سعودی عرب، عراق اور عرب ازم

ترکی الدخیل
عراق کے شمالی شہر موصل کے مغربی حصے میں لڑائی شدت اختیار کرچکی ہے۔ کرد صحافیہ شفا کردی اور ان کا ساتھی فوٹو گرافر یونس مصطفیٰ وہاں جنگی وقائع نگاری کے لیے گئے تھے۔ شفا کا چہرہ غم زدہ تھا لیکن پیشے سے لگن کے پیش نظر وہ میدان جنگ میں کود گئیں۔
شفا کردی فرائض کی انجام دہی میں لڑائی کا قریب نظری سے مشاہدہ کر رہی تھیں اور اطلاعات اور معلومات کو ریکارڈ کر رہی تھیں۔ اس دوران میں داعش کی بچھائی گئی ایک بارودی سرنگ پر ان کا پاؤں آ گیا۔ دھماکا ہوا اور وہ جان کی بازی ہار گئیں۔ اس منظر سے دہشت گردی کی بیخ کنی کے لیے بین الاقوامی خواہش کی تفہیم آسان ہو جاتی ہے۔ سعودی عرب عراق کو اس طرح کی طوائف الملوکی کا شکار رہتے نہیں دیکھ سکتا۔
گذشتہ ہفتے کے روز جب کرد صحافیہ کی بارودی سرنگ کے دھماکے میں موت واقع ہوئی تو سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر غیرعلانیہ دورے پر بغداد میں تھے۔1990ء کے بعد کسی سعودی وزیر خارجہ کا عراق کا یہ پہلا دورہ تھا۔اس کا مقصد واضح اور براہ راست تھا اور وہ یہ کہ عراق کو عرب دھارے میں واپس لایا جائے اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اس ملک کے ساتھ رابطہ کاری پر تبادلہ خیال کیا جائے۔بالخصوص اس لیے بھی کہ دہشت گردی کا خطرہ عراق اور شام کے وسیع علاقوں تک پھیلا ہوا ہے۔
دانش کے فقدان پر مبنی پالیسیاں
عراق کو دانش کے فقدان پر مبنی پالیسیوں کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔یہ ستمبر 1980ء کی بات ہے۔اس وقت عراق کے صدر صدام حسین نے سعودی عرب کے فرمانروا شاہ فہد بن عبدالعزیز مرحوم سے خوش گوار موڈ میں کہا کہ وہ ایران کے خلاف جنگ چھیڑنا چاہتے ہیں۔اس پر شاہ فہد نے ان سے سوال کیا کہ وہ یہ جنگ کیوں چھیڑنا چاہتے ہیں؟اس کے جواب میں صدام حسین نے کہا کہ ایران کی اشتعال انگیزیاں بڑھتی جارہی ہیں۔اس پر شاہ فہد نے انھیں نصیحت کی کہ وہ کسی معقول جواز کے بغیر ایران کے خلاف یہ جنگ شروع نہ کریں۔
صدام حسین نے ان کے اس مشورے پر یہ جواب دیا:’’ میں ایران پر چڑھائی کروں گا۔خمینی کو ڈاڑھی سے پکڑ کھینچوں گا اور انھیں ایران سے نکال باہر کروں گا‘‘۔پھر شاہ فہد یوں گویا ہوئے:’’آپ انھیں ڈاڑھی سے پکڑ کر نہیں کھینچ سکیں گے بلکہ وہ آپ کو ٹائی سے پکڑ کر کھینچیں گے۔عقل اور منطق کی بنیاد پر کوئی فیصلہ کیجیے‘‘۔
صدام حسین نے شاہ فہد کی نصیحت پر کان نہیں دھرے اور ایران کے خلاف جنگ چھیڑ دی جس نے عراق اور دوسرے خلیجی ممالک کو نڈھال کردیا۔سنہ 2003ء میں صدام حسین نے شیخ زاید کے منصوبے کو مسترد کر دیا۔امریکی تب عراق کے خلاف طبلِ جنگ بجا رہے تھے۔سعودی عرب ان ممالک میں سے ایک تھا جو اس جنگ کی مخالفت کررہے تھے کیونکہ اس جنگ کا مطلب عراق کو مکمل طور پر ایران کے حوالے کردینا تھا۔
