گفتگو دیر سے جاری ہے نتیجے کے بغیر

صدائے دل: ڈاکٹر یامین انصاری
ماضی کے تجربات اور آج کے حالات اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ اجودھیا مسئلہ باہمی بات چیت کے ذریعہ حل کیا جائے۔
ایک ایسا مسئلہ جس نے ہندوستان کی تاریخ پلٹ دی، ایک ایسا مسئلہ جس نے ہندوستانی اقدار و روایات کی دھجیاں اڑا دیں، ایک ایسا مسئلہ جس نے ملک کی سیاست کی سمت بدل دی، ایک ایسا مسئلہ جس نے ہندوستانی مسلمانوں کی سیاسی، سماجی اور معاشی زندگی تہہ و تیغ کرد ی، ایک ایسا مسئلہ جس نے نہ جانے کتنے نشیب و فراز دیکھے اور اس مسئلہ سے ملنے والے زخم اور اس سے پیدا ہونے والے بے شمار مسائل ، جن کی نشانیاں آج بھی لوگوں کے دل ودماغ اور ملک میں جہاں تہاں دیکھی جا سکتی ہیں۔ ایک ایسے مسئلہ پر اب اگر ملک کی عدالت عظمیٰ یہ کہے کہ اسے بات چیت کے ذریعہ، باہمی اتفاق کے ذریعہ اور ضرورت ہو تو عدالت کی ثالثی کے ذریعہ حل کیا جائے تو بڑا مضحکہ خیز سا لگتا ہے۔ اگرچہ سپریم کورٹ کا تبصرہ یا کوئی بھی فیصلہ سر آنکھوں پر، لیکن اجودھیا مسئلہ کے تعلق سے اگر سپریم کورٹ ایک بار پھر عدالت کے باہر مسئلہ حل کرنے کی بات کرتا ہے تو یہ بات اب نا ممکن سی لگتی ہے۔ کیوں کہ اس مسئلہ پر جب بھی بات چیت کی گئی ہے، فریقین میں کوئی بھی سمجھوتہ کرنے کے موڈ میں نہیں ہوتا۔جب بار بار یہ بات چیت ناکام ہو چکی ہے تو پھر اتنے عرصے کے بعد آخر کیسے امید کی جا سکتی ہے کہ گفتگو کے ذریعہ یہ مسئلہ اب حل ہو جائے گا۔ سپریم کورٹ کے تبصرے کے درمیان جب ایک فریق یا فرقہ زور دے کر اس بات کو کہہ رہا ہے کہ اجودھیا مسئلہ میں سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ کرے گا، ہم اس کو تسلیم کریں گے۔ جبکہ دوسرا فریق یا فرقہ بات چیت کا خیر مقدم تو کرتا ہے، لیکن جھکنے کو تیار نہیں۔ ایسے میں مختلف شکوک و شبہات خود بخود جنم لینے لگتے ہیں۔
در اصل ماضی کے تجربات اور آج کے حالات بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ اب یہ مسئلہ باہمی بات چیت کے ذریعہ حل کیا جائے۔ وقت اور حالات کا تقاضہ تو یہ ہے کہ اس مسئلہ کو قانون کے دائرے میں رہ کر ہی عدالت میں حل کیا جائے۔ عدالت اگر یہ مان کر اس مسئلہ کو گفتگو کے ذریعہ حل کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ یہ ’’آستھا‘‘ کا معاملہ ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس طرح کے مسائل کو حل کرنے میں قانون اور آئین کو ترجیح دی جائے یا آستھا یا عقیدت کو ؟ پھر تو تین طلاق کا مسئلہ بھی آستھا اور عقیدت کی بنیاد پر ہی حل ہونا چاہئے۔اسی لئے جیسے ہی اجودھیا مسئلہ پر سپریم کورٹ کا تبصرہ سامنے آیا، مختلف تنظیموں، شخصیات اور فریقین کی جانب سے مختلف رد عمل سامنے آنے لگے۔