مولانا ندیم الواجدی
مدھیہ پردیش کا شہر اجین ایک قدیم تاریخی شہر ہے، برادرانِ وطن کے نزدیک یہ سرزمین مقدس اور متبرک مانی جاتی ہے، بارہ بارہ سال کے وقفے سے یہاں کنبھ میلہ لگتا ہے جس میں لاکھوں شردھالو اور سادھوسنت اپنے گناہوں سے مکتی پانے کے لیے شپرا ندی اشنان کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام بھی سری لنکا سے جدہ جاتے ہوئے یہاں سے گزرے تھے جس جگہ انھوں نے قیام کیا تھا وہاں مہاکال مندر بنا دیا گیا ہے، اورنگ زیب عالمگیرؒ نے اپنے عہد حکومت میں اس مندر کے لیے ستر بیگہہ اراضی وقف کرکے انسانی اور مذہبی رواداری کی ایک عظیم مثال قائم کی تھی، اس کا اثر آج تک اس شہر کی فضاؤں میں محسوس کیا جاتا ہے، انسانیت، اخلاق، ایثار وہمدردی، اتحاد ویگانگت اور باہمی رواداری جیسی اعلا صفات اس شہر کی بنیادوں میں پیوست ہیں، ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ مسلم آبادی والا یہ شہر ہندو مسلم اتحاد کی وجہ سے امن اور ترقی کا گہوارہ بنا ہوا ہے۔
آج کے کالم میں اس شہر کا ذکر اس لیے آیا کہ ۴ تا ۶ مارچ ۷۱۰۲ء کو اس سرزمین نے ہندو وبیرون ہند کے ممتاز علماء اور فقہاء کے ایک عظیم اور یاد گار اجتماع کی میزبانی کا شرف حاصل کیا، اس طرح کے اجتماعات ”اسلامی فقہ اکیڈمی“ کی جانب سے سال بہ سال مختلف شہروں میں منعقد کئے جاتے ہیں، یہ اس کا چھبیسواں اجتماع تھا، دار العلوم دیوبند کے ایک عظیم فاضل فقیہ الاسلام مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ نے اٹھائیس سال پہلے اس اکیڈمی کی بنیاد رکھی تھی، مقصد تأسیس یہ تھا کہ زمانے کے تغیرات سے جو نئے مسائل سامنے آتے ہیں اور فقہ اسلامی کی کتابوں میں ان کا کوئی واضح حکم نہیں ملتا ان پر غور وفکر کیا جائے اور ان مسائل کا حل تلاش کیا جائے، ہندوستان کے منتخب فقہاء، مفتیان کرام اور اہل علم اکیڈمی کی دعوت پر پہلے سے دئے ہوئے موضوعات پر غور وفکر کرکے کسی ایک جگہ جمع ہوتے ہیں اور باہمی مناقشے کے ذریعے شریعت کے طے شدہ اصولوں کی روشنی میں ان کا حل تلاش کرتے ہیں، گویا جدید فقہی مسائل کے استخراج اور قرآن وحدیث کی روشنی میں پیش آمدہ مسائل کے استنباط کی یہ ایک مربوط ومنظم کوشش ہے۔ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے، اس کا دائرہئ عمل پوری انسانیت ہے اور وقفہئ عمل رہتی دنیا تک ہے، تغیر پذیر دنیا میں نت نئے مسائل اور مشکلات کا وجود فطری تقاضا ہے، علماء کرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان مسائل اور مشکلات کا حل ڈھونڈیں اور امت کی رہ نمائی کا فریضہ انجام دیں، عالمی پیمانے پر کئی اکیڈمیاں اس مقصد کے لیے سرگرم عمل ہیں، ہندوستان کی اسلامی فقہ اکیڈمی بھی ۹۸۹۱ء سے یہ فریضہ انجام دے رہی ہے۔
اب تک اس اکیڈمی کے چھبیس اجتماعات منعقد ہوچکے ہیں، ان میں ڈیڑھ سو سے زیادہ موضوعات پر غور وفکر کیا گیا ہے اور دو سو تجاویز کو حتمی شکل دی گئی ہے، یہ تمام تجاویز ”فقہ اکیڈمی کے فیصلے“ نامی کتاب میں جمع بھی کردی گئی ہیں اور ہر موضوع سے متعلق علماء کرام کی تحقیقات پر مشتمل کتابیں بھی مرتب کرکے شائع کردی گئی ہیں، اکیڈمی کے فیصلوں سے برصغیر ہندوپاک اور بنگلہ دیش کے علاوہ یورپ، امریکہ اور مشرق وسطی کے ملکوں میں بھی رہ نمائی حاصل کی جاتی ہے۔
