مسلمان : حاشیے سے صفر پر

تبسم فاطمہ
تین چار برسوں میں یہ ملک ایک تبدیل شدہ ملک نظر آتا ہے جہاں مسلمانوں کا نام صرف مذاق اڑانے کے لیے رہ گیا ہے۔ انتخابات کے نام پر مسلمانوں کا مذاق بنایا جاسکتا ہے۔ مسلم سیاسی پارٹیوں کے نام پر مسلمانوں کی مذمت کی جاسکتی ہے۔ ذاکر نائک، شبنم ہاشمی کے ٹرسٹ کے نام پر بھی میڈیا ہنسنے کے لیے تیار بیٹھی ہے۔ اس سے آگے بڑھیے تو علماءکی مختلف جماعتیں ہیں، الگ الگ فرقے ہیں— ایسا نہیں کہ یہ جماعتیں، یہ فرقے صرف مسلمانوں میں ہی ہیں، مگر کسی کو ہنسنا ہے تو ہسننے کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ذرا غور کیجئے اتنے بڑے انتخاب میں کیا صرف مسلمان تھے، جن کے داﺅں غلط ثابت ہوئے—؟ ایک سو تیس کروڑ کی آبادی میں کیا کانگریس، سماج وادی، بی ایس پی، آر ایل ڈی پارٹیوں کی شکست کے ذمہ دار اکیلے مسلمان کیسے ہوگئے—؟ میں اسے سانحہ سمجھتی ہوں۔ ایک طرف میڈیا مسلمانوں پر ہنس رہا ہے۔ اور دوسری طرف مسلمان، مسلمانوں کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ ہم ایک ایسے قیامت خیز موسم اور خوفناک طوفان کا شکار ہیں، جہاں ہمارے سوچنے سمجھنے کی تمام صلاحیتیں ختم کردی گئی ہیں۔ اور اسی لیے اس وقت ملک کا سیاسی منظرنامہ ایسا ہے کہ ہم ایک دوسرے پر پتھر پھینک کر، کیچڑ اچھال کر خوش ہورہے ہیں۔ جبکہ یہ وقت تجزیہ کا ہے۔ محاسبہ ہے۔ اور یہ برا وقت صرف مسلمانوں کے لیے برانہیں ہے۔ برا وقت کسی ایک قوم یا مذہب کے لیے برا نہیں ہوتا، بلکہ برا وقت ملک کی مکمل آبادی کے لیے برا ہوتا ہے۔ برا وقت اگر اقلیت کے لیے پریشان کن ہے تو مت بھولیے کہ آنے والے وقت میں اکثریت بھی اس کا شکار ہونے سے نہیں بچ پائےں گے۔ تماشہ دیکھنے والی اکثریت کے لیے ہمسایہ ملک پاکستان کی مثال کافی ہے جو ان دنوں خانہ جنگی میں الجھا ہوا ہے۔ پاکستان کی تاریخ کے لیے مارشل لا اور غلط خانہ جنگی کوئی نئی دریافت نہیں ہے۔ خانہ جنگی، دہشت گردی اور سیاسی پارٹیوں کی آپسی جنگ میں اگر پاکستان میں کسی کا نقصان ہورہا ہے تو وہ عوام کا ہورہا ہے۔ وہاں بھی جمہوریت کی جگہ مذہب کی حکومت ہے۔ اور یہ مذہب کی حکومت ہندوستان میں قائم ہوئی تو جیسے آج جمہوریت کا خون ہورہا ہے، آنے والے برسوں میں اکثریت سے اتنے خیمے ابھر کر سامنے آئیں گے کہ خانہ جنگی پر قابو پانا کسی بھی سیاسی قیادت کے لیے دشوار ہوجائے گا۔
اس نفسیاتی نکتہ کو نظرانداز کرنامشکل ہے کہ ہر اکثریت اپنے ملک میں اقتدار پر، اپنے مذہب کے لوگوں کو قابض دیکھنا چاہتی ہے۔ ہندوستان غلام تھا تو مذہبی اقتدار کے لیے ہی پاکستان کانعرہ زور وشور سے لگایا گیا۔ سات سو برسوں کی طویل حکومت کے بعد ہندوستانیوں، بالخصوص مسلمانوں کو دو سو برسوں کی فرنگی حکومت قبول نہیں ہوئی۔ ملک تقسیم ہوا تو کانگریس نے نام نہاد جمہوریت کا کارڈ کھیلا۔ ہندوستان کے ستر برسوں کی تاریخ گواہ ہے کہ دوسری بڑی اکثریت ہونے کے باوجود کانگریس کی کوئی بھی ہمدردی مسلمانوں کے ساتھ نہیں تھی۔ ایک مثال اور لیجئے، کانگریس کے کسی بھی مسلم لیڈر کی ہمدردی بھی مسلمانوں کے ساتھ نہیں تھی۔ مسلم لیڈران صاحب اقتدار ہونے کی رسم ادا کررہے تھے اور کسی کو بھی مسلمانوں کے حالات، مسلمانوں کے مسائل یا مسلمانوں کے مستقبل سے کوئی لینا دینا نہیں تھا— اس درمیان ستر برسوں کی تاریخ گواہ ہے کہ آر ایس ایس آہستہ آہستہ اپنا کام کرتی رہی۔ جن سنگھ اپنے مقصد میں ناکام ہوا تو بھارتیہ جنتا پارٹی نے نام بدل کر اپنا مشن شروع کیا۔ اس مشن کو آگے بڑھایا ال کے اڈوانی نے۔ بھاجپا دو کے عدد میں سمٹ کر رہ گئی تھی، اڈوانی کی کوششوں نے بھاجپا کو ۶۸۱ پر پہنچا دیا۔ بی جے پی جب دو ہزار کے آس پاس بر سر اقتدار تھی، ہندوتو کا کھیل اس وقت بھی جاری وساری تھا۔ مگر بی جے پی کی حکومت قائم رکھنے کے لیے باجپائی صاحب بار بار نام نہاد جمہوریت کی طرف واپس آنا چاہتے تھے اور یہ آر ایس ایس کو پسند نہیں تھا۔ یہ اڈوانی تھے جنہوں نے گجرات حکومت کے لیے مودی کانام آگے کیا۔ ۳۰۰۲ گجرات حادثہ کے بعد مودی کانام تیزی سے ابھرا۔ جمہوریت کا قاتل ٹھہرائے جانے کے باوجود یہ نام اکثریت میں آہستہ آہستہ جگہ بناتا رہا۔ یہ مودی کی سوشل انجینئرنگ تھی، جس کو سمجھ پانے میں تمام سیاسی پارٹیاں ناکام رہیں۔ علما ناکام رہے۔ مسلمان ناکام رہے۔ سیاسی پارٹیاں جس قدر مخالفت کا رویہ اپناتی رہیں، امت شاہ اور مودی کا عوامی ووٹ بینک بڑھتا رہا۔ مودی اور امت شاہ بار بار یہ موقع فراہم کرتے رہے کہ مسلمان ووٹ بینک کی باتیں ہوتی رہیں تاکہ اکثریتی ووٹ بینک کومتحد کیا جاسکے۔ لوک سبھا ۴۱۰۲ میں مودی کی یہ سوشل انجینئرنگ زبردست طور پر کامیاب رہی۔ مسلمان ووٹوں کا شیرازہ بکھر کر رہ گیا۔ سیاسی پارٹیوں اور خود مسلمانوں کے خوفزدہ رویہ اور بار بار مسلمان مسلمان چلانے سے ہندو اکثریت مضبوط اور متحد ہوگئی۔ مودی واقف تھے کہ اگر ہندو اکثریت کو ایک کریں تو پھر مسلمانوں کی ضرورت نہیں ہوگی۔ اور اس لیے اترپردیش انتخابات میں بی جے پی نے مسلمانوں کو پارٹی سے دور رکھا۔ طلاق جیسے مسائل کبھی کسی انتخابات میں جیت کی وجہ ثابت نہیں ہوئے مگر غور کیجئے تو طارق فتح علی اور طلاق ثلاثہ کا مسئلہ اٹھا کر میڈیا نے مکمل طور پر ہندوﺅں کی نظر میں مسلمانوں کو ننگا کردیا۔ ان کامذاق اڑایا۔ یہاں تک کہ بی جے پی نے دو ریاستوں میں فتح اور باقی دو ریاستوں میں زور زبردستی فتح کی نئی تاریخ لکھ ڈالی۔ یہ مردہ اور تھکی ہوئی کانگریس کی کمزوری تھی کہ زیادہ ووٹ لانے کے باوجود، بی جے نے منی پور اور گوا کی ریاست آسانی سے اس سے حاصل کرلی اورکانگریس کچھ نہ کرسکی۔
