دیوبند ہے جس کا نام

مولانا ندیم الواجدی
مغربی یوپی کے جو قصبات اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے اپنی شناخت رکھتے ہیں ان میں قصبہ دیوبند سر فہرست ہے، ملک کے دار الحکومت دہلی سے ایک سو پچاس کلو میٹر کے فاصلے پر شمال میں واقع دیوبند کی شہرت دار العلوم دیوبند کی وجہ سے ہے جو اس سرزمین پر ۶۶۸۱ء؁میں قائم ہوا، ڈیڑھ سو سال کی طویل مدت پر محیط اس ادارے کی خدمات نے دیوبند کو عظمت وشہرت کی انتہائی بلندیوں پر پہنچا دیا ہے، سرحدوں کی قیدوبند سے ماوراء مسلمانوں کی دینی تعلیم کی یہ واحد درس گاہ ہے جو دنیا بھر کے مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن بنی ہوئی ہے، کڑوڑوں لوگ اس کی طرف اپنے انتساب کو باعث فخر سمجھتے ہیں، اب یہ کوئی مدرسہ، جامعہ یا درس گاہ ہی نہیں ہے بل کہ منہج بنوت سے اپنی انتہائی قربت، قرآن وسنت کی روشنی میں اسلام کے متوازن اور صحیح فکر کی ترجمانی اور اپنی علمی وعملی جامعیت اور اعتدال کے باعث اسے ایک مکتب فکر کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے، دیوبند کی یہ لازوال شہرت اور سربلندی اس قصبے کے تمام باشندوں کے لیے باعث فخر ہونی چاہئے، مگر کچھ لوگوں کو یہ پسند نہیں کہ اس قصبے کو اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے پہچانا جائے اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ اس کا نام ہی تبدیل کردیا جائے اور اس کو کوئی ایسا نام دے دیا جائے جس سے قصبے کی اسلامی شناخت ختم ہوجائے اور یہ قصبہ ہندو مذہب کے قدیم گہوارے کی شکل میں دنیا کے نقشے پر ابھرے، یوپی اسمبلی کے انتخابات میں بی جے پی کے امید وار نے یہاں کامیابی حاصل کی ہے جسے عظیم تاریخی فتح سے تعبیر کیا جارہا ہے، میڈیا میں کئی دنوں تک یہ کامیابی زیر بحث رہی، دار العلوم دیوبند کی وجہ سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ دیوبند میں صرف مسلمان آباد ہیں، اور اگر کچھ غیر مسلم ہیں بھی تو ان کی تعداد بہت کم ہے، ذرائع ابلاغ میں تو یہاں تک آیا کہ دیوبند میں مسلمانوں کی آ بادی اسّی نوّے فی صد سے بھی زیادہ ہے جس نے بھی آبادی کے سلسلے میں اس نظرئیے کی اشاعت کی ہے اس کی معلومات انتہائی ناقص ہیں، دیوبند قصبے کی بات کی جائے تو یہاں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب ساٹھ سے پینسٹھ فی صد ہے اور اسمبلی حلقے کا ذکر ہو تو یہ تناسب گھٹ کر اڑتیس فی صد رہ جاتا ہے، اس صورت حال میں اگر تمام برادران وطن متحد ہوجائیں تو وہ مسلم امید وار کو آسانی کے ساتھ شکست دے سکتے ہیں، دو مسلم امید وار مضبوطی کے ساتھ لڑ رہے ہوں تو یہ شکست اور بھی آسان ہوجاتی ہے، دیوبند میں یہی ہوا جس کی وجہ سے بی جے پی کے امید وار کو کامیابی ملی، آزادی کے بعد سے اب تک یہاں سے صرف دو مسلم امید واروں نے کامیابی حاصل کی ہے، ایک مرتبہ جنتا پارٹی کی لہر میں، اور دوسری مرتبہ ضمنی الیکشن میں، میں نہیں سمجھتا کہ بی جے پی امید وار کی کامیابی کو کسی اور نظرئیے سے دیکھنے کی ضرورت ہے، یہ اعداد وشمار کا کھیل تھا جس میں ایک فریق