہے ۔

 بھارت دنیا کے ان ملکوں میں شامل ہے جہاں کا آئین اور دستور جامع ہے ۔ جس میں سبھی مذاہب ، ذات ، نسل اور زبان کے جاننے والوں کو یکساں حیثیت دی گئی ہے ۔ ہر ایک کوبنیادی حقوق فراہم کئے گئے ہیں ۔ سبھی کیلئے آزادی ، انصاف ، مساوات اور بھائی چارہ کی بات کی گئی ہے ۔ کسی کو کسی پر کوئی بھی فوقیت اور دستر س حاصل نہیں ہے ۔ قانون کی نظر میں سبھی کی ایک جیسی حیثیت ہے ۔ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے ۔ قانون کی نظر میں بر سراقتداور حاکم وقت کے ساتھ ایک عام آدمی کی بھی حیثیت برابر ہے اور یہی چیزیں بھارت کو عالمی سطح پر ممتاز بناتی ہے کہ یہاں جمہوریت ہے ، قانون ہے اور جامع آئین ہے لیکن اس کا دوسرا پہلو انتہائی شرمناک اور افسوسناک ہے کہ قانون کے نفاد میں بھید بھاﺅ کیا جاتاہے ، ذات ، دھرم اور مذہب دیکھ کر قانون پر عمل کیا جاتاہے ۔ جرم ایک جیسا ہوتاہے لیکن کسی کو سزا دی جاتی ہے او ردوسرے کو نظر انداز کردیاجاتاہے اور یہیں سے انارکی ، بدامنی اور بدنظمی کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ۔ کسی بھی معاشرہ ، سوسائٹی اور ملک کی کامیابی کیلئے جتنا ضروری قانون سازی ہے اس سے زیادہ ضروری انصاف کے ساتھ قانون کا نفاذ ہے ۔ آئین کے مطابق انصاف دیناہے ۔جب قانون کے نفاذ میں مذہب کو دیکھنے کا سلسلہ شروع ہوجاتاہے ، ذات ، نسل اور علاقہ کی بنیاد پر جرائم کی فہرست بنائی جاتی ہے ، شناخت ، حیثیت اور مذہب دیکھ کر قانون نافذ کیا جاتاہے تو پھر جرم کا سلسلہ کم ہونے کے بجائے بڑھنے لگتاہے ، جرائم پیشہ عناصر کے حوصلے بلند ہوجاتے ہیں ، ایک کمیونٹی کے حوصلے پست ہوجاتے ہیں ،ان کے اندر خوف وہر ا س پیدا ہوجاتاہے دوسری طرف ایک کمیونٹی خود ہی قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیتی ہے ، پولس اور انتظامیہ کے بغیر خود ہی قانون نافذ کرنے لگتی ہے ، خود ہی ایکشن لینا شروع کردیتی ہے ، ایسے عناصر خود کو قانون سے بالاتر سمجھنے لگتے ہیں اور پھر یہیں سے قانون کی دھجیاں اڑنے لگتی ہے ، معاشرہ اور سماج میں انارکی پھیل جاتی ہے اور لاقانونیت بڑھنے لگتی ہے ۔

ہمارے ملک میں اب لگاتار ایسے واقعات پیش آرہے ہیں جہاں قانون نافذ کرنے والے ادارہے دباؤ میں کام کررہے ہیں ، ایک جیسا معاملہ ہوتاہے لیکن کسی کے خلاف ایکشن لیتے ہیں اور کسی کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کرتے ہیں، بہت سارے معاملات ایسے ہوتے ہیں جو قانونی طور پر صحیح ہوتے ہیں ، کوئی غیر قانونی عنصر اس میںشامل نہیں ہوتاہے لیکن کسی کی شکایت پر پولس انتظامیہ اس کو غیر قانونی قرار دیکر کیس درج کرلیتی ہے اور جیل بھیج دیتی ہے۔ بعض معاملوں میں شرپسند عناصر خود ہی قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں ، خود کسی کو مجرم بنادیتے ہیں ، اس سے تفتیش شروع کردیتے ہیں اور پھر بری طرح مارنا شروع کردیتے ہیں ،کئی مرتبہ جان سے مار دیتے ہیں اور پولس بھی ایسے عناصر سے پوچھ تاچھ نہیں کرتی ہے کہ ان لوگوں نے خود کیوں قانون کو ہاتھ میں لینے کی کوشش کی تھی ۔نہ ہی ایسے شرپسندوں اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف کوئی قانونی کاروائی کی جاتی ہے ۔