۹۱۰۲ میں کیا ہوگا۔ یہ سوال اہم ہے۔ لیکن اس بات پر توجہ کیجئے کہ اگر اسوقت، ہندوستان کی تمام سیاسی پارٹیاں بھی ایک ہوکر مودی کے خلاف انتخابات لڑنے کا اعلان کرتی ہیں تو کیا اتحادی مورچہ مودی کو شکست دینے میں کامیاب رہے گا؟ ابھی اس وقت ملک میں صرف ایک مضبوط آدمی ہے۔ آر ایس ایس اور تمام وزرا اس مضبوط قیادت کے معمولی مہرے ہیں۔ اس مضبوط قیادت کو نوے کروڑ اکثریت کی حمایت حاصل ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ صرف مودی کی غلطیاں ہی مودی کو کمزور کرسکتی ہیں۔ میڈیا کا مذاق بن چکا لیکن میڈیا مالکوں کو اس مذاق سے کوئی مطلب نہیں ہے۔ وہ سیاسی پارٹیوں اور آپ کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ شکست خوردہ مسلمانوں کا حال یہ کہ ابھی تک ایک دوسرے کو کوسہ اور پرسہ دے رہے ہیں۔ آج سے اٹھارہ برس قبل ایک غلطی اڈوانی نے کی تھی اور وہ حاشیے پر چلے گئے۔ اٹھارہ برس بعد اسی کہانی کو دہرا کر، یوگی کی تاج پوشی کرکے ایک غلطی مودی نے دہرائی ہے۔ میڈیا، یوگی کی تمام تقریر، اشتعال انگیز نعروں کو بھول کر اسے جمہوریت پسند اور مسیحا ثابت کرنے پر آمادہ ہے۔ آر ایس ایس کی نظر میں یوگی جو کچھ کرسکتے ہیں، وہ کوئی دوسرا نہیں کرسکتا۔ ۹۱۰۲ کے انتخابات کو سامنے رکھتے ہوئے آر ایس ایس نے کھل کر ایسا مہرہ چل دیا ہے۔ مسلمان یہ مان کر چلیں کہ ابھی جو کچھ بھی ان کے ساتھ ہوا ہے، اس کی حیثیت ریہرسل سے زیادہ نہیں ہے۔ حملے جاری رہیں گے بلکہ یہ حملے انتہا پسندی کی حد تک شدت بھی اختیار کرسکتے ہیں۔ لیکن ایک بات ابھی بھی سکون دینے والی ہے۔ بی جے پی کا ووٹ بینک ۴۱۰۲ سے دو فیصد نیچے گرا ہے۔ اگر بی ایس پی اور ایس پی میں اتحاد ہوا ہوتا تو اترپردیش انتخاب کا نتیجہ بدل سکتا تھا۔ ووٹ فیصد میں اضافہ کے لیے آر ایس ایس مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے کی کوشش ضرور کرے گی۔ آپ ناراض نہ ہوں۔ مخالفت نہ کریں۔ کھیل دیکھتے جائیے۔ ہمت اور حوصلہ ہارنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ دیکھیے کہ سیاست کے نئے کھیل میں اب کون کس کو مات دیتا ہے۔
مذہبی انتہا پسندی نے ہٹلر سے اب تک دنیا کو صرف نقصان پہنچانے کا ہی کام کیا ہے۔ مذہبی انتہا پسندی ترقی کی ریس میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ کانگریس کی غلطیوں نے مسلمانوں کو حاشیے پر پہنچایا۔ آج مسلمانوں کی حیثیت زیرو کے برابر ہے۔ لیکن اس کے باوجود گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ مسلمان اس سوشل انجینئرنگ پر ضرور غور کریں، جس نے انہیں کمزور اور پسماندہ بنادیا ہے۔ ابھی صرف صبر وتحمل کی ضرورت ہے۔ اپنی کمزوریوں سے سبق لیتے ہوئے، حالات کو سمجھتے ہوئے ہمیں پھونک پھونک کر قدم بڑھانے کی ضرورت ہے۔ (ملت ٹائمز)
(کالم نگار معروف ادیبہ، شاعرہ اور کالم نگار ہیں)
tabassumfatima2020@gmail.com