راقم الحروف بھی اکیڈمی کے اجتماعات میں شرکت کی سعادت حاصل کرتا رہا ہے، ”اجین“ کے اجتماع میں کئی اہم موضوعات زیر بحث آئے، (۱) سرکاری اسکیموں سے استفادہ۔ (۲) زمین کی خرید وفروخت سے متعلق چند مسائل۔ (۳) سونے چاندی کے کاروبار سے متعلق مسائل۔ (۴) فضائی اور صوتی آلودگی۔ ان میں سے ہر موضوع پر علوم فقہ میں مہارت رکھنے والے علماء نے اکیڈمی کی طرف سے جاری کئے جانے والے سوالات کی روشنی میں مقالات لکھے تھے، ان کی تلخیص اجتماع میں پیش کی گئی، وہاں موجود چار سو علماء کے درمیان سنجیدہ علمی مناقشہ ہوا، پھر ہر موضوع سے متعلق علماء کی الگ الگ کمیٹیاں تشکیل دی گئیں، جنھوں نے جوابات اور مناقشات کو سامنے رکھ کر سفارشات تیار کیں، ان سفارشات کو تجاویز کی شکل دی گئی، یہ تجاویز ہی اکیڈمی کے فیصلے کہلاتے ہیں۔
زیر بحث چاروں موضوعات اپنی اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہیں، راقم نے آخری موضوع کو زیر نظر مضمون کا عنوان بنایا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس موضوع کا تعلق پوری دنیائے انسانیت سے ہے، آج دنیا کے تمام ممالک کسی نہ کسی نوعیت کی فضائی آلودگی کا شکار ہیں، ہمارا ملک ان ملکوں میں سر فہرست ہے جہاں فضائی اور صوتی آلودگی نے طرح طرح کے مسائل پیدا کررکھے ہیں۔
ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے ہمارا ملک بین الاقوامی سطح پر بحث وگفتگو کا موضوع بن چکا ہے، پہلے فضائی آلودگی صرف شہری اور صنعتی علاقوں کے لیے ایک مسئلہ تھا، پچھلی دو تن دہائیوں سے ملک کے دیہی علاقے بھی اس آلودگی کی زد میں آگئے ہیں، تیز رفتار صنعتی ترقی کے نتیجے میں گھریلو پیداوار میں اضافہ تو ہوا ہے، مگر اس سے انسانی صحت کے لیے بڑے مسائل پیدا ہوگئے ہیں، پھر ہمارے ملک کی ترقی اور خوش حالی صرف شہروں تک محدود ہے اس لیے دیہات سے بڑی تعداد میں لوگ نقل مکانی کرکے خوش حالی کی تلاش میں بڑے شہروں کا رخ کررہے ہیں، اس کے نتیجے میں سڑکوں پر بھیڑ بڑھ گئی ہے، اور شہری علاقوں کی فضائی کیفیت دھماکہ خیز ہوتی جارہی ہے، ہندوستان میں صحت سے متعلق زیادہ تر مسائل ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے پیدا ہورہے ہیں، آج ہمارے ملک کو دنیا کی سب سے زیادہ خراب ماحولیات کا حامل ملک کہا جارہا ہے، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بیشتر صنعتیں ماحولیات کے تعلق سے رہ نما اصول اور ضوابط کی پابندی نہیں کرتیں، حکومت داخلی کرپشن کی وجہ سے ان صنعتوں کو ضوابط کا پابند کرنے میں ناکام ہے، ماحولیات کے سدھار کے متعلق جو اقدامات بھی کرنے ہیں ان کا تعلق حکومت سے ہے، لیکن عوام کی ذمہ داری بھی کچھ کم نہیں ہے۔
ماحولیات کے مسئلے پر فقہ اکیڈمی کے اس اجتماع میں جو گفتگو ہوئی اس سے پتہ چلتا ہے کہ دوسرے معاملات اور مسائل کی طرح اس معاملے میں بھی اسلامی تعلیمات موجود ہیں اور عوام اور حکومت دونوں ان تعلیمات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، بل کہ دونوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان تعلیمات سے فائدہ اٹھا کر ماحول کی کثافت اور آلودگی پر قابو پانے کی کوشش کریں اور نسل انسانی کو خالق کائنات کی رضا اور منشاء کے مطابق زندگی گزارنے کا موقع فراہم کریں، مشہور