حالیہ دنوں میں ایسے دسیوں واقعات سامنے آئے ہیں جس میں سے چندہ کا تذکرہ بطور مثال یہاں کررہے ہیں جیسے عوامی مقامات پر نماز پڑھنا کوئی آج کی بات نہیں ہے اور نہ ہی اس سے کسی کے جذبات مجروح ہوتے ہیں ۔ مختلف مذاہب کے ماننے والے اپنے مذہب پر عوامی جگہوں پر عمل کرتے ہیں اور ایک دوسرے کا باہمی احترام ہندوستان کی شناخت رہی ہے لیکن اب پلیٹ فارم ، اسٹیشن اور ایسی جگہوں پر نماز پڑھنے کی وجہ سے کیس درج کیا جارہاہے ۔ دوسری کمیونٹی کے لوگ پر بھی سڑکوں پر پوجاکرتے ہیں ، اپنے مذہب کی نمائش کرتے ہیں ، سرعام اپنے مذہبی امور کو انجام دیتے ہیں لیکن کوئی اعتراض نہیں کیا جاتاہے ۔

اتر پردیش کا ہی معاملہ ہے ، 15 سال کے ایک اسکول کے طالب عالم پر اساتذہ نے گھڑی چوری کا الزام عائد کیا اور پھر کمرہ بند کرکے تین استاذ نے ایک ساتھ مارنا شروع کردیا اتنا مار ا کہ اس کی موت ہوگئی ۔ آخر کیوں ؟ ۔ ان اساتذہ نے خود قانون کو ہاتھ میں لینے کی کوشش کیوں کی ؟۔ بہار کے ویشالی میں کچھ لوگ بھیک مانگ رہے تھے ، بجرنگ دل کے ممبران نے ان سبھی کو پکڑ کرجانچ شروع کردی اور بری طرح مارنا پیٹنا شروع کردیا ۔

یہ محض ایک دو مثال ہے ورنہ ایسے واقعات کی لمبی فہرست ہے جہاں جرم ایک جیسا ہوتاہے ، لیکن کسی پرقانون نافذ کیا جاتاہے اور کسی پر قانون کا کوئی اطلاق نہیں ہوتاہے ۔ بر سبیل تذکرہ نوپور شرمااور محمد زبیر کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ جس نے جرم کیا اس کی ابھی تک گرفتاری نہیں ہوسکی ہے جس نے جرائم کو بے نقاب کیا اسی کو جیل جانا پڑا ۔

سوال یہی ہے کہ آخر قانون کے نفاذ میں بھید بھاؤ کیوں ہے؟ ۔ قانون کا اطلاق سبھی پربرابری کے ساتھ کیوں نہیں ہورہاہے ؟۔ قانون سبھی پر یکساں طور پر کیوں نافذ نہیں کیا جاتاہے ؟۔ ذات ، شخصیت ، عہدہ اور منصب دیکھ کر کیوں قانون نافذ کیا جاتاہے ۔ جرم کی نوعیت اور اس کے سنگین اثرات کو دیکھنے کے بجائے جرم کا ارتکاب کرنے والی کی حیثیت اور مرتبہ دیکھ کر کاروائی کیوں کی جاتی ہے ؟۔جمہوری ملک میں قانون کو جمہوری طور پر اہمیت کیوں نہیں دی جاتی ہے ۔ قانون کی پاسداری کرنے والے ادارے خود ہی کیوں قانون کی دھجیاں اڑاتے ہیں ۔ آئین ہند کی تمہید میں مساوات، آزادی ، انصاف اور بھائی چارہ شامل ہے لیکن اس کے باوجود اس پر عمل نہیں کیا جاتاہے ۔ عوام کے ساتھ برابری ، آزادی اور انصاف کا معاملہ نہیں کیا جاتا ہے ۔

جمہوریت کی مضبوطی ، ملک کی ترقی ،عوام کی خوشحالی اور عالمی سطح پر شناخت اور دبدبہ حاصل کرنے کیلئے برابری اور انصاف کے ساتھ قانون کا نافذ کرنا ضروری ہے ۔حال ہی میں سپریم کورٹ آ ف انڈیا کے چیف جسٹس کا یہ بیان سامنے آیا ہے کہ جمہوریت اسی وقت قائم اور مضبوط رہے گی جب سبھی کو جمہوریت میں حصہ داری ملے گی ، ہر ایک شہری کو اظہار رائے کی مکمل آزادی حاصل ہوگی ۔ اس کے علاوہ جمہوریت میں ترقی اور خوشحالی اسی وقت ممکن ہے جب معیشت میں سبھی کی حصہ داری ہوگی صرف چند لوگوں کی معیشت پر اجارہ داری نہیں ہوگی ۔ ایسا ملک جہاں معیشت صرف چندلوگوں کے ہاتھوں میں ہوتی ہے ۔ معاشی نظام پر صرف چند مخصوص افراد کا کنٹرول ہوتاہے وہاں جمہوریت کمزور ہوجاتی ہے ۔ ترقی اور خوشحالی کا سلسلہ ختم ہوجاتاہے ۔ اس لئے جمہوریت میں ہر ایک کو اظہار رائے کی آزادی اور ہر ایک کی ترقی ضروری ہے ۔

(مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹر ی ہیں)

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com