سپریم کورٹ کے تازہ تبصرہ پر بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے کنوینر ظفریاب جیلانی نے اس سلسلہ میں حالانکہ کسی بھی بات چیت سے انکار کیا اور کہا کہ باہمی بات چیت سے صلح نہیں ہو سکتی، لیکن اس کے باوجود اگر سپریم کورٹ یہی چاہتا ہے تو جیلانی کا کہنا ہے کہ انہیں سپریم کورٹ کے جج یا چیف جسٹس پر اعتماد ہے۔ یعنی ظفریاب جیلانی سپریم کورٹ کی ثالثی کے ساتھ بات چیت پر راضی ہیں، لیکن ان کا کہنا ہے کہ ایسا کچھ کرنے کے لئے سپریم کورٹ کو تحریری شکل میں ایک حکم نامہ جاری کرنا ہوگا۔پھر بھی ظفریاب جیلانی کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے بھی اس مسئلے کے حل کے لئے بات چیت ہو چکی ہے۔ ان کے ۳۱؍سال کا ان کا تجربہ بتا رہا ہے کہ باہمی بات چیت سے تنازعہ کا حل نہیں نکلے گا۔جب بھی معاہدے کی بات ہوتی ہے تو وی ایچ پی کے لوگ کہتے ہیں کہ مسجد کا دعویٰ چھوڑ دیجئے تو ہم بات چیت کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں آس پاس مندر مسجد بنا دو، اس پر ان کا کہنا ہے کہ وی ایچ پی کہتی ہے۸۴؍ کوسی پریکرماسے باہر مسجد بننی چاہئے۔ یا پھر وہ کہتے ہیں کہ سریو کے پار مسجد بنا لو۔ لہذا جب دعویٰ ہی چھوڑ دیں گے تو اس لڑائی کا مطلب کیا رہ جائے گا۔سوال یہ نہیں ہے کہ مسجد چھوڑ دیں، سوال یہ ہے کہ لوگوں کو لے جا کر مسجد گرا دی گئی، لوگوں کو بے عزت کیا، سوال یہ ہے کہ ملک آئین سے چلے گا یا آستھا سے چلے گا؟ وزیر اعظم راجیو گاندھی کے وقت طے ہوا تھا کہ مسجد کے باہر بنے چبوترے پر مندر بنے، لیکن وی ایچ پی تیار نہیں ہوئی۔
اجودھیا مسئلہ کے بات چیت کے ذریعہ حل کرنے پر شکو ک و شبہات کا اظہار یوں ہی نہیں کیا جا رہا ہے، بلکہ ماضی کی تمام کوششیں ہمیں بتاتی ہیں کہ یہ مسئلہ اس قدر پیچیدہ ہے کہ کوئی بھی فریق اس پر سمجھوتہ نہیں کرے گا۔غور طلب ہے کہ اس معاملے پر ملک کے پانچ وزرائے اعظم راجیو گاندھی، وی پی سنگھ، چندر شیکھر، اٹل بہاری واجپئی، منموہن سنگھ معاہدے کی کوشش کر چکے ہیں۔ چندراسوامی، شنکرآچاریہ جیندرسرسوتی، رام جنم بھومی کے اہم پجاری ستیندر داس اور پرسنل لا بورڈ کے سابق صدر علی میاں ندوی، موجودہ صدر رابع حسن ندوی، اور پرسنل لا بورڈ کے نائب صدر مولانا کلب صادق، جسٹس پالوک باسو وغیرہ نے بھی معاہدے کی کوشش کی تھی، لیکن کچھ بھی کامیابی نہیں ملی۔ سب سے پہلے ۱۹۸۶ء میں کاچی کاماکوٹی پیٹھ کے اس وقت کے شنکرآچاریہ اور مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اس وقت کے صدر مولانا علی میاں ندوی کی قیادت میں مسئلہ حل کرنے کے لئے بات چیت ہوئی ، لیکن بے نتیجہ رہی۔ اسی طرح اس کے بعد ۱۹۹۰ء میں وزیر اعظم چندر شیکھر، یوپی کے وزیر اعلی ملائم سنگھ یادو اور بھیروں سنگھ شیخاوت کے درمیان بات چیت ہوئی اور ناکام ثابت ہوئی۔پھر وزیر اعظم پی وی نرسمہا راؤ نے ایک کمیٹی قائم کی۔ مرکزی وزیر سبودھ کانت سہائے کے ذریعے بات چیت کی کوشش کی گئی، لیکن اسی دوران ۶؍ دسمبر ۱۹۹۲ء ہندوستان کی تاریخ کا ایک سیاہ دن ثابت ہوا اور بابری مسجد کو منہدم کر دیا گیا۔