تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ خودکشی کرے گی

ڈاکٹر تسلیم احمد ر حمانی
ملت ٹائمز
ہم جنس پرستی کا جن ایک بار پھر بوتل سے باہر آگیا ہے اور ملک میں اس پر ایک بڑی بحث شروع ہوگئی ہے۔ 11؍دسمبر 2013کو کچھ ہم جنس پرستوں کی ایک عرضی کو یہ کہتے ہوئے خارج کردیا تھا کہ یہ ایک سنگین مسئلہ ہے جس پر پارلیامنٹ کو کوئی فیصلہ کرنا چاہیے۔اس پر کانگریس کے ایک سابق مرکزی وزیر ششی تھرور پارلیامنٹ میں ایک پرائیویٹ ممبر بل لے کرآئے جس میں انہوں نے ہم جنس پرستی کے متعلق قانون کی شق377میں سے اسے مجرومانہ فعل قرار دیئے جانے والی شرط کو کا لعدم قرار دئیے جانے کی سفارش کی تھی۔لیکن پارلیامنٹ نے اس بل کو خارج کردیا جس سے ہم جنس پرستوں کی آخری امید ٹوٹ گئی تھی۔ لیکن حال ہی میں نازفاؤنڈیشن نامی ایک تنظیم نے ایک بار پھر سپریم کورٹ میں ازالے کی پٹیشن ڈالتے ہوئے فیصلے پر دوبارہ غور کرنے کی درخواست کی جس پر 2؍فروری کو خلاف روایت کھلی عدالت میں بحث کرتے ہوئے تین ججوں کی ایک بنچ نے اسے ایک بار پھر ایک سنگین معاملہ قرار دیتے ہوئے اسے پانچ رکنی دستوری بنچ کے حوالے کردیا۔اس فیصلے سے ہم جنس پرستوں کا یہ طبقہ کافی پرامید نظر آتا ہے اور ان کا ماننا ہے کہ د ستور میں سے ہم جنس پرستی کو جرم قرار دینے والی دفعہ سپریم کورٹ کے ذریعہ ختم کردی جائے گی۔
ہندوستان میں 1990کے آس پاس یہ بحث شروع ہوئی کہ ہم جنس پرستی کو قابل تعزیر جرم ہونے کے زمرے سے نکالا جائے۔دستور ہندکے مطابق آئی پی سی کی دفعہ 377کے تحت ہم جنس پرستی کو غیر فطری عمل مانتے ہوئے اسے قابل تعزیر جرم مانا گیا ہے۔1860سے ہی یہ قانون عمل میں ہے اور اس قانون کے تحت لواطت،زنا اور جانوروں کے ساتھ جنسی فعل کرنے کے سارے معاملات کے مجرم کو پانچ سال تک کی سزا اور جرمانے کا نظم ہے۔اس قانون کے خلاف ملک کے کچھ مختصر طبقات نے پہلے تو بحث شروع کی اور اسے شخصی آزادی پر حملہ کہا۔ان کا ماننا ہے کہ آزاد زندگی میں ہر مرد اور عورت کو یہ اختیار ہونا چاہیے کہ وہ اپنی جنسی خواہشات کی تسکین کے لئے اپنا پسندیدہ شریک اور اپنا پسندیدہ طریقہ چن سکے۔اس طبقے کے لوگ یہ کہتے ہیں کہ چہار دیواروں کے اندر اپنی خواب گاہ میں کوئی کیا کررہا ہے اس سے قانون کو کوئی مطلب نہیں ہونا چاہیے۔اپنے دعوے کی دلیل میں اس طبقے نے یہ بھی کہا ہے کہ دستور کی دفعہ 14 کے تحت ملک کے تمام شہریوں کو ہر قسم کی آزادی حاصل ہے اور دفعہ 377ان بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتی ہے۔ان لوگوں نے اس دعوے کو بھی خارج کردیاکہ اس قسم کی بد فعلی سے ایڈز جیسے مہلک امراض پیدا ہوتے ہیں۔