جیت گیا اور دوسرا فریق ووٹ کی تقسیم کے باعث مات کھا گیا، اس میں شک نہیں کہ یوپی میں تاریخی کامیابی سے ہم کنار ہونے کے بعد بی جے پی کے حوصلے بلند ہوئے ہیں، بی جے پی نے یہ الیکشن مسلمانوں کے خلاف لڑا، اس بے مثال کامیابی نے اسے موقع دیا ہے کہ اپنے مسلم مخالف جذبات کا طوفان تھامنے کے لیے جو کچھ وہ کرنا چاہتی ہے کرے، ہمارے قصبہ دیوبند کے کامیاب امید وارنے پہلی ہی پریس کانفرنس میں اپنا رخ واضح کردیا ہے، انھوں نے اعلان کیا کہ وہ اسمبلی کے پہلے ہی سیشن میں دیوبند کا نام بدلنے کی تجویز پیش کریں گے، ان کا کہنا ہے کہ دیوبند کا اصل نام ”دیورند“ ہے، سینکڑوں سال پہلے یہ علاقہ اسی نام سے پہچانا جانا تھا جس کے دستاویزی ثبوت جمع کئے جائیں گے، کنور برجیش کے اس بیان کے بعد میڈیا میں منفی اور مثبت ردّ عمل کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ ابھی تک جاری ہے، لوگ تبدیلی کے اس عزم وارادے کو دار العلوم دیوبند کے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کررہے ہیں۔
دیوبند ایک قدیم ترین بستی ہے، مولانا ذوالفقار علی دیوبندیؒ نے ”الہدیۃ السنیۃ“ میں لکھا ہے کہ اس کے آثار سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ بستی طوفان نوح کے بعد کی ابتدائی بستیوں میں سے ایک ہے“ ”ہندو سنسکرتی کا ایک کیندر“ کے مؤلف نے لکھا ہے کہ دیوبند کا ذکر پُرانوں میں ملتا ہے، یہ بھی مشہور ہے کہ کوروں پانڈوں کے عہد حکومت میں دیوبند آباد تھا، بودھ مت کے عروج کے زمانے میں یہ بستی برہمنوں کی جدوجہد کا مرکز بنی رہی ہے، شہر سے باہر جنوب میں واقع محلہ سرائے پیرزادگان میں ایک کنواں واقع تھا جس میں ایک کتبہ لگا ہوا تھا، ”تاریخ دیوبند“ کے مصنف جناب سید محبوب رضویؒ نے وہ کتبہ پڑھنے کی کوشش کی جو امتداد زمانہ کے باعث پڑھا نہ جاسکا البتہ نیچے کے جانب کسی قدر سن کا پتہ چلتا ہے غالباً ۹۱۱ ؁ بکر ماجیت سن درج ہے، اسی طرح ایک پرانے بند کنویں سے ایک سنگی کتبہ بر آمد ہوا تھا جس کو سکندر اعظم کے زمانے کا بتلایا جاتا ہے، تمام تاریخی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں کی آمد سے پہلے یہاں خالص ہندو آبادی تھی اور یہ علاقہ ہندؤں کا مقدس مقام سمجھا جاتا تھا، مہابھارت کے مترجم منشی شری رام ماتھر دہلوی نے مہابھارت کے محاذ جنگ کا جو نقشہ تیار کیا ہے اس کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جے درتھ پر ارجن کا یہ حملہ دیوبند یا اس کے آس پاس سے کیا گیا ہوگا، کہتے ہیں کہ دیوبند کے قریب رن کھنڈی میں یہ محاذ قائم ہوا تھا، رن کھنڈی کے معنی ہی محاذ جنگ کے ہیں، دیوبند میں مسلمانوں کی آمد محمود غزنوی کے دور میں ہوئی جیسا کہ ”تاریخ سہارن پور“ میں مذکور ہے، بزرگان دین کے مزاروں پر لگے ہوئے کتبوں سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں مسلمان کم وبیش ایک ہزار سال سے آباد ہیں، سب سے قدیم بزرگ شیخ معز الاسلام ہیں، دیوبند کے صدیقی شیوخ کا سلسلہئ نسب انہی سے چلا ہے، ان کے مزار پر لگے ہوئے کتبے پر ۱۶۶ھ (۲۶۲۱ء) تاریخ وفات درج ہے، مسلمانوں کے عہد حکومت کی کئی یادگار مساجد اس بستی میں موجود ہیں، دار العلوم دیوبند کے بالکل قریب ایک محلہ دیوان واقع ہے جس کا بلند وبالا پرشکوہ دروازہ ابھی تک سلامت ہے، یہ دروازہ دیوان لطف اللہ عثمانی کی یاد گار ہے جو شاہ جہاں کے عہد میں دیوانی کے منصب پر فائز ہوئے، یہ دروازہ پانچ منزل کا تھا، اوپر کی دو منزلیں گر چکی ہیں، تین منزلیں شاہ جہانی دور کی یادگار کے طور پر آج بھی باقی ہیں۔