پھر بھی بات چیت کا سلسلہ ختم نہیں ہوا، اس کے بعد مسلم پرسنل لاء بورڈ کے موجودہ صدر مولانا رابع حسنی ندوی اور کاچی کاماکوٹی کے اس وقت کے شنکراچاریہ کے درمیان بات چیت ہوئی۔ مولانا رابع حسنی نے ان سے تحریری تجویز مانگی، جس پر شنکراچاریہ نے کہا کہ آپ تین مساجد ہمارے حوالے کر دیں۔ آخر اسے کیسے قبول کیا جا سکتا تھا۔ظاہر سی بات ہے کہ جب بات چیت میں ایک فریق دوسرے کو دبانے کی کوشش کرے گا تو کیسے مسئلہ کا حل ممکن ہے۔
عدالت میں بھی یہ مسئلہ لمبے عمل سے گزر چکا ہے۔ ۶؍ دسمبر ۱۹۹۲ء میں بابری مسجد انہدام کے بعد لبراہن کمیشن تشکیل دیا گیا۔اپریل ۲۰۰۲ء میں اجودھیا کے متنازعہ مقام پر مالکانہ حق کو لے کر ہائی کورٹ کے تین ججوں کی بنچ نے سماعت شروع کی۔مارچ تا اگست ۲۰۰۳ء الہ آباد ہائی کورٹ کی ہدایات پر ہندوستانی محکمہ آثار قدیمہ نے اجودھیا میں کھدائی کی۔ آثار قدیمہ کا دعویٰ تھا کہ مسجد کے نیچے مندر کی باقیات ہونے کے ثبوت ملے ہیں۔جولائی۲۰۰۹ء میں لبراہن کمیشن نے تشکیل کے ۱۷؍ سال بعد وزیر اعظم منموہن سنگھ کو اپنی رپورٹ سونپی۔ ۲۸؍ ستمبر ۲۰۱۰ء کو سپریم کورٹ نے الہ آباد ہائی کورٹ کو متنازع معاملے میں فیصلہ دینے سے روکنے والی عرضی مسترد کرتے ہوئے فیصلے کی راہ ہموار کی۔۳۰؍ ستمبر۲۰۱۰ء کو الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے آستھا کو بنیاد بنا کر ایک عجیب و غریب فیصلہ سنایا۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے متنازعہ زمین کا ایک حصہ رام مندر، دوسرا سنی وقف بورڈ اور تیسرا نرموہی اکھاڑے میں زمین بانٹنے کا فیصلہ دیا۔ ۹؍ مئی ۲۰۱۱ء کو سپریم کورٹ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر روک لگا دی۔اب سپریم کورٹ نے کہا کہ یہ معاملہ مذہب اور عقیدے سے منسلک ہے، اس لئے دونوں فرقوں کو مل کر اس کو حل کرنا چاہئے۔ ضرورت پڑنے پر عدالت اس معاملے میں دخل دے گی۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ایک طرف سپریم کورٹ اپنا تبصرہ یا تجویز پیش کرتا ہے ، وہیں بلا تاخیر دوسری طرف اس کا خیر مقدم ہونے لگتا ہے۔ رام جنم بھومی تحریک میں سرگرم رہے سنت رام ولاس ویدانتی اور آل انڈیا اکھاڑہ پریشد کے صدر مہنت نریندر گری نے سپریم کورٹ کے تبصرے کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ تنازعہ کا حل باہمی رضامندی سے ہی ہو سکتا ہے، کورٹ کا فیصلہ آنے پر کسی ایک کے خلاف ہوگا جو ملک اور معاشرے کے مفاد میں نہیں ہو گا۔ جب اس طرح کا نظریہ اور سوچ ہو تو پھر ہم کیسے امید کریں کہ بات چیت سے یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے اور پھر ….
گفتگو دیر سے جاری ہے نتیجے کے بغیر
اک نئی بات نکل آتی ہے ہر بات کے ساتھ
(مضمون نگار روزنامہ انقلاب کے ریزیڈینٹ ایڈیٹر ہیں)