اس قسم کے دلائل پر مبنی ایک طویل بحث کے بعد ہم جنسی پرستوں کے کچھ انجمنیں 1996کے آس پاس وجود میںآئیں اور باقاعدہ سیمینار ،کانفرنسیں، احتجاجی جلسے اور میڈیا میں مباحثوں کے ذریعہ رائے عامہ کو اس جانب راغب کیا گیا۔ ملک کے اعلیٰ طبقات اور دانشوروں پر مشتمل ایک بااثر طبقے نے اس تحریک کی حمایت میں دن رات ایک کردئے اور آخر کار دلی ہائی کورٹ میں ایک عرضی دائر کرکے یہ مطالبہ کیا گیا کہ سیکشن 377کو کالعدم قرار دیا جائے ۔ملک میں جاری اس قدر پرشو رتحریک سے متأثر دلّی کے ہائی کورٹ نے بھی 2جولائی 2009کو اپنے ایک تاریخی فیصلے میں اس دفعہ کو کا لعدم قرار دے دیا۔لیکن حکومت ہند نے عدالت عالیہ کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں رجوع کیا اور 2013میں سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو خارج کرکے ہم جنس پرستوں کی اس تحریک پر پانی پھیر دیا۔کانگریس کے سابق وزیر ششی تھرور نے ان مایوس لوگوں کو ایک بارپھر حوصلہ دیتے ہوئے پارلیامنٹ کا رخ کیا اور پارلیامنٹ نے بھی انہیں مایوس کیا۔سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا تھا کہ یہ لوگ ایک انتہائی مختصر اقلیت ہے جس کی بنیاد پر ملک کے مروجہ قانون کو نہیں بدلا جاسکتا ہے۔ اس لئے پارلیامنٹ کا سہارا لینا پڑا وہ بھی مایوس کن ثابت ہوا۔لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم جنس پرستوں کو کچھ بڑے طبقات کی حمایت حاصل ہے کہ انہوں نے ہمت ہارے بنا ایک بار پھر سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے اور اس بار سپریم کورٹ کا رویہ کچھ موافق معلوم ہوتا ہے۔
ہم جنس پرستی صرف ہندوستان کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ اکثر یورپی ممالک نے اس لعنت کو بحیثیت قانون قبول کرلیا ہے۔ حال ہی میں امریکی عدالت عظمی نے ایک ہی جنس کے دو افراد کی شادی کو قانونی درجہ دے دیا۔اس سے پہلے دیگر یورپی ممالک بھی اس قسم کی شادیوں کو تسلیم کرنے کے قوانین بناچکے ہیں۔دنیا میں بتدریج ایسے قوانین بنائے جارہے ہیں جو شادی کے ادارے کو آہستہ �آہستہ کمزور کررہے ہیں اور غیر شادی شدہ تعلقات کو مہراثبات حاصل ہوتی چلی جارہی ہے۔ اس کی پرواہ کسی کو نہیں کہ اس کے نتیجے میں عمرانی اصول وضبوابط اور سماجی تانے بانے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ عام طور پر یہ کہا گیا ہے کہ مختلف مذاہب اس جنسی آزادی کے مخالف ہیں اور چونکہ جدیدسماج میں مذاہب کا رول شخصی پسند اور ناپسند تک محدود رہنا چاہیے اس لئے عام آدمی کی زندگی میں انفرادی پسند اور ناپسند کو ساری اہمیت حاصل ہوجانی چاہیے اور مذہب کو ایک اختیاری معاملہ مان کر محدود کردیا جانا چاہیے۔ چنانچہ اس سلسلے میں اگر مذہب آڑے آئے تو اس کونظر انداز کرکے عام سماجی اصولوں میں تغیر اورتبدیلی کر کے خود کو آزاد تسلیم کیا جاتا رہے۔حال ہی میں اس موضوع پر جو بحث ہوئی ہے اس کے تحت مذہب سے قطع نظر اگر سماجی اصول وضوابط پر بھی نظر ڈالیں تو ہم جنس پرستوں کی کوئی دلیل سامنے نہیں ٹھہرتی لیکن ضد اور کج بحثی کا کوئی علاج نہیں ہے۔ مثلاً ہندوستان میں جس آرٹیکل 14کے تحت یکساں حقوق کا دعویٰ کرتے ہوئے یہ مراعات مانگی جارہی ہے اسی کے تحت اگر کچھ لوگ ذہنی اختلال کا شکار ہو کر لوگوں کے قتل پر آمادہ ہوجائیں اور یہ کہیں کہ یہ کو ئی ذہنی بیماری نہیں ہے بلکہ ہمارا شوق ہے اور ذاتی اور انفرادی معاملہ ہے جس میں ریاست کو دخیل ہونے کے بجائے ہمیں اس کی قانونی آزادی دی جائے کہ ہم جہاں اور جب جس کو چاہیں قتل کردیں تو کیا قانون اس دلیل کو تسلیم کرلے گا۔ کیا ایک مہذب سماج میں اس قسم کی دلیلوں کی بنیاد پر پورے انسانی معاشرے کو معرض خطر میں ڈال سکتاہے۔ابھی حال ہی میں ایک ٹی وی چینل پر ہوئی بحث میں ہم جنسی پرستوں کی حمایت کرتے ہوئے ایک معروف ٹی وی اینکر نے بہت سے اعدادوشمار پیش کرتے ہوئے یہ کہا کہ سن بلوغ کو پہنچے ہوئے کچھ بچوں نے صرف اس لئے خود کشی کرلی تھی کہ لواطت کے جرم میں انہیں سزا کا خوف تھا۔ لہٰذا انہیں سزا کے خوف سے بچانے کے لئے اس ظالمانہ قانون کو ختم کردینا چاہیے۔ لیکن یہ اینکر صاحب اس بات کا کوئی جواب نہیں دے سکے کہ نفسیاتی طورپر کمزور بہت سے بچے دسویں اور بارہویں کے امتحاموں میں فیل ہوجانے کے بعد خود کشی کرلیتے ہیں اسی طرح چھوٹے چھوٹے معمولی قسم کے جرائم کا ارتکاب کرلینے کے بعد کچھ بچے اور بچیاں خودکشی جیسے سنگین اقدامات اٹھالیتے ہیں۔تو کیا محض اس بنیاد پر کہ بچے یا بڑے سزاکے خوف سے خودکشی نہ کر لیں قوانین کو بدل دینا چاہیے۔ یا سماجی ضوابط میں تبدیلیاں کرکے ان کی غلطیوں کو روکنے کے بجائے مہمیز دئیے جانے کے اقدام کئے جائیں۔ اسی طرح ایک دوسری دلیل یہ بھی ہے کہ میڈیکل سائنس نے ہم جنسی پرستی کو ایک ذہنی مرض ماننے سے انکار کردیا۔اسی طرح اس مرض کو وراثت میں منتقل ہونے مرض بھی نہیں ماناگیا ہے۔یہ دونوں باتیں صحیح ہیں لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ یہ انسانی رویوں میں غیر فطری تبدیلی پر مشتمل ایک نفسیاتی مرض ہے جو عوارض نفسانیہ میں شمار کیا جاتا ہے اور طبی علوم میں الگ سے ایک مضمون کے تحت پڑھایا جاتا ہے۔یہ بھی ایک معلوم واقعہ ہے کہ ہزاروں سال سے اس قسم کے غیر فطری جذبات انسانی سرشت میں پائے جاتے ہیں اور ہمیشہ ہی اسے غیر اخلاقی اور غیر فطری بھی مانا گیا ہے۔ قرون اولیٰ میں بھی ہر مذہب اور ہر سماج نے اسے غیر فطری مان کر اس کے لئے سزائیں مقرر کی تھیں جنہیں ہندوستان نے 1860میں ایک دستوری شکل دے دی گئی تھی اور جس پر بلاکسی تبصرے ہمیشہ عمل ہوتا رہا ۔