ماحولیات ڈاکٹر اسلم پرویز نے اپنی پرمغز تقریر میں ماحولیاتی کثافت کے ہر پہلو پر مدلل گفتگو سے علماء کرام کو سوچنے کا بہت کچھ موقع دیا ہے، ان کا یہ کہنا صحیح ہے کہ ماحولیاتی کثافت کی بنیادی وجہ ماحول کے قدرتی توازن میں مداخلت ہے، اللہ رب العزت نے اس کا ئنات کی ہر چیز کو نپی تلی مقدار میں اور باہم توازن کے ساتھ پیدا فرمایا ہے، یہ حقیقت قرآن کریم کی متعدد آیات میں واضح طور پر بیان کی گئی ہے، یہ حقیقت اگرچہ چودہ سو برسوں سے قرآن کریم کی آیات میں پوشیدہ تھی مگر انسان کے ہاتھوں قدرت کے پیدا کردہ توازن سے چھیڑ چھاڑ نے خود اس کے لیے بے شمار مشکلات پیدا کردی ہیں اور ان مشکلات کے سدّباب کے لیے ضروری ہے کہ انسان اس چھیڑ چھاڑ سے باز آئے اور جو توازن اس نے بگاڑا ہے اس کو اپنی اصل حالت پر واپس لانے کی کوشش کرے، اس کی ذمہ داری اگرچہ حکومت کی ہے، لیکن عوام بھی اس میں اپنا بڑا کردار ادا کرسکتے ہیں بل کہ انہیں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔
کھلے میں رفعِ حاجت کرنا، سڑکوں، پارکوں اور عام گزرگاہوں پرپان اور گٹکے کھاکر تھوکنا، پیشاب کرنا، گھروں کا آلودہ پانی گلیوں میں بہانا، گھروں کی گندگی اور کوڑا کرکٹ عام جگہوں پر ڈالنا، تعمیراتی کاموں کے وقت گردوغبار روکنے کی تدابیر اختیار نہ کرنا، یہ سب وہ امور ہیں ہیں جن میں عام شہری پوری طرح ملوث ہیں، اول تو حکومت اس طرح کے مسائل پر قابو پانے کے لیے مؤثر قوانین نہیں بناتی اور اگر قوانین بناتی بھی ہے تو ان کا صحیح طور پر نفاذ نہیں ہوپاتا، ضروری ہے کہ اس طرح کے قوانین بنیں، صحیح طور پر نافذ ہوں اور ملک کا ہر شہری اپنی ذمہ داری محسوس کرے اور اپنے ارد گرد کے ماحول کو آلودگی سے پاک بنانے کی کوشش کرے۔
صوتی آلودگی بھی اس ملک کا بڑا مسئلہ ہے، ایک سروے کے مطابق ملک کا ہر بارہواں شخص بڑھتے ہوئے شور وشغب کے باعث سماعت سے محروم ہوتا جارہا ہے، برین ہیمبرج، ہارٹ اٹیک، بلڈپریشر، شوگر وغیرہ جیسی کئی خطرناک بیماریاں صوتی آلودگی کی وجہ سے پیدا ہورہی ہیں، فقہ اکیڈمی نے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ملک کے شہریوں کے لیے بہ طور خاص مسلمانوں کے لیے ایک تجویز منظور کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ماحول کو گندگی اور آلودگی سے بچانا مسلمانوں کا مذہبی فریضہ ہے، اس کے لیے کم آلودگی پھیلانے والے ایندھن کا استعمال ہونا چاہئے، عوامی مقامات پر تمباکونوشی نہ کی جائے، ایسی جگہوں پر تھوکنے سے احتراز کیا جائے، کھلی نالیوں میں گندگی نہ ڈالی جائے، بلاضرورت اور بغیر اجازت درخت نہ کاٹے جائیں، ڈی جے وغیرہ نہ بجائے جائیں، مذہبی جلسوں اور مشاعروں وغیرہ میں تیز آواز کے ساتھ اور دیر رات تک لاؤڈاسپیکر استعمال نہ کئے جائیں، سب سے اہم بات جو تجویز میں شامل کی گئی وہ یہ ہے کہ حکومتوں نے ماحولیاتی آلودگی کے سلسلے میں جو قوانین بنائے ہیں مسلمان پوری دیانت داری کے ساتھ ان قوانین پر عمل پیرا ہوں۔
فقہ اکیڈمی نے بڑے اہم اور حساس معاملے میں ملک کی رہ نمائی کا فریضہ انجام دیا ہے جس کے لیے اکیڈمی کے ذمہ دار حضرات بہ طور خاص ممتاز فقیہ اور معروف عالم دین مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مبارک باد کے مستحق ہیں۔
nadimulwajidi@gmail.com