دوست ہوتانہیں ہرہاتھ ملانے والا

پس آئینہ :شمس تبریزقاسمی

ملت ٹائمز
باراک حسین اوبامہ کا صداراتی عہد اختتام پذیر ہونے کو ہے ،نومبر 2016 میں 58 واں صدارتی انتخاب ہوگا جس میں اوبامہ دومرتبہ کی مدت پوری کرلینے کی وجہ سے صدارتی الیکشن میں حصہ لینے کے مجاز نہیں ہوگے ۔ جنوری2009 میں جارج ڈبلیوبش کے بعد اوبامہ امریکہ کے صدر منتخب کئے گئے تھے ،پیش روصدر جارج ڈبلیوبش کو مسلم دنیا میں ایک خونخوار،درندہ صفت انسان، لاکھوں بے گناہوں کاقاتل ،اسلام دشمن جیسے القاب سے یادکیاجاتاہے ،افغانستا ن اور عراق کی تباہی کیلئے براہ راست جارج ڈبلیو بش ذمہ دار ہے ۔ لاکھوں بے گناہوں کے قتل اور عالم اسلام میں جاری رسہ کشی کا سہرا اسی کے سر جاتاہے ۔ جارج ڈبلیوبش کا سب سے بڑا کارنامہ نائن الیون کا ڈرامہ ہے جہاں سے مسلمانوں کے خلاف ایک نئی جنگ کا آغاز کیا گیا،دہشت گردی کا الزام لگاکر دنیا بھر میں مسلمانوں کے قتل عام کی منصبوبہ بندی گئی اور دن بہ دن سازش کامیابی سے ہم کنارہوتی رہی ،آج پوری دنیا میں دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں کے ساتھ مظالم کا تسلسل جاری ہے،انہیں شک کی نگاہوں سے دیکھاجاتاہے تو اس کی بنیادی وجہ نائن الیون کا ڈرامہ ہے جس کا الزام تحقیق اور ثبوت کے بغیر اسامہ بن لادن پر عائدکر کے دہشت گردی کی نئی اصطلاح قائم کی گئی اور اسلام کو اس سے ہمیشہ کے لئے جوڑدیا گیا ۔
جارج ڈبلیوبش کے جاں نشیں باراک اوبامہ کی آمدکے بعد عالم اسلام نے راحت کی سانس لی ،بارک حسین اوبامہ کے خاندانی پس منظر نے مسلم دنیا کو اس خوش فہمی میں مبتلا کردیا کہ اوبامہ کی پالیسی گذشتہ صدورسے مختلف ہوگی ،اسلام اور مسلم دنیا کے تئیں ان کی سیاسی حکمت عملی مثبت ہوگی ،امریکہ اور یورپ میں اسلام فوبیا میں کمی آئے گی،انتہاء پسندی اور تشدد کا سلسلہ ختم ہوگا ،صدرمنتخب ہونے کے فورا بعد عالم اسلام کی سب بڑی یونیورسیٹی ’’جامعہ ازہر مصر‘‘ جاکر اوبامہ نے عالم اسلام کی اس خوش فہمی کو یقین میں تبدیل کردیا ،اپنی تقریرکے ذریعہ انہوں نے مکمل یقین دہانی کرادی کہ عالم اسلام کے تئیں امریکہ کی پالیسی دوستانہ ہوگی ،اوبامہ کی تقریرکا یہ جملہ تاریخ کا جزبنادیا گیاکہ ’’ میں آپ ہی میں سے ایک ہوں‘‘،کچھ لوگوں نے تو یہاں تک کہ دیاکہ اوبامہ نے اپنے مسلمان ہونے کااقرارکرلیاہے، اوبامہ نے اپنی طویل تقریر میں یہ بھی کہاکہ مسلمانوں کو اپنے مذہب اور شریعت پر عمل پیر ا ہوکر دنیا کے کسی بھی خطے میں رہنے کامکمل حق ہے ،اسلام امن وسلامتی کا علم بردار مذہب ‘‘ اوبامہ کی اس تقریر نے نہ صرف مسلم دنیا کو خوش فہمی کا شکار بنادیا بلکہ نوبل انعام کمیٹی نے بھی اوبامہ کوامن وسلامتی کے ٹھیکڈار ہونے ہونے کی سرٹیفیکٹ عطاکردی ،صدر منتخب ہونے کے نوماہ بعد نومبر 2009 میں ان کے کاموں کا جائزہ لئے بغیرنوبل انعام برائے امن سے نوازدیاگیا ۔
لیکن رفتہ رفتہ اوبامہ بھی جارج ڈبلیوبش کے ڈگر پر چل پڑے،ان کے چھوڑے ہوئے کاموں کو انہوں نے آگے بڑھاناشروع کردیا ،جارج ڈبلیوبش نے صرف افغانستان اور عراق کو تباہ وبربادکیاتھالیکن انہوں نے پورے مشروق وسطی کو ہی آگ کی لپیٹ میں چھوڑدیا،شیعہ سنی تنازع کو خوب ہوادی ، عرب بہار یہ کے نام پر اپنے مفادات کی جنگ شروع کردی ، عراق و افغانستان میں جاری جنگ کامقابلہ کرنے کے ساتھ انہوں نے یمن، لیبیا ،شام ،سمیت پورے مشرق وسطی میں نئی جنگ چھیڑ دی ،عالم اسلام پر حکمرانی کا خواب شرمندہ تعبیر کرنے کیلئے معمر قذافی کا قتل کیا ،مصر میں اخوان المسلمین کی منتخب حکومت کا تختہ پلٹ کر آمریت کی حمایت کی ،شام میں پس پردہ بشار الاسد کی حمایت کرکے بے گناہوں کا قتل عام کرایا،فلسطین کا مسئلہ حل کرنے کے بجائے اسرائیل کو مسلم نسل کشی کرنے کی سندفراہم کردی ،پاکستان میں ڈرون حملے کرکے معصوموں کا بے دریغ خون بہایا،دہشت گردی کے نام پر جاری جنگوں میں ملنے والی ناکامی پر پردہ ڈالنے اور کامیابی کااشتہار کرنے کے لئے 2011 میں ابیٹ آباد آپریشن میں اسامہ بن لادن کی موت کا اعلان کیا گیا جس پر خود کئی امریکی سیاست داں اور افسران سوال اٹھاچکے ہیں اور یقین کے ساتھ کہ رہے ہیں ابیٹ آباد آپریش ایک ڈرامہ تھا، کسی کے مطابق اسامہ کی وفات بہت پہلے ہوچکی ہے تو کسی کا ماننا ہے کہ اسامہ ابھی بھی زندہ ہے ۔ باراک اوبامہ کی سیاسی زندگی کا سب سے بڑا تاریخی کارنامہ مشرق وسطی میں داعش کا قیام ہے جس کے نام پر پوری دنیا کے مسلمان آلام ومصائب کے چنگل میں گرفتار ہیں ۔نیل کے ساحل سے لیکر تا تخاک کاشغر داعش کے نام پر مسلمانوں کا جینا دوبھر ہوچکاہے
اوبامہ کے آٹھ سالہ دورصدرات کی یہ ایک ہلکی سی جھلک ہے جہاں صرف خونخواری ،فساد قتل وغارت گری اور مسلم دشمنی ملتی ہے ،مسلمانوں کے تعلق سے کوئی مثبت کام ان کا نظر نہیں آتاہے لیکن اوبامہ کی پالیسی او رسیاست حکمت عملی بھی بے مثال ہے ،انہوں نے اپنی مدت صدارت کے آغاز میں بھی مسلمانوں کو خوش کردیا ،اپنی تئیں کسی طرح کی بدظنی قائم نہیں کرنے دی اور اب جب وہ رخصت پذیر ہیں انہوں نے ایک ایساہی کام کرکے عالم اسلام کے درمیان اپنی مثبت اور اچھی شبیہ بنانے کی حکمت عملی اپنائی ، گذشتہ 3 فروری کو ایک مسجدمیں جاکر مذہبی روادری اور مسلمانوں سے اپنی قربت کا احساس دلا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہم مسلمانوں کے دوست اور خیرخواہ ہیں ،ان کے ساتھ جو کچھ ہورہاہے اس وہ خودف پریشان ہیں ۔
گذشتہ 3 فروری ،2016 کو مسلم گھرانے میں پیداہونے والے امریکی صدرباراک اوبامہ پہلی مرتبہ بالٹی مور کی مسجد میں گئے تھے جہاں مسلمانوں کے مجمع سے خطا ب کرتے ہوئے کہاکہ ایک عقیدے پر حملہ تمام عقیدوں پر حملے کے مترادف ہے۔جب ایک مذہبی گروہ کو ہدف بنایا جاتا ہے تو اس کے خلاف بولنا ہم سب کی ذمے داری ہے۔ آپ اپنے گرجا گھروں ،صومعوں یا مندروں کے بارے میں سوچئے تو مسجد بھی ان ہی کی طرح لگے گی، امریکی صدر براک اوباما نے اسلام پر حملے کو تمام مذاہب پر حملہ قرار دیا ،ڈونلڈ ٹرمپ اور دوسرے ری پبلکن صدارتی امیدواروں کی مسلمانوں کے خلاف ناقابل معافی سیاسی غوغا آرائی کی مذمت کی،اس موقع پر انھوں نے ایک جانب پاپ کلچر سے متاثر امریکیوں کا یہ خدشہ دور کرنے کی کوشش کی کہ مسلمان دہشت گرد نہیں ہیں اور دوسری جانب امریکی مسلم نوجوانوں کو یہ یقین دہانی کرائی کہ ان کے لیے معاشرے میں جگہ ہے۔مسجد میں تقریب کا باقاعدہ آغاز قرآن مجید کی تلاوت سے ہوا تھا،ایک خاتون اور مرد نے رواداری سے متعلق قرآنی آیات کی تلاوت کی،سامعین میں بچے اور مرد وخواتین موجود تھے،مردوں نے سروں پر ٹوپیاں پہن رکھی تھیں اور خواتین نے حجاب اوڑھ رکھے تھے۔
امریکی صدر باراک اوبامہ نے خوبصورت آغاز اور شاندار اختتام کرکے سب سے زیادہ نقضان مسلمانوں کوپہونچایا،مشرق وسطی اور پوری مسلم دنیا کو تباہ وبرباد کرنے میں نمایاں رول اداکیا،بش نے جس کا تصور تک نہیں کیاتھا اوبامہ نے آٹھ سالوں میں وہ سب کرکے دکھادیا، اسلام دشمنی کی برسوں پرانی روایت کو عملی جامہ پہناتے ہوئے مسلمانوں کا قتل خود مسلمانوں کے ہاتھوں کرایا اور نائن الیون کے ذریعہ بش کی شروع کردہ اسلام دشمنی کو اوبامہ نے ایک نئی جہت دے کر چوطرفہ مقبولیت حاصل کرلی ،خوش کن بیانات سے عالم اسلام کو بھی دوستی کا احساس دلایا اور امریکی عوام نے بھی انہیں اس منفرد سیاسی حکمت عملی پر مبارکباد پیش کی ۔
تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہوفراز
دوست ہوتانہیں ہرہاتھ ملانے والا
(مضمون نگار ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر ہیں)
stqasmi@gmail.com