معلوم تاریخ میں ایسا کوئی واقعہ موجود نہیں ہے جس میں ان غیر فطری افعال کو نارمل مانا گیا ہو یا کسی سوسائٹی نے اسے نارمل ماننے کا مطالبہ کیا ہو۔ ظاہر ہے کہ انسانی جبلت چاہے مردوں کی ہو یا عورتوں کی وہ روز افرینش سے ایک ہی جیسی ہے اور قیامت تک اس میں کسی تبدیلی کی کوئی امید نہیں کی سکتی۔ پھر کیا وجہ ہے کہ اب گزشتہ سولہ سال سے ہی ہندوستان میں اس قانون کو لے کر اس قدر واویلا مچا یا جارہا ہے اور اس سے قبل گزشتہ دہائی میں یورپی ممالک میں بھی اس معاملے کو لے کربے حد ہیجان دیکھنے کو ملاہے۔بات صاف ظاہر ہے کہ اقتصادی قوتیں اپنا مال بیچنے کے خاطر انسانی سماج میں تبدیلی کی خواہاں ہیں۔جب تک سماج کے قدروں میں تبدیلی نہیںآتی روزمرہ کے معمولات میں،خاندان تبدیلی نہیں کرتے اور سوچ کو انسانی جبلت کے مخالف نہیں بنایا جاتا تب تک ان بازاری طاقتوں کا مال بکنے کا راہ ہموار نہیں ہوگی۔اسی سماجی تبدیلی کی خاطر روز بروز شادی کے ادارے کو کمزور کیا جارہا ہے اور غیر شادی شدہ جنسی تعلقات کو قانون کے ذریعہ صحیح ثابت ٹھہرائے جانے کی کوشش کی جارہی ہے۔یہ قوتیں ہر قیمت پرسماج میں بے راہ روی پیداکرنے کے لئے کوشاں ہیں ۔اس بے راہ روی کے بہت سے برے نتائج مستقبل میں بھی سامنے آئیں گے جو ان استعماری ،صنعتی طاقتوں کی راہ کو آسان کردیں گے۔ مثال کے طور پر ایک کرپٹ معاشرہ نہ سیاسی طورپر فعال رہتا ہے اور نہ مذہبی طورپر فعال رہتا ہے بلکہ نفسا نفسی کاشکار ہوجاتا ہے۔ ایسے میں شخصی آزادی کے نام پر جنسی آزادی کو فروغ دے کر گھریلو مصارف میں اضافہ کرکے معاشرے کو فرد مرتکز کرکے یہ طاقتیں اپنے مفادات کی تکمیل کرنا چاہتی ہیں۔ہم جنس پرستی کے لئے اٹھنے والے یہ مطالبات جو ہندوستانی سماج سے کسی طورپر ہم آہنگ نہیں ہوسکتے اسی غرض سے اس قدر تیزی سے اٹھائے جارہے ہیں۔واضح رہے کہ مغربی ممالک کے بعد جنوبی ایشیاء کے اکثر ممالک میں یہ بے راہ روی پہلے ہی پیدا کی جاچکی ہے ۔ مثلاً تھائی لینڈ اور فلپائن جیسے ممالک پورے طورپر اس جنسی بے راہ روی کا شکار ہوکر سیکس کی منڈی بنائے جاچکے ہیں۔برصغیر ابھی اس لعنت سے کسی حد تک محفوظ رہا ہے۔ چنانچہ یہ قوانین جلد ہی ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔ان طاقتوں کی جانب سپریم کورٹ کا موجودہ مثبت رویہ نہ صرف دفعہ 377کی راہ ہموار کرے گا بلکہ آگے چل کر اس قسم کے دیگر بہت سے قوانین بھی زد میں آئیں گے جو شادی کے ادارے اور خاندان کی اہمیت کو ختم کرنے کی راہ ہموار کرکے مال بیچنے والوں کی راہ آسان کر دیں گے۔
(مضمون نگار مسلم پولیٹیکل کونسل کے صدر ہیں)

SHARE