قاسم سید
لوک سبھا انتخابات اور اب اترپردیش کے نتائج نے سمجھا دیا ہے کہ سیاست صرف سیاست ہوتی ہے، اس کے سینہ میں دل نہیں ہوتا اور نہ ہی مروت و احسان شناسی، وہ ضرورت کے مطابق سیکولر اور فرقہ پرست ہو جاتی ہے جیسے کلیان سنگھ اور ساکشی مہاراج کو ملائم نے سماج وادی بنالیا تھا۔نتیش 17 سال بی جے پی کے ساتھ دوستی کرکے پھر سیکولر ہو جاتے ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ مسلم قیادت سیکولر سیاست کی منافقت، دھوکہ بازی اور مکاری کے بد اثرات محسوس نہیں کر رہی ہے۔ وہ مسلم نوجوانوں کی بے چینی، اضطراب اور مایوسی کا ادراک میں بھی ناکام ہے۔ بی جے پی ہراؤ ، بی جے پی کو ہرانے والے کو جتاؤکی حکمت عملی ہر جگہ اوندھے منھ گری ہے۔ ٹیکٹیکل ووٹنگ کا راگ الاپنے والوں نے اس کی مخالفت کرنے والوں کو بی جے پی کا ایجنٹ کہنے سے بھی گریز نہیں کیا مگر وہ اس کے سیاسی فیوض و برکات کے بارے میں آج تک مطمئن نہیں کر سکے اور نہ ہی بی جے پی کی فتوحانہ پیش قدمی کے لئے اپنی پالیسی کی ناکامی کا اعتراف کیا۔ وہ نہیں جانتے کہ اس بات نے بی جے پی کو تقویت بخشی اور اس نے مسلمانوں کے اکٹھا ہونے کا شور مچا کر ہندوتو کے نام پر ہندو ووٹ بینک کو مستحکم کیا اور کامیاب رہی؟۔
معاف کیجئے، اس طرح ٹیکٹیکل ووٹنگ والوں نے بالواسطہ طور پربی جے پی کو ہی فائدہ پہنچایا اور اسے غذا ملتی رہی۔ ان میں اتنی اخلاقی جرأت بھی نہیں کہ وہ مسلم عوام سے معافی مانگیں اور سرجوڑ کر بیٹھیں۔ اپنی دکانوں اور عقیدت مندوں کے حصار میں قید ہمارے معزز اکابرین و قائدین کی وسعت قلبی اور کشادگی کا یہ حال ہے کہ ایسے نامساعد حالات میں بھی ایک جگہ بیٹھ کر کچھ کرنے اور بے چین و مضطرب لوگوںکی ڈھارس بندھانے کے لئے ہنگامی حالات میں بھی ذہنی تحفظات اور اختلافات بھلانے کو تیار نظر نہیں آتے، بلکہ یہ اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ہمارے مل بیٹھنے سے بی جے پی کو تقویت حاصل ہوگی۔ اس دور اندیشی اور کمال فراست کی جتنی داد دی جائے کم ہے۔ آخر اب وہ کونسا علاقہ رہ گیا ہے جہاں آپ کے مل بیٹھنے سے بی جے پی کو غذا مل جائے گی، اس کو جتنا حاصل کرنا تھا وہ ہماری عاقبت نااندیشیوں اور نام نہاد سیکولر پارٹیوں کی باہمی چپقلش سے ملتا جارہا ہے۔ جس شیر کے آنے کا شور مچایا جارہا تھا وہ بستی میں داخل ہوچکا ہے۔ ٹیکٹیکل ووٹنگ کے مردے سے سڑاند پھیل رہی ہے، براہ کرم اسے دفن کردیجئے۔ اپیل اور پریس ریلیز والی سیاست پہلے ہی مضحکہ خیزاور بے معنی تھی لوک سبھا اور اب اترپردیش کے نتائج نے اس کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی ہے کہ پارٹ ٹائم اور موسمی سیاست کبھی نتیجہ خیز نہیں ہوتی۔ کانگریس مکت نہیں مسلم مکت سیاست کے خطرناک مضرات قانون ساز اداروں سے مسلم نمائندگی کو محروم کرنے کی پالیسی میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ پہلے لوک سبھا اور اب اترپردیش جہاں 20فیصد مسلم رائے دہندگان ہیں و بزعم خویش ’بادشاہ گروں‘ کی حیثیت صفر ہوگئی ہے۔ اس میں ہر پارٹی کی خاموش سند اور رضامندی ہے۔
خدا کے لئے کوئی راستہ نکالئے، اضطراب کو کوئی سمت دیجئے، ایک جگہ بیٹھنے کا حوصلہ دکھایئے، حماعتی حصار بندی سے اوپر اٹھ کر اضطراب کو سکون میں بدل دیجئے۔ سرکار سے ٹکراؤ اور عدالتوں سے تکرار کے علاوہ کوئی حل اور راستہ اگر ممکن ہو تو نکالئے۔ کیا ہم توقع کریں، بورڈ، جمعیۃ علماء ہند، جماعت اسلامی ہند، مشاورت، جمعیۃ اہل حدیث وغیرہ، دیوبند، ندوہ و دیگر مدارس کے اکابرین کوئی لائحہ عمل تیار کرکے رہنمائی کریں گے، کیونکہ بابری مسجد رام جنم بھومی تنازع اور طلاق ثلاثہ کا معاملہ ہماری بصیرت کا امتحان لینے آ ٓپہنچا ہے۔