”تاریخ دیوبند“ اور ”تاریخ دار العلوم“ کے مؤلف جناب سید محبوب رضویؒ نے دیوبند کی وجہ تسمیہ کے ضمن میں لکھا ہے کہ دیوبند کو پہلے ”دیوی بلاس“ کہتے تھے، کیوں کہ یہاں پر سندری دیوی کا ایک مندر دیوی کنڈ کے نام سے تھا جو ابھی تک موجود ہے اور ایک جنگل ”بلاس“ کے نام سے تھا جو ختم ہوچکا ہے،بعض کا قول ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس جگہ دیوؤں کو بند کیا ہے اس لیے اس کا نام دیوبند پڑ گیا ”آئین اکبری“ میں یہی نام لکھا گیا ہے، حضرت مجدد الف ثانی کی سوانح حیات”زبدۃ المقامات“ میں جو گیارہویں صدی کی اوائل کی تصنیف ہے اس بستی کا نام دیبن لکھا گیا ہے بہ ہر حال تاریخی اور تحقیقی طور پر تین ناموں کا ذکر ملتا ہے، دیوی بلاس، دیبن، دیوبند، ان تین کے علاوہ کسی چوتھے نام کا کوئی ثبوت نہیں ملتا، اگر دیوبند کا نام بدل کر ”دیورند“ کیا گیا تو یہ ایک بالکل نیا نام ہوگا، نام کی تبدیلی کی اس مہم کے سلسلے میں عرض ہے کہ ”دیوبند“ نہ مسلمانوں کا رکھا ہوا نام ہے اور نہ یہ اسلامی نام ہے، بل کہ دیوی بلاس دیبن یا دیورند کی طرح یہ نام بھی ہندو تہذیب پر ہی دلالت کرتا ہے، اگر نام کی تبدیلی کا مقصد اسلامی نام بدل کر ہندو نام رکھنا ہے تو اس سے یہ مقصد حاصل ہونے والا نہیں ہے، جو لوگ تبدیلی کے علم بردار ہیں انہیں یہ سوچنا چاہئے کہ دار العلوم دیوبند نے ان کے تاریخی قصبے کی شہرت اور عظمت میں چار چاند لگائے ہیں، اس کو نقصان نہیں پہنچایا، صدیوں سے یہاں ہندو اور مسلمان شیر وشکر ہوکر رہتے ہیں، دار العلوم دیوبند کے قیام سے ہندو مسلم ہم آہنگی کو اس قصبے میں ہی نہیں بل کہ پورے ملک میں تقویت ملی ہے جیسا کہ دار العلوم دیوبند کی تاریخ سے اس کا ثبوت ملتا ہے، پھر ملک کی آزادی کے لیے دار العلوم دیوبند نے جو طویل جدوجہد کی ہے وہ بھی برادران وطن کے لیے فخر کا سبب ہونا چاہئے، نہ کہ نفرت کا باعث، میں نہیں سمجھتا کہ نام کی تبدیلی سے دار العلوم دیوبند کی تاریخ یا اس کے آنے والے کل کو کوئی نقصان پہنچنے والا ہے، اس لیے کہ دیوبند اس کے نام کا ایک مستقل جزء بن چکا ہے، اگر اس کا نام بدل کر کوئی دوسرا نام رکھ بھی دیا جائے تو دار العلوم دیوبند؛دار العلوم دیوبند ہی رہے گا، دار العلوم دیورند یا دار العلوم دیبن یا دار العلوم دیوی بلاس نہیں ہوگا، میری ناقص رائے میں ہمارے محترم ایم ایل صاحب کو اس طرح کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے بجائے علاقے کی ترقی اور ہندو مسلم اتحاد کے لیے جدوجہد کرنی چاہئے، اس طرح وہ اپنے قصبے کی زیادہ بہتر خدمت انجام دے سکتے ہیں۔
nadimulwajidi@gmail.com

SHARE