تھک گئے تجھکو اے زلف برہم ، آئینہ ہم دکھاتے دکھا تے

اشرف استھانوی

جشن اردو کے موقع پر وزیر اعلیٰ کے ما یوس کن خطاب کے تناظر میں

دو روزہ جشن اردو اختتام پزیر ہوگیا جشن کے افتتاحی اجلاس میں ریاستی وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے اردو آبادی کوایک بار پھر بہت مایوس اور نا امید کیا انہوں نے اپنے تقریر کے دوران ، 8اکتوبر2009 والا اپنآ پرانہ راگ الاپا کہ بہار کے ہراسکولوں میں اردو کی تعلیم کا نظم ہو گا۔ لیکن کیسے اس کا جواب اس بار بھی نہیں ملا۔ وزیر اعلیٰ نے اردو کے عملی نفاذ کے لئے 400 اردوکے ملازمین کی تقرری کا اعلان کیا ۔ جو ان کے پیش رو سابق وزیر اعلیٰ جیتن رام مانجھی کے ذریعہ 1765 اردو ملازمین کی تقرری کے فیصلے کا مذاق اڑانے کے مترادف تھا۔ وزیر اعلیٰ نے اردو ادیبو، شاعروں کو کتابوں کی اشاعت کے لئے بہت ہی حقیر سی رقم پیش کر کے داد تحسین حاصل کرنے کی کوشش کی مگر اس جشن کےدوران ہی ان کی حکومت کے طرف سے26مارچ کومقامی ابھیلیک بھون میں محکمہ راج بھاشا کے تحت ہندی کےادیبوں ، شاعروں اور قلمکاروں کو لاکھوں روپے کے انعامات پیش کر کے اردو اور اہل اردو کو ان کی اوقات بتا دی ہے ۔
کہنے کی مطلق ضرورت نہیں کہ اردو کے بڑے ایوارڈ کا سلسلہ کئی برسوں سے تکنیکی وجوہات کا بہانا بنا کر بند رکھا گیا ہے۔ مگر ہندی زبان و ادب کا ایوارڈ جو اردو کے مقابلے میں بہت زیادہ بڑا اور قیمتی ہے اس کی تقسیم کا سلسلہ تسلسل کے ساتھ جاری ہے ۔ جو حکومت اور اس کی راج بھاشا کا انتظامیہ کی ناکامی اور اردو کے ساتھ اس کے سوتیلے سلوک کا واضح ثبوت ہے۔
کرشن میموریل ہال پٹنہ میں دو روزہ جشن اردو کا افتتاح کر تے ہوئے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے کہا کہ اس تقریب کے پس پردہ میری خواہش رہی ہے کہ لوگ اردو کو جانیں اور پڑھیں۔ کوئی بھی تبدیلی اردو کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اردو کومزید فروغ دینے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے میں نے کئی اقداما ت کئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی اردو میں درخواست یا عرضی دائر کرتا ہے تو اس کا جواب اردو میں دیا جانا چاہیے۔ اردو کے دستاویزات کارجسٹریشن کیا جانا چاہیے۔ حکومت کے قواعد، ضابطے، سرکااحکام ، سرکلر، اشتہارات، ضلع گزٹ کی اشاعت وغیرہ کا اردو زبان میں بھی کاپی نکالی جاتی ہے۔ اردو ریاست کی دوسری سرکاری زبان کے طور پر تسلیم کی جاتی ہے۔ اردو کو فروغ دینا ہمارا فرض ہے۔ ہم فروغ دے کر اس پر مہربانی نہیں کر رہے ہیں۔ اردو کسی مذہب سے منسلک زبان نہیں ہے، یہ سب کی زبان ہے، اس میں دم اور طاقت ہے۔وزیر اعلی نے لوک سبھا میں گزارے ہوئے لمحے کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ جو رہنما ہندوستانی زبان کا استعمال کرتے تھے تو جنوبی بھارتی رکن پارلیمنٹ بھی اسے آسانی سے سمجھ لیتے تھے۔ ہماری كکوشش ہے کہ اردو ہر اسکول میں پڑھائی جائے۔ اردو کے نام پر صرف بحالی کرنا صحیح نہیں ہے، بلکہ اردو سیکھنا ضروری ہے۔ اردو سیکھنے پر زبان کی اصلاح ہو تی ہے۔وزیر اعلیٰ نے کہا کہ حکومت بہار کے ذریعہ 400 اردو مترجمین، معاون مترجمین،اعلی اردو مترجم عہدے کا بھی انتظام کیا جا رہا ہے۔ ہندی-اردو میں کوئی مخالفت نہیں ہے، بلکہ ایک دوسرے کا تعاون کرتی ہیں، ایک دوسرے کے لئے طاقت بنتی ہیں۔ چین، جرمنی، فرانس، رشيا آج اپنی زبان کے بدولت ہی طاقتور ملک بنے ہوئے ہیں۔ اس لئے ہندی-اردو یعنی ہندوستانی زبان کی بدولت ہی ہم بھی آگے بڑھ سکتے ہیں۔ حکومت نے اس کیلئےاردو ڈائرکٹوریٹ کی تشکیل دی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ باقاعدہ طور پر جشن اردو پروگرام کا انعقاد کیا جانا چاہیے۔ ضرورت پڑنے پر باہر کے ملکوں سے بھی مہمانوں کو بلایا جانا چاہیے۔ دو کی جگہ تین روزہ بھی جشن اردو کا انعقاد کیا جا سکتا ہے۔
اردو ڈائریکٹریٹ کے سربراہ نے بہار کے تمام اضلاع میں اردو کے نفاذ کے کاموں کیلئے مامور تمام اردو ملازمین کو 23مارچ تک پٹنہ پہنچ کر حاضری درج کرانے کا حکم نامہ جاری کیاتھا۔ جس کے سبب تمام 700 ملازمین پٹنہ آئے اور جشن اردو میں موجود رہ کر سامعین کی صفوں میں نظر آئے ، عام اردو آبادی نے جشن اردو کا بائکاٹ کیا۔
وقت آگیا ہے کہ اردو آبادی اردو کے ان ٹھیکیداروں کے خلاف سڑکوں پر اترے اور اردو کے فروغ ترویج وترقی اور بڑے پیمانے پرالتواء میں پڑے اردو اساتذہ کی تقرری کویقینی بنانے کیلئے سرپرکفن باندھ کر اپنے تمام تر اختلافات کو ترک کرکے صرف اورصرف اردو کے کاز کیلئے متحد ہوں۔ اس سلسلے میں نے سینکڑوں خطوط وزیر اعلیٰ کے پاس ارسال کئے اور 30 صفحات پرمشتمل ایک ایکشن پلان بھی وزیراعلیٰ کی خدمت میں پیش کرچکاہوں لیکن مایوسی اور ناامیدی ہاتھ لگی۔
تم کوئی گل نہ کھلائو گے یہ مانا لیکن ، باغ یوں سبز مجھے روز دکھاتے کیوں ہو
صاف گوئی کی بڑی سخت سزا ملتی ہے ، اشرف ؔ آئینہ کسی کوبھی دکھاتے کیوں ہو۔

SHARE