عراق ایک عراقی صحافی اور سیاست دان حسن العلاوی کے بہ قول تین مراحل سے گزرا ہے۔بعثی ،امریکی اور ایرانی دور۔اس وقت عراق اسی موخرالذکر دور سے گزر رہا ہے۔یہی ایک سبب ہے کہ عادل الجبیر کا دورۂ عراق کیوں اہمیت کا حامل ہے اور اس کا مقصد یہی تھا کہ عراق کو دوبارہ عرب محور میں واپس لایا جائے۔ یقینی طور پر یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔
اس ضمن میں سب سے بڑا چیلنج شیعہ سخت گیری (ریڈیکل ازم) ہے۔اس کو بعض پالیسیوں اور فیصلہ سازی کے عمل میں اختیار کیا گیا ہے۔ بالخصوص جماعت الدعوہ کے وابستگان اور ان گروہوں یا شخصیات نے اختیار کیا ہے جو حقیقی معنوں میں ایران کی حمایت کرتے ہیں اور اس کے لیے انھوں نے اپنے دَر اور سرحدیں وا کر رکھی ہیں۔
ایران کے عراق میں اثرات
یہ کوئی سربستہ راز نہیں کہ نوری المالکی عراق میں ایران کی موجودگی کا اہم ستون ہیں اور انھوں نے کبھی اس بات کو نہیں چھپایا۔ ایک مرتبہ انھوں نے کہا تھا کہ ’’عراقی جن ہتھیاروں سے لڑرہے ہیں، وہ ایرانی ہیں‘‘۔انھوں نے امریکا کو بھی اپنی حمایت نہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
اس سے نوری المالکی کو منظرعام پر لانے والی ایک شخصیت کی تنقید کی بھی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ معروف صحافی اور سیاست دان فواد اعجمی نے نوری المالکی کا نام تجویز کرنے پر افسوس کا اظہار کیا تھا۔وہ اس بات میں یقین رکھتے ہیں کہ مالکی ایک ایسے موقع پرست فوجی تھے جو عراق کے اتحاد کو تہس نہس کرتا رہا ہے اور جس نے ملک کے تاریخی ،مذہبی ، نسلی اور لسانی تنوع کو ملحوظ خاطر رکھے بغیر فرقہ وارانہ بنیاد پر فیصلے اور اقدامات کیے تھے۔
سعودی عرب نے عراقی وزیراعظم حیدرالعبادی کو ان کی سکیورٹی فورسز کی مسلح گروپوں کے خلاف کامیابیوں پر مبارک باد دی ہے۔اس نے بغداد کے لیے سفیر نامزد کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور وہ عراق کے استحکام اور اتحاد کے لیے اپنی عسکری اور سکیورٹی خدمات مہیا کرنے کو بھی تیار ہے۔
پھر ایک اہم بات یہ ہے کہ سعودی عرب ہر کسی سے ایک ہی جیسے فاصلے پر ہے۔ یہ کوئی افسانہ نہیں ہے۔ اگر سعودی عرب صرف سُنیوں کی حمایت کرنا چاہتا تو وہ ایسا 2003ء کے بعد سے کررہا ہوتا جب ایران کی مداخلت سے قبل پورا خلا موجود تھا۔ تاہم سعودی عرب نے اول روز ہی سے عراق کے اتحاد اور سیاسی مصالحت کی حمایت کا فیصلہ کیا تھا اور اس نے بلا امتیاز انسانی امدادی کام کیا ہے۔مثال کے طور پر سعودی شاہ سلمان بن عبدالعزیز داعش کی کارروائیوں کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے ایک ہزار عراقی بچوں کی نگہداشت کا خرچہ برداشت کررہے ہیں۔
عراق بدستور ایک عرب ملک ہی رہے گا اور ایک دن آئے گا کہ وہ اپنی فطری جگہ یعنی عرب دنیا اور اسلامی تہذیب کی جانب لوٹ آئے گا۔
( ترکی الدخیل العربیہ نیوز چینل کے جنرل مینجر ہیں)
(بہ شکریہ العربیہ)